صحیح بخاری جلد اول :مواقیت الصلوات (اوقات نماز کا بیان) : حدیث:-547

كتاب مواقيت الصلاة
کتاب: اوقات نماز کے بیان میں
THE BOOK OF THE TIMES OF AS-SALAT (THE PRAYERS) AND ITS SUPERIORITY.
13- بَابُ وَقْتِ الْعَصْرِ:
باب: نماز عصر کے وقت کا بیان۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُقَاتِلٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا عَوْفٌ ، عَنْ سَيَّارِ بْنِ سَلَامَةَ ، قَالَ : دَخَلْتُ أنَا وَأَبِي عَلَى أَبِي بَرْزَةَ الْأَسْلَمِيِّ ، فَقَالَ لَهُ أَبِي : ” كَيْفَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي الْمَكْتُوبَةَ ؟ فَقَالَ : كَانَ يُصَلِّي الْهَجِيرَ الَّتِي تَدْعُونَهَا الْأُولَى حِينَ تَدْحَضُ الشَّمْسُ وَيُصَلِّي الْعَصْرَ ، ثُمَّ يَرْجِعُ أَحَدُنَا إِلَى رَحْلِهِ فِي أَقْصَى الْمَدِينَةِ وَالشَّمْسُ حَيَّةٌ ، وَنَسِيتُ مَا قَالَ فِي الْمَغْرِبِ ، وَكَانَ يَسْتَحِبُّ أَنْ يُؤَخِّرَ الْعِشَاءَ الَّتِي تَدْعُونَهَا الْعَتَمَةَ ، وَكَانَ يَكْرَهُ النَّوْمَ قَبْلَهَا وَالْحَدِيثَ بَعْدَهَا ، وَكَانَ يَنْفَتِلُ مِنْ صَلَاةِ الْغَدَاةِ حِينَ يَعْرِفُ الرَّجُلُ جَلِيسَهُ وَيَقْرَأُ بِالسِّتِّينَ إِلَى الْمِائَةِ ” .
حدیث عربی بغیراعراب کے ساتھ:        [sta_anchor id=”arnotash”] 
547 ـ حدثنا محمد بن مقاتل، قال أخبرنا عبد الله، قال أخبرنا عوف، عن سيار بن سلامة، قال دخلت أنا وأبي، على أبي برزة الأسلمي، فقال له أبي كيف كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي المكتوبة فقال كان يصلي الهجير التي تدعونها الأولى حين تدحض الشمس، ويصلي العصر، ثم يرجع أحدنا إلى رحله في أقصى المدينة والشمس حية ـ ونسيت ما قال في المغرب ـ وكان يستحب أن يؤخر العشاء التي تدعونها العتمة، وكان يكره النوم قبلها والحديث بعدها، وكان ينفتل من صلاة الغداة حين يعرف الرجل جليسه، ويقرأ بالستين إلى المائة‏.‏
حدیث اردو رسم الخط میں بغیراعراب کے ساتھ:   [sta_anchor id=”urnotash”]
547 ـ حدثنا محمد بن مقاتل، قال اخبرنا عبد اللہ، قال اخبرنا عوف، عن سیار بن سلامۃ، قال دخلت انا وابی، على ابی برزۃ الاسلمی، فقال لہ ابی کیف کان رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم یصلی المکتوبۃ فقال کان یصلی الہجیر التی تدعونہا الاولى حین تدحض الشمس، ویصلی العصر، ثم یرجع احدنا الى رحلہ فی اقصى المدینۃ والشمس حیۃ ـ ونسیت ما قال فی المغرب ـ وکان یستحب ان یوخر العشاء التی تدعونہا العتمۃ، وکان یکرہ النوم قبلہا والحدیث بعدہا، وکان ینفتل من صلاۃ الغداۃ حین یعرف الرجل جلیسہ، ویقرا بالستین الى المایۃ‏.‏
‏‏اردو ترجمہ:   [sta_anchor id=”urdtrjuma”]

