Search

صحیح بخاری جلد اول : كتاب العلم (علم کا بیان) : حدیث 63

كتاب العلم
کتاب: علم کے بیان میں
THE BOOK OF KNOWLEDGE
 
6- بَابُ مَا جَاءَ فِي الْعِلْمِ:
باب: شاگرد کا استاد کے سامنے پڑھنا اور اس کو سنانا۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلاَمٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ الْوَاسِطِيُّ عَنْ عَوْفٍ عَنِ الْحَسَنِ قَالَ لاَ بَأْسَ بِالْقِرَاءَةِ عَلَى الْعَالِمِ. وَأَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ الْفِرَبْرِيُّ وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ الْبُخَارِيُّ قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى عَنْ سُفْيَانَ قَالَ إِذَا قُرِئَ عَلَى الْمُحَدِّثِ فَلاَ بَأْسَ أَنْ يَقُولَ حَدَّثَنِي. قَالَ وَسَمِعْتُ أَبَا عَاصِمٍ يَقُولُ عَنْ مَالِكٍ وَسُفْيَانَ الْقِرَاءَةُ عَلَى الْعَالِمِ وَقِرَاءَتُهُ سَوَاءٌ.
ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن حسن واسطی نے بیان کیا، کہا انہوں نے عوف سے، انہوں نے حسن بصری سے، انہوں نے کہا عالم کے سامنے پڑھنے میں کوئی قباحت نہیں۔ اور ہم سے عبیداللہ بن موسیٰ نے بیان کیا، انہوں نے سفیان ثوری سے سنا، وہ کہتے تھے جب کوئی شخص محدث کو حدیث پڑھ کر سنائے تو کچھ قباحت نہیں اگر یوں کہے کہ اس نے مجھ سے بیان کیا۔ اور میں نے ابوعاصم سے سنا، وہ امام مالک اور سفیان ثوری کا قول بیان کرتے تھے کہ عالم کو پڑھ کر سنانا اور عالم کا شاگردوں کے سامنے پڑھنا دونوں برابر ہیں۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَعِيدٍ هُوَ الْمَقْبُرِيُّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ شَرِيكِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي نَمِرٍ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِك، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ "بَيْنَمَا نَحْنُ جُلُوسٌ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَسْجِدِ، ‏‏‏‏‏‏دَخَلَ رَجُلٌ عَلَى جَمَلٍ فَأَنَاخَهُ فِي الْمَسْجِدِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ عَقَلَهُ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ لَهُمْ:‏‏‏‏ أَيُّكُمْ مُحَمَّدٌ؟ وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُتَّكِئٌ بَيْنَ ظَهْرَانَيْهِمْ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْنَا:‏‏‏‏ هَذَا الرَّجُلُ الْأَبْيَضُ الْمُتَّكِئُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ لَهُ الرَّجُلُ:‏‏‏‏ يَا ابْنَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ قَدْ أَجَبْتُكَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ الرَّجُلُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ إِنِّي سَائِلُكَ، ‏‏‏‏‏‏فَمُشَدِّدٌ عَلَيْكَ فِي الْمَسْأَلَةِ فَلَا تَجِدْ عَلَيَّ فِي نَفْسِكَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ سَلْ عَمَّا بَدَا لَكَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ أَسْأَلُكَ بِرَبِّكَ وَرَبِّ مَنْ قَبْلَكَ، ‏‏‏‏‏‏آللَّهُ أَرْسَلَكَ إِلَى النَّاسِ كُلِّهِمْ؟ فَقَالَ:‏‏‏‏ اللَّهُمَّ نَعَمْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَنْشُدُكَ بِاللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏آللَّهُ أَمَرَكَ أَنْ نُصَلِّيَ الصَّلَوَاتِ الْخَمْسَ فِي الْيَوْمِ وَاللَّيْلَةِ؟ قَالَ:‏‏‏‏ اللَّهُمَّ نَعَمْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَنْشُدُكَ بِاللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏آللَّهُ أَمَرَكَ أَنْ نَصُومَ هَذَا الشَّهْرَ مِنَ السَّنَةِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ اللَّهُمَّ نَعَمْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَنْشُدُكَ بِاللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏آللَّهُ أَمَرَكَ أَنْ تَأْخُذَ هَذِهِ الصَّدَقَةَ مِنْ أَغْنِيَائِنَا فَتَقْسِمَهَا عَلَى فُقَرَائِنَا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ اللَّهُمَّ نَعَمْ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ الرَّجُلُ:‏‏‏‏ آمَنْتُ بِمَا جِئْتَ بِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنَا رَسُولُ مَنْ وَرَائِي مِنْ قَوْمِي، ‏‏‏‏‏‏وَأَنَا ضِمَامُ بْنُ ثَعْلَبَةَ أَخُو بَنِي سَعْدِ بْنِ بَكْرٍ”، ‏‏‏‏‏‏وَرَوَاهُ مُوسَى، ‏‏‏‏‏‏وَعَلِيُّ بْنُ عَبْدِ الْحَمِيدِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سُلَيْمَانَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ثَابِتٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَنَسٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِهَذَا.
عربی رسم الخط میں بغیراعراب کے ساتھ:        [sta_anchor id=”arnotash”] 
63 ـ حدثنا عبد الله بن يوسف، قال حدثنا الليث، عن سعيد ـ هو المقبري ـ عن شريك بن عبد الله بن أبي نمر، أنه سمع أنس بن مالك، يقول بينما نحن جلوس مع النبي صلى الله عليه وسلم في المسجد، دخل رجل على جمل فأناخه في المسجد، ثم عقله، ثم قال لهم أيكم محمد والنبي صلى الله عليه وسلم متكئ بين ظهرانيهم‏.‏ فقلنا هذا الرجل الأبيض المتكئ‏.‏ فقال له الرجل ابن عبد المطلب فقال له النبي صلى الله عليه وسلم ‏”‏ قد أجبتك ‏”‏‏.‏ فقال الرجل للنبي صلى الله عليه وسلم إني سائلك فمشدد عليك في المسألة فلا تجد على في نفسك‏.‏ فقال ‏”‏ سل عما بدا لك ‏”‏‏.‏ فقال أسألك بربك ورب من قبلك، آلله أرسلك إلى الناس كلهم فقال ‏”‏ اللهم نعم ‏”‏‏.‏ قال أنشدك بالله، آلله أمرك أن نصلي الصلوات الخمس في اليوم والليلة قال ‏”‏ اللهم نعم ‏”‏‏.‏ قال أنشدك بالله، آلله أمرك أن نصوم هذا الشهر من السنة قال ‏”‏ اللهم نعم ‏”‏‏.‏ قال أنشدك بالله، آلله أمرك أن تأخذ هذه الصدقة من أغنيائنا فتقسمها على فقرائنا فقال النبي صلى الله عليه وسلم ‏”‏ اللهم نعم ‏”‏‏.‏ فقال الرجل آمنت بما جئت به، وأنا رسول من ورائي من قومي، وأنا ضمام بن ثعلبة أخو بني سعد بن بكر‏.‏ رواه موسى وعلي بن عبد الحميد عن سليمان عن ثابت عن أنس عن النبي صلى الله عليه وسلم بهذا‏.‏
حدیث اردو رسم الخط میں بغیراعراب کے ساتھ:   [sta_anchor id=”urnotash”]
63 ـ حدثنا عبد اللہ بن یوسف، قال حدثنا اللیث، عن سعید ـ ہو المقبری ـ عن شریک بن عبد اللہ بن ابی نمر، انہ سمع انس بن مالک، یقول بینما نحن جلوس مع النبی صلى اللہ علیہ وسلم فی المسجد، دخل رجل على جمل فاناخہ فی المسجد، ثم عقلہ، ثم قال لہم ایکم محمد والنبی صلى اللہ علیہ وسلم متکی بین ظہرانیہم‏.‏ فقلنا ہذا الرجل الابیض المتکی‏.‏ فقال لہ الرجل ابن عبد المطلب فقال لہ النبی صلى اللہ علیہ وسلم ‏”‏ قد اجبتک ‏”‏‏.‏ فقال الرجل للنبی صلى اللہ علیہ وسلم انی سایلک فمشدد علیک فی المسالۃ فلا تجد على فی نفسک‏.‏ فقال ‏”‏ سل عما بدا لک ‏”‏‏.‏ فقال اسالک بربک ورب من قبلک، اللہ ارسلک الى الناس کلہم فقال ‏”‏ اللہم نعم ‏”‏‏.‏ قال انشدک باللہ، اللہ امرک ان نصلی الصلوات الخمس فی الیوم واللیلۃ قال ‏”‏ اللہم نعم ‏”‏‏.‏ قال انشدک باللہ، اللہ امرک ان نصوم ہذا الشہر من السنۃ قال ‏”‏ اللہم نعم ‏”‏‏.‏ قال انشدک باللہ، اللہ امرک ان تاخذ ہذہ الصدقۃ من اغنیاینا فتقسمہا على فقراینا فقال النبی صلى اللہ علیہ وسلم ‏”‏ اللہم نعم ‏”‏‏.‏ فقال الرجل امنت بما جیت بہ، وانا رسول من ورایی من قومی، وانا ضمام بن ثعلبۃ اخو بنی سعد بن بکر‏.‏ رواہ موسى وعلی بن عبد الحمید عن سلیمان عن ثابت عن انس عن النبی صلى اللہ علیہ وسلم بہذا‏.‏

