Search

صحیح بخاری جلد اول :كتاب الأذان(صفة الصلوة) (اذان کے مسائل کے بیان میں («صفة الصلوة»)) : حدیث:-840

كتاب الأذان (صفة الصلوة)
کتاب: اذان کے مسائل کے بیان میں («صفة الصلوة»)
The Book of Adhan (Sufa-tus-Salat)
154- بَابُ مَنْ لَمْ يَرَ رَدَّ السَّلاَمِ عَلَى الإِمَامِ وَاكْتَفَى بِتَسْلِيمِ الصَّلاَةِ:
باب: اس بارے میں کہ امام کو سلام کرنے کی ضرورت نہیں، صرف نماز کے دو سلام کافی ہیں۔
(154) Chapter. Whoever did not say (a Taslim) in addition to the Taslim of the Imam but thought that Taslim of the Salat (prayer) was sufficient.
قَالَ : سَمِعْتُ عِتْبَانَ بْنَ مَالِكٍ الْأَنْصارِيَّ ، ثُمَّ أَحَدَ بَنِي سَالِمٍ ، قَالَ : كُنْتُ أُصَلِّي لِقَوْمِي بَنِي سَالِمٍ ، فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقُلْتُ : ” إِنِّي أَنْكَرْتُ بَصَرِي وَإِنَّ السُّيُولَ تَحُولُ بَيْنِي وَبَيْنَ مَسْجِدِ قَوْمِي ، فَلَوَدِدْتُ أَنَّكَ جِئْتَ فَصَلَّيْتَ فِي بَيْتِي مَكَانًا حَتَّى أَتَّخِذَهُ مَسْجِدًا ، فَقَالَ : أَفْعَلُ إِنْ شَاءَ اللَّهُ ، فَغَدَا عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَكْرٍ مَعَهُ بَعْدَ مَا اشْتَدَّ النَّهَارُ ، فَاسْتَأْذَنَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَأَذِنْتُ لَهُ فَلَمْ يَجْلِسْ حَتَّى ، قَالَ : أَيْنَ تُحِبُّ أَنْ أُصَلِّيَ مِنْ بَيْتِكَ ؟ فَأَشَارَ إِلَيْهِ مِنَ الْمَكَانِ الَّذِي أَحَبَّ أَنْ يُصَلِّيَ فِيهِ ، فَقَامَ فَصَفَفْنَا خَلْفَهُ ، ثُمَّ سَلَّمَ وَسَلَّمْنَا حِينَ سَلَّمَ ” . 

.حدیث عربی بغیراعراب کے ساتھ:        [sta_anchor id=”arnotash”]

840 ـ قال سمعت عتبان بن مالك الأنصاري، ثم أحد بني سالم قال كنت أصلي لقومي بني سالم، فأتيت النبي صلى الله عليه وسلم فقلت إني أنكرت بصري، وإن السيول تحول بيني وبين مسجد قومي، فلوددت أنك جئت فصليت في بيتي مكانا، حتى أتخذه مسجدا فقال ‏”‏ أفعل إن شاء الله ‏”‏‏.‏ فغدا على رسول الله صلى الله عليه وسلم وأبو بكر معه بعد ما اشتد النهار، فاستأذن النبي صلى الله عليه وسلم فأذنت له، فلم يجلس حتى قال ‏”‏ أين تحب أن أصلي من بيتك ‏”‏‏.‏ فأشار إليه من المكان الذي أحب أن يصلي فيه، فقام فصففنا خلفه ثم سلم، وسلمنا حين سلم‏.‏

حدیث اردو رسم الخط میں بغیراعراب کے ساتھ:   [sta_anchor id=”urnotash”]
840 ـ قال سمعت عتبان بن مالک الانصاری، ثم احد بنی سالم قال کنت اصلی لقومی بنی سالم، فاتیتالنبی صلى اللہ علیہ وسلم فقلت انیانکرت بصری، وان السیول تحول بینی وبین مسجد قومی، فلوددت انک جئت فصلیت فی بیتی مکانا، حتى اتخذہ مسجدا فقال ‏”‏ افعل ان شاء اللہ ‏”‏‏.‏ فغدا على رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم وابو بکر معہ بعد مااشتد النہار، فاستاذن النبی صلى اللہ علیہ وسلم فاذنت لہ، فلم یجلس حتى قال ‏”‏ این تحب ان اصلی من بیتک ‏”‏‏.‏ فاشار الیہ من المکان الذیاحب ان یصلی فیہ، فقام فصففنا خلفہ ثم سلم، وسلمنا حین سلم‏.‏
‏‏‏اردو ترجمہ:   [sta_anchor id=”urdtrjuma”]

