1: حدیث اعراب کے ساتھ:[sta_anchor id=”top”]
2: حدیث عربی رسم الخط میں بغیراعراب کے ساتھ:
3: حدیث اردو رسم الخط میں بغیراعراب کے ساتھ:
[/quote]
حدیث اعراب کے ساتھ: ⇪ [sta_anchor id=”artash”]
حدیث نمبر:663
حدیث عربی بغیراعراب کے ساتھ: ⇪ [sta_anchor id=”arnotash”]
الخط میں بغیراعراب کے ساتھ: ⇪ [sta_anchor id=”urnotash”]
663 ـ حدثنا عبد العزیز بن عبد اللہ، قال حدثنا ابراہیم بن سعد، عن ابیہ، عن حفص بن عاصم، عن عبد اللہ بن مالک ابن بحینۃ، قال مر النبی صلى اللہ علیہ وسلم برجل. ـ قال وحدثنی عبد الرحمن، قال حدثنا بہز بن اسد، قال حدثنا شعبۃ، قال اخبرنی سعد بن ابراہیم، قال سمعت حفص بن عاصم، قال سمعت رجلا، من الازد یقال لہ مالک ابن بحینۃ ان رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم راى رجلا وقد اقیمت الصلاۃ یصلی رکعتین، فلما انصرف رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم لاث بہ الناس، وقال لہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم ” الصبح اربعا، الصبح اربعا ”. تابعہ غندر ومعاذ عن شعبۃ فی مالک. وقال ابن اسحاق عن سعد عن حفص عن عبد اللہ ابن بحینۃ. وقال حماد اخبرنا سعد عن حفص عن مالک.
اردو ترجمہ: ⇪ [sta_anchor id=”urdtrjuma”]
تشریح : حضرت سیدنا امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہاں جن لفظوں میں باب منعقد کیاہے یہ لفظ خود اس حدیث میں وارد ہوئے ہیں۔ جسے امام مسلم اور سنن والوں نے نکالاہے۔ مسلم بن خالد کی روایت میں اتنا زیادہ اورہے کہ فجر کی سنتیں بھی نہ پڑھے۔
حضرت مولانا وحیدالزماں صاحب محدث حیدرآبادی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ہمارے امام احمدبن حنبل اوراہل حدیث کا یہی قول ہے کہ جب فرض نماز کی تکبیر شروع ہوجائے توپھر کوئی نماز نہ پڑھے نہ فجر کی سنتیں نہ اور کوئی سنت یا فرض، بس اسی فرض میں شریک ہوجائے جس کی تکبیر ہورہی ہے۔
اوربیہقی کی روایت میں جو یہ مذکور ہے الارکعتی الفجر اور حنفیہ نے اس سے دلیل پکڑی کہ فجر کی جماعت ہوتے بھی سنت پڑھنی ضروری ہے، صحیح نہیں ہے۔ اس کی سند میں حجاج بن نصیرمتروک اورعباد بن کثیرمردودہے۔ اہل حدیث کایہ بھی قول ہے کہ اگرکوئی فجر کی سنتیں شروع کرچکا ہو اورفرض کی تکبیر ہو توسنت کو توڑدے اور فرض میں شریک ہوجائے۔
علامہ شوکانی رحمۃ اللہ علیہ نے نیل الاوطار میں اس حدیث بخاری کی شرح میں نواقوال ذکر کئے ہیں۔ حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا مسلک ان لفظوں میں بیان فرمایاہے:انہ ان خشی فوت الرکعتین معا وانہ لایدرک الامام قبل رفعہ من الرکوع فی الثانیۃ دخل معہ والا فلیرکعہما یعنی رکعتی الفجر خارج المسجد ثم یدخل مع الامام اگریہ خطرہ ہو کہ فرض کی ہردو رکعت ہاتھ سے نکل جائیں گی توفجر کی سنتوں کو نہ پڑھے بلکہ امام کے ساتھ مل جائے اوراگراتنا بھی احتمال ہے کہ دوسری رکعت کے رکوع میں امام کے ساتھ مل سکے گا توان دو رکعت سنت فجر کو پڑھ لے پھر فرضوں میں مل جائے۔ اس سلسلہ میں امام صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی دلیل یہ ہے جو بیہقی میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت سے مروی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں: اذااقیمت الصلوٰۃ فلا صلوٰۃ الا المکتوبۃ الا رکعتی الصبح یعنی تکبیر ہوچکنے کے بعد سوائے اس فرض نماز کے اورکوئی نماز جائز نہیں مگر صبح کی دو رکعت سنت۔
امام بیہقی اس حدیث کو نقل کرکے خود فرماتے ہیں: ہذہ الزیادۃ لااصل لہا وفی اسنادہا حجاج بن نصیر وعباد بن کثیر وہما ضعیفان۔ یعنی یہ الارکعتی الفجر والی زیادتی بالکل بے اصل ہے۔ جس کا کوئی ثبوت نہیں اوراس کی سند میں حجاج بن نصیر اورعبادبن کثیرہیں اوریہ دونوں ضعیف ہیں۔ اس لیے یہ زیادتی قطعاً ناقابل اعتبار ہے۔ برخلاف اس کے خود امام بیہقی ہی نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی صحیح روایت ان لفظوں میں نقل کی ہے: عن ابی ہریرۃ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا اقیمت الصلوٰۃ فلا صلوٰۃ الا المکتوبۃ قیل یارسول اللہ ولارکعتی الفجر قال ولا رکعتی الفجر فی اسنادہ مسلم بن خالد الزنجی وہو متکلم فیہ وقد وثقہ ابن حبان واحتج بہ فی صحیحہ یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ جب نماز فرض کی تکبیر ہوجائے تو پھرکوئی اورنماز جائز نہیں۔ کہا گیا کہ فجر کی سنتوں کے بارے میں کیا ارشاد ہے۔ فرمایاکہ وہ بھی جائز نہیں۔ اس حدیث کی سند میں مسلم بن خالد زنجی ہے۔ جس میں کلام کیاگیا ہے۔ مگرامام ابن حبان نے اس کی توثیق کی ہے اور اس کے ساتھ حجت پکڑی ہے۔ علامہ شوکانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس بحث میں آخری نواں قول ان لفظوں میں نقل کیاہے:
انہ اذا سمع الاقامۃ لم یحل لہ الدخول فی رکعتی الفجرولا فی غیرہا من النوافل سواءکان فی المسجد اوخارجہ فان فعل فقد عصی وہو قول اہل الظاہر ونقلہ ابن حزم عن الشافعی وجمہور السلف۔ ( نیل الاوطار )
یعنی تکبیرسن لینے کے بعد نمازی کے لیے فجر کی سنت پڑھنا یااورکسی نماز نفل میں داخل ہونا حلال نہیں ہے۔ وہ مسجد میں ہو یا باہر اگرایسا کیاتووہ خدا اور رسول کا نافرمان ٹھہرا۔ اہل ظاہر کا یہی فتویٰ ہے اورعلامہ ابن حزم نے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اورجمہور سلف سے اسی مسلک کو نقل کیاہے۔
