(Book: Funerals (23
كتاب الجنائز
Chapter No: 81
باب الْجَرِيدِ عَلَى الْقَبْرِ
Placing a leaf of date-palm over the grave.
باب: قبر پر کھجور کی ڈالیاں لگانا۔
وَأَوْصَى بُرَيْدَةُ الأَسْلَمِيُّ أَنْ يُجْعَلَ فِي قَبْرِهِ جَرِيدَانِ. وَرَأَى ابْنُ عُمَرَ ـ رضى الله عنهما ـ فُسْطَاطًا عَلَى قَبْرِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ فَقَالَ انْزِعْهُ يَا غُلاَمُ، فَإِنَّمَا يُظِلُّهُ عَمَلُهُ. وَقَالَ خَارِجَةُ بْنُ زَيْدٍ رَأَيْتُنِي وَنَحْنُ شُبَّانٌ فِي زَمَنِ عُثْمَانَ ـ رضى الله عنه ـ وَإِنَّ أَشَدَّنَا وَثْبَةً الَّذِي يَثِبُ قَبْرَ عُثْمَانَ بْنِ مَظْعُونٍ حَتَّى يُجَاوِزَهُ. وَقَالَ عُثْمَانُ بْنُ حَكِيمٍ أَخَذَ بِيَدِي خَارِجَةُ فَأَجْلَسَنِي عَلَى قَبْرٍ، وَأَخْبَرَنِي عَنْ عَمِّهِ يَزِيدَ بْنِ ثَابِتٍ قَالَ إِنَّمَا كُرِهَ ذَلِكَ لِمَنْ أَحْدَثَ عَلَيْهِ. وَقَالَ نَافِعٌ كَانَ ابْنُ عُمَرَ ـ رضى الله عنهما ـ يَجْلِسُ عَلَى الْقُبُورِ
And Buraida Al-Aslami asked that two leaves of a date-palm be put on his grave. Ibn Umar saw a tent made of hair (of goats) over the grave of Abdur Rahman and said, "O Boy! Remove it from the grave for his deeds will shade him.” And Kharija bin Zaid said, "(I remember) when we were young during the caliphate of Uthman, we (used to jump over the graves and) used to consider as the best jumper the one who would jump over the grave of Uthman bin Maz’un” Uthman bin Hakim said, "Kharaija caught hold of my hand and made me sit over a grave and informed me that his uncle Yazid bin Thabit said, ‘Sitting over a grave is disliked for one with the purpose of doing Hadath over it.'” And Nafi’ said, "Ibn Umar used to sit over the graves.” [see Fath Al-Bari]
اور بریدہ اسلمی صحابیؓ نے وصیت کی تھی کہ ان کی قبر پر دو شاخیں لگائی جائیں اور ابنِ عمرؓ نے عبدالرحمٰن بن ابی بکر کی قبر پر ایک ڈیرہ دیکھا تو کہنے لگے : اے غلام اس کو نکال ڈال، ان کا عمل ان پر سایہ کرے گا۔ اور خارجہ بن زید نے کہا میں نے اپنے تئیں حضرت عثمانؓ کے زمانے میں دیکھا، اس وقت میں جوان تھا۔ ہم میں بڑا کودنے والا وہ ہوتا جو عثمان بن مظعون کی قبر پر اس پار کود جاتا اور عثمان بن حکیم نے کہا خارجہ بن زید نے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھ کو ایک قبر پر بٹھایا اور اپنے چچا یزید بن ثابت سے روایت کیا کہ قبر پر بیٹھنا اس کو منع ہے جو قبر پر پیشاب یا پاخانہ کرے اور نافع نے کہا کہ عبداللہ بن عمرؓ قبروں پر بیٹھا کرتے ۔
[quote arrow=”yes” "]
1: حدیث اعراب کے ساتھ:[sta_anchor id=”top”]
2: حدیث عربی رسم الخط میں بغیراعراب کے ساتھ:
3: حدیث اردو رسم الخط میں بغیراعراب کے ساتھ:
[/quote]
حدیث اعراب کے ساتھ: ⇪ [sta_anchor id=”artash”]
حدیث نمبر:1361
حَدَّثَنَا يَحْيَى، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ طَاوُسٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ـ رضى الله عنهما ـ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم أَنَّهُ مَرَّ بِقَبْرَيْنِ يُعَذَّبَانِ فَقَالَ ” إِنَّهُمَا لَيُعَذَّبَانِ وَمَا يُعَذَّبَانِ فِي كَبِيرٍ أَمَّا أَحَدُهُمَا فَكَانَ لاَ يَسْتَتِرُ مِنَ الْبَوْلِ، وَأَمَّا الآخَرُ فَكَانَ يَمْشِي بِالنَّمِيمَةِ ”. ثُمَّ أَخَذَ جَرِيدَةً رَطْبَةً فَشَقَّهَا بِنِصْفَيْنِ، ثُمَّ غَرَزَ فِي كُلِّ قَبْرٍ وَاحِدَةً. فَقَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ، لِمَ صَنَعْتَ هَذَا فَقَالَ ” لَعَلَّهُ أَنْ يُخَفَّفَ عَنْهُمَا مَا لَمْ يَيْبَسَا ”.
