Search

صحیح بخاری جلد اول : كتاب العلم (علم کا بیان) : حدیث 104

كتاب العلم
کتاب: علم کے بیان میں
THE BOOK OF KNOWLEDGE
37- بَابُ لِيُبَلِّغِ الْعِلْمَ الشَّاهِدُ الْغَائِبَ:
باب: اس بارے میں کہ جو لوگ موجود ہیں وہ غائب شخص کو علم پہنچائیں۔
قَالَهُ ابْنُ عَبَّاسٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
یہ قول ابن عباس رضی اللہ عنہما نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کیا ہے (اور بخاری کتاب الحج میں یہ تعلیق باسناد موجود ہے)۔

[quote arrow=”yes”]

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي اللَّيْثُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي سَعِيدٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي شُرَيْحٍ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ قَالَ لِعَمْرِو بْنِ سَعِيدٍ وَهُوَ يَبْعَثُ الْبُعُوثَ إِلَى مَكَّةَ:‏‏‏‏ ائْذَنْ لِي أَيُّهَا الْأَمِيرُ أُحَدِّثْكَ قَوْلًا قَامَ بِهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْغَدَ مِنْ يَوْمِ الْفَتْحِ، ‏‏‏‏‏‏سَمِعَتْهُ أُذُنَايَ، ‏‏‏‏‏‏وَوَعَاهُ قَلْبِي، ‏‏‏‏‏‏وَأَبْصَرَتْهُ عَيْنَايَ حِينَ تَكَلَّمَ بِهِ، ‏‏‏‏‏‏حَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ "إِنَّ مَكَّةَ حَرَّمَهَا اللَّهُ وَلَمْ يُحَرِّمْهَا النَّاسُ، ‏‏‏‏‏‏فَلَا يَحِلُّ لِامْرِئٍ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ أَنْ يَسْفِكَ بِهَا دَمًا، ‏‏‏‏‏‏وَلَا يَعْضِدَ بِهَا شَجَرَةً، ‏‏‏‏‏‏فَإِنْ أَحَدٌ تَرَخَّصَ لِقِتَالِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهَا فَقُولُوا:‏‏‏‏ إِنَّ اللَّهَ قَدْ أَذِنَ لِرَسُولِهِ وَلَمْ يَأْذَنْ لَكُمْ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّمَا أَذِنَ لِي فِيهَا سَاعَةً مِنْ نَهَارٍ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ عَادَتْ حُرْمَتُهَا الْيَوْمَ كَحُرْمَتِهَا بِالْأَمْسِ وَلْيُبَلِّغْ الشَّاهِدُ الْغَائِبَ”، ‏‏‏‏‏‏فَقِيلَ لِأَبِي شُرَيْحٍ:‏‏‏‏ مَا قَالَ عَمْرٌو؟ قَالَ:‏‏‏‏ أَنَا أَعْلَمُ مِنْكَ يَا أَبَا شُرَيْحٍ، ‏‏‏‏‏‏لَا يُعِيذُ عَاصِيًا وَلَا فَارًّا بِدَمٍ وَلَا فَارًّا بِخَرْبَةٍ.
الخط میں بغیراعراب کے ساتھ:        [sta_anchor id=”arnotash”] 
104 ـ حدثنا عبد الله بن يوسف، قال حدثني الليث، قال حدثني سعيد، عن أبي شريح، أنه قال لعمرو بن سعيد وهو يبعث البعوث إلى مكة ائذن لي أيها الأمير أحدثك قولا قام به النبي صلى الله عليه وسلم الغد من يوم الفتح، سمعته أذناى ووعاه قلبي، وأبصرته عيناى، حين تكلم به، حمد الله وأثنى عليه ثم قال ‏”‏ إن مكة حرمها الله، ولم يحرمها الناس، فلا يحل لامرئ يؤمن بالله واليوم الآخر أن يسفك بها دما، ولا يعضد بها شجرة، فإن أحد ترخص لقتال رسول الله صلى الله عليه وسلم فيها فقولوا إن الله قد أذن لرسوله، ولم يأذن لكم‏.‏ وإنما أذن لي فيها ساعة من نهار، ثم عادت حرمتها اليوم كحرمتها بالأمس، وليبلغ الشاهد الغائب ‏”‏‏.‏ فقيل لأبي شريح ما قال عمرو قال أنا أعلم منك يا أبا شريح، لا يعيذ عاصيا، ولا فارا بدم، ولا فارا بخربة‏.‏
حدیث اردو رسم الخط میں بغیراعراب کے ساتھ:   [sta_anchor id=”urnotash”]
104 ـ حدثنا عبد اللہ بن یوسف، قال حدثنی اللیث، قال حدثنی سعید، عن ابی شریح، انہ قال لعمرو بن سعید وہو یبعث البعوث الى مکۃ ایذن لی ایہا الامیر احدثک قولا قام بہ النبی صلى اللہ علیہ وسلم الغد من یوم الفتح، سمعتہ اذناى ووعاہ قلبی، وابصرتہ عیناى، حین تکلم بہ، حمد اللہ واثنى علیہ ثم قال ‏”‏ ان مکۃ حرمہا اللہ، ولم یحرمہا الناس، فلا یحل لامری یومن باللہ والیوم الاخر ان یسفک بہا دما، ولا یعضد بہا شجرۃ، فان احد ترخص لقتال رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم فیہا فقولوا ان اللہ قد اذن لرسولہ، ولم یاذن لکم‏.‏ وانما اذن لی فیہا ساعۃ من نہار، ثم عادت حرمتہا الیوم کحرمتہا بالامس، ولیبلغ الشاہد الغایب ‏”‏‏.‏ فقیل لابی شریح ما قال عمرو قال انا اعلم منک یا ابا شریح، لا یعیذ عاصیا، ولا فارا بدم، ولا فارا بخربۃ‏.‏

