صحیح بخاری جلد اول : كتاب الوضوء (وضو کا بیان) : حدیث 205

كتاب الوضوء
کتاب: وضو کے بیان میں
(THE BOOK OF WUDU (ABLUTION
 
48- بَابُ الْمَسْحِ عَلَى الْخُفَّيْنِ:
باب: موزوں پر مسح کرنے کے بیان میں۔
حَدَّثَنَا عَبْدَانُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنَا الْأَوْزَاعِيُّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ يَحْيَى، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ جَعْفَرِ بْنِ عَمْرِو، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمْسَحُ عَلَى عِمَامَتِهِ وَخُفَّيْهِ”، ‏‏‏‏‏‏وَتَابَعَهُ مَعْمَرٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ يَحْيَى، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَمْرٍو، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
الخط میں بغیراعراب کے ساتھ:        [sta_anchor id=”arnotash”] 
205 ـ حدثنا عبدان، قال أخبرنا عبد الله، قال أخبرنا الأوزاعي، عن يحيى، عن أبي سلمة، عن جعفر بن عمرو، عن أبيه، قال رأيت النبي صلى الله عليه وسلم يمسح على عمامته وخفيه‏.‏ وتابعه معمر عن يحيى عن أبي سلمة عن عمرو قال رأيت النبي صلى الله عليه وسلم‏.‏
حدیث اردو رسم الخط میں بغیراعراب کے ساتھ:   [sta_anchor id=”urnotash”]
205 ـ حدثنا عبدان، قال اخبرنا عبد اللہ، قال اخبرنا الاوزاعی، عن یحیى، عن ابی سلمۃ، عن جعفر بن عمرو، عن ابیہ، قال رایت النبی صلى اللہ علیہ وسلم یمسح على عمامتہ وخفیہ‏.‏ وتابعہ معمر عن یحیى عن ابی سلمۃ عن عمرو قال رایت النبی صلى اللہ علیہ وسلم‏.‏
ا اردو ترجمہ:   [sta_anchor id=”urdtrjuma”]

ہم سے عبدان نے بیان کیا، کہا ہمیں عبداللہ نے خبر دی، کہا ہم کو اوزاعی نے یحییٰ کے واسطے سے خبر دی، وہ ابوسلمہ سے، وہ جعفر بن عمرو سے، وہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے عمامے اور موزوں پر مسح کرتے دیکھا۔ اس کو روایت کیا معمر نے یحییٰ سے، وہ ابوسلمہ سے، انہوں نے عمرو سے متابعت کی اور کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا (آپ واقعی ایسا ہی کیا کرتے تھے)۔

حدیث کی اردو تشریح:   [sta_anchor id=”urdtashree”]