.حدیث عربی بغیراعراب کے ساتھ: ⇪ [sta_anchor id=”arnotash”]
حدیث اردو رسم الخط میں بغیراعراب کے ساتھ: ⇪ [sta_anchor id=”urnotash”]
اردو ترجمہ: ⇪ [sta_anchor id=”urdtrjuma”]
حدیث کی اردو تشریح: ⇪ [sta_anchor id=”urdtashree”]
علامہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: قال ابن رشید ویظہر من تصرف البخاری ان ذلک خاص بہما فلذلک عقبہ بقول ابن عمر انما یظلہ عملہ ( فتح الباری ) یعنی ابن رشید نے کہا کہ امام بخاری رحمہ اللہ کے تصرف سے یہی ظاہر ہے کہ شاخوں کے گاڑنے کا عمل ان ہی دونوں قبروں کے ساتھ خاص تھا۔ اس لیے امام بخاری رحمہ اللہ اس ذکر کے بعد ہی حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا قول لائے ہیں کہ اس مرنے والے کا عمل ہی اس کو سایہ کرسکے گا۔ جن کی قبر پر خیمہ دیکھا گیا تھا وہ عبدالرحمن بن ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہما تھے اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے یہ خیمہ دور کرادیا تھا۔ قبروں پر بیٹھنے کے بارے میں جمہور کا قول یہی ہے کہ ناجائز ہے۔ اس بارے میں کئی ایک احادیث بھی وارد ہیں چند حدیث ملاحظہ ہوں۔
عن ابی ہریرۃ رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لان یجلس احدکم علی جمرۃ فتحرق ثیابہ فتخلص الی جلدہ خیرلہ من ان یجلس علی قبر رواہ الجماعۃ الا البخاری والترمذی یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے کوئی اگر کسی انگارے پر بیٹھے کہ وہ اس کے کپڑے اور جسم کو جلادے تو اس سے بہتر ہے کہ قبر پر بیٹھے۔ دوسری حدیث عمروبن حزم سے مروی ہے کہ رانی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم متکئا علی قبرفقال لاتوذصاحب ہذا القبراولاتوذوہ رواہ احمد یعنی مجھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک قبر پر تکیہ لگائے ہوئے دیکھا تو آپ نے فرمایا کہ اس قبر والے کو تکلیف نہ دے۔ ان ہی احادیث کی بناپر قبروں پر بیٹھنا منع ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمر صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل جو مذکور ہوا کہ آپ قبروں پر بیٹھا کرتے تھے سو شاید ان کا خیال یہ ہوکہ بیٹھنا اس کے لیے منع ہے جو اس پر پاخانہ پیشاب کرے۔ مگر دیگر احادیث کی بناپر مطلق بیٹھنا بھی منع ہے جیسا کہ مذکور ہوا یا ان کا قبر پر بیٹھنے سے مراد صرف ٹیک لگانا ہے نہ کہ اوپر بیٹھنا۔
حدیث مذکور سے قبر کا عذاب بھی ثابت ہوا جو برحق ہے جو کئی آیات قرآنی واحادیث نبوی سے ثابت ہے۔ جو لوگ عذاب قبر کا انکار کرتے اور اپنے آپ کو مسلمان کہلاتے ہیں۔ وہ قرآن وحدیث سے بے بہرہ اور گمراہ ہیں۔ ہداہم اللہ۔ آمین۔
English Translation:[sta_anchor id=”engtrans”] ⇪