Search

صحیح بخاری جلد دؤم : کتاب الجنائز( جنازے کے احکام و مسائل) : حدیث:-1253

کتاب الجنائز
کتاب: جنازے کے احکام و مسائل

Chapter No: 8

باب غُسْلِ الْمَيِّتِ وَوُضُوئِهِ بِالْمَاءِ وَالسِّدْرِ

The bath of a dead (Muslim) and his ablution with water and Sidr (lote-tree leaves).

باب: میّت کو پانی اور بیری کے پتّوں سے غسل دینا اور وضو کرانا.

وَحَنَّطَ ابْنُ عُمَرَ ـ رضى الله عنهما ـ ابْنًا لِسَعِيدِ بْنِ زَيْدٍ، وَحَمَلَهُ وَصَلَّى وَلَمْ يَتَوَضَّأْ‏.‏ وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ ـ رضى الله عنهما ـ الْمُسْلِمُ لاَ يَنْجُسُ حَيًّا وَلاَ مَيِّتًا‏.‏ وَقَالَ سَعْدٌ لَوْ كَانَ نَجِسًا مَا مَسِسْتُهُ‏.‏ وَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ الْمُؤْمِنُ لاَ يَنْجُسُ ‏”‏‏

And Ibn ‘Umar applied Hanut (a kind of scent) to the dead body of the son of Sa’id bin Zaid and carried it and then offered the funeral prayers, but he did not perform ablution. Ibn ‘Abbas said, "A Muslim never becomes Najas(impure) whether dead or alive.” And Sa’d said, "If he had been impure then I would not have touched him.” And the Prophet (s.a.w) said, "A faithful believer never becomes Najas(impure).”

اور عبداللہ بن عمرؓ نے سعید بن زید کے بچے کو (جو مرگیاتھا) خوشبو لگائی اور اس کو اٹھایا اور (جنازے کی ) نماز پڑھی اور وضو نہیں کیا اور ابنِ عباسؓ نے کہا مسلمان نہ زندگی میں ناپاک ہوتا ہے نہ مر کر اور سعد بن ابی وقاصؓ نے کہا اگر مردہ نجس ہوتا تو میں اس کو نہ چھوتا اور نبیﷺ نے فرمایا کہ مومن ناپاک نہیں ہوتا۔


[quote arrow=”yes” "]

1: حدیث اعراب کے ساتھ:[sta_anchor id=”top”]

2: حدیث عربی رسم الخط میں بغیراعراب کے ساتھ:

3: حدیث اردو رسم الخط میں بغیراعراب کے ساتھ:

4: حدیث کا اردو ترجمہ:

5: حدیث کی اردو تشریح:

English Translation :6 

[/quote]

حدیث اعراب کے ساتھ:  [sta_anchor id=”artash”]

حدیث نمبر:1253         

حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ أَيُّوبَ السَّخْتِيَانِيِّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ الأَنْصَارِيَّةِ ـ رضى الله عنها ـ قَالَتْ دَخَلَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم حِينَ تُوُفِّيَتِ ابْنَتُهُ فَقَالَ ‏”‏ اغْسِلْنَهَا ثَلاَثًا أَوْ خَمْسًا أَوْ أَكْثَرَ مَنْ ذَلِكَ إِنْ رَأَيْتُنَّ ذَلِكَ بِمَاءٍ وَسِدْرٍ، وَاجْعَلْنَ فِي الآخِرَةِ كَافُورًا أَوْ شَيْئًا مِنْ كَافُورٍ، فَإِذَا فَرَغْتُنَّ فَآذِنَّنِي ‏”‏‏.‏ فَلَمَّا فَرَغْنَا آذَنَّاهُ فَأَعْطَانَا حِقْوَهُ فَقَالَ ‏”‏ أَشْعِرْنَهَا إِيَّاهُ ‏”‏‏.‏ تَعْنِي إِزَارَهُ‏‏‏‏‏‏‏‏‏‏.‏

.حدیث عربی بغیراعراب کے ساتھ:    [sta_anchor id=”arnotash”]

