[quote arrow=”yes”]
1: حدیث اعراب کے ساتھ:[sta_anchor id=”top”]
2: حدیث عربی رسم الخط میں بغیراعراب کے ساتھ:
3: حدیث اردو رسم الخط میں بغیراعراب کے ساتھ:
[/quote]
حدیث اعراب کے ساتھ: ⇪ [sta_anchor id=”artash”]
حدیث نمبر:441
حدیث عربی بغیراعراب کے ساتھ: ⇪ [sta_anchor id=”arnotash”]
حدیث اردو رسم الخط میں بغیراعراب کے ساتھ: ⇪ [sta_anchor id=”urnotash”]
441 ـ حدثنا قتیبۃ بن سعید، قال حدثنا عبد العزیز بن ابی حازم، عن ابی حازم، عن سہل بن سعد، قال جاء رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم بیت فاطمۃ، فلم یجد علیا فی البیت فقال ” این ابن عمک ”. قالت کان بینی وبینہ شىء، فغاضبنی فخرج فلم یقل عندی. فقال رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم لانسان ” انظر این ہو ”. فجاء فقال یا رسول اللہ، ہو فی المسجد راقد، فجاء رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم وہو مضطجع، قد سقط رداوہ عن شقہ، واصابہ تراب، فجعل رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم یمسحہ عنہ ویقول ” قم ابا تراب، قم ابا تراب ”.
اردو ترجمہ: ⇪ [sta_anchor id=”urdtrjuma”]
حدیث کی اردو تشریح: ⇪ [sta_anchor id=”urdtashree”]
تشریح : تراب عربی میں مٹی کو کہتے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ازراہِ محبت لفظ ابوتراب سے بلایا بعد میں یہی حضرت علی رضی اللہ عنہ کی کنیت ہوگئی اورآپ اپنے لیے اسے بہت پسند فرمایا کرتے تھے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چچازاد بھائی تھے، مگرعرب کے محاورہ میں باپ کے عزیزوں کو بھی چچا کا بیٹا کہتے ہیں۔ آپ نے اپنی لخت جگر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے دل میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی محبت پیدا کرنے کے خیال سے اس طرز سے گفتگو فرمائی۔ میاں بیوی میں گاہے گاہے باہمی ناراضگی ہونا بھی ایک فطری چیز ہے۔ مگر ایسی خفگی کو دل میں جگہ دینا ٹھیک نہیں ہے۔ اس سے خانگی زندگی تلخ ہوسکتی ہے۔ اس حدیث سے مسجد میں سونے کا جواز نکلا۔ یہی حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصدہے جس کے تحت آپ نے اس حدیث کو یہاں ذکر فرمایا۔ جو لوگ عام طور پر مسجدوں میں مردوں کے سونے کو ناجائز کہتے ہیں، ان کا قول صحیح نہیں جیسا کہ حدیث سے ظاہر ہے۔
English Translation:[sta_anchor id=”engtrans”] ⇪