Search

صحیح بخاری جلد دؤم : کتاب الجنائز( جنازے کے احکام و مسائل) : حدیث:-1301

کتاب الجنائز
کتاب: جنازے کے احکام و مسائل

Chapter No: 41

باب مَنْ لَمْ يُظْهِرْ حُزْنَهُ عِنْدَ الْمُصِيبَةِ

Whoever shows no signs of grief and sorrow on the falling of a calamity.

باب: جو شخص مصیبت کے وقت (نفس پر زور ڈال کر ) اپنا رنج ظاہر نہ کرے

وَقَالَ مُحَمَّدُ بْنُ كَعْبٍ الْقُرَظِيُّ الْجَزَعُ الْقَوْلُ السَّيِّئُ وَالظَّنُّ السَّيِّئُ‏.‏ وَقَالَ يَعْقُوبُ ـ عَلَيْهِ السَّلاَمُ – ‏{‏إِنَّمَا أَشْكُو بَثِّي وَحُزْنِي إِلَى اللَّهِ‏}‏

And Muhammad bin Ka’b Al-Qurzai said, "Impatience means a bad saying or a bad thought,” and Prophet Ya’qub (Jacob) said, "I only complain my grief and sorrow to Allah …” (V.12:86)

اور محمد بن کعب قرظی نے کہا جزع اس کو کہتے ہیں کہ بری بات منہ سے نکالنا اور پروردگار سے بدگمانی کرنا اور حضرت یعقوبؑ نے فرمایا (جو سورت یوسف میں ہے) میں تو اپنی بیقراری اور رنج کا شکوہ اللہ ہی سے کرتا ہوں۔


[quote arrow=”yes” "]

1: حدیث اعراب کے ساتھ:[sta_anchor id=”top”]

2: حدیث عربی رسم الخط میں بغیراعراب کے ساتھ:

3: حدیث اردو رسم الخط میں بغیراعراب کے ساتھ:

4: حدیث کا اردو ترجمہ:

5: حدیث کی اردو تشریح:

English Translation :6 

[/quote]

حدیث اعراب کے ساتھ:  [sta_anchor id=”artash”]

حدیث نمبر:1301         

حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْحَكَمِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، أَنَّهُ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ ـ رضى الله عنه ـ يَقُولُ اشْتَكَى ابْنٌ لأَبِي طَلْحَةَ ـ قَالَ ـ فَمَاتَ وَأَبُو طَلْحَةَ خَارِجٌ، فَلَمَّا رَأَتِ امْرَأَتُهُ أَنَّهُ قَدْ مَاتَ هَيَّأَتْ شَيْئًا وَنَحَّتْهُ فِي جَانِبِ الْبَيْتِ، فَلَمَّا جَاءَ أَبُو طَلْحَةَ قَالَ كَيْفَ الْغُلاَمُ قَالَتْ قَدْ هَدَأَتْ نَفْسُهُ، وَأَرْجُو أَنْ يَكُونَ قَدِ اسْتَرَاحَ‏.‏ وَظَنَّ أَبُو طَلْحَةَ أَنَّهَا صَادِقَةٌ، قَالَ فَبَاتَ، فَلَمَّا أَصْبَحَ اغْتَسَلَ، فَلَمَّا أَرَادَ أَنْ يَخْرُجَ، أَعْلَمَتْهُ أَنَّهُ قَدْ مَاتَ، فَصَلَّى مَعَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم ثُمَّ أَخْبَرَ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم بِمَا كَانَ مِنْهُمَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ لَعَلَّ اللَّهَ أَنْ يُبَارِكَ لَكُمَا فِي لَيْلَتِكُمَا ‏”‏‏.‏ قَالَ سُفْيَانُ فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الأَنْصَارِ فَرَأَيْتُ لَهُمَا تِسْعَةَ أَوْلاَدٍ كُلُّهُمْ قَدْ قَرَأَ الْقُرْآنَ‏.‏

.حدیث عربی بغیراعراب کے ساتھ:    [sta_anchor id=”arnotash”]

