[quote arrow=”yes”]
1: حدیث اعراب کے ساتھ:[sta_anchor id=”top”]
2: حدیث عربی رسم الخط میں بغیراعراب کے ساتھ:
3: حدیث اردو رسم الخط میں بغیراعراب کے ساتھ:
[/quote]
حدیث اعراب کے ساتھ: ⇪ [sta_anchor id=”artash”]
حدیث نمبر291:
الخط میں بغیراعراب کے ساتھ: ⇪ [sta_anchor id=”arnotash”]
حدیث اردو رسم الخط میں بغیراعراب کے ساتھ: ⇪ [sta_anchor id=”urnotash”]
291 ـ حدثنا معاذ بن فضالۃ، قال حدثنا ہشام، ح وحدثنا ابو نعیم، عن ہشام، عن قتادۃ، عن الحسن، عن ابی رافع، عن ابی ہریرۃ، عن النبی صلى اللہ علیہ وسلم قال ” اذا جلس بین شعبہا الاربع ثم جہدہا، فقد وجب الغسل ”. تابعہ عمرو بن مرزوق عن شعبۃ مثلہ. وقال موسى حدثنا ابان قال حدثنا قتادۃ اخبرنا الحسن مثلہ.
ا اردو ترجمہ: ⇪ [sta_anchor id=”urdtrjuma”]
حدیث کی اردو تشریح: ⇪ [sta_anchor id=”urdtashree”]
تشریح : قال النووی “ معنی الحدیث ان ایجاب الغسل لایتوقف علی الانزال بل متی غابت الحشفۃ فی الفرج وجب الغسل علیہا و لاخلاف فیہ الیوم۔ ” امام نووی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ حدیث کا معنی یہ ہے کہ غسل انزال منی پر موقوف نہیں ہے۔ بلکہ جب بھی دخول ہوگیا دونوں پر غسل واجب ہوگیا۔ اور اب اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔
یہ طریقہ مناسب نہیں :
فقہی مسالک میں کوئی مسلک اگرکسی جزئی میں کسی حدیث سے مطابق ہوجائے توقابل قبول ہے۔ کیونکہ اصل معمول بہ قرآن وحدیث ہے۔ اسی لیے حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمادیا ہے کہ اذا صح الحدیث فہومذہبی۔ جو بھی صحیح حدیث سے ثابت ہو وہی میرا مذہب ہے۔ یہاں تک درست اور قابل تحسین ہے۔ مگر دیکھا یہ جارہا ہے کہ مقلدین اپنے مذہب کو کسی حدیث کے مطابق پاتے ہیں تو اپنے مسلک کو مقدم ظاہر کرتے ہوئے حدیث کو مؤخر کرتے ہیں اور اپنے مسلک کی صحت واولویت پر اس طرح خوشی کا اظہار کرتے ہیں کہ گویا اولین مقام ان کے مزعومہ مسلک کا ہے اور احادیث کا مقام ان کے بعد ہے۔ ہمارے اس بیان کی تصدیق کے لیے موجودہ تراجم احادیث خاص طور پر تراجم بخاری کو دیکھا جا سکتا ہے۔ جو آج کل ہمارے برادران احناف کی طرف سے شائع ہورہے ہیں۔
قرآن وحدیث کی عظمت کی پیش نظریہ طریقہ کسی طرح بھی مناسب نہیں ہے۔ جب کہ یہ تسلیم کئے بغیر کسی بھی منصف مزاج کو چارہ نہیں کہ ہمارے مروجہ مسالک بہت بعد کی پیداوار ہیں۔ جن کا قرون راشدہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ بلکہ بقول حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ پورے چارسوسال تک مسلمان صرف مسلمان تھے۔ تقلیدی مذاہب چارصدیوں کے بعد پیدا ہوئے۔ ان کی حقیقت یہی ہے۔ امت کے لیے یہ سب سے بڑی مصیبت ہے کہ ان فقہی مسالک کو علاحدہ علاحدہ دین اور شریعت کا مقام دے دیا گیا۔ جس کے نتیجہ میں وہ افتراق وانتشار پیدا ہوا کہ اسلام مختلف پارٹیوں اور بہت سے فرقوں میں تقسیم ہوکر رہ گیا اور وحدت ملی ختم ہوگئی۔ اور آج تک یہی حال ہے۔ جس پر جس قدر افسوس کیا جائے کم ہے۔
دعوت اہل حدیث کا خلاصہ یہی ہے کہ اس انتشار کو ختم کرکے مسلمانوں کو صرف اسلام کے نام پر جمع کیا جائے، امید قوی ہے کہ ضروریہ دعوت اپنا رنگ لائے گی۔ اور لارہی ہے کہ اکثر روشن دماغ مسلمان ان خودساختہ پابندیوں کی حقیقت سے واقف ہوچکے ہیں۔
English Translation:[sta_anchor id=”engtrans”] ⇪