´ہم سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہمیں عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، انہوں نے کہا ہمیں عوف نے خبر دی سیار بن سلامہ سے، انہوں نے بیان کیا کہ` میں اور میرے باپ ابوبرزہ اسلمی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ ان سے میرے والد نے پوچھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرض نمازیں کن وقتوں میں پڑھتے تھے۔ انہوں نے فرمایا کہ دوپہر کی نماز جسے تم پہلی نماز کہتے ہو سورج ڈھلنے کے بعد پڑھتے تھے۔ اور جب عصر پڑھتے اس کے بعد کوئی شخص مدینہ کے انتہائی کنارہ پر اپنے گھر واپس جاتا تو سورج اب بھی تیز ہوتا تھا۔ سیار نے کہا کہ مغرب کے وقت کے متعلق آپ نے جو کچھ کہا تھا وہ مجھے یاد نہیں رہا۔ اور عشاء کی نماز جسے تم «عتمه» کہتے ہو اس میں دیر کو پسند فرماتے تھے اور اس سے پہلے سونے کو اور اس کے بعد بات چیت کرنے کو ناپسند فرماتے اور صبح کی نماز سے اس وقت فارغ ہو جاتے جب آدمی اپنے قریب بیٹھے ہوئے دوسرے شخص کو پہچان سکتا اور صبح کی نماز میں آپ ساٹھ سے سو تک آیتیں پڑھا کرتے تھے۔

حدیث کی اردو تشریح:   [sta_anchor id=”urdtashree”]

تشریح : روایت مذکورمیں ظہر کی نماز کونماز اولیٰ اس لیے کہا گیا ہے کہ جس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اوقات نماز کی تعلیم دینے کے لیے حضرت جبریل علیہ السلام تشریف لائے تھے توانھوں نے پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ظہر کی نماز ہی پڑھائی تھی۔ اس لیے راویان احادیث اوقات نماز کے بیان میں ظہر کی نماز ہی سے شروع کرتے ہیں۔ اس روایت اوردوسری روایات سے صاف ظاہر ہے کہ عصر کی نماز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اوّل وقت ایک مثل سایہ ہوجانے پر ہی ادا فرمایاکرتے تھے۔ اس حقیقت کے اظہار کے لیے ان روایات میں مختلف الفاظ استعمال کئے گئے ہیں۔ بعض روایتوں میں اسے والشمس مرتفعۃ حیۃ سے تعبیر کیا گیاہے کہ ابھی سورج کافی بلند اورخوب تیز ہوا کرتا تھا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے اس حقیقت کو یوں بیان فرمایاکہ “عصر کے وقت دھوپ میرے حجرہ ہی میں رہتی تھی۔” کسی روایت میں یوں مذکور ہواہے کہ “نماز عصر کے بعد لوگ اطراف مدینہ میں چار چار میل تک کا سفر کرجاتے اور پھر بھی سورج رہتا تھا۔” ان جملہ روایات کا واضح مطلب یہی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں عصر کی نماز اوّل وقت ایک مثل سایہ ہونے پر ادا کرلی جاتی تھی۔ اس لیے بھی کہ عصر ہی کی نماز صلوٰۃ الوسطیٰ ہے جس کی حفاظت کرنے کا اللہ نے خاص حکم صادر فرمایاہے۔ چنانچہ ارشاد باری ہے کہ حافظوا علی الصلوٰت والصلوٰۃ الوسطیٰ وقوموا للہ قنتین ( البقرۃ: 238 ) یعنی نمازوں کی حفاظت کرو اوردرمیانی نماز کی خاص حفاظت کرو ( جوعصر کی نماز ہے ) اوراللہ کے لیے فرمانبرداربندے بن کر ( باوفا غلاموںکی طرح مؤدب ) کھڑے ہوجایاکرو۔
ان ہی احادیث وآیات کی بناپر عصر کا اول وقت ایک مثل سایہ ہونے پر مقرر ہواہے۔ حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ ودیگراکابرعلمائے اسلام اور ائمہ کرام کا یہی مسلک ہے۔ مگر محترم علمائے احناف عصر کی نماز کے لیے اول وقت کے قائل نہیں ہیں۔ اورمذکورہ احادیث کی تاویلات کرنے میں ان کو بڑی کاوش کرنی پڑی ہے۔