1253 ـ حدثنا إسماعيل بن عبد الله، قال حدثني مالك، عن أيوب السختياني، عن محمد بن سيرين، عن أم عطية الأنصارية ـ رضى الله عنها ـ قالت دخل علينا رسول الله صلى الله عليه وسلم حين توفيت ابنته فقال ‏”‏ اغسلنها ثلاثا أو خمسا أو أكثر من ذلك إن رأيتن ذلك بماء وسدر، واجعلن في الآخرة كافورا أو شيئا من كافور، فإذا فرغتن فآذنني ‏”‏‏.‏ فلما فرغنا آذناه فأعطانا حقوه فقال ‏”‏ أشعرنها إياه ‏”‏‏.‏ تعني إزاره‏.‏
حدیث اردو رسم الخط میں بغیراعراب کے ساتھ:   [sta_anchor id=”urnotash”]
1253 ـ حدثنا اسماعیل بن عبد اللہ، قال حدثنی مالک، عن ایوب السختیانی، عن محمد بن سیرین، عن ام عطیۃ الانصاریۃ ـ رضى اللہ عنہا ـ قالت دخل علینا رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم حین توفیت ابنتہ فقال ‏”‏ اغسلنہا ثلاثا او خمسا او اکثر من ذلک ان رایتن ذلک بماء وسدر، واجعلن فی الآخرۃ کافورا او شیئا من کافور، فاذا فرغتن فآذننی ‏”‏‏.‏ فلما فرغنا آذناہ فاعطانا حقوہ فقال ‏”‏ اشعرنہا ایاہ ‏”‏‏.‏ تعنی ازارہ‏.‏
‏‏‏‏‏‏‏اردو ترجمہ:   [sta_anchor id=”urdtrjuma”]

حضرت امّ عطیہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: جب رسول اللہﷺ کی صاحبزادی (حضرت زینب رضی اللہ عنہا) کا انتقال ہوا تو آپﷺ ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمانے لگے: اس کو تین بار یا اگر مناسب سمجھو تو پانچ بار یا اس سے زیادہ پانی اور بیری کے پتّوں سےنہلاؤ اور آخر میں کافور رکھو یا کچھ کافور ملا دو۔پھر جب تم نہلا کے فارغ ہوجاؤ تو مجھ کو بتادو۔ حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا نے کہا: جب ہم نہلا چکے تو آپﷺ کو خبردی۔آپﷺ نے اپنا تہبند عنایت کیا اور فرمایا: یہ اندر اس کے بدن پر لپیٹ دو۔


حدیث کی اردو تشریح:   [sta_anchor id=”urdtashree”]

 تشریح : حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کا مطلب باب یہ ہے کہ مومن مرنے سے ناپاک نہیں ہو جاتا اور غسل محض بدن کو پاک صاف کرنے کے لیے دیا جاتا ہے۔ اس لیے غسل کے پانی میں بیر کے پتوں کا ڈالنا مسنون ہوا۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما کے اثر کو امام مالک نے مؤطا میں وصل کیا۔ اگر مردہ نجس ہوتا تو عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اس کونہ چھوتے نہ اٹھاتے اگر چھوتے تو اپنے اعضاءکو دھوتے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سے اس حدیث کے ضعف کی طرف اشارہ کیاکہ جو میت کو نہلائے وہ غسل کرے اور جو اٹھا ئے وہ وضوکرے۔ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے قول کو سعید بن منصور نے سند صحیح کے ساتھ وصل کیا اور یہ کہ “مومن نجس نہیں ہوتا”اس روایت کو مرفوعاً خود امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الغسل میں روایت کیا ہے اور سعد بن ابی وقاص کے قول کو ابن ابی شیبہ نے نکالا کہ سعد رضی اللہ عنہ کو سعید بن زید کے مرنے کی خبر ملی۔ وہ گئے اور ان کو غسل اور کفن دیا، خوشبو لگائی اور گھر میں آکر غسل کیا اور کہنے لگے کہ میں نے گرمی کی وجہ سے غسل کیا ہے نہ کہ مردے کو غسل دینے کی وجہ سے۔ اگر وہ نجس ہوتا تو میں اسے ہاتھ ہی کیوں لگا تا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیٹی کو اپنا ازار تبرک کے طور پر عنایت فرمایا۔ اس لیے ارشاد ہوا کہ اسے قمیص بنا دو کہ یہ ان کے بدن مبارک سے ملا رہے۔ جمہور کے نزدیک میت کو غسل دلانا فرض ہے۔
English Translation:[sta_anchor id=”engtrans”] 
Narrated By Um ‘Atiyya al-Ansariya : Allah’s Apostle came to us when his daughter died and said, "Wash her thrice or five times or more, if you see it necessary, with water and Sidr and then apply camphor or some camphor at the end; and when you finish, notify me.” So when we finished it, we informed him and he gave us his waist-sheet and told us to shroud the dead body in it.

اس پوسٹ کو آگے نشر کریں