(Book: Funerals (23
كتاب الجنائز
Chapter No: 61
باب مَا يُكْرَهُ مِنِ اتِّخَاذِ الْمَسَاجِدِ عَلَى الْقُبُورِ
What is disliked of establishing places for worship (masjid) over the graves.
باب: قبروں پر مسجد بنانا مکروہ ہے۔
ولما مات الحسن بن الحسن بن علي ـ رضى الله عنهم ـ ضربت امرأته القبة على قبره سنة، ثم رفعت، فسمعوا صائحا يقول ألا هل وجدوا ما فقدوا. فأجابه الآخر بل يئسوا فانقلبوا
When Al-Hasan bin Al-Hasan bin Ali expired, his wife pitched a tent on his grave and it remained there for one year and then was demolished. They heard a voice saying, "Have they found what they lost?” A second voice replied, "No, they returned in despair”
اور جب حسن بن حسن ابنِ علیؓ گزر گئے تو ان کی بی بی (فاطمہ بنتِ حسین) نے ان کی قبر پر سال بھر تک خیمہ جمایا آخر اٹھالیا۔ اس وقت ایک پکارنے والے (فرشتے یا جن) کی آواز سنی کہتا تھا کیا ان لوگوں نے جن کو کھویا تھا ان کو پا یا۔ دوسرے (فرشتے یا جن) نے جواب دیا نہیں ناامید ہو کر لوٹ گئے۔
[quote arrow=”yes” "]
1: حدیث اعراب کے ساتھ:[sta_anchor id=”top”]
2: حدیث عربی رسم الخط میں بغیراعراب کے ساتھ:
3: حدیث اردو رسم الخط میں بغیراعراب کے ساتھ:
[/quote]
حدیث اعراب کے ساتھ: ⇪ [sta_anchor id=”artash”]
حدیث نمبر:1330
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ شَيْبَانَ، عَنْ هِلاَلٍ ـ هُوَ الْوَزَّانُ ـ عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ ـ رضى الله عنها ـ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ فِي مَرَضِهِ الَّذِي مَاتَ فِيهِ ” لَعَنَ اللَّهُ الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى، اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِيَائِهِمْ مَسْجِدًا ”. قَالَتْ وَلَوْلاَ ذَلِكَ لأَبْرَزُوا قَبْرَهُ غَيْرَ أَنِّي أَخْشَى أَنْ يُتَّخَذَ مَسْجِدًا.
.حدیث عربی بغیراعراب کے ساتھ: ⇪ [sta_anchor id=”arnotash”]
حدیث اردو رسم الخط میں بغیراعراب کے ساتھ: ⇪ [sta_anchor id=”urnotash”]
اردو ترجمہ: ⇪ [sta_anchor id=”urdtrjuma”]
حدیث کی اردو تشریح: ⇪ [sta_anchor id=”urdtashree”]
افسوس! ہمارے زمانے میں گور پرستی ایسی شائع ہورہی ہے کہ یہ نام کے مسلمان خدا اور رسول سے ذرا بھی نہیں شرماتے‘ قبروں کو اس قدر پختہ شاندار بناتے ہیں کہ ان کی عمارات کو دیکھ کر مساجد کا شبہ ہوتا ہے۔ حالانکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سختی کے ساتھ قبروں پر ایسی تعمیرات کے لیے منع فرمایا ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ابوہیاج اسدی کو کہا تھا ابعثک علی ما بعثنی علیہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لا تدع تمثالا الا طمستہ ولا قبرا مشرفا الاسویتہ رواہ الجماعۃ الا البخاری وابن ماجہ یعنی کیا میں تم کو اس خدمت کے لیے نہ بھیجوں جس کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھیجا تھا۔ وہ یہ کہ کوئی مورت ایسی نہ چھوڑ جسے تو مٹا نہ دے اور کوئی اونچی قبر نہ رہے جسے تو برابر نہ کردے۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قبروں کا حد سے زیادہ اونچا اور بلند کرنا بھی شارع کو ناپسند ہے۔ علامہ شوکانی فرماتے ہیں۔ فیہ ان السنۃ ان القبر لا یرفع رفعا کثیرا من غیر فرق بین من کان فاضلا ومن کان غیر فاضل والظاہر ان رفع القبور زیادۃ علی القدر الماذون حرام یعنی سنت یہی ہے کہ قبر کو حد شرعی سے زیادہ بلندنہ بنایا جائے خواہ وہ کسی فاضل عالم صوفی کی ہویا کسی غیر فاضل کی اور ظاہر ہے کہ شرعی اجازت سے زیادہ قبروں کو اونچا کرنا حرام ہے۔
آگے علامہ فرماتے ہیں: ومن رفع القبور الداخل تحت الحدیث دخولا اولیا القبیب والمشاہد المعمورۃ علی القبور وایضا ہو من اتخاذالقبور مساجد وقد لعن النبی صلی اللہ علیہ وسلم فاعل ذلک کما سیاتی وکم قدسری عن تشیدا بنیۃ القبور وتحسینہا من مفاسد یبکی لہا الاسلام منہا اعتقاد الجہلۃ لہا کا عتقاد الکفار للاصنام وعظم ذلک فظنوا انہا قادرۃ علی جلب المنافع ودفع الضرر فجعلوہا مقصد الطلب قضاءالحوائج وملجاءلنجاح المطالب وسالوا منہا مایسالہ العباد من ربہم وشدوا الیہا الرحال وتمسحوا بہا واستغاثوا وبالجملۃ انہم لم یدعوا شیئا مما کانت الجاہلیۃ تفعلہ بالاصنام الا فعلوہ فانا للہ وانا الیہ راجعون ومع ہذا المنکر الشنیع الکفر الفظیع لا نجد من یغضب للہ ویغار حمیۃ للدین الحنیف لا عالما ولا متعلما ولا امیرا ولا وزیرا ولا ملکا وتوارد الینا من الاخبار مالا یشک معہ ان کثیرا من ہولاءالمقبورین او اکثرہم اذا توجہت علیہ یمین من جہۃ خصمہ حلف باللہ فاجرا واذ قیل لہ بعد ذلک احلف بشیخک ومعتقدک الولی الفلانی تلعثم وتلکاءوابی واعترف بالحق وہذا من ابین الادلۃ الدالۃ علی ان شرکہم قد بلغ فوق شرک من قال انہ تعالیٰ ثانی اثنین اوثالث ثلاثۃ فیا علماءالدین ویاملوک المسلمین ای رزءللاسلام اشد من الکفروای بلاءلہذا الدین اضر علیہ من عبادۃ غیر اللہ وای مصیبۃ یصاب بہا المسلمون تعدل ہذہ المصیبۃ وای منکر یجب انکارہ ان لم یکن انکار ہذا الشرک البین واجبا۔
ولکن لا حیاۃ لمن تنادی
ولو نارا نفخت بہا اضاعت
ولکن انت تنفخ فی الرماد
( نیل الاوطار‘ ج:4ص: 90 )
یعنی بزرگوں کی قبروں پر بنائی ہوئی عمارات، قبے اور زیارت گاہیں یہ سب اس حدیث کے تحت داخل ہونے کی وجہ سے قطعاً ناجائز ہیں۔ یہی قبروں کو مساجد بنانا ہے جس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت فرمائی ہے اور ان قبور کے پختہ بنانے اور ان پر عمارات کو مزین کرنے سے اس قدر مفاسد پیدا ہورہے ہیں کہ آج ان پر اسلام رو رہا ہے۔ ان میں سے مثلاً یہ کہ ایسے مزاروں کے بارے میں جاہل لوگ وہی اعتقادات رکھتے ہیں جو کفار بتوں کے بارے میں رکھتے ہیں بلکہ ان سے بھی بڑھ کر۔ ایسے جاہل ان قبور والوں کو نفع دینے والے اور نقصان دور کرنے والے تصور کرتے ہیں۔ اس لیے ان سے حاجات طلب کرتے ہیں۔ اپنی مرادیں ان کے سامنے رکھتے ہیں اور ان سے ایسے ہی دعائیں کرتے ہیں جیسے بندگان خدا کو خدا سے دعائیں کرنی چاہئیں۔ ان مزرات کی طرف کجاوے باندھ باندھ کر سفر کرتے ہیں اور وہاں جاکر ان قبروں کو مسح کرتے ہیں اور ان سے فریاد رسی چاہتے ہیں۔ مختصر یہ کہ جاہلیت میں جو کچھ بتوں کے ساتھ کیا جاتا تھا وہ سب کچھ ان قبروں کے ساتھ ہورہا ہے۔ انا للہ واناالیہ راجعون۔