ا اردو ترجمہ:   [sta_anchor id=”urdtrjuma”]

ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، ان سے لیث نے، ان سے سعید بن ابی سعید نے، وہ ابوشریح سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے عمرو بن سعید (والی مدینہ)سے جب وہ مکہ میں (ابن زبیر سے لڑنے کے لیے) فوجیں بھیج رہے تھے کہا کہ اے امیر! مجھے آپ اجازت دیں تو میں وہ حدیث آپ سے بیان کر دوں، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دوسرے دن ارشاد فرمائی تھی، اس (حدیث) کو میرے دونوں کانوں نے سنا اور میرے دل نے اسے یاد رکھا ہے اور جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ حدیث فرما رہے تھے تو میری آنکھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ رہی تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (پہلے) اللہ کی حمد و ثنا بیان کی، پھر فرمایا کہ مکہ کو اللہ نے حرام کیا ہے، آدمیوں نے حرام نہیں کیا۔ تو (سن لو) کہ کسی شخص کے لیے جو اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو جائز نہیں ہے کہ مکہ میں خون ریزی کرے، یا اس کا کوئی پیڑ کاٹے، پھر اگر کوئی اللہ کے رسول (کے لڑنے) کی وجہ سے اس کا جواز نکالے تو اس سے کہہ دو اللہ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اجازت دی تھی، تمہارے لیے نہیں دی اور مجھے بھی دن کے کچھ لمحوں کے لیے اجازت ملی تھی۔ آج اس کی حرمت لوٹ آئی، جیسی کل تھی۔ اور حاضر غائب کو (یہ بات) پہنچا دے۔ (یہ حدیث سننے کے بعد راوی حدیث) ابوشریح سے پوچھا گیا کہ (آپ کی یہ بات سن کر) عمرو نے کیا جواب دیا؟ کہا یوں کہ اے(ابوشریح!) حدیث کو میں تم سے زیادہ جانتا ہوں۔ مگر حرم (مکہ) کسی خطاکار کو یا خون کر کے اور فتنہ پھیلا کر بھاگ آنے والے کو پناہ نہیں دیتا۔

حدیث کی اردو تشریح:   [sta_anchor id=”urdtashree”]

تشریح : عمروبن سعیدیزید کی طرف سے مدینہ کے گورنرتھے، انھوں نے ابوشریح سے حدیث نبوی سن کر تاویل سے کام لیا اور صحابی رسول حضرت عبداللہ ابن زبیر رضی اللہ عنہ کو باغی فسادی قراردے کر مکہ شریف پر فوج کشی کا جواز نکالا حالانکہ ان کا خیال بالکل غلط تھا۔ حضرت ابن زبیرنہ باغی تھے نہ فسادی تھے۔ نص کے مقابلہ پر رائے وقیاس وتاویلات فاسدہ سے کام لینے والوں نے ہمیشہ اسی طرح فسادات برپا کرکے اہل حق کو ستایا ہے۔ حضرت ابوشریح کا نام خویلد بن عمروبن صخرہے اور بخاری شریف میں ان سے صرف تین احادیث مروی ہیں۔ 68ھ میں آپ نے انتقال فرمایا رحمہ اللہ ورضی اللہ عنہ۔
چونکہ حضرت عبداللہ بن زبیر نے یزید کی بیعت سے انکار کرکے حرم مکہ شریف کو اپنے لیے جائے پناہ بنایاتھا۔ اسی لیے یزید نے عمروبن سعید کو مکہ پر فوج کشی کرنے کا حکم دیا۔ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ شہید کئے گئے۔ اور حرم مکہ کی سخت بے حرمتی کی گئی۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پھوپھی زاد بھائی اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے نواسے تھے۔ آج کل بھی اہل بدعت حدیث نبوی کو ایسے بہانے نکال کر ردکردیتے ہیں۔

 

English Translation:[sta_anchor id=”engtrans”] 

Narrated Sa`id: Abu Shuraih said, "When `Amr bin Sa`id was sending the troops to Mecca (to fight `Abdullah bin Az- Zubair) I said to him, ‘O chief! Allow me to tell you what the Prophet said on the day following the conquests of Mecca. My ears heard and my heart comprehended, and I saw him with my own eyes, when he said it. He glorified and praised Allah and then said, "Allah and not the people has made Mecca a sanctuary. So anybody who has belief in Allah and the Last Day (i.e. a Muslim) should neither shed blood in it nor cut down its trees. If anybody argues that fighting is allowed in Mecca as Allah’s Apostle did fight (in Mecca), tell him that Allah gave permission to His Apostle, but He did not give it to you. The Prophet added: Allah allowed me only for a few hours on that day (of the conquest) and today (now) its sanctity is the same (valid) as it was before. So it is incumbent upon those who are present to convey it (this information) to those who are absent.” Abu- Shuraih was asked, "What did `Amr reply?” He said `Amr said, "O Abu Shuraih! I know better than you (in this respect). Mecca does not give protection to one who disobeys (Allah) or runs after committing murder, or theft (and takes refuge in Mecca).

اس پوسٹ کو آگے نشر کریں