تشریح : عمامہ پر مسح کے بارے میں حضرت علامہ شمس الحق صاحب محدث ڈیانوی قدس سرہ فرماتے ہیں۔قلت احادیث المسح علی العمامۃ اخرجہ البخاری ومسلم والترمذی واحمد والنسائی وابن ماجۃ وغیرواحد من الائمۃ من طرق قویۃ متصلۃ الاسانید وذہب الیہ جماعۃ من السلف کما عرفت وقدثبت عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم انہ مسح علی الراس فقط و علی العمامۃ فقط و علی الراس والعمامۃ معا والکل صحیح ثابت عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ علیہ وسلم موجود فی کتب الائمۃ الصحاح والنبی صلی اللہ علیہ وسلم مبین عن اللہ تبارک و تعالیٰ الخ۔ ( عون المعبود، ج1، ص: 56 )
یعنی عمامہ پر مسح کی احادیث بخاری، مسلم، ترمذی، احمد، نسائی، ابن ماجہ اور بھی بہت سے اماموں نے پختہ متصل اسانید کے ساتھ روایت کی ہیں اور سلف کی ایک جماعت نے اسے تسلیم کیا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ نے خالی سر پر مسح فرمایا اور خالی عمامہ پر بھی مسح فرمایا اور سر اور عمامہ ہردو پر اکٹھے بھی مسح فرمایا۔ یہ تینوں صورتیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح طور پر ثابت ہیں اور ائمہ کرام کی کتب صحاح میں یہ موجود ہیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم اللہ پاک کے فرمان وامسحوا برؤسکم ( المائدہ: 6 ) کے بیان فرمانے والے ہیں۔ ( لہٰذا آپ کا یہ عمل وحی خفی کے تحت ہے )
عمامہ پر مسح کے بارے میں حضرت عمررضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا من لم یطہرہ المسح علی العمامۃ فلاطہرہ اللہ رواہ الخلال باسنادہ یعنی جس شخص کو عمامہ پر مسح نے پاک نہ کیا پس خدا بھی اس کو پاک نہ کرے۔ اس بارے میں حنفیہ نے بہت سی تاویلات کی ہیں۔ بعض نے کہا کہ عمامہ پر مسح کرنا بدعت ہے۔ بعض نے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشانی پر مسح کرکے پگڑی کو درست کیاہوگا۔ جسے راوی نے پگڑی کا مسح گمان کرلیا۔ بعض نے کہا کہ چوتھائی سر کا مسح جو فرض تھا اسے کرنے کے بعد آپ نے سنت کی تکمیل کے لیے بجائے مسح بقیہ سر کے پگڑی پر مسح کرلیا۔ بعض نے کہا کہ پگڑی پر آپ نے مسح کیا تھا۔ مگروہ بعدمیں منسوخ ہوگیا۔
حضرت العلام مولانا محمدانورشاہ صاحب دیوبندی مرحوم:
مناسب ہوگا کہ ان جملہ احتمالات فاسدہ کے جواب میں ہم سرتاج علماءدیوبند حضرت مولانا انورشاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا بیان نقل کردیں۔ جس سے اندازہ ہوسکے گا کہ عمامہ پر مسح کرنے کا مسئلہ حق وثابت ہے یا نہیں۔ حضرت مولانا مرحوم فرماتے ہیں۔
“ میرے نزدیک واضح وحق بات یہ ہے کہ مسح عمامہ تواحادیث سے ثابت ہے اور اسی لیے ائمہ ثلاثہ نے بھی ( جو صرف مسح عمامہ کو ادائے فرض کے لیے کافی نہیں سمجھتے ) اس امر کو تسلیم کرلیا ہے اور استحباب یا استیعاب کے طور پر اس کو مشروع بھی مان لیا ہے۔ پس اگر اس کی کچھ اصل نہ ہوتی تو اس کو کیسے اختیار کرسکتے تھے۔ میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں جو صرف الفاظ پر جمود کرکے دین بناتے ہیں۔ بلکہ اموردین کی تعیین کے لیے میرے نزدیک سب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ امت کا توارث اور ائمہ کا مسلک مختار معلوم کیاجائے۔ کیونکہ وہ دین کے ہادی ورہنما اور اس کے مینار وستون تھے اور ان ہی کے واسطے سے ہم کو دین پہنچاہے۔ ان پر اس کے بارے میں پورا اعتماد کرنا پڑے گا اور اس کے بارے میں کسی قسم کی بھی بدگمانی مناسب نہیں ہے۔
غرض مسح عمامہ کو جس حد تک ثابت ہوا ہمیں دین کا جزو ماننا ہے، اسی لیے اس کو بدعت کہنے کی جرات بھی ہم نہیں کرسکتے جو بعض کتابوںمیں لکھ دیا گیا ہے۔ ” ( انوارالباری،جلد 5، ص: 192 )
برادران احناف جو اہل حدیث سے خواہ مخواہ اس قسم کے فروعی مسائل میں جھگڑتے رہتے ہیں، وہ اگر حضرت مولانا مرحوم کے اس بیان کو نظر انصاف سے ملاحظہ کریں گے توان پر واضح ہوجائے گا کہ مسلک اہل حدیث کے فروعی واصولی مسائل ایسے نہیں ہیں جن کو باآسانی متروک العمل اور قطعی غیرمقبول قرار دے دیاجائے۔ مسلک اہل حدیث کی بنیادخالص کتاب وسنت پر ہے۔ جس میں قیل وقال و آرائے رجال سے کچھ گنجائش نہیں ہے۔ جس کا مختصر تعاارف یہ ہے
ما اہل حدیثیم دغارانہ شناسیم
صد شکر کہ در مذہب ماحیلہ وفن نیست

English Translation:[sta_anchor id=”engtrans”] 

Narrated Ja`far bin `Amr: My father said, "I saw the Prophet passing wet hands over his turban and Khuffs (socks made from thick fabric or leather).

اس پوسٹ کو آگے نشر کریں