اور اس کھلے ہوئے بدترین کفر ہونے کے باوجود ہم کسی بھی اللہ کے بندے کو نہیں پاتے جو اللہ کے لیے اس پر غصہ کرے اور دین حنیف کی کچھ غیرت اس کو آئے۔ عالم ہوں یا متعلم‘ امیرہوں یا وزیر یا بادشاہ‘ اس بارے میں سب خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔ یہاں تک کہ سنا گیا ہے کہ یہ قبرپرست دشمن کے سامنے اللہ کی جھوٹی قسم کھاجاتے ہیں۔ مگر اپنے پیروں مشائخ کی جھوٹی قسموں کے وقت ان کی زبانیں لڑکھڑانے لگ جاتی ہیں۔ اس سے ظاہر ہے کہ ان کا شرک ان لوگوں سے بھی آگے بڑھا ہوا ہے جو وہ خدا یا تین خدا مانتے ہیں۔ پس اے دین کے عالمو! اور مسلمانوں کے بادشاہو! اسلام کے لیے ایسے کفر سے بڑھ کر اور مصیبت کیا ہوگی اور غیر اللہ کی پرستش سے بڑھ کر دین اسلام کے لیے اور نقصان کی چیز کیا ہوگی اور مسلمان اس سے بھی بڑھ کر اور کس مصیبت کا شکار ہوں گے اور اگر اس کھلے ہوئے شرک کے خلاف ہی آواز انکار بلند نہ کی جاسکی تو اور کونسا گناہ ہوگا جس کے لیے زبانیں کھل سکیں گی۔ کسی شاعر نے سچ کہا ہے۔
“اگر تو زندوں کو پکارتا تو سنا سکتا تھا۔ مگر جن ( مردوں ) کو تو پکار رہا ہے وہ تو زندگی سے قطعاً محروم ہیں۔ اگر تم آگ میں پھونک مارتے تو وہ روشن ہوتی لیکن تم راکھ میں پھونک مار رہے ہو جو کبھی بھی روشن نہیں ہوسکتی۔”
خلاصہ یہ کہ ایسی قبور اور ایسے مزارات اور ان پر یہ عرس‘ قوالیاں‘ میلے ٹھیلے‘ گانے بجانے قطعاً حرام اور شرک اور کفر ہیں۔ اللہ ہر مسلمان کو شرک جلی اور خفی سے بچائے۔ آمین
حدیث علی رضی اللہ عنہ کے ذیل میں حجتہ الہند حضرت شاہ ولی اللہ مرحوم فرماتے ہیں:ونہی ان یجصص القبر وان یبنی علیہ وان یقعد علیہ وقال لا تصلوا الیہا لان ذلک ذریعۃ ان یتخذہا الناس معبودا وان یفر طوا فی تعظمہا بمالیس بحق فیحر فوا دینہم کما فعل اہل الکتاب وہو قولہ صلی اللہ علیہ وسلم لعن اللہ الیھود والنصاریٰ اتخذوا قبور انبیائہم مساجد الخ ( حجۃ اللہ البالغۃ، ج: 2ص:126 کراتشی ) اور قبر کو پختہ کرنے اور اس پر عمارت بنانے اور اس پر بیٹھنے سے منع فرمایا اور یہ بھی فرمایا کہ قبروں کی طرف نماز نہ پڑھو کیونکہ یہ اس بات کا ذریعہ ہے کہ لوگ قبروں کی پرستش کرنے لگیں اور لوگ ان قبروں کی اتنی زیادہ تعظیم کرنے لگیں جس کی وہ مستحق نہیں ہیں۔ پس لوگ اپنے دین میں تحریف کرڈالیں جیسا کہ اہل کتاب نے کیا۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہود اور نصاریٰ پر خدا کی لعنت ہو۔ انہوں نے اپنے انبیاءکی قبروں کو سجدہ گاہ بنالیا۔ پس حق یہ ہے کہ توسط اختیار کرے۔ نہ تو مردہ کی اس قدر تعظیم کرے کہ وہ شرک ہوجائے اور نہ اس کی اہانت اور اس کے ساتھ عداوت کرے کہ مرنے کے بعد اب یہ سارے معاملات ختم کرکے مرنے والا اللہ کے حوالہ ہوچکا ہے۔
English Translation:[sta_anchor id=”engtrans”] ⇪