صحیح بخاری جلد اول :مواقیت الصلوات (اوقات نماز کا بیان) : حدیث:-602

كتاب مواقيت الصلاة
کتاب: اوقات نماز کے بیان میں
THE BOOK OF THE TIMES OF AS-SALAT (THE PRAYERS) AND ITS SUPERIORITY.
41- بَابُ السَّمَرِ مَعَ الضَّيْفِ وَالأَهْلِ:
باب: اپنی بیوی یا مہمان سے رات کو (عشاء کے بعد) گفتگو کرنا۔
حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ ، قَالَ : حَدَّثَنَا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا أَبُو عُثْمَانَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ ، أَنَّ أَصْحَابَ الصُّفَّةِ كَانُوا أُنَاسًا فُقَرَاءَ ، وَأَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : ” مَنْ كَانَ عِنْدَهُ طَعَامُ اثْنَيْنِ فَلْيَذْهَبْ بِثَالِثٍ ، وَإِنْ أَرْبَعٌ فَخَامِسٌ أَوْ سَادِسٌ ، وَأَنَّ أَبَا بَكْرٍ جَاءَ بِثَلَاثَةٍ ، فَانْطَلَقَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعَشَرَةٍ ، قَالَ : فَهُوَ أَنَا وَأَبِي وَأُمِّي ، فَلَا أَدْرِي ، قَالَ : وَامْرَأَتِي وَخَادِمٌ بَيْنَنَا وَبَيْنَ بَيْتِ أَبِي بَكْرٍ ، وَإِنَّ أَبَا بَكْرٍ تَعَشَّى عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ لَبِثَ حَيْثُ صُلِّيَتِ الْعِشَاءُ ، ثُمَّ رَجَعَ فَلَبِثَ حَتَّى تَعَشَّى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَجَاءَ بَعْدَ مَا مَضَى مِنَ اللَّيْلِ مَا شَاءَ اللَّهُ ، قَالَتْ لَهُ امْرَأَتُهُ : وَمَا حَبَسَكَ عَنْ أَضْيَافِكَ أَوْ قَالَتْ ضَيْفِكَ ، قَالَ : أَوَمَا عَشَّيْتِيهِمْ ، قَالَتْ : أَبَوْا حَتَّى تَجِيءَ ، قَدْ عُرِضُوا فَأَبَوْا ، قَالَ : فَذَهَبْتُ أَنَا فَاخْتَبَأْتُ ، فَقَالَ : يَا غُنْثَرُ ، فَجَدَّعَ وَسَبَّ ، وَقَالَ كُلُوا لَا هَنِيئًا ، فَقَالَ : وَاللَّهِ لَا أَطْعَمُهُ أَبَدًا وَايْمُ اللَّهِ مَا كُنَّا نَأْخُذُ مِنْ لُقْمَةٍ إِلَّا رَبَا مِنْ أَسْفَلِهَا أَكْثَرُ مِنْهَا ، قَالَ : يَعْنِي حَتَّى شَبِعُوا وَصَارَتْ أَكْثَرَ مِمَّا كَانَتْ قَبْلَ ذَلِكَ ، فَنَظَرَ إِلَيْهَا أَبُو بَكْرٍ فَإِذَا هِيَ كَمَا هِيَ أَوْ أَكْثَرُ مِنْهَا ، فَقَالَ لِامْرَأَتِهِ : يَا أُخْتَ بَنِي فِرَاسٍ ، مَا هَذَا ؟ قَالَتْ : لَا وَقُرَّةِ عَيْنِي ، لَهِيَ الْآنَ أَكْثَرُ مِنْهَا قَبْلَ ذَلِكَ بِثَلَاثِ مَرَّاتٍ ، فَأَكَلَ مِنْهَا أَبُو بَكْرٍ وَقَالَ : إِنَّمَا كَانَ ذَلِكَ مِنَ الشَّيْطَانِ يَعْنِي يَمِينَهُ ، ثُمَّ أَكَلَ مِنْهَا لُقْمَةً ، ثُمَّ حَمَلَهَا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَصْبَحَتْ عِنْدَهُ ، وَكَانَ بَيْنَنَا وَبَيْنَ قَوْمٍ عَقْدٌ فَمَضَى الْأَجَلُ فَفَرَّقَنَا اثْنَا عَشَرَ رَجُلًا مَعَ كُلِّ رَجُلٍ مِنْهُمْ أُنَاسٌ اللَّهُ أَعْلَمُ كَمْ مَعَ كُلِّ رَجُلٍ ، فَأَكَلُوا مِنْهَا أَجْمَعُونَ أَوْ كَمَا قَالَ ” .
حدیث عربی بغیراعراب کے ساتھ:        [sta_anchor id=”arnotash”] 
