87- بَابُ وَضْعِ الْيُمْنَى عَلَى الْيُسْرَى:
1: حدیث اعراب کے ساتھ:[sta_anchor id=”top”]
2: حدیث عربی رسم الخط میں بغیراعراب کے ساتھ:
3: حدیث اردو رسم الخط میں بغیراعراب کے ساتھ:
[/quote]
حدیث اعراب کے ساتھ: ⇪ [sta_anchor id=”artash”]
حدیث نمبر:740
حدیث عربی بغیراعراب کے ساتھ: ⇪ [sta_anchor id=”arnotash”]
الخط میں بغیراعراب کے ساتھ: ⇪ [sta_anchor id=”urnotash”]
740 ـ حدثنا عبد اللہ بن مسلمۃ، عن مالک، عن ابی حازم، عن سہل بن سعد، قال کان الناس یومرون ان یضع الرجل الید الیمنى على ذراعہ الیسرى فی الصلاۃ. قال ابو حازم لا اعلمہ الا ینمی ذلک الى النبی صلى اللہ علیہ وسلم. قال اسماعیل ینمى ذلک. ولم یقل ینمی.
اردو ترجمہ: ⇪ [sta_anchor id=”urdtrjuma”]
حدیث کی اردو تشریح: ⇪ [sta_anchor id=”urdtashree”]
تشریح : شیخ الحدیث حضرت مولانا عبیداللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: لم یذکر سہل بن سعد فی حدیثہ محل وضع الیدین من الجسد وہو عندنا علی الصدر لما وردفی ذلک من احادیث صریحۃ قویۃ فمنہا حدیث وائل بن حجر قال صلیت مع النبی صلی اللہ علیہ وسلم وضع یدہ الیمنیٰ علی یدہ الیسری علی صدرہ اخرجہ ابن خزیمۃ فی صحیحہ ذکرہ الحافظ فی بلوغ المرام والدرایۃ والتلخیص وفتح الباری والنووی فی الخلاصۃ وشرح المہذب وشرح مسلم للاحتجاج بہ علی ماذہبت الیہ الشافعیۃ من وضع الیدین علی الصدر وذکرہما ہذاالحدیث فی معرض الاحتجاج بہ وسکوتہما عن الکلام فیہ یدل علی ان حدیث وائل ہذا عندہما صحیح اوحسن قابل للاحتجاج الخ۔ ( مرعاۃ المفاتیح )
یعنی حضرت سہل بن سعدنے اس حدیث میں ہاتھوں کے باندھنے کی جگہ کا ذکر نہیں کیااور وہ ہمارے نزدیک سینہ ہے۔ جیسا کہ اس بارے میں کئی احادیث قوی اورصریح موجود ہیں۔ جن میں ایک حدیث وائل بن حجر کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھی۔ آپ نے اپنا دایاں ہاتھ بائیں کے اوپر باندھا اور ان کو سینے پر رکھا۔ اس روایت کو محدث ابن خزیمہ نے اپنی صحیح میں نقل کیا ہے اورحافظ ابن حجر نے اپنی کتاب بلوغ المرام اور درایہ اور تلخیص اور فتح الباری میں ذکر فرمایاہے۔ اورامام نووی نے اپنی کتاب خلاصہ اور شرح مہذب اور شرح مسلم میں ذکر کیاہے اورشافعیہ نے اسی سے دلیل پکڑی ہے کہ ہاتھوں کوسینے پر باندھنا چاہئیے۔ حافظ ابن حجر اورعلامہ نووی نے اس بارے میں اس حدیث سے دلیل لی ہے اور اس حدیث کی سند میں انھوں نے کوئی کلام نہیں کیا، لہٰذا یہ حدیث ان کے نزدیک صحیح یا حسن حجت پکڑنے کے قابل ہے۔
اس بارے میں دوسری دلیل وہ حدیث ہے جسے امام احمدنے اپنی مسند میں روایت کیاہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں۔ حدثنا یحییٰ بن سعید عن سفیان ثنا سماک عن قبیصۃ ابن ہلب عن ابیہ قال رایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ینصرف عن یمینہ وعن یسارہ و رایتہ یضع ہذہ علی صدرہ ووصف یحییٰ الیمنیٰ علی الیسریٰ فوق المفصل ورواۃ ہذاالحدیث کلہم ثقات و اسنادہ متصل۔ ( تحفۃ الاحوذی، ص: 216 ) یعنی ہم نے یحییٰ بن سعید ثوری سے بیان کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم سے سماک نے قبیصہ ابن وہب سے بیان کیا۔ وہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا۔ آپ اپنے دائیں اوربائیں جانب سلام پھیرتے تھے اور میں نے آپ کودیکھا کہ آپ نے اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں پر سینے کے اوپر رکھا تھا۔ اس حدیث کے راوی سب ثقہ ہیں اور اس کی سند متصل ہے۔
تیسری دلیل وہ حدیث ہے جسے امام ابوداؤد نے مراسیل میں اس سند کے ساتھ نقل کیاہے: حدثنا ابوتوبۃ حدثنا الہیثم یعنی ابن حمید عن ثور عن سلیمان بن موسیٰ عن طاؤس قال کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یضع یدہ الیمنیٰ علی یدہ الیسریٰ ثم یشدبہما علی صدرہ۔ ( حوالہ مذکور ) یعنی ہم سے ابوتوبہ نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں کہ ہم سے ہیثم یعنی ابن حمیدنے ثور سے بیان کیا، انھوں نے سلیمان بن موسیٰ سے، انھوں نے طاؤس سے، وہ نقل کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں اپنا دایاں ہاتھ بائیں پر رکھتے اوران کو خوب مضبوطی کے ساتھ ملاکر سینہ پر باندھا کرتے تھے۔ عون المعبود شرح ابوداؤد کے صفحہ: 275 پر یہ حدیث اسی سند کے ساتھ مذکور ہے۔
امام بیہقی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث مرسل ہے۔ اس لیے کہ طاؤس راوی تابعی ہیں اور اس کی سند حسن ہے اور حدیث مرسل حضرت امام ابوحنیفہ، امام مالک و امام احمد رحمۃ اللہ علیہم کے نزدیک مطلقاً حجت ہے۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے اس شرط کے ساتھ تسلیم کیاہے۔ جب اس کی تائید میں کوئی دوسری روایت موجود ہو۔ چنانچہ اس کی تائید حدیث وائل بن حجر اورحدیث باب سے ہوتی ہے جو اوپر ذکر کی گئی ہے۔ پس اس حدیث سے استدلال بالکل درست ہے کہ نماز میں سینہ پر ہاتھ باندھنا سنت نبوی ہے ( صلی اللہ علیہ وسلم )
چوتھی دلیل وہ حدیث ہے جسے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے آیت کریمہ فصل لربک وانحر کی تفسیر میں روایت کیاہے یعنی ضع یدک الیمنی علی الشمال عندالنحر یعنی اپنا دایاں ہاتھ اپنے بائیں پر رکھ کر سینہ پر باندھو۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بھی اس آیت کی تفسیر اسی طرح منقول ہے۔
بیہقی اورابن ابی شیبہ اورابن منذر اورابن ابی حاتم اوردارقطنی وابوالشیخ وحاکم اور ابن مردویہ نے ان حضرات کی اس تفسیر کو ان لفظوں میں نقل کیاہے۔
حضرت امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے اس بارے میں فرمایاہے : ورای بعضہم ان یضعہما فوق السرۃ ورای بعضہم ان یضعہما تحت السرۃ وکل ذلک واسعۃ عندہم یعنی صحابہ رضی اللہ عنہ وتابعین میں بعض نے ناف کے اوپرباندھنا ہاتھ کااختیار کیا۔ بعض نے ناف کے نیچے اوراس بارے میں ان کے نزدیک گنجائش ہے۔
اختلاف مذکور افضلیت سے متعلق ہے اوراس بارے میں تفصیل بالا سے ظاہر ہوگیاہے کہ افضلیت اورترجیح سینہ پر ہاتھ باندھنے کو حاصل ہے۔
ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے والوں کی بڑی دلیل حضرت علی رضی اللہ عنہ کا وہ قول ہے۔ جسے ابوداؤد اوراحمد اورابن ابی شیبہ اور دارقطنی اوربیہقی نے ابوحجیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیاہے کہ ان علیا قال السنۃ وضع الکف علی تحت السرۃ یعنی سنت یہ ہے کہ دائیں ہاتھ کی کلائی کو بائیں ہاتھ کی کلائی پر ناف کے نیچے رکھاجائے۔
المحدث الکبیر مولانا عبدالرحمن صاحب مبارک پوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: قلت فی اسنادہذاالحدیث عبدالرحمن بن اسحاق الواسطی وعلیہ مدارہذاالحدیث وہوضعیف لایصلح للاحتجاج یعنی میں کہتاہوں کہ اس حدیث کی سند میں عبدالرحمن بن اسحاق واسطی ہے جن پر اس روایت کا دارومدارہے اوروہ ضعیف ہے۔ اس لیے یہ روایت دلیل پکڑنے کے قابل نہیں ہے۔
امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ہوحدیث متفق علی تضعیفہ فان عبدالرحمن بن اسحاق ضعیف بالاتفاق یعنی اس حدیث کے ضعیف ہونے پر سب کا اتفاق ہے۔
ان حضرات کی دوسری دلیل وہ روایت ہے جسے ابن ابی شیبہ نے روایت کیاہے جس میں راوی کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا آپ نے نماز میں اپنا دایاںہاتھ بائیں پر رکھا اورآپ کے ہاتھ ناف کے نیچے تھے۔ اس کے متعلق حضرت علامہ شیخ محمد حیات سندھی اپنے مشہورمقالہ “ فتح الغفور فی وضع الایدی علی الصدور ” میں فرماتے ہیں کہ اس روایت میں یہ تحت السرۃ۔ ( ناف کے نیچے ) والے الفاظ راوی کتاب نے سہو سے لکھ دیے ہیں ورنہ میں نے مصنف ابن ابی شیبہ کا صحیح نسخہ خود مطالعہ کیاہے۔ اوراس حدیث کو اس سند کے ساتھ دیکھا ہے مگراس میں تحت السرۃ کے الفاظ مذکور نہیں ہیں۔ اس کی مزید تائیدمسنداحمد کی روایت سے ہوتی ہے جس میں ابن ابی شبیہ ہی کی سند کے ساتھ اسے نقل کیا گیاہے اوراس میں یہ زیادتی لفظ تحت السرۃ والی نہیں ہے، مسنداحمد کی پوری حدیث یہ ہے:
حدثنا وکیع حدثنا موسیٰ بن عمیر العنبری عن علقمۃ بن وائل الحضرمی عن ابیہ قال رایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم واضعا یمینہ علی شمالہ فی الصلوٰۃ یعنی علقمہ بن وائل اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز میں اپنا دایاں ہاتھ بائیں پر رکھے ہوئے دیکھا۔
دارقطنی میں بھی ابن ابی شبیہ ہی کی سند سے یہ روایت مذکور ہے، مگروہاں بھی تحت السرۃ کے الفاظ نہیں ہیں۔ اس بارے میں کچھ اورآثار وروایات بھی پیش کی جاتی ہیں، جن میں سے کوئی بھی قابل حجت نہیں ہے۔
پس خلاصہ یہ کہ نماز میں سینہ پر ہاتھ باندھنا ہی سنت نبوی ہے اوردلائل کی روسے اسی کو ترجیح حاصل ہے۔ جو حضرات اس سنت پر عمل نہیں کرتے نہ کریں مگر ان کو چاہئیے کہ اس سنت کے عاملین پر اعتراض نہ کریں۔ ان پر زبان طنزنہ کھولیں۔ اللہ پاک جملہ مسلمانوں کو نیک سمجھ عطا کرے کہ وہ ان فروعی مسائل پر الجھنے کی عادت پر تائب ہوکر اپنے دوسرے کلمہ گو بھائیوں کے لیے اپنے دلوں میں گنجائش پیدا کریں۔ واللہ ہوالموفق۔
English Translation:[sta_anchor id=”engtrans”] ⇪