Search

صحیح بخاری جلد اول : كتاب الإيمان (ایمان کا بیان) : حدیث 20

كتاب الإيمان
کتاب: ایمان کے بیان میں
.(THE BOOK OF BELIEF (FAITH
 
13- بَابُ قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَنَا أَعْلَمُكُمْ بِاللَّهِ»
باب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کی تفصیل کہ میں تم سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ کو جانتا ہوں۔
وَأَنَّ الْمَعْرِفَةَ فِعْلُ الْقَلْبِ لِقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى:‏‏‏‏ ‏‏‏‏وَلَكِنْ يُؤَاخِذُكُمْ بِمَا كَسَبَتْ قُلُوبُكُمْ‏‏‏‏:‏‏‏‏
اور اس بات کا ثبوت کہ «معرفت» دل کا فعل ہے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ”لیکن (اللہ) گرفت کرے گا اس پر جو تمہارے دلوں نے کیا ہو گا۔“
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَامٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنَا عَبْدَةُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ هِشَامٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَائِشَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ "كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَمَرَهُمْ، ‏‏‏‏‏‏أَمَرَهُمْ مِنَ الْأَعْمَالِ بِمَا يُطِيقُونَ، ‏‏‏‏‏‏قَالُوا:‏‏‏‏ إِنَّا لَسْنَا كَهَيْئَتِكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏إِنَّ اللَّهَ قَدْ غَفَرَ لَكَ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ، ‏‏‏‏‏‏فَيَغْضَبُ حَتَّى يُعْرَفَ الْغَضَبُ فِي وَجْهِهِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ يَقُولُ:‏‏‏‏ إِنَّ أَتْقَاكُمْ وَأَعْلَمَكُمْ بِاللَّهِ أَنَا”.

حدیث عربی رسم الخط میں بغیراعراب کے ساتھ:        [sta_anchor id=”arnotash”] 

20 ـ حدثنا محمد بن سلام، قال أخبرنا عبدة، عن هشام، عن أبيه، عن عائشة، قالت كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا أمرهم أمرهم من الأعمال بما يطيقون قالوا إنا لسنا كهيئتك يا رسول الله، إن الله قد غفر لك ما تقدم من ذنبك وما تأخر‏.‏ فيغضب حتى يعرف الغضب في وجهه ثم يقول ‏”‏ إن أتقاكم وأعلمكم بالله أنا ‏”‏‏.‏
حدیث اردو رسم الخط میں بغیراعراب کے ساتھ:   [sta_anchor id=”urnotash”]
20 ـ حدثنا محمد بن سلام، قال اخبرنا عبدۃ، عن ہشام، عن ابیہ، عن عایشۃ، قالت کان رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم اذا امرہم امرہم من الاعمال بما یطیقون قالوا انا لسنا کہییتک یا رسول اللہ، ان اللہ قد غفر لک ما تقدم من ذنبک وما تاخر‏.‏ فیغضب حتى یعرف الغضب فی وجہہ ثم یقول ‏”‏ ان اتقاکم واعلمکم باللہ انا ‏”‏‏.‏

حدیث کا اردو ترجمہ:   [sta_anchor id=”urdtrjuma”]

.

یہ حدیث ہم سے محمد بن سلام نے بیان کی، وہ کہتے ہیں کہ انہیں اس کی عبدہ نے خبر دی، وہ ہشام سے نقل کرتے ہیں، ہشام عائشہ رضی اللہ عنہا سے وہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو کسی کام کا حکم دیتے تو وہ ایسا ہی کام ہوتا جس کے کرنے کی لوگوں میں طاقت ہوتی (اس پر) صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! ہم لوگ تو آپ جیسے نہیں ہیں (آپ تو معصوم ہیں) اور آپ کی اللہ پاک نے اگلی پچھلی سب لغزشیں معاف فرما دی ہیں۔ (اس لیے ہمیں اپنے سے کچھ زیادہ عبادت کرنے کا حکم فرمائیے) (یہ سن کر)آپ صلی اللہ علیہ وسلم ناراض ہوئے حتیٰ کہ خفگی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک سے ظاہر ہونے لگی۔ پھر فرمایا کہ بیشک میں تم سب سے زیادہ اللہ سے ڈرتا ہوں اور تم سب سے زیادہ اسے جانتا ہوں۔ (پس تم مجھ سے بڑھ کر عبادت نہیں کر سکتے)۔

 

حدیث کی اردو تشریح:   [sta_anchor id=”urdtashree”] 

تشریح : اس باب کے تحت بھی امام بخاری رحمہ اللہ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ ایمان کا تعلق دل سے ہے اور دل کا یہ فعل ہرجگہ یکساں نہیں ہوتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب کی ایمانی کیفیت تمام صحابہ رضی اللہ عنہ اور ساری مخلوقات سے بڑھ کر تھی۔ یہاں  حضرت امام بخاری مرجیہ کے ساتھ کرامیہ کے قول کا بطلان بھی ثابت کرنا چاہتے ہیں جوکہتے ہیں کہ ایمان صرف قول کا نام ہے اور یہ حدیث ایمان کی کمی وزیادتی کے لیے بھی دلیل ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان انااعلمکم باللہ سے ظاہر ہے کہ علم باللہ کے درجات ہیں اور اس بارے میں لوگ ایک دوسرے سے کم زیادہ ہوسکتے ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس معاملہ میں جمیع صحابہ رضی اللہ عنہ بلکہ تمام انسانوں سے بڑھ چڑھ کر حیثیت رکھتے ہیں۔ بعض صحابی آپ سے بڑھ کر عبادت کرنا چاہتے تھے۔ آپ نے اس خیال کی تغلیط میں فرمایا کہ تمہارا یہ خیال صحیح نہیں۔ تم کتنی ہی عبادت کرومگرمجھ سے نہیں بڑھ سکتے ہو اس لیے کہ معرفت خداوندی تم سب سے زیادہ مجھ ہی کو حاصل ہے۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عبادت میں میانہ روی ہی خدا کو پسند ہے۔ ایسی عبادت جو طاقت سے زیادہ ہو، اسلام میں پسندیدہ نہیں ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ ایمان معرفت رب کا نام ہے اور معرفت کا تعلق دل سے ہے۔ اس لیے ایمان محض زبانی اقرار کو نہیں کہا جاسکتا۔ اس کے لیے معرفت قلب بھی ضروری ہے اور ایمان کی کمی وبیشی بھی ثابت ہوئی۔

English Translation:[sta_anchor id=”engtrans”] 

Narrated ‘Aisha: Whenever Allah’s Apostle ordered the Muslims to do something, he used to order them deeds which were easy for them to do, (according to their strength and endurance). They said, "O Allah’s Apostle! We are not like you. Allah has forgiven your past and future sins.” So Allah’s Apostle became angry and it was apparent on his face. He said, "I am the most Allah fearing, and know Allah better than all of you do.”

 

اس پوسٹ کو آگے نشر کریں