1301 ـ حدثنا بشر بن الحكم، حدثنا سفيان بن عيينة، أخبرنا إسحاق بن عبد الله بن أبي طلحة، أنه سمع أنس بن مالك ـ رضى الله عنه ـ يقول اشتكى ابن لأبي طلحة ـ قال ـ فمات وأبو طلحة خارج، فلما رأت امرأته أنه قد مات هيأت شيئا ونحته في جانب البيت، فلما جاء أبو طلحة قال كيف الغلام قالت قد هدأت نفسه، وأرجو أن يكون قد استراح‏.‏ وظن أبو طلحة أنها صادقة، قال فبات، فلما أصبح اغتسل، فلما أراد أن يخرج، أعلمته أنه قد مات، فصلى مع النبي صلى الله عليه وسلم ثم أخبر النبي صلى الله عليه وسلم بما كان منهما، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏”‏ لعل الله أن يبارك لكما في ليلتكما ‏”‏‏.‏ قال سفيان فقال رجل من الأنصار فرأيت لهما تسعة أولاد كلهم قد قرأ القرآن‏.‏
حدیث اردو رسم الخط میں بغیراعراب کے ساتھ:   [sta_anchor id=”urnotash”]
1301 ـ حدثنا بشر بن الحکم، حدثنا سفیان بن عیینۃ، اخبرنا اسحاق بن عبد اللہ بن ابی طلحۃ، انہ سمع انس بن مالک ـ رضى اللہ عنہ ـ یقول اشتکى ابن لابی طلحۃ ـ قال ـ فمات وابو طلحۃ خارج، فلما رات امراتہ انہ قد مات ہیات شیئا ونحتہ فی جانب البیت، فلما جاء ابو طلحۃ قال کیف الغلام قالت قد ہدات نفسہ، وارجو ان یکون قد استراح‏.‏ وظن ابو طلحۃ انہا صادقۃ، قال فبات، فلما اصبح اغتسل، فلما اراد ان یخرج، اعلمتہ انہ قد مات، فصلى مع النبی صلى اللہ علیہ وسلم ثم اخبر النبی صلى اللہ علیہ وسلم بما کان منہما، فقال رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم ‏”‏ لعل اللہ ان یبارک لکما فی لیلتکما ‏”‏‏.‏ قال سفیان فقال رجل من الانصار فرایت لہما تسعۃ اولاد کلہم قد قرا القرآن‏.‏
‏‏‏‏‏‏‏اردو ترجمہ:   [sta_anchor id=”urdtrjuma”]

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کا ایک بچہ بیمار ہوا حضرت انس رضی اللہ عنہ نے کہا: وہ فوت ہوگیا۔اس وقت حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ گھر میں نہیں تھے جب ان کی زوجہ ام سلیم نے دیکھا وہ مرچکا تو انہوں نے کچھ کھانا تیار کیا اور بچے کو ایک طرف کونے میں کردیا۔ اتنے میں ابو طلحہ رضی اللہ عنہ آئے۔انہوں نے پوچھا بچہ کیسا ہے؟ ام سلیم نے کہا اس کو آرام ہے اور میں سمجھتی ہوں اب اس کو چین ملا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ سمجھے کہ ام سلیم سچ کہتی ہیں (اب بچہ اچھّا ہے) حضرت انس رضی اللہ عنہ نے کہا: حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ رات کو ام سلیم رضی اللہ عنہا کے پاس رہے ،صبح کو غسل کیا جب باہر جانے لگے تو ام سلیم نے ان سے کہا: بچہ فوت ہوگیا ہے، حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے نبیﷺکے ساتھ آکر نماز پڑھی اور آپﷺسے ام سلیم کا حال بیان کیا۔آپﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ شاید اس رات میں ان دونوں (بیوی خاوند) کو برکت دےگا۔ سفیان بن عیینہ نے کہا ایک انصاری مرد (عبایہ ابن رفاعہ بن خدیج)کہتا تھا میں نے حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا کے نو لڑکے دیکھے سب کے سب قرآن کے قاری تھے ۔


حدیث کی اردو تشریح:   [sta_anchor id=”urdtashree”]

