Search

صحیح بخاری جلد دؤم : کتاب الجنائز( جنازے کے احکام و مسائل) : حدیث:-1320

کتاب الجنائز
کتاب: جنازے کے احکام و مسائل

Chapter No: 54

باب الصُّفُوفِ عَلَى الْجِنَازَةِ

The rows for the funeral prayer.

باب: جنازے کی نماز میں صفیں باندھنا۔


[quote arrow=”yes” "]

1: حدیث اعراب کے ساتھ:[sta_anchor id=”top”]

2: حدیث عربی رسم الخط میں بغیراعراب کے ساتھ:

3: حدیث اردو رسم الخط میں بغیراعراب کے ساتھ:

4: حدیث کا اردو ترجمہ:

5: حدیث کی اردو تشریح:

English Translation :6 

[/quote]

حدیث اعراب کے ساتھ:  [sta_anchor id=”artash”]

حدیث نمبر:1320         

حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، أَخْبَرَنَا هِشَامُ بْنُ يُوسُفَ، أَنَّ ابْنَ جُرَيْجٍ، أَخْبَرَهُمْ قَالَ أَخْبَرَنِي عَطَاءٌ، أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ ـ رضى الله عنهما ـ يَقُولُ قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ قَدْ تُوُفِّيَ الْيَوْمَ رَجُلٌ صَالِحٌ مِنَ الْحَبَشِ فَهَلُمَّ فَصَلُّوا عَلَيْهِ ‏”‏‏.‏ قَالَ فَصَفَفْنَا فَصَلَّى النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم عَلَيْهِ وَنَحْنُ صُفُوفٌ‏.‏ قَالَ أَبُو الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ كُنْتُ فِي الصَّفِّ الثَّانِي‏‏.‏

.حدیث عربی بغیراعراب کے ساتھ:    [sta_anchor id=”arnotash”]

1320 ـ حدثنا إبراهيم بن موسى، أخبرنا هشام بن يوسف، أن ابن جريج، أخبرهم قال أخبرني عطاء، أنه سمع جابر بن عبد الله ـ رضى الله عنهما ـ يقول قال النبي صلى الله عليه وسلم ‏”‏ قد توفي اليوم رجل صالح من الحبش فهلم فصلوا عليه ‏”‏‏.‏ قال فصففنا فصلى النبي صلى الله عليه وسلم عليه ونحن صفوف‏.‏ قال أبو الزبير عن جابر كنت في الصف الثاني‏.‏
حدیث اردو رسم الخط میں بغیراعراب کے ساتھ:   [sta_anchor id=”urnotash”]
1320 ـ حدثنا ابراہیم بن موسى، اخبرنا ہشام بن یوسف، ان ابن جریج، اخبرہم قال اخبرنی عطاء، انہ سمع جابر بن عبد اللہ ـ رضى اللہ عنہما ـ یقول قال النبی صلى اللہ علیہ وسلم ‏”‏ قد توفی الیوم رجل صالح من الحبش فہلم فصلوا علیہ ‏”‏‏.‏ قال فصففنا فصلى النبی صلى اللہ علیہ وسلم علیہ ونحن صفوف‏.‏ قال ابو الزبیر عن جابر کنت فی الصف الثانی‏.‏
‏‏‏‏‏‏‏اردو ترجمہ:   [sta_anchor id=”urdtrjuma”]

حضرت جابر بن عبد اللہ سے روایت ہے کہ وہ کہتے تھے نبیﷺنے فرمایا: آج حبشیوں میں سے ایک نیک آدمی (نجاشی) مرگیا۔ آؤ اس پر نماز پڑھو ۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم نے صفیں باندھیں۔نبیﷺنے نماز پڑھائی، ہم صفیں باندھے ہوئے تھے اور ابو الزبیر نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے یوں نقل کیا میں دوسری صف میں تھا۔


حدیث کی اردو تشریح:   [sta_anchor id=”urdtashree”]