602 ـ حدثنا أبو النعمان، قال حدثنا معتمر بن سليمان، قال حدثنا أبي، حدثنا أبو عثمان، عن عبد الرحمن بن أبي بكر، أن أصحاب الصفة، كانوا أناسا فقراء، وأن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏”‏ من كان عنده طعام اثنين فليذهب بثالث، وإن أربع فخامس أو سادس ‏”‏‏.‏ وأن أبا بكر جاء بثلاثة فانطلق النبي صلى الله عليه وسلم بعشرة، قال فهو أنا وأبي وأمي، فلا أدري قال وامرأتي وخادم بيننا وبين بيت أبي بكر‏.‏ وإن أبا بكر تعشى عند النبي صلى الله عليه وسلم ثم لبث حيث صليت العشاء، ثم رجع فلبث حتى تعشى النبي صلى الله عليه وسلم فجاء بعد ما مضى من الليل ما شاء الله، قالت له امرأته وما حبسك عن أضيافك ـ أو قالت ضيفك ـ قال أوما عشيتيهم قالت أبوا حتى تجيء، قد عرضوا فأبوا‏.‏ قال فذهبت أنا فاختبأت فقال يا غنثر، فجدع وسب، وقال كلوا لا هنيئا‏.‏ فقال والله لا أطعمه أبدا، وايم الله ما كنا نأخذ من لقمة إلا ربا من أسفلها أكثر منها‏.‏ قال يعني حتى شبعوا وصارت أكثر مما كانت قبل ذلك، فنظر إليها أبو بكر فإذا هي كما هي أو أكثر منها‏.‏ فقال لامرأته يا أخت بني فراس ما هذا قالت لا وقرة عيني لهي الآن أكثر منها قبل ذلك بثلاث مرات‏.‏ فأكل منها أبو بكر وقال إنما كان ذلك من الشيطان ـ يعني يمينه ـ ثم أكل منها لقمة، ثم حملها إلى النبي صلى الله عليه وسلم فأصبحت عنده، وكان بيننا وبين قوم عقد، فمضى الأجل، ففرقنا اثنا عشر رجلا، مع كل رجل منهم أناس، الله أعلم كم مع كل رجل فأكلوا منها أجمعون، أو كما قال‏.‏
الخط میں بغیراعراب کے ساتھ:   [sta_anchor id=”urnotash”]
604 ـ حدثنا ابو النعمان، قال حدثنا معتمر بن سلیمان، قال حدثنا ابی، حدثنا ابو عثمان، عن عبد الرحمن بن ابی بکر، ان اصحاب الصفۃ، کانوا اناسا فقراء، وان النبی صلى اللہ علیہ وسلم قال ‏”‏ من کان عندہ طعام اثنین فلیذہب بثالث، وان اربع فخامس او سادس ‏”‏‏.‏ وان ابا بکر جاء بثلاثۃ فانطلق النبی صلى اللہ علیہ وسلم بعشرۃ، قال فہو انا وابی وامی، فلا ادری قال وامراتی وخادم بیننا وبین بیت ابی بکر‏.‏ وان ابا بکر تعشى عند النبی صلى اللہ علیہ وسلم ثم لبث حیث صلیت العشاء، ثم رجع فلبث حتى تعشى النبی صلى اللہ علیہ وسلم فجاء بعد ما مضى من اللیل ما شاء اللہ، قالت لہ امراتہ وما حبسک عن اضیافک ـ او قالت ضیفک ـ قال اوما عشیتیہم قالت ابوا حتى تجیء، قد عرضوا فابوا‏.‏ قال فذہبت انا فاختبات فقال یا غنثر، فجدع وسب، وقال کلوا لا ہنییا‏.‏ فقال واللہ لا اطعمہ ابدا، وایم اللہ ما کنا ناخذ من لقمۃ الا ربا من اسفلہا اکثر منہا‏.‏ قال یعنی حتى شبعوا وصارت اکثر مما کانت قبل ذلک، فنظر الیہا ابو بکر فاذا ہی کما ہی او اکثر منہا‏.‏ فقال لامراتہ یا اخت بنی فراس ما ہذا قالت لا وقرۃ عینی لہی الان اکثر منہا قبل ذلک بثلاث مرات‏.‏ فاکل منہا ابو بکر وقال انما کان ذلک من الشیطان ـ یعنی یمینہ ـ ثم اکل منہا لقمۃ، ثم حملہا الى النبی صلى اللہ علیہ وسلم فاصبحت عندہ، وکان بیننا وبین قوم عقد، فمضى الاجل، ففرقنا اثنا عشر رجلا، مع کل رجل منہم اناس، اللہ اعلم کم مع کل رجل فاکلوا منہا اجمعون، او کما قال‏.‏
‏‏اردو ترجمہ:   [sta_anchor id=”urdtrjuma”]