تشریح : حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کی نیک ترین صالحہ صابرہ بیوی کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ بچے کا انتقال ہوگیا ہے اور اب وہ پورے سکون کے ساتھ لیٹا ہوا ہے۔ لیکن حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے یہ سمجھا کہ بچے کو افاقہ ہوگیا ہے اور اب وہ آرام سے سورہا ہے۔ اس لیے وہ خود بھی آرام سے سوئے‘ ضروریات سے فارغ ہوئے اور بیوی کے ساتھ ہم بستر بھی ہوئے اور اس پر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے برکت کی بشارت دی۔ یہ کہ ان کے غیر معمولی صبروضبط اور خدا وند تعالیٰ کی حکمت پر کامل یقین کا ثمرہ تھا۔ بیوی کی اس ادا شناسی پر قربان جائیے کہ کس طرح انہوں نے اپنے شوہر کو ایک ذہنی کوفت سے بچالیا۔
محدث علی بن مدینی نے حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے ان نولڑکوں کے نام نقل کئے ہیں جو سب عالم قرآن ہوئے اور اللہ نے ان کو بڑی ترقی بخشی۔ وہ نو بچے یہ تھے۔ اسحاق‘ اسماعیل‘ یعقوب‘ عمیر‘ عمر‘ محمد ‘ عبداللہ‘ زید اور قاسم۔ انتقال کرنے والے بچے کو ابوعمیر کہتے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس کو پیار سے فرمایا کرتے تھے ابوعمیر تمہاری نغیر یعنی چڑیا کیسی ہے؟ یہ بچہ بڑا خوبصورت اور وجیہ تھا۔ ابو طلحہ رضی اللہ عنہ اس سے بڑی محبت کیا کرتے تھے۔ بچے کی ماں ام سلیم کے استقلال کو دیکھئے کہ منہ پر تیوری نہ آنے دی اور رنج کو ایسا چھپایا کہ ابو طلحہ رضی اللہ عنہ سمجھے واقعی بچہ اچھا ہوگیا ہے۔ پھر یہ دیکھئے کہ ام سلیم نے بات بھی ایسی کہی کہ جھوٹ نہ ہو کیونکہ موت درحقیقت راحت ہے۔ وہ معصوم جان تھی اس کے لیے تو مرنا آرام ہی آرام تھا۔ ادھر بیماری کی تکلیف گئی۔ ادھر دنیا کے فکروں سے جو مستقبل میں ہوتے نجات پائی۔ ترجمہ باب یہیں سے نکلتا ہے کہ ام سلیم نے رنج اور صدمہ کو پی لیا بالکل ظاہر نہ ہونے دیا۔
دوسری روایت میں یوں ہے کہ ام سلیم نے اپنے خاوند سے کہا کہ اگر کچھ لوگ عاریت کی چیزلیں پھر واپس دینے سے انکار کریں تو کیسا ہے؟ اس پو ابوطلحہ رضی اللہ عنہ بولے کہ ہرگز انکار نہ کرنا چاہیے۔ بلکہ عاریت کی چیز واپس کردینا چاہیے تب ام سلیم نے کہا کہ یہ بچہ بھی اللہ کا تھا۔ آپ کو عاریتہ ملا ہوا تھا‘ اللہ نے اسے لے لیا تو آپ کو رنج نہ کرنا چاہیے۔ اللہ نے ان کو صبرو استقلال کے بدلے نولڑکے عطا کئے جو سب عالم قرآن ہوئے۔ سچ ہے کہ صبر کا پھل ہمیشہ میٹھا ہوتا ہے۔

 English Translation:[sta_anchor id=”engtrans”] 
Narrated By Anas bin Malik : One of the sons of Abu Talha became sick and died and Abu Talha at that time was not at home. When his wife saw that he was dead, she prepared him (washed and shrouded him) and placed him somewhere in the house. When Abu Talha came, he asked, "How is the boy?” She said, "The child is quiet and I hope he is in peace.” Abu Talha thought that she had spoken the truth. Abu Talha passed the night and in the morning took a bath and when he intended to go out, she told him that his son had died, Abu Talha offered the (morning) prayer with the Prophet and informed the Prophet of what happened to them. Allah’s Apostle said, "May Allah bless you concerning your night. (That is, may Allah bless you with good offspring).” Sufyan said, "One of the Ansar said, ‘They (i.e. Abu Talha and his wife) had nine sons and all of them became reciters of the Qur’an (by heart).'”

اس پوسٹ کو آگے نشر کریں