[quote arrow=”yes”]
1: حدیث اعراب کے ساتھ:[sta_anchor id=”top”]
2: حدیث عربی رسم الخط میں بغیراعراب کے ساتھ:
3: حدیث اردو رسم الخط میں بغیراعراب کے ساتھ:
[/quote]
حدیث اعراب کے ساتھ: ⇪ [sta_anchor id=”artash”]
حدیث نمبر293:
الخط میں بغیراعراب کے ساتھ: ⇪ [sta_anchor id=”arnotash”]
حدیث اردو رسم الخط میں بغیراعراب کے ساتھ: ⇪ [sta_anchor id=”urnotash”]
293 ـ حدثنا مسدد، حدثنا یحیى، عن ہشام بن عروۃ، قال اخبرنی ابی قال، اخبرنی ابو ایوب، قال اخبرنی ابى بن کعب، انہ قال یا رسول اللہ اذا جامع الرجل المراۃ فلم ینزل قال ” یغسل ما مس المراۃ منہ، ثم یتوضا ویصلی ”. قال ابو عبد اللہ الغسل احوط، وذاک الاخر، وانما بینا لاختلافہم.
ا اردو ترجمہ: ⇪ [sta_anchor id=”urdtrjuma”]
حدیث کی اردو تشریح: ⇪ [sta_anchor id=”urdtashree”]
تشریح : یعنی غسل کرلینا بہرصورت بہترہے۔ اگربالفرض واجب نہ بھی ہو تو یہی فائدہ کیا کم ہے کہ اس سے بدن کی صفائی ہوجاتی ہے۔ مگرجمہور کا یہی فتویٰ ہے کہ عورت مرد کے ملاپ سے غسل واجب ہو جاتا ہے انزال ہو یا نہ ہو۔ ترجمہ باب یہاں سے نکلتا ہے کہ دخول کی وجہ سے ذکر میں عورت کی فرج سے جو تری لگ گئی ہو اسے دھونے کا حکم دیا۔
قال ابن حجر فی الفتح وقدذہب الجمہور الی ان حدیث الاکتفاءبالوضوءمنسوخ وروی ابن ابی شیبۃ وغیرہ عن ابن عباس انہ حمل حدیث الماءمن الماءعلی صورۃ مخصوصۃ مایقع من رویۃ الجماع وہی تاویل یجمع بین الحدیثین بلاتعارض۔یعنی علامہ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ جمہوراس طرف گئے ہیں کہ یہ احادیث جن میں وضو کو کافی کہا گیا ہے یہ منسوخ ہیں۔ اور ابن ابی شیبہ نے حضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے کہ حدیث الماءمن الماءخواب سے متعلق ہے۔ جس میں جماع دیکھا گیا ہو، اس میں انزال نہ ہو تو وضو کافی ہوگا۔ اس طرح دونوں قسم کی حدیثوں میں تطبیق ہوجاتی ہے اور کوئی تعارض نہیں باقی رہتا۔
لفظ جنابت کی لغوی تحقیق سے متعلق حضرت نواب صدیق حسن صاحب فرماتے ہیں وجنب درمصفی گفتہ مادئہ جنب دلالت بربعد میکند وچوں جماع درمواضع بعیدہ دمستورہ میشود الخ یعنی لفظ جنب کے متعلق مصفی شرح مؤطا میں کہا گیا ہے کہ اس لفظ کا مادہ دور ہونے پر دلالت کرتا ہے جماع بھی پوشیدہ اور لوگوں سے دورجگہ پر کیا جاتا ہے، اس لیے اس شخص کو جنبی کہا گیا، اور جنب کو جماع پر بولا گیا۔ بقول ایک جماعت جنبی تاغسل عبادت سے دورہو جاتا ہے اس لیے اسے جنب کہا گیا۔ غسل جنابت شریعت ابراہیمی میں ایک سنت قدیمہ ہے جسے اسلام میں فرض اور واجب قرار دیا گیا۔ جمعہ کے دن غسل کرنا پچھنا لگوا کر غسل کرنا، میت کو نہلا کر غسل کرنا مسنون ہے۔ رواہ داؤد والحاکم۔
جو شخص اسلام قبول کرے اس کے لیے بھی ضروری ہے کہ پہلے غسل کرے پھر مسلمان ہو۔ ( مسک الختام، شرح بلوغ المرام، جلداول، ص: 170 )۔
English Translation:[sta_anchor id=”engtrans”] ⇪