ایک تاریخی مکتوب مبارک: کون اہل علم ہے جو حضرت مولانا احمدعلی صاحب مرحوم سہارن پوری کے نام نامی سے واقف نہیں۔ آپ نے بخاری شریف کے حواشی تحریر فرماکر اہل علم پر ایک احسان عظیم فرمایاہے۔ مگراس بحث کے موقع پر آپ کا قلم بھی جادئہ اعتدال سے ہٹ گیا۔ یعنی آپ نے اسی بےہقی والی روایت کو بطوردلیل نقل کیاہے۔ اوراسے علامہ مولانا محمداسحاق صاحب دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کی طرف منسوب فرمایاہے۔ انصاف کا تقاضاتھا کہ اس روایت پر روایت نقل کرنے والے بزرگ یعنی خود علامہ بیہقی کا فیصلہ بھی نقل کردیا جاتا، مگر ایسا نہیں کیا جس سے متاثرہوکر استاذالاساتذہ شیخ الکل فی الکل حضرت مولانا واستاذنا سیدمحمد نذیرحسین صاحب محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کے نام ایک خط تحریر فرمایاتھا۔ چونکہ یہ خط ایک علمی دستاویز ہے جس سے روشن خیال نوجوان کوبہت سے امور معلوم ہوسکیں گے۔ اس لیے اس کا پورا متن درج ذیل کیاجاتاہے۔ امید کہ قارئین کرام و علمائے عظام اس کے مطالعہ سے محظوظ ہوں گے:
من العاجز النحیف السید محمدنذیر حسین الی المولوی احمدعلی سلمہ اللہ القوی السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ وبعد فاتباعا بحدیث خیرالانام علیہ افضل التحیۃ والسلام الدین النصیحۃ وابتغاءتاس باحسن القول کفی بالمرءاثما ان یحدث بکل ما سمع اظہر بخدمتکم الشریفۃ ان ما وقع من ذلک المکرم فی الحاشیۃ علی صحیح البخاری تحت حدیث اذا اقیمت الصلوٰۃ فلا صلوٰۃ الاالمکتوبۃ سمعت استاذی مولانا محمداسحاق رحمہ اللہ تعالیٰ یقول ورد فی روایۃ البیہقی اذا اقیمت الصلوٰۃ فلا صلوٰۃ الا رکعتی الفجر انتہیٰ۔ جعلہ اکثر طلبۃ العلم بل بعض اکابر زماننا الذین یعتمدون علی قولکم بمروۃ انفسہم یصلون السنۃ ولایبالون فوت الجماعۃ وہذہ الزیادۃ الاستنثناء الاخیرالا رکعتی الفجر لااصل لہا بل مردودۃ مطرودۃ عندالمحققین ولاسیما عندالبیہقی الامین وآفۃ الوضع علی ہذا الحدیث الصحیح انما طرءعن عباد بن کثیر وحجاج بن نصیر بالحاق ہذہ الزیادۃ الاستثناءالاخیر وظنی انکم ایہا الممجد ماسمعتم نقل کلام استاذی العلامۃ البحر الفہامۃ المشتہربین الافآق مولانا محمد اسحاق رحمہ اللہ تعالیٰ خیررحمۃ فی یوم التلاق من البیہقی بالتمام والکمال فان البیہقی قال لا اصل لہا او تسامح من المولانا المرحوم لضعف مزاجہ فی نقلہا والا فلا کلام عند الثقاۃ المحدثین فی بطلان الارکعتی الفجر کما ہو مکتوب الیکم ومعارضہ معروض علیکم قال الشیخ سلام اللہ فی المحلی شرح المؤطا زاد مسلم بن خالد عن عمرو بن دینار فی قولہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا اقیمت الصلوٰۃ فلا صلوٰۃ الا المکتوبۃ قیل یارسول اللہ ولارکعتی الفجر قال ولا رکعتی الفجر اخرجہ ابن عدی وسندہ حسن واما زیادۃ الارکعتی الصبح فی الحدیث فقال البیہقی ہذہ الزیادۃ لااصل لہا انتہی مختصرا وقال التورپشتی وزاد احمدبلفظ فلاصلوٰۃ الاالتی اقیمت وہو اخص وزاد ابن عدی بسند حسن قیل یارسول اللہ ولارکعتی الفجرقال