تشریح : ان سب حدیثوں سے میت غائب پر نماز جنازہ غائبانہ پڑھنا ثابت ہوا۔ امام شافعی رحمہ اللہ اور امام احمد رحمہ اللہ اور اکثر سلف کا یہی قول ہے۔ علامہ ابن حزم کہتے ہیں کہ کسی بھی صحابی سے اس کی ممانعت ثابت نہیں اور قیاس بھی اسی کو مقتضی ہے کہ جنازے کی نماز میں دعا کرنا ہے اور دعا کرنے میں یہ ضروری نہیں کہ جس کے لیے دعا کی جائے وہ ضرور حاضر بھی ہو۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شاہ حبش نجاشی کا جنازہ غائبانہ ادا فرمایا۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ نماز جنازہ غائبانہ درست ہے مگر اس بارے میں علمائے احناف نے بہت کچھ تاویلات سے کام کیا ہے۔ کچھ لوگوں نے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے زمین کا پردہ ہٹاکر اللہ نے نجاشی کا جنازہ ظاہر کردیا تھا۔ کچھ کہتے ہیں کہ یہ خصوصیات نبوی سے ہے۔ کچھ نے کہا کہ یہ خاص نجاشی کے لیے تھا۔ بہر حال یہ تاویلات دورازکار ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نجاشی کے لیے پھر معاویہ بن معاویہ مزنی کے لیے‘ نماز جنازہ غائبانہ ثابت ہے۔ 
حضرت مولانا عبیداللہ صاحب شیخ الحدیث مبارکپوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: واجیب عن ذلک بان الاصل عدم الخصوصیۃ ولوفتح باب ہذا الخصوص لانسد کثیر من احکام الشرع قال الخطابی زعم ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم کان مخصوصا بہذا الفعل فاسد لان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا فعل شیئا من افعال الشریعۃ کان علینا اتباعہ والا یتسابہ والتخصیص لا یعلم الا بدلیل ومما یبین ذلک انہ صلی اللہ علیہ وسلم خرج بالناس الی الصلٰوۃ فصف بہم وصلوا معہ فعلم ان ہذا التاویل فاسد وقال ابن قدامہ نقتدی بالنبی صلی اللہ علیہ وسلم مالم یثبت ما یقتضی اختصاصہ ( مرعاۃ ) یعنی نجاشی کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز جنازہ غائبانہ کو مخصوص کرنے کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ اصل میں عدم خصوصیت ہے اور اگر خواہ مخواہ ایسے خصوص کا دروازہ کھولا جائے گا‘ تو بہت سے احکام شریعت یہی کہہ کر مسدود کردئیے جائیں گے کہ یہ خصوصیات نبوی میں سے ہیں۔ امام خطابی نے کہا کہ یہ گمان کہ نماز جنازہ غائبانہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مخصوص تھی بالکل فاسد ہے۔ اس لیے کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوئی کام کریں تو اس کا اتباع ہم پر واجب ہے۔ تخصیص کے لیے کوئی کھلی دلیل ہونی ضروری ہے۔ یہاں تو صاف بیان کیا گیا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو ہمراہ لے کر نجاشی کی نماز پڑھانے کے لیے نکلے۔ صف بندی ہوئی اور آپ نے نماز پڑھائی۔ ظاہر ہوا کہ یہ تاویل فاسد ہے۔ ابن قدامہ نے کہا کہ جب تک کسی امر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت صحیح دلیل سے ثابت نہ ہو ہم اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا کریں گے۔
کچھ روایات جن سے کچھ اختصاص پر روشنی پڑسکتی ہے مروی ہیں مگر وہ سب ضعیف اور ناقابل استناد ہیں۔ علامہ ابن حجرنے فرمایا کہ ان پر توجہ نہیں دی جاسکتی۔ اور واقدی کی یہ روایت کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے نجاشی کے جنازہ اور زمین کا درمیانی پردہ ہٹا دیا گیا تھا بغیر سند کے ہے جو ہرگز استدلال کے قابل نہیں ہے۔ شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے شرح سفر السعادت میں ایسا ہی لکھا ہے۔
 English Translation:[sta_anchor id=”engtrans”] 
Narrated By Jabir bin ‘Abdullah : The Prophet said, "Today a pious man from Ethiopia (i.e. An Najashi) has expired, come on to offer the funeral prayer.” (Jabir said): We lined up in rows and after that the Prophet led the prayer and we were in rows. Jabir added, I was in the second row.”

اس پوسٹ کو آگے نشر کریں