Search

صحیح بخاری جلد اول :كتاب الصلاة (نماز کا بیان) : حدیث:425

كتاب الصلاة
کتاب: نماز کے احکام و مسائل
.(THE BOOK OF AS-SALAT (THE PRAYER
46- بَابُ الْمَسَاجِدِ فِي الْبُيُوتِ:
باب: اس بیان میں (کہ بوقت ضرورت) گھروں میں جائے نماز (مقرر کر لینا جائز ہے)۔
وَصَلَّى الْبَرَاءُ بْنُ عَازِبٍ فِي مَسْجِدِهِ فِي دَارِهِ جَمَاعَةً.
اور براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے اپنے گھر کی مسجد میں جماعت سے نماز پڑھی۔

[quote arrow=”yes”]

1: حدیث اعراب کے ساتھ:[sta_anchor id=”top”]

2: حدیث عربی رسم الخط میں بغیراعراب کے ساتھ:

3: حدیث اردو رسم الخط میں بغیراعراب کے ساتھ:

4: حدیث کا اردو ترجمہ:

5: حدیث کی اردو تشریح:

English Translation :6 

[/quote]

حدیث اعراب کے ساتھ:  [sta_anchor id=”artash”]

حدیث نمبر:425

حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عُفَيْرٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي اللَّيْثُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي عُقَيْلٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنِي مَحْمُودُ بْنُ الرَّبِيعِ الْأَنْصَارِيُّ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ عِتْبَانَ بْنَ مَالِكٍ وَهُوَ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِمَّنْ شَهِدَ بَدْرًا مِنْ الْأَنْصَارِ، ‏‏‏‏‏‏”أَنَّهُ أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏قَدْ أَنْكَرْتُ بَصَرِي وَأَنَا أُصَلِّي لِقَوْمِي، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا كَانَتِ الْأَمْطَارُ سَالَ الْوَادِي الَّذِي بَيْنِي وَبَيْنَهُمْ لَمْ أَسْتَطِعْ أَنْ آتِيَ مَسْجِدَهُمْ فَأُصَلِّيَ بِهِمْ، ‏‏‏‏‏‏وَوَدِدْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَنَّكَ تَأْتِينِي فَتُصَلِّيَ فِي بَيْتِي فَأَتَّخِذَهُ مُصَلًّى، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ سَأَفْعَلُ إِنْ شَاءَ اللَّهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ عِتْبَانُ:‏‏‏‏ فَغَدَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَكْرٍ حِينَ ارْتَفَعَ النَّهَارُ، ‏‏‏‏‏‏فَاسْتَأْذَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَذِنْتُ لَهُ فَلَمْ يَجْلِسْ حَتَّى دَخَلَ الْبَيْتَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ أَيْنَ تُحِبُّ أَنْ أُصَلِّيَ مِنْ بَيْتِكَ؟ قَالَ:‏‏‏‏ فَأَشَرْتُ لَهُ إِلَى نَاحِيَةٍ مِنَ الْبَيْتِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكَبَّرَ، ‏‏‏‏‏‏فَقُمْنَا فَصَفَّنَا فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ سَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَحَبَسْنَاهُ عَلَى خَزِيرَةٍ صَنَعْنَاهَا لَهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَثَابَ فِي الْبَيْتِ رِجَالٌ مِنْ أَهْلِ الدَّارِ ذَوُو عَدَدٍ فَاجْتَمَعُوا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ قَائِلٌ مِنْهُمْ:‏‏‏‏ أَيْنَ مَالِكُ بْنُ الدُّخَيْشِنِ أَوِ ابْنُ الدُّخْشُنِ؟ فَقَالَ بَعْضُهُمْ:‏‏‏‏ ذَلِكَ مُنَافِقٌ لَا يُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ لَا، ‏‏‏‏‏‏تَقُلْ ذَلِكَ، ‏‏‏‏‏‏أَلَا تَرَاهُ قَدْ قَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ يُرِيدُ بِذَلِكَ وَجْهَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَإِنَّا نَرَى وَجْهَهُ وَنَصِيحَتَهُ إِلَى الْمُنَافِقِينَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ فَإِنَّ اللَّهَ قَدْ حَرَّمَ عَلَى النَّارِ مَنْ قَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ يَبْتَغِي بِذَلِكَ وَجْهَ اللَّهِ”، ‏‏‏‏‏‏قَالَ ابْنُ شِهَابٍ:‏‏‏‏ ثُمَّ سَأَلْتُ الْحُصَيْنَ بْنَ مُحَمَّدٍ الْأَنْصَارِيَّ وَهُوَ أَحَدُ بَنِي سَالِمٍ وَهُوَ مِنْ سَرَاتِهِمْ عَنْ حَدِيثِ مَحْمُودِ بْنِ الرَّبِيعِ الْأَنْصَارِيِّ فَصَدَّقَهُ بِذَلِكَ.‏‏‏‏