´ہم سے ابوالنعمان محمد بن فضل نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے معتمر بن سلیمان نے بیان کیا، ان سے ان کے باپ سلیمان بن طرخان نے، کہا کہ ہم سے ابوعثمان نہدی نے عبدالرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ عنہما سے یہ حدیث بیان کی کہ` اصحاب صفہ نادار مسکین لوگ تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس کے گھر میں دو آدمیوں کا کھانا ہو تو وہ تیسرے (اصحاب صفہ میں سے کسی) کو اپنے ساتھ لیتا جائے۔ اور جس کے ہاں چار آدمیوں کا کھانا ہے تو وہ پانچویں یا چھٹے آدمی کو سائبان والوں میں سے اپنے ساتھ لے جائے۔ پس ابوبکر رضی اللہ عنہ تین آدمی اپنے ساتھ لائے۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دس آدمیوں کو اپنے ساتھ لے گئے۔ عبدالرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ گھر کے افراد میں اس وقت باپ، ماں اور میں تھا۔ ابوعثمان راوی کا بیان ہے کہ مجھے یاد نہیں کہ عبدالرحمٰن بن ابی بکر نے یہ کہا یا نہیں کہ میری بیوی اور ایک خادم جو میرے اور ابوبکر رضی اللہ عنہ دونوں کے گھر کے لیے تھا یہ بھی تھے۔ خیر ابوبکر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں ٹھہر گئے۔ (اور غالباً کھانا بھی وہیں کھایا۔ صورت یہ ہوئی کہ) نماز عشاء تک وہیں رہے۔ پھر (مسجد سے) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حجرہ مبارک میں آئے اور وہیں ٹھہرے رہے تاآنکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی کھانا کھا لیا۔ اور رات کا ایک حصہ گزر جانے کے بعد جب اللہ تعالیٰ نے چاہا تو آپ گھر تشریف لائے تو ان کی بیوی (ام رومان) نے کہا کہ کیا بات پیش آئی کہ مہمانوں کی خبر بھی آپ نے نہ لی، یا یہ کہ مہمان کی خبر نہ لی۔ آپ نے پوچھا، کیا تم نے ابھی انہیں رات کا کھانا نہیں کھلایا۔ ام رومان نے کہا کہ میں کیا کروں آپ کے آنے تک انہوں نے کھانے سے انکار کیا۔ کھانے کے لیے ان سے کہا گیا تھا لیکن وہ نہ مانے۔ عبدالرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ میں ڈر کر چھپ گیا۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے پکارا اے غنثر! (یعنی او پاجی) آپ نے برا بھلا کہا اور کوسنے دئیے۔ فرمایا کہ کھاؤ تمہیں مبارک نہ ہو! اللہ کی قسم! میں اس کھانے کو کبھی نہیں کھاؤں گا۔ (آخر مہمانوں کو کھانا کھلایا گیا) (عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ نے کہا) اللہ گواہ ہے کہ ہم ادھر ایک لقمہ لیتے تھے اور نیچے سے پہلے سے بھی زیادہ کھانا ہو جاتا تھا۔ بیان کیا کہ سب لوگ شکم سیر ہو گئے۔ اور کھانا پہلے سے بھی زیادہ بچ گیا۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے دیکھا تو کھانا پہلے ہی اتنا یا اس سے بھی زیادہ تھا۔ اپنی بیوی سے بولے۔ بنوفراس کی بہن! یہ کیا بات ہے؟ انہوں نے کہا کہ میری آنکھ کی ٹھنڈک کی قسم! یہ تو پہلے سے تین گنا ہے۔ پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بھی وہ کھانا کھایا اور کہا کہ میرا قسم کھانا ایک شیطانی وسوسہ تھا۔ پھر ایک لقمہ اس میں سے کھایا۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بقیہ کھانا لے گئے اور آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ وہ صبح تک آپ کے پاس رکھا رہا۔ عبدالرحمٰن نے کہا کہ ہم مسلمانوں کا ایک دوسرے قبیلے کے لوگوں سے معاہدہ تھا۔ اور معاہدہ کی مدت پوری ہو چکی تھی۔ (اس قبیلہ کا وفد معاہدہ سے متعلق بات چیت کرنے مدینہ میں آیا ہوا تھا) ہم نے ان میں سے بارہ آدمی جدا کئے اور ہر ایک کے ساتھ کتنے آدمی تھے اللہ کو ہی معلوم ہے ان سب نے ان میں سے کھایا۔ عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ نے کچھ ایسا ہی کہا۔

