صحیح بخاری جلد اول : كتاب العلم (علم کا بیان) : حدیث 116

كتاب العلم
کتاب: علم کے بیان میں
THE BOOK OF KNOWLEDGE
41- بَابُ السَّمَرِ بِالْعِلْمِ:
باب: اس بارے میں کہ سونے سے پہلے رات کے وقت علمی باتیں کرنا جائز ہے۔

[quote arrow=”yes”]

حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عُفَيْرٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي اللَّيْثُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ خَالِدِ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَالِمٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ صَلَّى بِنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْعِشَاءَ فِي آخِرِ حَيَاتِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا سَلَّمَ قَامَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ "أَرَأَيْتَكُمْ لَيْلَتَكُمْ هَذِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّ رَأْسَ مِائَةِ سَنَةٍ مِنْهَا لَا يَبْقَى مِمَّنْ هُوَ عَلَى ظَهْرِ الْأَرْضِ أَحَدٌ”.
الخط میں بغیراعراب کے ساتھ:        [sta_anchor id=”arnotash”] 
116 ـ حدثنا سعيد بن عفير، قال حدثني الليث، قال حدثني عبد الرحمن بن خالد، عن ابن شهاب، عن سالم، وأبي، بكر بن سليمان بن أبي حثمة أن عبد الله بن عمر، قال صلى بنا النبي صلى الله عليه وسلم العشاء في آخر حياته، فلما سلم قام فقال ‏”‏ أرأيتكم ليلتكم هذه، فإن رأس مائة سنة منها لا يبقى ممن هو على ظهر الأرض أحد ‏”‏‏.‏
حدیث اردو رسم الخط میں بغیراعراب کے ساتھ:   [sta_anchor id=”urnotash”]
116 ـ حدثنا سعید بن عفیر، قال حدثنی اللیث، قال حدثنی عبد الرحمن بن خالد، عن ابن شہاب، عن سالم، وابی، بکر بن سلیمان بن ابی حثمۃ ان عبد اللہ بن عمر، قال صلى بنا النبی صلى اللہ علیہ وسلم العشاء فی اخر حیاتہ، فلما سلم قام فقال ‏”‏ ارایتکم لیلتکم ہذہ، فان راس مایۃ سنۃ منہا لا یبقى ممن ہو على ظہر الارض احد ‏”‏‏.‏

ا اردو ترجمہ:   [sta_anchor id=”urdtrjuma”]

سعید بن عفیر نے ہم سے بیان کیا، ان سے لیث نے بیان کیا، ان سے عبدالرحمٰن بن خالد بن مسافر نے ابن شہاب کے واسطے سے بیان کیا، انہوں نے سالم اور ابوبکر بن سلیمان بن ابی حثمہ سے روایت کیا کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ آخر عمر میں (ایک دفعہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں عشاء کی نماز پڑھائی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرا تو کھڑے ہو گئے اور فرمایا کہ تمہاری آج کی رات وہ ہے کہ اس رات سے سو برس کے آخر تک کوئی شخص جو زمین پر ہے وہ باقی نہیں رہے گا۔

حدیث کی اردو تشریح:   [sta_anchor id=”urdtashree”]

تشریح : مطلب یہ ہے کہ عام طور پر اس امت کی عمریں سوبرس سے زیادہ نہ ہوں گی،یا یہ کہ آج کی رات میں جس قدر انسان زندہ ہیں سوسال کے آخر تک یہ سب ختم ہوجائیں گے۔ اس رات کے بعد جو نسلیں پیدا ہوں گی ان کی زندگی کی نفی مراد نہیں ہے۔ محققین کے نزدیک اس کا مطلب یہی ہے اور یہی ظاہر لفظوں سے سمجھ میں آتا ہے۔ چنانچہ سب سے آخری صحابی ابوطفیل عامربن واثلہ کا ٹھیک سوبرس بعد110برس کی عمرمیں انتقال ہوا۔
سمرکے معنی رات کو سونے سے پہلے بات چیت کرنا مراد ہے۔ پہلے باب میں مطلق رات کو وعظ کرنے کا ذکر تھا اور اس میں خاص سونے سے پہلے علمی باتوں کا ذکر ہے۔ اسی سے وہ فرق ظاہر ہوگیا جو پہلے باب میں اور اس میں ہے۔ ( فتح الباری )
مقصد یہ ہے کہ درس وتدریس وعظ وتذکیر بوقت ضرورت دن اور رات کے ہر حصہ میں جائز اور درست ہے۔ خصوصاً طلباءکے لیے رات کا پڑھنا دل ودماغ پر نقش ہو جاتا ہے۔ اس حدیث سے حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے دلیل پکڑی ہے کہ حضرت خضرعلیہ السلام کی زندگی کا خیال صحیح نہیں۔ اگروہ زندہ ہوتے توآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ضرور ملاقات کرتے۔ بعض علماءان کی حیات کے قائل ہیں۔ واللہ اعلم بالصواب۔

English Translation:[sta_anchor id=”engtrans”] 

Narrated `Abdullah bin `Umar: Once the Prophet led us in the `Isha’ prayer during the last days of his life and after finishing it (the prayer) (with Taslim) he said: "Do you realize (the importance of) this night?” Nobody present on the surface of the earth tonight will be living after the completion of one hundred years from this night.”

اس پوسٹ کو آگے نشر کریں