حدیث عربی بغیراعراب کے ساتھ:        [sta_anchor id=”arnotash”] 
425 ـ حدثنا سعيد بن عفير، قال حدثني الليث، قال حدثني عقيل، عن ابن شهاب، قال أخبرني محمود بن الربيع الأنصاري، أن عتبان بن مالك ـ وهو من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم ممن شهد بدرا من الأنصار ـ أنه أتى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال يا رسول الله، قد أنكرت بصري، وأنا أصلي لقومي، فإذا كانت الأمطار سال الوادي الذي بيني وبينهم، لم أستطع أن آتي مسجدهم فأصلي بهم، ووددت يا رسول الله أنك تأتيني فتصلي في بيتي، فأتخذه مصلى‏.‏ قال فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏”‏ سأفعل إن شاء الله ‏”‏‏.‏ قال عتبان فغدا رسول الله صلى الله عليه وسلم وأبو بكر حين ارتفع النهار، فاستأذن رسول الله صلى الله عليه وسلم فأذنت له، فلم يجلس حتى دخل البيت ثم قال ‏”‏ أين تحب أن أصلي من بيتك ‏”‏‏.‏ قال فأشرت له إلى ناحية من البيت، فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم فكبر، فقمنا فصفنا، فصلى ركعتين ثم سلم، قال وحبسناه على خزيرة صنعناها له‏.‏ قال فثاب في البيت رجال من أهل الدار ذوو عدد فاجتمعوا، فقال قائل منهم أين مالك بن الدخيشن أو ابن الدخشن فقال بعضهم ذلك منافق لا يحب الله ورسوله‏.‏ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏”‏ لا تقل ذلك، ألا تراه قد قال لا إله إلا الله‏.‏ يريد بذلك وجه الله ‏”‏‏.‏ قال الله ورسوله أعلم‏.‏ قال فإنا نرى وجهه ونصيحته إلى المنافقين‏.‏ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏”‏ فإن الله قد حرم على النار من قال لا إله إلا الله‏.‏ يبتغي بذلك وجه الله ‏”‏‏.‏ قال ابن شهاب ثم سألت الحصين بن محمد الأنصاري ـ وهو أحد بني سالم وهو من سراتهم ـ عن حديث محمود بن الربيع، فصدقه بذلك‏.‏
حدیث اردو رسم الخط میں بغیراعراب کے ساتھ:   [sta_anchor id=”urnotash”]
425 ـ حدثنا سعید بن عفیر، قال حدثنی اللیث، قال حدثنی عقیل، عن ابن شہاب، قال اخبرنی محمود بن الربیع الانصاری، ان عتبان بن مالک ـ وہو من اصحاب رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم ممن شہد بدرا من الانصار ـ انہ اتى رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم فقال یا رسول اللہ، قد انکرت بصری، وانا اصلی لقومی، فاذا کانت الامطار سال الوادی الذی بینی وبینہم، لم استطع ان اتی مسجدہم فاصلی بہم، ووددت یا رسول اللہ انک تاتینی فتصلی فی بیتی، فاتخذہ مصلى‏.‏ قال فقال لہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم ‏”‏ سافعل ان شاء اللہ ‏”‏‏.‏ قال عتبان فغدا رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم وابو بکر حین ارتفع النہار، فاستاذن رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم فاذنت لہ، فلم یجلس حتى دخل البیت ثم قال ‏”‏ این تحب ان اصلی من بیتک ‏”‏‏.‏ قال فاشرت لہ الى ناحیۃ من البیت، فقام رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم فکبر، فقمنا فصفنا، فصلى رکعتین ثم سلم، قال وحبسناہ على خزیرۃ صنعناہا لہ‏.‏ قال فثاب فی البیت رجال من اہل الدار ذوو عدد فاجتمعوا، فقال قایل منہم این مالک بن الدخیشن او ابن الدخشن فقال بعضہم ذلک منافق لا یحب اللہ ورسولہ‏.‏ فقال رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم ‏”‏ لا تقل ذلک، الا تراہ قد قال لا الہ الا اللہ‏.‏ یرید بذلک وجہ اللہ ‏”‏‏.‏ قال اللہ ورسولہ اعلم‏.‏ قال فانا نرى وجہہ ونصیحتہ الى المنافقین‏.‏ قال رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم ‏”‏ فان اللہ قد حرم على النار من قال لا الہ الا اللہ‏.‏ یبتغی بذلک وجہ اللہ ‏”‏‏.‏ قال ابن شہاب ثم سالت الحصین بن محمد الانصاری ـ وہو احد بنی سالم وہو من سراتہم ـ عن حدیث محمود بن الربیع، فصدقہ بذلک‏.‏
اردو ترجمہ:   [sta_anchor id=”urdtrjuma”]

