[quote arrow=”yes”]
1: حدیث اعراب کے ساتھ:[sta_anchor id=”top”]
2: حدیث عربی رسم الخط میں بغیراعراب کے ساتھ:
3: حدیث اردو رسم الخط میں بغیراعراب کے ساتھ:
[/quote]
حدیث اعراب کے ساتھ: ⇪ [sta_anchor id=”artash”]
حدیث نمبر:425
حدیث عربی بغیراعراب کے ساتھ: ⇪ [sta_anchor id=”arnotash”]
حدیث اردو رسم الخط میں بغیراعراب کے ساتھ: ⇪ [sta_anchor id=”urnotash”]
425 ـ حدثنا سعید بن عفیر، قال حدثنی اللیث، قال حدثنی عقیل، عن ابن شہاب، قال اخبرنی محمود بن الربیع الانصاری، ان عتبان بن مالک ـ وہو من اصحاب رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم ممن شہد بدرا من الانصار ـ انہ اتى رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم فقال یا رسول اللہ، قد انکرت بصری، وانا اصلی لقومی، فاذا کانت الامطار سال الوادی الذی بینی وبینہم، لم استطع ان اتی مسجدہم فاصلی بہم، ووددت یا رسول اللہ انک تاتینی فتصلی فی بیتی، فاتخذہ مصلى. قال فقال لہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم ” سافعل ان شاء اللہ ”. قال عتبان فغدا رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم وابو بکر حین ارتفع النہار، فاستاذن رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم فاذنت لہ، فلم یجلس حتى دخل البیت ثم قال ” این تحب ان اصلی من بیتک ”. قال فاشرت لہ الى ناحیۃ من البیت، فقام رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم فکبر، فقمنا فصفنا، فصلى رکعتین ثم سلم، قال وحبسناہ على خزیرۃ صنعناہا لہ. قال فثاب فی البیت رجال من اہل الدار ذوو عدد فاجتمعوا، فقال قایل منہم این مالک بن الدخیشن او ابن الدخشن فقال بعضہم ذلک منافق لا یحب اللہ ورسولہ. فقال رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم ” لا تقل ذلک، الا تراہ قد قال لا الہ الا اللہ. یرید بذلک وجہ اللہ ”. قال اللہ ورسولہ اعلم. قال فانا نرى وجہہ ونصیحتہ الى المنافقین. قال رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم ” فان اللہ قد حرم على النار من قال لا الہ الا اللہ. یبتغی بذلک وجہ اللہ ”. قال ابن شہاب ثم سالت الحصین بن محمد الانصاری ـ وہو احد بنی سالم وہو من سراتہم ـ عن حدیث محمود بن الربیع، فصدقہ بذلک.
اردو ترجمہ: ⇪ [sta_anchor id=”urdtrjuma”]
حدیث کی اردو تشریح: ⇪ [sta_anchor id=”urdtashree”]
تشریح : علامہ حافظ ابن حجررحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے بہت سے مسائل کو ثابت فرمایاہے، مثلا ( 1 ) اندھے کی امامت کا جائز ہونا جیسا کہ حضرت عتبان نابینا ہونے کے باوجود اپنی قوم کو نماز پڑھاتے تھے۔ ( 2 ) اپنی بیماری کا بیان کرنا شکایت میں داخل نہیں۔ ( 33 ) یہ بھی ثابت ہوا کہ مدینہ میں مسجد نبوی کے علاوہ دیگر مساجد میں بھی نماز باجماعت ادا کی جاتی تھی۔ ( 4 ) عتبان جیسے معذوروں کے لیے اندھیرے اوربارش میں جماعت کا معاف ہونا۔ ( 5 ) بوقت ضرورت نماز گھر میں پڑھنے کے لیے ایک جگہ مقرر کرلینا۔ ( 6 ) صفوں کا برابر کرنا۔ ( 7 ) ملاقات کے لیے آنے والے بڑے آدمی کی امامت کا جائز ہونا بشرطیکہ صاحب خانہ اسے اجازت دے۔ ( 8 ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں نماز پڑھی اس جگہ کا متبرک ہونا۔ ( 9 ) اگرکسی صالح نیک انسان کو گھرمیں برکت کے لیے بلایا جائے تواس کا جائز ہونا۔ ( 10 ) بڑے لوگوں کا چھوٹے بھائیوں کی دعوت قبول کرنا۔ ( 11 ) وعدہ پورا کرنا اور اس کے لیے ان شاءاللہ کہنا اگر میزبان پر بھروسا ہے توبغیر بلائے ہوئے بھی اپنے ساتھ دوسرے احباب کو دعوت کے لیے لے جانا۔ ( 12 ) گھر میں داخل ہونے سے پہلے صاحب خانہ سے اجازت حاصل کرنا۔ ( 13 ) اہل محلہ کا عالم یاامام کے پاس برکت حاصل کرنے کے لیے جمع ہونا۔ ( 14 ) جس سے دین میں نقصان کا ڈر ہواس کا حال امام کے سامنے بیان کردینا۔ ( 15 ) ایمان میں صرف زبانی اقرار کافی نہیں جب تک کہ دل میں یقین اور ظاہر میں عمل صالح نہ ہو۔ ( 16 ) توحید پر مرنے والے کا ہمیشہ دوزخ میں نہ رہنا۔ ( 17 ) برسات میں گھر میں نماز پڑھ لینا۔ ( 18 ) نوافل جماعت سے ادا کرنا۔
قسطلانی نے کہا کہ عتبان بن مالک انصاری سالمی مدنی تھے جونابینا ہوگئے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہفتہ کے دن آپ کے گھر تشریف لائے اور حضرت ابوبکر اور عمررضی اللہ عنہم بھی ساتھ تھے۔ حلیم خزیرہ کا ترجمہ ہے، جوگوشت کے ٹکڑوں کو پانی میں پکاکر بنایا جاتا تھا اوراس میں آٹا بھی ملایا کرتے تھے۔
مالک بن دخیشن جس پر نفاق کا شبہ ظاہر کیا گیاتھا، بعض لوگوں نے اسے مالک بن دخشم صحیح کہاہے۔ یہ بلااختلاف بدرکی لڑائی میں شریک تھے اورسہیل بن عمرو کافرکو انھوں نے ہی پکڑا تھا۔ ابن اسحاق نے مغازی میں بیان کیا ہے کہ مسجدضرار کو جلانے والوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بھی بھیجا تھا توظاہر ہوا کہ یہ منافق نہ تھے مگر کچھ لوگوں کو بعض حالات کی بناپر ان کے بارے میں ایسا ہی شبہ ہوا جیسا کہ حاطب بن بلتعہ کے بارے میں شبہ پیدا ہوگیا تھا جب کہ انھوں نے اپنی بیوی اوربچوں کی محبت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارادہ لشکر کشی کی جاسوسی مکہ والوں سے کرنے کی کوشش کی تھی جو ان کی غلطی تھی، مگرآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا عذر قبول فرماکر اس غلطی کو معاف کردیاتھا۔ ایسا ہی مالک بن دخشم کے بارے میں آپ نے لوگوں کو منافق کہنے سے منع فرمایا، اس لیے بھی کہ وہ مجاہدین بدرسے ہیں جن کی ساری غلطیوں کو اللہ نے معاف کردیاہے۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو بیس سے بھی زیادہ مقامات پر روایت کیا ہے اور اس سے بہت سے مسائل نکالے ہیں جیسا کہ اوپر گزر چکاہے۔
English Translation:[sta_anchor id=”engtrans”] ⇪