صحیح بخاری جلد اول :كتاب الصلاة (نماز کا بیان) : حدیث369

كتاب الصلاة
کتاب: نماز کے احکام و مسائل
.(THE BOOK OF AS-SALAT (THE PRAYER
10- بَابُ مَا يَسْتُرُ مِنَ الْعَوْرَةِ:
باب: ستر کا بیان جس کو ڈھانکنا چاہیے۔

[quote arrow=”yes”]

1: حدیث اعراب کے ساتھ:[sta_anchor id=”top”]

2: حدیث عربی رسم الخط میں بغیراعراب کے ساتھ:

3: حدیث اردو رسم الخط میں بغیراعراب کے ساتھ:

4: حدیث کا اردو ترجمہ:

5: حدیث کی اردو تشریح:

English Translation :6 

[/quote]

حدیث اعراب کے ساتھ:  [sta_anchor id=”artash”]

حدیث نمبر369:

حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا ابْنُ أَخِي ابْنِ شِهَابٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَمِّهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنِي حُمَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "بَعَثَنِي أَبُو بَكْرٍ فِي تِلْكَ الْحَجَّةِ فِي مُؤَذِّنِينَ، ‏‏‏‏‏‏يَوْمَ النَّحْرِ نُؤَذِّنُ بِمِنًى أَنْ لَا يَحُجَّ بَعْدَ الْعَامِ مُشْرِكٌ وَلَا يَطُوفَ بِالْبَيْتِ عُرْيَانٌ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ حُمَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ:‏‏‏‏ ثُمَّ أَرْدَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلِيًّا، ‏‏‏‏‏‏فَأَمَرَهُ أَنْ يُؤَذِّنَ بِبَرَاءَةٌ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ:‏‏‏‏ فَأَذَّنَ مَعَنَا عَلِيٌّ فِي أَهْل مِنًى يَوْمَ النَّحْرِ، ‏‏‏‏‏‏لَا يَحُجُّ بَعْدَ الْعَامِ مُشْرِكٌ وَلَا يَطُوفُ بِالْبَيْتِ عُرْيَانٌ”. 
حدیث عربی بغیراعراب کے ساتھ:        [sta_anchor id=”arnotash”] 
369 ـ حدثنا إسحاق، قال حدثنا يعقوب بن إبراهيم، قال حدثنا ابن أخي ابن شهاب، عن عمه، قال أخبرني حميد بن عبد الرحمن بن عوف، أن أبا هريرة، قال بعثني أبو بكر في تلك الحجة في مؤذنين يوم النحر نؤذن بمنى أن لا يحج بعد العام مشرك، ولا يطوف بالبيت عريان‏.‏ قال حميد بن عبد الرحمن ثم أردف رسول الله صلى الله عليه وسلم عليا، فأمره أن يؤذن ببراءة قال أبو هريرة فأذن معنا علي في أهل منى يوم النحر لا يحج بعد العام مشرك، ولا يطوف بالبيت عريان‏.‏
حدیث اردو رسم الخط میں بغیراعراب کے ساتھ:   [sta_anchor id=”urnotash”]
369 ـ حدثنا اسحاق، قال حدثنا یعقوب بن ابراہیم، قال حدثنا ابن اخی ابن شہاب، عن عمہ، قال اخبرنی حمید بن عبد الرحمن بن عوف، ان ابا ہریرۃ، قال بعثنی ابو بکر فی تلک الحجۃ فی موذنین یوم النحر نوذن بمنى ان لا یحج بعد العام مشرک، ولا یطوف بالبیت عریان‏.‏ قال حمید بن عبد الرحمن ثم اردف رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم علیا، فامرہ ان یوذن ببراءۃ قال ابو ہریرۃ فاذن معنا علی فی اہل منى یوم النحر لا یحج بعد العام مشرک، ولا یطوف بالبیت عریان‏.‏
اردو ترجمہ:   [sta_anchor id=”urdtrjuma”]

