1: حدیث اعراب کے ساتھ:[sta_anchor id=”top”]
2: حدیث عربی رسم الخط میں بغیراعراب کے ساتھ:
3: حدیث اردو رسم الخط میں بغیراعراب کے ساتھ:
[/quote]
حدیث اعراب کے ساتھ: ⇪ [sta_anchor id=”artash”]
حدیث نمبر:557
حدیث عربی بغیراعراب کے ساتھ: ⇪ [sta_anchor id=”arnotash”]
حدیث اردو رسم الخط میں بغیراعراب کے ساتھ: ⇪ [sta_anchor id=”urnotash”]
557 ـ حدثنا عبد العزیز بن عبد اللہ، قال حدثنی ابراہیم، عن ابن شہاب، عن سالم بن عبد اللہ، عن ابیہ، انہ اخبرہ انہ، سمع رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم یقول ” انما بقاوکم فیما سلف قبلکم من الامم کما بین صلاۃ العصر الى غروب الشمس، اوتی اہل التوراۃ التوراۃ فعملوا حتى اذا انتصف النہار عجزوا، فاعطوا قیراطا قیراطا، ثم اوتی اہل الانجیل الانجیل فعملوا الى صلاۃ العصر، ثم عجزوا، فاعطوا قیراطا قیراطا، ثم اوتینا القران فعملنا الى غروب الشمس، فاعطینا قیراطین قیراطین، فقال اہل الکتابین اى ربنا اعطیت ہولاء قیراطین قیراطین، واعطیتنا قیراطا قیراطا، ونحن کنا اکثر عملا، قال قال اللہ عز وجل ہل ظلمتکم من اجرکم من شىء قالوا لا، قال فہو فضلی اوتیہ من اشاء ”.
اردو ترجمہ: ⇪ [sta_anchor id=”urdtrjuma”]
حدیث کی اردو تشریح: ⇪ [sta_anchor id=”urdtashree”]
تشریح : اس حدیث سے حنفیہ نے دلیل لی ہے کہ عصر کا وقت دومثل سائے سے شروع ہوتاہے ورنہ جو وقت ظہر سے عصر تک ہے وہ اس وقت سے زیادہ نہیں ٹھہرے گا جو عصر سے غروب آفتاب تک ہے، حالانکہ مخالف کہہ سکتاہے کہ حدیث میں عصرکی نماز سے غروب آفتاب تک کا وقت اس وقت سے کم رکھا گیاہے جو دوپہردن سے عصر کی نماز تک ہے۔ اور اگرایک مثل سایہ پر عصر کی نماز ادا کی جائے جب بھی نماز سے فارغ ہونے کے بعد سے غروب تک جو وقت ہوگا وہ دوپہر سے تابفراغت از نماز عصر کم ہوگا، کیونکہ نماز کے لیے اذان ہوگی، لوگ جمع ہوں گے، وضو کریں گے، سنتیں پڑھیں گے، اس کے علاوہ حدیث کا یہ مطلب ہوسکتاہے کہ مسلمانوں کا وقت یہود ونصاریٰ کے مجموعی وقت سے کم تھا۔ اور اس میں کوئی شک نہیں۔
اس حدیث کو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اس باب میں لائے اس کی مناسبت بیان کرنا مشکل ہے، حافظ نے کہا اس سے اور اس کے بعد والی حدیث سے یہ نکلتاہے کہ کبھی عمل کے ایک جزو پر پوری مزدوری ملتی ہے اسی طرح جو کوئی فجریاعصر کی ایک رکعت پالے، اس کو بھی اللہ ساری نماز کا وقت پر پڑھنے کا ثواب دے سکتاہے۔ ( اس حدیث میں مسلمانوں کا ذکر بھی ہواہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ) کام توکیا صرف عصر سے مغرب تک، لیکن سارے دن کی مزدوری ملی۔ و جہ یہ کہ انھوں نے شرط پوری کی، شام تک کام کیا، اورکام کو پورا کیا۔ اگلے دو گروہوں نے اپنا نقصان آپ کیا۔ کام کو ادھورا چھوڑکر بھاگ گئے۔ محنت مفت گئی۔
یہ مثالیں یہودونصاریٰ اورمسلمانوں کی ہیں۔ یہودیوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کومانا اور توراۃ پر چلے لیکن اس کے بعدانجیل مقدس اورقرآن شریف سے منحرف ہوگئے اورحضرت عیسیٰ علیہ السلام اورحضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو انھوں نے نہ مانا۔ اورنصاریٰ نے انجیل اور حضرت عیسیٰ کو مانا لیکن قرآن شریف اورحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے منحرف ہوگئے توان دونوں فرقوں کی محنت برباد ہوگئی۔ آخرت میں جو اجرملنے والا تھا، اس سے محروم رہے۔ آخر زمانہ میں مسلمان آئے اورانھوں نے تھوڑی سی مدت کام کیا۔ مگر کام کو پورا کردیا۔ اللہ تعالیٰ کی سب کتابوں اورسب نیبوں کو مانا، لہٰذا سارا ثواب ان ہی کے حصہ میں آگیا۔ ذلک فضل اللہ یوتیہ من یشاءواللہ ذوالفضل العظیم ( از حضرت مولانا وحیدالزماں خاں صاحب محدث حیدرآبادی رحمۃ اللہ علیہ )
۔
English Translation:[sta_anchor id=”engtrans”] ⇪