حدیث کا اردو ترجمہ:   [sta_anchor id=”urdtrjuma”]

ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث نے بیان کیا، انہوں نے سعید مقبری سے، انہوں نے شریک بن عبداللہ بن ابی نمر سے، انہوں نے انس بن مالک سے سنا کہ ایک بار ہم مسجد میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے، اتنے میں ایک شخص اونٹ پر سوار ہو کر آیا اور اونٹ کو مسجد میں بٹھا کر باندھ دیا۔ پھر پوچھنے لگا (بھائیو) تم لوگوں میں محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کون سے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت لوگوں میں تکیہ لگائے بیٹھے ہوئے تھے۔ ہم نے کہا () محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) یہ سفید رنگ والے بزرگ ہیں جو تکیہ لگائے ہوئے تشریف فرما ہیں۔ تب وہ آپ سے مخاطب ہوا کہ اے عبدالمطلب کے فرزند! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ کہو میں آپ کی بات سن رہا ہوں۔ وہ بولا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم  سے کچھ دینی باتیں دریافت کرنا چاہتا ہوں اور ذرا سختی سے بھی پوچھوں گا تو آپ اپنے دل میں برا نہ مانئے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا نہیں جو تمہارا دل چاہے پوچھو۔ تب اس نے کہا کہ میں آپ کو آپ کے رب اور اگلے لوگوں کے رب تبارک وتعالیٰ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کیا آپ کو اللہ نے دنیا کے سب لوگوں کی طرف رسول بنا کر بھیجا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں یا میرے اللہ! پھر اس نے کہا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کی قسم دیتا ہوں کیا اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو رات دن میں پانچ نمازیں پڑھنے کا حکم فرمایا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا ہاں یا میرے اللہ! پھر کہنے لگا میں آپ کو اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا اللہ نے آپ کو یہ حکم دیا ہے کہ سال بھر میں اس مہینہ رمضان کے روزے رکھو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں یا میرے اللہ! پھر کہنے لگا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کو اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا اللہ نے آپ کو یہ حکم دیا ہے کہ آپ ہم میں سے جو مالدار لوگ ہیں ان سے زکوٰۃ وصول کر کے ہمارے محتاجوں میں بانٹ دیا کریں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں یا میرے اللہ! تب وہ شخص کہنے لگا جو حکم آپ صلی اللہ علیہ وسلم  اللہ کے پاس سے لائے ہیں، میں ان پر ایمان لایا اور میں اپنی قوم کے لوگوں کا جو یہاں نہیں آئے ہیں بھیجا ہوا (تحقیق حال کے لیے) آیا ہوں۔ میرا نام ضمام بن ثعلبہ ہے، میں بنی سعد بن بکر کے خاندان سے ہوں۔ اس حدیث کو (لیث کی طرح) موسیٰ اور علی بن عبدالحمید نے سلیمان سے روایت کیا، انہوں نے ثابت سے، انہوں نے انس سے، انہوں نے یہی مضمون نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کیا ہے۔