ہم سے سعید بن عفیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے عقیل نے ابن شہاب کے واسطہ سے بیان کیا کہ مجھے محمود بن ربیع انصاری نے کہ عتبان بن مالک انصاری رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی اور غزوہ بدر کے حاضر ہونے والوں میں سے تھے، وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا یا رسول اللہ! میری بینائی میں کچھ فرق آ گیا ہے اور میں اپنی قوم کے لوگوں کو نماز پڑھایا کرتا ہوں لیکن جب برسات کا موسم آتا ہے تو میرے اور میری قوم کے درمیان جو وادی ہے وہ بھر جاتی ہے اور بہنے لگ جاتی ہے اور میں انہیں نماز پڑھانے کے لیے مسجد تک نہیں جا سکتا یا رسول اللہ! میری خواہش ہے کہ آپ میرے گھر تشریف لائیں اور (کسی جگہ) نماز پڑھ دیں تاکہ میں اسے نماز پڑھنے کی جگہ بنا لوں۔ راوی نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عتبان سے فرمایا، انشاء اللہ تعالیٰ میں تمہاری اس خواہش کو پورا کروں گا۔ عتبان نے کہا کہ (دوسرے دن) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ جب دن چڑھا تو دونوں تشریف لے آئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اندر آنے کی اجازت چاہی، میں نے اجازت دے دی۔ جب آپ گھر میں تشریف لائے تو بیٹھے بھی نہیں اور پوچھا کہ تم اپنے گھر کے کس حصہ میں مجھ سے نماز پڑھنے کی خواہش رکھتے ہو۔ عتبان نے کہا کہ میں نے گھر میں ایک کونے کی طرف اشارہ کیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (اس جگہ) کھڑے ہوئے اور تکبیر کہی ہم بھی آپ کے پیچھے کھڑے ہو گئے اور صف باندھی پس آپ نے دو رکعت (نفل) نماز پڑھائی پھر سلام پھیرا۔ عتبان نے کہا کہ ہم نے آپ کو تھوڑی دیر کے لیے روکا اور آپ کی خدمت میں حلیم پیش کیا جو آپ ہی کے لیے تیار کیا گیا تھا۔ عتبان نے کہا کہ محلہ والوں کا ایک مجمع گھر میں لگ گیا اور مجمع میں سے ایک شخص بولا کہ مالک بن دخشن یا (یہ کہا) ابن دخشن دکھائی نہیں دیتا۔ اس پر کسی دوسرے نے کہہ دیا کہ وہ تو منافق ہے جسے اللہ اور رسول سے کوئی محبت نہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا ایسا مت کہو، کیا تم دیکھتے نہیں کہ اس نے «لا إله إلا الله» کہا ہے اور اس سے مقصود خالص اللہ کی رضا مندی حاصل کرنا ہے۔ تب منافقت کا الزام لگانے والا بولا کہ اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ علم ہے ہم تو بظاہر اس کی توجہات اور دوستی منافقوں ہی کے ساتھ دیکھتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے «لا إله إلا الله» کہنے والے پر اگر اس کا مقصد خالص اللہ کی رضا حاصل کرنا ہو دوزخ کی آگ حرام کر دی ہے۔ ابن شہاب نے کہا کہ پھر میں نے محمود سے سن کر حصین بن محمد انصاری سے جو بنوسالم کے شریف لوگوں میں سے ہیں (اس حدیث) کے متعلق پوچھا تو انہوں نے اس کی تصدیق کی اور کہا کہ محمود سچا ہے۔

