[quote arrow=”yes” "]
1: حدیث اعراب کے ساتھ:[sta_anchor id=”top”]
2: حدیث عربی رسم الخط میں بغیراعراب کے ساتھ:
3: حدیث اردو رسم الخط میں بغیراعراب کے ساتھ:
[/quote]
حدیث اعراب کے ساتھ: ⇪ [sta_anchor id=”artash”]
حدیث نمبر:829
.حدیث عربی بغیراعراب کے ساتھ: ⇪ [sta_anchor id=”arnotash”]
829 ـ حدثنا أبو اليمان، قال أخبرنا شعيب، عن الزهري، قال حدثني عبد الرحمن بن هرمز، مولى بني عبد المطلب ـ وقال مرة مولى ربيعة بن الحارث ـ أن عبد الله ابن بحينة ـ وهو من أزد شنوءة وهو حليف لبني عبد مناف، وكان من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم. أن النبي صلى الله عليه وسلم صلى بهم الظهر فقام في الركعتين الأوليين لم يجلس، فقام الناس معه حتى إذا قضى الصلاة، وانتظر الناس تسليمه، كبر وهو جالس، فسجد سجدتين قبل أن يسلم ثم سلم.
829 ـ حدثناابو الیمان، قال اخبرنا شعیب، عن الزہری، قال حدثنی عبد الرحمن بن ہرمز، مولى بنی عبد المطلب ـ وقال مرۃ مولى ربیعۃ بن الحارث ـ ان عبد اللہ ابن بحینۃ ـ وہو من ازد شنوءۃ وہو حلیف لبنی عبد مناف، وکان من اصحاب النبی صلى اللہ علیہ وسلم. ان النبی صلى اللہ علیہ وسلم صلى بہم الظہر فقام فیالرکعتینالاولیین لم یجلس، فقام الناس معہ حتى اذا قضى الصلاۃ، وانتظر الناس تسلیمہ، کبر وہو جالس، فسجد سجدتین قبل ان یسلم ثم سلم.
اردو ترجمہ: ⇪ [sta_anchor id=”urdtrjuma”]
تشریح : علامہ شوکانی رحمہ اللہ نے اس مسئلہ پر یوں باب منعقد فرمایا ہے باب الامر بالتشھد الاول وسقوطہ بالسھو یعنی تشہد اول کے لیے حکم ہے اور وہ بھول سے رہ جائے تو سجدہ سہو سے ساقط ہو جاتا ہے۔ حدیث ابن مسعود رضی اللہ عنہ میں جو لفظ “فقولا التحیات”وارد ہوئے ہیں اس پر علامہ فرماتے ہیںفیہ دلیل لمن قال بوجوب التشھد الاوسط وھو احمد فی المشھود عینہ واللیث واسحاق وھو قول الشافعی والیہ ذھب داود ابو ثور ورواہ النووی عن جمھور المحدثین یعنی اس میں ان حضرات کی دلیل ہے جو درمیانی تشہد کو واجب کہتے ہیں امام احمد سے بھی یہی منقول ہے اور دیگر ائمہ مذکورین سے بھی بلکہ امام نووی رحمہ اللہ نے اسے جمہور محدثین کرام رحمہ اللہ سے نقل فرمایاہے۔
حدیث مذکور سے امام بخاری رحمہ اللہ نے یہی ثابت فرمایا ہے کہ تشہد اول اگر فرض ہوتا تو آپ اسے ضرور لوٹاتے مگریہ ایسا ہے کہ اگر رہ جائے تو سجدہ سہو سے اس کی تلافی ہو جاتی ہے۔ روایت میں عبداللہ بن بحینہ کے حلیف ہونے کا ذکر ہے عہد جاہلیت میں اگر کوئی شخص یا قبیلہ کسی دوسرے سے یہ عہد کر لیتا کہ میں ہمیشہ تمہارے ساتھ رہوں گا، تمہارے دوست کا دوست اور دشمن کا دشمن تو اسے اس قوم کا حلیف کہا جاتا تھا صحابی مذکوربنی عبد مناف کے حلیف تھے۔
English Translation:[sta_anchor id=”engtrans”] ⇪