ولارکعتی الفجر وقال الشوکانی وحدیث اذا اقیمت الصلوٰۃ فلاصلوٰۃ الاالمکتوبۃ الارکعتی الصبح قال البیہقی ہذہ الزیادۃ لااصل لہا وقال الشیخ نورالدین فی موضوعاتہ حدیث اذااقیمت الصلوٰۃ فلا صلوٰۃ الاالمکتوبۃ الارکعتی الفجر روی البیہقی عن ابی ہریرۃ وقال ہذہ الزیادۃ لااصل لہا وہکذا فی کتب الموضوعات الاخریٰ فعلیکم والحالۃ ہذہ بصیانۃ الدین اما ان تصححوا الجملۃ الاخیرۃ من کتب ثقات المحققین اوترجعوا وتعلموا طلبتکم ان ہذہ الزیادۃ مردودۃ ولایلیق العمل بہا ولا یعتقد بسنیتہما وہااناارجو الجواب بالصواب فانہ ینبہ الغفلۃ ویوقظ الجہلۃ والسلام مع الاکرام۔ ( اعلام اہل العصر باحکام رکعتی الفجر، ص:36 )
ترجمہ: یہ مراسلہ عاجز نحیف سیّدمحمدنذیرحسین کی طرف سے مولوی احمدعلی سلمہ اللہ القوی کے نام ہے۔ بعد سلام مسنون حدیث خیرالانام علیہ التحیۃ والسلام الدین النصیحۃ ( دین خیرخواہی کا نام ہے ) کی اتباع اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان: کفی بالمرءاثما الحدیث ( انسان کو گنہگار بنانے کے لیے یہی کافی ہے کہ بغیر تحقیق کامل ہرسنی سنائی بات کونقل کردے ) کے پیش نظرآپ کی خدمت شریف میں لکھ رہاہوں کہ آپ مکرم نے بخاری شریف کی حدیث اذا اقیمت الصلوٰۃ الحدیث کے حاشیہ پربیہقی کے حوالہ سے حضرت الاستاذ مولانا محمداسحاق صاحب کا قول نقل فرمایاہے جس سے سنت فجر کا جماعت فرض کی حالت میں پڑھنے کا جواز نکلتاہے۔ آپ کے اس قول پر بھروسا کرکے بہت سے طلبہ بلکہ بعض اکابر عصر حاضر کا یہ عمل ہوگیاہے کہ فرض نماز فجر کی جماعت ہوتی رہتی ہے اور وہ سنتیں پڑھتے رہتے ہیں۔ سوواضح ہو کہ روایت مذکورہ میں بیہقی کے حوالہ سے الارکعتی الفجر والی زیادتی محققین علماءخاص طور پر حضرت علامہ بیہقی کے نزدیک بالکل مردود اورمطرود ہے۔ اورحدیث صحیح روایت کردہ حضرت ابوہریرہ پر یہ اضافہ عبادبن کثیر وحجاج بن نصیر کا وضع کردہ ہے۔ اوراے محترم فاضل! میرا گمان ہے کہ آپ نے حضرت مولانا واستاذناعلامہ فہامہ مولانا محمداسحاق صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا بیہقی سے نقل کردہ قول پورے طور پر نہیں سنا۔ حالانکہ خودامام بیہقی وہاں فرمارہے ہیں کہ یہ قول بالکل بے اصل ہے۔ یاپھر حضرت مولانا ( محمداسحاق مرحوم ) کی طرف سے اس کے نقل میں ان کے ضعف مزاج کی وجہ سے تسامح ہواہے۔ ورنہ الارکعتی الفجر کے لفظوں کے بطلان میں ثقات محدثین کی طرف سے کوئی کلام ہی نہیں۔ جیسا کہ شیخ سلام اللہ صاحب نے محلّی شرح مؤطا میں فرمایاہے کہ مسلم بن خالد نے عمروبن دینار سے نقل کیاہے۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا: اذا اقیمت الصلوٰۃ فلاصلوٰۃ الاالمکتوبۃ توآپ سے پوچھا گیا کہ فجر کی دوسنتوں کے بارے میں کیاارشاد ہے۔ آپ نے فرمایاہاں ولارکعتی الفجر یعنی جب فرض نماز کی تکبیر ہوگئی تواب کوئی نماز حتیٰ کہ دوسنتوں کا پڑھنا بھی جائز نہیں۔ اس کو ابن عدی نے سند حسن کے ساتھ روایت کیاہے۔