حدیث کی اردو تشریح:   [sta_anchor id=”urdtashree”]

تشریح : علامہ حافظ ابن حجررحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے بہت سے مسائل کو ثابت فرمایاہے، مثلا ( 1 ) اندھے کی امامت کا جائز ہونا جیسا کہ حضرت عتبان نابینا ہونے کے باوجود اپنی قوم کو نماز پڑھاتے تھے۔ ( 2 ) اپنی بیماری کا بیان کرنا شکایت میں داخل نہیں۔ ( 33 ) یہ بھی ثابت ہوا کہ مدینہ میں مسجد نبوی کے علاوہ دیگر مساجد میں بھی نماز باجماعت ادا کی جاتی تھی۔ ( 4 ) عتبان جیسے معذوروں کے لیے اندھیرے اوربارش میں جماعت کا معاف ہونا۔ ( 5 ) بوقت ضرورت نماز گھر میں پڑھنے کے لیے ایک جگہ مقرر کرلینا۔ ( 6 ) صفوں کا برابر کرنا۔ ( 7 ) ملاقات کے لیے آنے والے بڑے آدمی کی امامت کا جائز ہونا بشرطیکہ صاحب خانہ اسے اجازت دے۔ ( 8 ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں نماز پڑھی اس جگہ کا متبرک ہونا۔ ( 9 ) اگرکسی صالح نیک انسان کو گھرمیں برکت کے لیے بلایا جائے تواس کا جائز ہونا۔ ( 10 ) بڑے لوگوں کا چھوٹے بھائیوں کی دعوت قبول کرنا۔ ( 11 ) وعدہ پورا کرنا اور اس کے لیے ان شاءاللہ کہنا اگر میزبان پر بھروسا ہے توبغیر بلائے ہوئے بھی اپنے ساتھ دوسرے احباب کو دعوت کے لیے لے جانا۔ ( 12 ) گھر میں داخل ہونے سے پہلے صاحب خانہ سے اجازت حاصل کرنا۔ ( 13 ) اہل محلہ کا عالم یاامام کے پاس برکت حاصل کرنے کے لیے جمع ہونا۔ ( 14 ) جس سے دین میں نقصان کا ڈر ہواس کا حال امام کے سامنے بیان کردینا۔ ( 15 ) ایمان میں صرف زبانی اقرار کافی نہیں جب تک کہ دل میں یقین اور ظاہر میں عمل صالح نہ ہو۔ ( 16 ) توحید پر مرنے والے کا ہمیشہ دوزخ میں نہ رہنا۔ ( 17 ) برسات میں گھر میں نماز پڑھ لینا۔ ( 18 ) نوافل جماعت سے ادا کرنا۔
قسطلانی نے کہا کہ عتبان بن مالک انصاری سالمی مدنی تھے جونابینا ہوگئے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہفتہ کے دن آپ کے گھر تشریف لائے اور حضرت ابوبکر اور عمررضی اللہ عنہم بھی ساتھ تھے۔ حلیم خزیرہ کا ترجمہ ہے، جوگوشت کے ٹکڑوں کو پانی میں پکاکر بنایا جاتا تھا اوراس میں آٹا بھی ملایا کرتے تھے۔
مالک بن دخیشن جس پر نفاق کا شبہ ظاہر کیا گیاتھا، بعض لوگوں نے اسے مالک بن دخشم صحیح کہاہے۔ یہ بلااختلاف بدرکی لڑائی میں شریک تھے اورسہیل بن عمرو کافرکو انھوں نے ہی پکڑا تھا۔ ابن اسحاق نے مغازی میں بیان کیا ہے کہ مسجدضرار کو جلانے والوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بھی بھیجا تھا توظاہر ہوا کہ یہ منافق نہ تھے مگر کچھ لوگوں کو بعض حالات کی بناپر ان کے بارے میں ایسا ہی شبہ ہوا جیسا کہ حاطب بن بلتعہ کے بارے میں شبہ پیدا ہوگیا تھا جب کہ انھوں نے اپنی بیوی اوربچوں کی محبت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارادہ لشکر کشی کی جاسوسی مکہ والوں سے کرنے کی کوشش کی تھی جو ان کی غلطی تھی، مگرآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا عذر قبول فرماکر اس غلطی کو معاف کردیاتھا۔ ایسا ہی مالک بن دخشم کے بارے میں آپ نے لوگوں کو منافق کہنے سے منع فرمایا، اس لیے بھی کہ وہ مجاہدین بدرسے ہیں جن کی ساری غلطیوں کو اللہ نے معاف کردیاہے۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو بیس سے بھی زیادہ مقامات پر روایت کیا ہے اور اس سے بہت سے مسائل نکالے ہیں جیسا کہ اوپر گزر چکاہے۔
English Translation:[sta_anchor id=”engtrans”] 