ولے تاویل شاں در حیرت انداخت
خدا و جبرئیل و مصطفی را

عجیب کاوش: یہ عجیب کاوش ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے بیان پر جس میں ذکر ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم عصر کی نماز ایسے اول وقت میں پڑھ لیا کرتے تھے کہ دھوپ میرے حجرہ سے باہر نہیں نکلتی تھی جس کا مطلب واضح ہے کہ سورج بہت کافی بلند ہوتا تھا۔ مگر بعض علمائے احناف نے عجیب بیان دیاہے جو یہ ہے کہ:
“ازواجِ مطہرات کے حجروں کی دیواریں بہت چھوٹی تھیں۔ اس لیے غروب سے پہلے کچھ نہ کچھ دھوپ حجرہ میں باقی رہتی تھی۔ اس لیے اگر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز عصر کے وقت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کے حجرہ میں دھوپ رہتی تھی تو اس سے یہ ثابت نہیں ہوسکتاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سویرے ہی پڑھ لیتے تھے۔” ( تفہیم البخاری،پ 3،ص: 18 ) 
حمایت مسلک کا خبط ایسا ہوتاہے کہ انسان قائل کے قول کی ایسی توجیہ کرجاتاہے، جو قائل کے وہم وگمان میں بھی نہیں ہوتی۔ سوچنا یہاں یہ تھا کہ بیان کرنے والی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ہیں، جن کا ہرلحاظ سے امت میں ایک خصوصی مقام ہے۔ ان کا اس بیان سے اصل منشاءکیاہے۔ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز عصر کا اوّل وقت ان لفظوں میں بیان فرمارہی ہیں یا آخر وقت کے لیے یہ بیان دے رہی ہیں۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے بیان میں ادنیٰ غور وتامل سے ظاہر ہوجائے گا کہ ہمارے محترم صاحب تفہیم البخاری کی یہ کاوش بالکل غیرمفید ہے۔ اوراس بیان صدیقہ رضی اللہ عنہ سے صاف ظاہرہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بلاشک وشبہ عصر کی نماز اوّل وقت ہی میں پڑھ لیا کرتے تھے۔ جیساکہ حرمین شریفین کا معمول آج بھی دنیائے اسلام کے سامنے ہے۔ خودہمارے وطن کے ہزاروں حاجی حرمین شریفین ہرسال جاتے ہیں اوردیکھتے ہیں کہ وہاں عصرکی نماز کتنے اول وقت پر ادا کی جاتی ہے۔
صاحب تفہیم البخاری نے اس بیان سے ایک سطر قبل خود ہی اقرار فرمایا ہے۔ چنانچہ آپ کے الفاظ یہ ہیں:
“حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کی روایت سے بظاہر یہ معلوم ہوتاہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی اوّل وقت ہی میں پڑھتے تھے۔” حوالہ مذکور 
اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے بعد کیا ضرورت تھی کہ امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ کے بیان کا سہارا لے کر حضرت صدیقہ رضی اللہ عنہا پر ایسی رکیک تاویل کی جائے کہ دیکھنے اورپڑھنے والوں کے لیے وجہ حیرت بن جائے۔ حجرات نبوی کی دیواریں چھوٹی ہوں یا بڑی اس سے بحث نہیں مگریہ تو ایک امر مسلمہ ہے کہ سورج جس قدر اونچا رہتاہے حجرات نبوی میں دھوپ باقی رہتی اورجوں جوں سورج غروب ہونے کو جاتا وہ دھوپ بھی حجروں سے باہر نکل جاتی تھی۔پھر دوسری روایات میں مزید وضاحت کے لیے یہ صریح الفاظ موجود ہیں کہ سورج بلند اورخوب روشن رہا کرتاتھا، ان الفاظ نے امام طحاوی کی پیش کردہ توجیہ کو ختم کرکے رکھ دیا۔ مگرواقعہ یہ ہے کہ تقلید شخصی کی بیماری سے سوچنے اور سمجھنے کی طاقت روبہ زوال ہوجاتی ہے اور یہاں بھی یہی ماجرا ہے۔
English Translation:[sta_anchor id=”engtrans”] 

Narrated Saiyar bin Salama: I along with my father went to Abu- Barza Al-Aslami and my father asked him, "How Allah’s Apostle used to offer the five compulsory congregational prayers?” Abu- Barza said, "The Prophet used to pray the Zuhr prayer which you (people) call the first one at midday when the sun had just declined The `Asr prayer at a time when after the prayer, a man could go to the house at the farthest place in Medina (and arrive) while the sun was still hot. (I forgot about the Maghrib prayer). The Prophet Loved to delay the `Isha which you call Al- `Atama [??] and he disliked sleeping before it and speaking after it. After the Fajr prayer he used to leave when a man could recognize the one sitting beside him and he used to recite between 60 to 100 Ayat (in the Fajr prayer) .

اس پوسٹ کو آگے نشر کریں