حدیث کی اردو تشریح:   [sta_anchor id=”urdtashree”]

تشریح : مسلم کی روایت میں حج کا بھی ذکر ہے۔ مسنداحمد میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت میں یوں ہے فاناخ بعیرہ علی باب المسجد یعنی اس نے اپنا اونٹ مسجد کے دروازے پر باندھ دیا تھا۔ اس نے بے تکلفی سے سوالات کئے اور آپ بھی بے تکلفی سے جواب دیتے رہے اور لفظ مبارک اللہم نعم کا استعمال فرماتے رہے۔ اللہم تمام اسمائے حسنیٰ کے قائم مقام ہے، اس لیے گویا آپ نے جواب کے وقت اسمائے حسنی کو شامل فرما لیا یہ عربوں کے مح اور کے مطابق بھی تھا کہ وہ وثوق کامل کے مقام پر اللہ کا نام بطور قسم استعمال کرتے تھے۔ ضمام کا آنا99ھ کی بات ہے جیسا کہ محمد بن اسحاق اور ابوعبیدہ وغیرہ کی تحقیق ہے، اس کی تائید طبرانی کی روایت سے ہوتی ہے جس کے راوی ابن عباس ہیں اور ظاہر ہے کہ وہ فتح مکہ کے بعد تشریف لائے تھے۔
حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ ہے کہ عرض وقرات کا طریقہ بھی معتبرہے جیسا کہ ضمام نے بہت سی دینی باتوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیا اور آپ تصدیق فرماتے رہے۔ پھر ضمام اپنی قوم کے ہاں گئے اور انھوں نے ان کا اعتبار کیا اور ایمان لائے۔
حاکم نے اس روایت سے عالی سند کے حصول کی فضیلت پر استدلال کیا ہے۔ کیونکہ ضمام نے اپنے ہاں آپ کے قاصد کے ذریعہ یہ ساری باتیں معلوم کرلی تھیں لیکن پھر خودحاضر ہوکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بالمشافہ ساری باتوں کو معلوم کیا۔ لہٰذا اگرکسی کے پاس کوئی روایت چندواسطوں سے ہو اور کسی شیخ کی اجازت سے ان واسطوں میں کمی آسکتی ہو توملاقات کرکے عالی سند حاصل کرنا بہرحال بڑی فضیلت کی چیز ہے۔

English Translation:[sta_anchor id=”engtrans”] 

Narrated Anas bin Malik: While we were sitting with the Prophet in the mosque, a man came riding on a camel. He made his camel kneel down in the mosque, tied its foreleg and then said: "Who amongst you is Muhammad?” At that time the Prophet was sitting amongst us (his companions) leaning on his arm. We replied, "This white man reclining on his arm.” The man then addressed him, "O Son of `Abdul Muttalib.” The Prophet said, "I am here to answer your questions.” The man said to the Prophet, "I want to ask you something and will be hard in questioning. So do not get angry.” The Prophet said, "Ask whatever you want.” The man said, "I ask you by your Lord, and the Lord of those who were before you, has Allah sent you as an Apostle to all the mankind?” The Prophet replied, "By Allah, yes.” The man further said, "I ask you by Allah. Has Allah ordered you to offer five prayers in a day and night (24 hours).? He replied, "By Allah, Yes.” The man further said, "I ask you by Allah! Has Allah ordered you to observe fasts during this month of the year (i.e. Ramadan)?” He replied, "By Allah, Yes.” The man further said, "I ask you by Allah. Has Allah ordered you to take Zakat (obligatory charity) from our rich people and distribute it amongst our poor people?” The Prophet replied, "By Allah, yes.” Thereupon that man said, "I have believed in all that with which you have been sent, and I have been sent by my people as a messenger, and I am Dimam bin Tha`laba from the brothers of Bani Sa`d bin Bakr.”

اس پوسٹ کو آگے نشر کریں