Narrated `Itban bin Malik: who was one of the companions of Allah’s Apostle and one of the Ansar’s who took part in the battle of Badr: I came to Allah’s Apostle and said, "O Allah’s Apostle I have weak eyesight and I lead my people in prayers. When it rains the water flows in the valley between me and my people so I cannot go to their mosque to lead them in prayer. O Allah’s Apostle! I wish you would come to my house and pray in it so that I could take that place as a Musalla. Allah’s Apostle said. "Allah willing, I will do so.” Next day after the sun rose high, Allah’s Apostle and Abu Bakr came and Allah’s Apostle asked for permission to enter. I gave him permission and he did not sit on entering the house but said to me, "Where do you like me to pray?” I pointed to a place in my house. So Allah’s Apostle stood there and said, ‘Allahu Akbar’, and we all got up and aligned behind him and offered a two-rak`at prayer and ended it with Taslim. We requested him to stay for a meal called "Khazira” which we had prepared for him. Many members of our family gathered in the house and one of them said, "Where is Malik bin Al-Dukhaishin or Ibn Al-Dukhshun?” One of them replied, "He is a hypocrite and does not love Allah and His Apostle.” Hearing that, Allah’s Apostle said, "Do not say so. Haven’t you seen that he said, ‘None has the right to be worshipped but Allah’ for Allah’s sake only?” He said, "Allah and His Apostle know better. We have seen him helping and advising hypocrites.” Allah’s Apostle said, "Allah has forbidden the (Hell) fire for those who say, ‘None has the right to be worshipped but Allah’ for Allah’s sake only.”

اس پوسٹ کو آگے نشر کریں