اورنقل کردہ زیادتی الارکعتی الفجر کے بارے میں امام بیہقی فرماتے ہیں کہ اس زیادتی کی کوئی اصل نہیں ہے۔ تورپشتی نے کہا کہ احمدنے زیادہ کیا فلا صلوٰۃ الاالتی اقیمتیعنی اس وقت خصوصاً وہی نماز پڑھی جائے گی، جس کی تکبیر کہی گئی ہے۔
اورابن عدی نے سند حسن کے ساتھ زیادہ کیاہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا، کیا نماز فجر کی سنتوں کے بارے میں بھی یہی ارشاد ہے۔ آپ نے فرمایاہاں بوقت جماعت ان کا پڑھنا بھی جائز نہیں۔
امام شوکانی حضرت امام بیہقی سے تحت حدیث اذااقیمت الصلوٰۃ الخمیں زیادتی الارکعتی الفجر کے متعلق نقل کرتے ہیں کہ یہ زیادتی بالکل من گھڑت اوربے اصل ہے۔ شیخ نورالدین نے بھی ان لفظوں کو موضوعات میں شمار کیاہے اوردوسری کتب موضوعات میں بھی یہ صراحت موجود ہے۔
ان حالات میں دین کی حفاظت کے لیے آپ پر لازم ہوجاتاہے کہ یاتوثقات محققین کی کتابوں سے اس کی صحت ثابت فرمائیں۔ یا پھر رجوع فرماکر اپنے طلبا کو آگاہ فرمادیں کہ یہ زیادتی ناقابل عمل اور مردود ہے، ان کے سنت ہونے کا عقیدہ بالکل نہ رکھا جائے۔ میں جواب باصواب کے لیے اُمیدوار ہوں جس سے غافلوں کو تنبیہ ہوگی۔ اوربہت سے جاہلوں کے لیے آگاہی۔ والسلام مع الاکرام۔
جہاں تک بعد کی معلومات ہیں حضرت مولانااحمدعلی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے اس مکتوب کا کوئی جواب نہیں دیا نہ ہی اس غلطی کی اصلاح کی۔ بلکہ آج تک جملہ مطبوعہ بخاری معہ حواشی مولانا مرحوم میں یہ غلط بیانی موجود ہے۔
پس خلاصہ المرام یہ کہ فجر کی جماعت ہوتے ہوئے فرض نماز چھوڑ کر سنتوں میں مشغول ہونا جائز نہیں ہے۔ پھر ان سنتوں کو کب ادا کیا جائے اس کے بارے میں حضرت امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی سنن میں یوں باب منعقد کیاہے:
“ باب ما جاءفیمن تفوتہ الرکعتان قبل الفجر یصلیہما بعد صلوٰۃ الصبح ” باب اس بارے میں جس کی فجر کی یہ دوسنتیں رہ جائیں وہ ان کو نماز فرض کی جماعت کے بعد ادا کرے، اس پر امام ترمذی نے یہ حدیث دلیل میں پیش کی ہے:
عن محمدبن ابراہیم عن جدہ قیس قال خرج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فاقیمت الصلوٰۃ فصلیت معہ الصبح ثم انصرف النبی صلی اللہ علیہ وسلم فوجدنی اصلی فقال مہلا یاقیس اصلاتان معا قلت یارسول اللہ انی لم اکن رکعت رکعتی الفجر قال فلا اذن۔ یعنی محمدبن ابراہیم اپنے دادا قیس کا واقعہ نقل کرتے ہیں کہ ایک دن میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ فجر کی نماز فرض باجماعت ادا کی۔ سلام پھیرنے کے بعد میں نماز میں پھر مشغول ہوگیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مجھے دیکھا توفرمایا کہ اے قیس! کیا دو نمازیں پڑھ رہے ہو؟ میں نے عرض کی۔ حضورمجھ سے فجر کی سنت رہ گئی تھیں ان کو ادا کررہاہوں آپ نے فرمایا۔ پھر کچھ مضائقہ نہیں ہے۔