´انہوں نے بیان کیا کہ میں نے عتبان بن مالک انصاری سے سنا، پھر بنی سالم کے ایک شخص سے اس کی مزید تصدیق ہوئی۔ عتبان رضی اللہ عنہ نے کہا کہ` میں اپنی قوم بنی سالم کی امامت کیا کرتا تھا۔ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ یا رسول اللہ! میری آنکھ خراب ہو گئی ہے اور (برسات میں) پانی سے بھرے ہوئے نالے میرے اور میری قوم کی مسجد کے بیچ میں رکاوٹ بن جاتے ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ میرے مکان پر تشریف لا کر کسی ایک جگہ نماز ادا فرمائیں تاکہ میں اسے اپنی نماز کے لیے مقرر کر لوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انشاء اللہ تعالیٰ میں تمہاری خواہش پوری کروں گا صبح کو جب دن چڑھ گیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ آپصلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اندر آنے کی) اجازت چاہی اور میں نے دے دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے نہیں بلکہ پوچھا کہ گھر کے کس حصہ میں نماز پڑھوانا چاہتے ہو۔ ایک جگہ کی طرف جسے میں نے نماز پڑھنے کے لیے پسند کیا تھا۔ اشارہ کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم (نماز کے لیے) کھڑے ہوئے اور ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے صف بنائی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرا اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرا تو ہم نے بھی پھیرا۔
حدیث کی اردو تشریح:   [sta_anchor id=”urdtashree”]

تشریح : جمہور فقہاءکے نزدیک نماز میں دو سلام ہیں۔ لیکن امام مالک رحمہ اللہ کے نزدیک تنہا نماز پڑھنے والے کے لیے صرف ایک سلام کافی ہے اورنماز با جماعت ہو رہی ہو تو دو سلام ہونے چاہئیں۔ امام کے لیے بھی اور مقتدی کے لیے بھی۔ لیکن اگر مقتدی امام کے بالکل پیچھے ہے یعنی نہ دائیں جانب نہ بائیں جانب تو اسے تین سلام پھیرنے پڑیںگے۔ ایک دائیں طرف کے مصلیوں کے لیے دوسرا بائیں طرف والوں کے لیے اور تیسرا امام کے لیے۔ گویااس سلام میں بھی انہوں نے ملاقات کے سلام کے آداب کا لحاظ رکھا ہے امام بخاری رحمہ اللہ جمہور کے مسلک کی ترجمانی کر رہے ہیں۔ ( تفہیم البخاری ) حضرت امام بخاری رحمہ اللہ اس حدیث کو کئی جگہ لائے ہیں اور اس سے متعدد مسائل کا استنباط فرمایا ہے۔ یہاں اس حدیث سے باب کا مطلب یوں نکلا کہ ظاہر یہ ہے کہ مقتدیوں کا سلام بھی انحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سلام کی طرح تھا اور اگر مقتدیوں نے کوئی تیسرا سلام کہا ہوتا تو اس کا ضرور بیان کرتے یہ بھی حدیث سے نکلا کہ معذورین کے لیے اور نوافل کے لیے گھر کے کسی حصہ میں نماز کی جگہ متعین کر دیجائے تو اس کی اجازت ہے۔ یہ بھی ثابت ہے کہ کسی واقعی اہل اللہ بزرگ سے اس قسم کی درخواست جائز ہے۔
English Translation:[sta_anchor id=”engtrans”] 

I heard from `Itban bin Malik Al-Ansari, who was one from Bani Salim, saying, "I used to lead my tribe of Bani Salim in prayer. Once I went to the Prophet and said to him, ‘I have weak eyesight and at times the rainwater flood intervenes between me and the mosque of my tribe and I wish that you would come to my house and pray at some place so that I could take that place as a place for praying (mosque). He said, "Allah willing, I shall do that.” Next day Allah’s Apostle along with Abu Bakr, came to my house after the sun had risen high and he asked permission to enter. I gave him permission, but he didn’t sit till he said to me, "Where do you want me to pray in your house?” I pointed to a place in the house where I wanted him to pray. So he stood up for the prayer and we aligned behind him. He completed the prayer with Taslim and we did the same simultaneously.”

اس پوسٹ کو آگے نشر کریں