ہم سے اسحاق نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے یعقوب بن ابراہیم نے بیان کیا، انہوں نے کہا مجھے میرے بھائی ابن شہاب نے اپنے چچا کے واسطہ سے، انہوں نے کہا مجھے حمید بن عبدالرحمٰن بن عوف نے خبر دی کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اس حج کے موقع پر مجھے ابوبکر رضی اللہ عنہ نے یوم نحر (ذی الحجہ کی دسویں تاریخ) میں اعلان کرنے والوں کے ساتھ بھیجا۔ تاکہ ہم منیٰ میں اس بات کا اعلان کر دیں کہ اس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہیں کر سکتا اور کوئی شخص ننگے ہو کر بیت اللہ کا طواف نہیں کر سکتا۔ حمید بن عبدالرحمٰن نے کہا اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ کو ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پیچھے بھیجا اور انہیں حکم دیا کہ وہ سورۃ برات پڑھ کر سنا دیں اور اس کے مضامین کا عام اعلان کر دیں۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ نے ہمارے ساتھ نحر کے دن منیٰ میں دسویں تاریخ کو یہ سنایا کہ آج کے بعد کوئی مشرک نہ حج کر سکے گا اور نہ بیت اللہ کا طواف کوئی شخص ننگے ہو کر کر سکے گا۔

حدیث کی اردو تشریح:   [sta_anchor id=”urdtashree”]
تشریح : جب ننگے ہوکر طواف کرنا منع ہوا تو ستر پوشی طواف میں ضرور واجب ہوگئی، اسی طرح نماز میں بطریق اولیٰ ستر پوشی واجب ہوگی۔ سورۃ توبہ کے نازل ہونے پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کافروں کی آگاہی کے لیے پہلے سیدنا حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کو بھیجا۔ پھر آپ کو یہ خیال آیاکہ معاہدہ کو توڑنے کا حق دستورعرب کے مطابق اسی کو ہے، جس نے خود معاہدہ کیا ہے یا کوئی اس کے خاص گھروالوں سے ہونا چاہئیے۔ اس لیے آپ نے پیچھے سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بھی روانہ فرمادیا۔ قریش مکہ کی بدعہدی کی آخری مثال صلح حدیبیہ تھی۔ طے ہوا تھا کہ ایک طرف مسلمان اور ان کے حلیف ہوں گے اور دوسری طرف قریش اور ان کے حلیف، مسلمانوں کے ساتھ قبیلہ خزاعہ شریک ہوا اور قریش کے ساتھ بنوبکر۔ صلح کی بنیادی شرط یہ تھی کہ دس برس تک دونوں فریق صلح وامن سے رہیں گے۔ مگرابھی دوسال بھی پورے نہ ہوئے تھے کہ بنوبکر نے خزاعہ پر حملہ کردیا اور قریش نے ان کی مدد کی۔ بنوخزاعہ نے کعبہ میں اللہ کے نام پر امان مانگی، پھر بھی وہ بے دریغ قتل کئے گئے۔ صرف چالیس آدمی بچ کر مدینہ پہنچے اور سارا حال زار پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو سنایا۔ اب معاہدہ کی رو سے آپ کے لیے ضروری ہوگیا کہ قریش کو ان کی بدعہدی کی سزادی جائے۔ چنانچہ دس ہزار مسلمانوں کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوچ فرمایا اور بغیر کسی خون ریزی کے مکہ شریف فتح ہوگیا۔ جس کے بعد 9ہجری میں اس سورۃ شریفہ کی ابتدائی دس آیات نازل ہوئیں اور حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو مسلمانوں کا امیرحج بناکر بھیجا۔ یہ حجۃ الوداع سے پہلے کا واقعہ ہے بعد میں پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مکہ شریف بھیجاتاکہ وہ سورۃ توبہ کی ان آیات کا کھلے عام اعلان کردیں۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دل میں ذرا سا خیال پیدا ہوا کہ کہیں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے خفا تو نہیں ہوگئے جوبعد میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا بھی اسی مقصد کے لیے بھیجنا ضروری سمجھا۔ اس پر آپ نے ان کی تشفی فرمائی اور بتلایا کہ دستور عرب کے تحت مجھ کو علی رضی اللہ عنہ کا بھیجنا ضروری ہوا، ورنہ آپ میرے یارغار ہیں۔ بلکہ حوض کوثر پر بھی آپ ہی کو رفاقت رہے گی۔ رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین۔

 
English Translation:[sta_anchor id=”engtrans”] 
Narrated Abu Huraira: On the Day of Nahr (10th of Dhul-Hijja, in the year prior to the last Hajj of the Prophet when Abu Bakr was the leader of the pilgrims in that Hajj) Abu Bakr sent me along with other announcers to Mina to make a public announcement: "No pagan is allowed to perform Hajj after this year and no naked person is allowed to perform the Tawaf around the Ka`ba. Then Allah’s Apostle sent ‘All to read out the Surat Bara’a (at-Tauba) to the people; so he made the announcement along with us on the day of Nahr in Mina: "No pagan is allowed to perform Hajj after this year and no naked person is allowed to perform the Tawaf around the Ka`ba.”

اس پوسٹ کو آگے نشر کریں