حضرت امام ترمذی فرماتے ہیں: وقدقال قوم من اہل مکۃ بہذاالحدیث لم یروا باسا ان یصلی الرجل الرکعتین بعد المکتوبۃ قبل ان تطلع الشمس۔ یعنی مکہ والوں میں سے ایک قوم نے اس حدیث کے پیش نظر فتویٰ دیاہے کہ اس میں کوئی حرج نہیں کہ جس کی فجر کی سنتیں رہ جائیں وہ نماز جماعت کے بعد سورج نکلنے سے پہلے ہی ان کو پڑھ لے۔
المحدث الکبیر مولانا عبدالرحمن مبارک پوری مرحوم فرماتے ہیں: اعلم ان قولہ صلی اللہ علیہ وسلم فلا اذن معناہ فلاباس علیک ان تصلیہما حینئذ کماذکرتہ ویدل علیہ روایۃ ابی داؤد فسکت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ( الی ان ) فاذا عرفت ہذا کلہ ظہرلک بطلان قول صاحب العرف الشذی فی تفسیر قولہ فلااذن معناہ فلا تصلی مع ہذا العذر ایضا ای فلااذن للانکار۔ ( تحفۃ الاحوذی ) یعنی جان لے کہ فرمان نبوی فلااذن کا مطلب یہ کہ کوئی حرج نہیں کہ توان کواب پڑھ رہاہے، ابوداؤد میں صراحت یوں ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہوگئے۔ اس تفصیل کے بعد صاحب عرف الشذی کے قول کا بطلان تجھ پر ظاہر ہوگیا۔ جنھوں نے فلا اذنکے معنی انکار کے بتلائے ہیں۔ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لفظ سے اس کو ان سنتوں کے پڑھنے سے روک دیا۔ حالانکہ یہ معنی بالکل غلط ہیں۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: قال ابن عبدالبر وغیرہ الحجۃ عندالتنازع السنۃ فمن ادلی بہا فقد افلح وترک التنفل عنداقامۃ الصلوٰۃ وتدارکھا بعد قضاءالفرض اقرب الی اتباع السنۃ ویتایدذلک من حیث المعنی بان قولہ فی الاقامۃ حی علی الصلوٰۃ معناہ ہلموا الی الصلوٰہ ای التی یقام لہا فاسعد الناس بامتثال ہذاالامر من لم یتشاغل عنہ بغیرہ واللہ اعلم۔ یعنی ابن عبدالبر وغیرہ فرماتے ہیں کہ تنازع کے وقت فیصلہ کن چیز سنت رسول ہے۔ جس نے اس کو لازم پکڑا وہ کامیاب ہوگیا اورتکبیر ہوتے ہی نفل نمازوں کو چھوڑدینا ( جن میں فجر کی سنتیں بھی داخل ہیں ) اوران کو فرضوں سے فارغ ہونے کے بعد ادا کرلینا اتباع سنت کے یہی قریب ہے اوراقامت میں جوحی علی الصلوٰۃ کہا جاتاہے معنوی طور پر اس سے بھی اسی امر کی تائید ہوتی ہے کیونکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس نماز کے لیے آؤ جس کے لیے اقامت کہی جارہی ہے۔ پس خوش نصیب وہی ہے جو اس امر پر فوراً عامل ہواوراس کے سوا اورکسی غیرعمل میں مشغول نہ ہو۔
خلاصہ یہ کہ فجر کی نماز فرض کی جماعت ہوتے ہوئے سنتیں پڑھتے رہنا اور جماعت کو چھوڑ دینا عقلاً و نقلاً کسی طرح بھی مناسب نہیں ہے۔ پھر بھی ہدایت اللہ ہی کے اختیار میں ہے۔