حدیث کی اردو تشریح:   [sta_anchor id=”urdtashree”]

تشریح : حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے مہمانوں کو گھر بھیج دیا تھا اور گھر والوں کو کہلوا بھیجا تھا کہ مہمانوں کو کھانا کھلادیں۔ لیکن مہمان یہ چاہتے تھے کہ آپ ہی کے ساتھ کھانا کھائیں۔ ادھر آپ مطمئن تھے۔ اس لیے یہ صورت پیش آئی۔ پھر آپ کے آنے پر انھوں نے کھانا کھایا۔ دوسری روایتوں میں یہ بھی ہے کہ سب نے پیٹ بھر کر کھانا کھالیا۔ اور اس کے بعد بھی کھانے میں کوئی کمی نہیں ہوئی۔ یہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی کرامت تھی۔ کرامت ِاولیاء برحق ہے۔ مگراہل بدعت نے جو جھوٹی کرامتیں گھڑلی ہیں۔ وہ محض لایعنی ہیں۔ اللہ تعالیٰ انھیں ہدایت دے۔ 

English Translation:[sta_anchor id=”engtrans”] 

Narrated Abu `Uthman: `Abdur Rahman bin Abi Bakr said, "The Suffa Companions were poor people and the Prophet said, ‘Whoever has food for two persons should take a third one from them (Suffa companions). And whosoever has food for four persons he should take one or two from them’ Abu Bakr took three men and the Prophet took ten of them.” `Abdur Rahman added, my father my mother and I were there (in the house). (The sub-narrator is in doubt whether `Abdur Rahman also said, ‘My wife and our servant who was common for both my house and Abu Bakr’s house). Abu Bakr took his supper with the Prophet and remained there till the `Isha’ prayer was offered. Abu Bakr went back and stayed with the Prophet till the Prophet took his meal and then Abu Bakr returned to his house after a long portion of the night had passed. Abu Bakr’s wife said, ‘What detained you from your guests (or guest)?’ He said, ‘Have you not served them yet?’ She said, ‘They refused to eat until you come. The food was served for them but they refused.” `Abdur Rahman added, "I went away and hid myself (being afraid of Abu Bakr) and in the meantime he (Abu Bakr) called me, ‘O Ghunthar (a harsh word)!’ and also called me bad names and abused me and then said (to his family), ‘Eat. No welcome for you.’ Then (the supper was served). Abu Bakr took an oath that he would not eat that food. The narrator added: By Allah, whenever any one of us (myself and the guests of Suffa companions) took anything from the food, it increased from underneath. We all ate to our fill and the food was more than it was before its serving. Abu Bakr looked at it (the food) and found it as it was before serving or even more than that. He addressed his wife (saying) ‘O the sister of Bani Firas! What is this?’ She said, ‘O the pleasure of my eyes! The food is now three times more than it was before.’ Abu Bakr ate from it, and said, ‘That (oath) was from Satan’ meaning his oath (not to eat). Then he again took a morsel (mouthful) from it and then took the rest of it to the Prophet. So that meal was with the Prophet. There was a treaty between us and some people, and when the period of that treaty had elapsed the Prophet divided us into twelve (groups) (the Prophet’s companions) each being headed by a man. Allah knows how many men were under the command of each (leader). So all of them (12 groups of men) ate of that meal.”

اس پوسٹ کو آگے نشر کریں