[quote arrow=”yes” "]
1: حدیث اعراب کے ساتھ:[sta_anchor id=”top”]
2: حدیث عربی رسم الخط میں بغیراعراب کے ساتھ:
3: حدیث اردو رسم الخط میں بغیراعراب کے ساتھ:
[/quote]
حدیث اعراب کے ساتھ: ⇪ [sta_anchor id=”artash”]
حدیث نمبر:873
.حدیث عربی بغیراعراب کے ساتھ: ⇪ [sta_anchor id=”arnotash”]
873 ـ حدثنا مسدد، حدثنا يزيد بن زريع، عن معمر، عن الزهري، عن سالم بن عبد الله، عن أبيه، عن النبي صلى الله عليه وسلم. ” إذا استأذنت امرأة أحدكم فلا يمنعها ”.
.
حدیث اردو رسم الخط میں بغیراعراب کے ساتھ: ⇪ [sta_anchor id=”urnotash”]
881 ـ حدثنا مسدد، حدثنا یزید بن زریع، عن معمر، عن الزہری، عن سالم بن عبد اللہ، عن ابیہ، عن النبی صلى اللہ علیہ وسلم. ” اذا استاذنت امراۃ احدکم فلا یمنعہا ”.
اردو ترجمہ: ⇪ [sta_anchor id=”urdtrjuma”]
تشریح : اجازت دے اس لیے کہ بیوی کوئی ہماری لونڈی نہیں ہے بلکہ ہماری طرح وہ بھی آزاد ہے صرف معاہدہ نکاح کی وجہ سے وہ ہمارے ما تحت ہے۔ شریعت محمدی میں عورت اور مرد کے حقوق برابر تسلیم کئے گئے ہیں اب اگر اس زمانہ کے مسلمان اپنی شریعت کے برخلاف عورتوں کو قیدی اور لونڈی بنا کر رکھیں تو اس کا الزام ان پر ہے نہ کہ شریعت محمدی پر۔ جن پادریوں نے شریعت محمدی کو بدنام کیا ہے کہ اس شریعت میں عورتوں کو مطلق آزادی نہیں، یہ ان کی نادانی ہے۔ ( مولانا وحید الزماںمرحوم )
حنفیہ کے ہاں مساجد میں نماز کے لیے عورتوں کا آنا درست نہیں ہے، اس سلسلہ میں ان کی بڑی دلیل حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث ہے جس کے الفاظ یہ ہیں قالت لوادرک النبی صلی اللہ علیہ وسلم ما احدث النساءلمنعھن المسجد کما منعت نساءبنی اءسرائیل اخرجہ الشیخان یعنی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے فرمایاکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان چیزوں کو پا لیتے جو آج عورتوں نے نئی ایجاد کر لی ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو مساجد سے منع فرمادیتے جیسا کہ بنی اسرائیل کی عورتوں کو روک دیا گیا تھا۔ اس کے جواب میں المحدث الکبیر علامہ عبد الرحمن مبارک پوری رحمہ اللہ اپنی مشہور کتاب ابکار المنن فی تنقید آثار السنن، ص :101پر فرماتے ہیں لایترتب علی ذلک تغیر الحکم لانھا علقتہ علی شرط لم یوجد بناءعلی ظن ظفتہ فقالت لو رای لمنع فیقال لم یرد ولم یمنع فاستمر الحکم حتی ان عائشۃ لم تصرح بالمنع وان کان کلامھا یشعر بانھا کانت تری المنع وایضا فقد علم اللہ سبحانہ ما سیحدثن فما اوحی الی نبیہ بمنعھن لو کان ما احدثن یستلزم منعھن من المساجد لکان منعھن من غیرھاکالاسواق اولی وایضا فالاحداث انما وقع من بعض النساءلا من جمیعھن فان تعین المنع فلیکن لم احدثت قالہ الحافظ فی فتح الباری( ج:1 ص: 471 ) وقال فیہ والاولی ان ینظر الی ما یخشی منہ الفساد فیجتنب لا شارتہ صلی اللہ علیہ وسلم الی ذلک بمنع التطیب والزینۃ وکذلک التقیید باللیل انتھی اس عبارت کا خلاصہ یہ کہ اس قول عائشہ کی بنا پر مساجد میں عورتوں کی حاضری کا حکم متغیر نہیں ہو سکتا اس لیے کہ حضرت عائشہ نے اسے جس شرط کے ساتھ معلق فرمایا وہ پائی نہیں گئی۔ انہوں نے یہ گمان کیا کہ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دیکھتے تو منع فرمادیتے۔ پس کہا جا سکتا ہے کہ نہ آپ نے دیکھا نہ منع فرمایا پس حکم نبوی اپنی حالت پر جاری رہا یہاں تک کہ خود حضرت عائشہ نے بھی منع کی صراحت نہیں فرمائی اگر چہ ان کے کلام سے منع کے لیے اشارہ نکلتا ہے اور یہ بھی ہے کہ اللہ پاک کو ضرور معلوم تھا کہ آئندہ عورتوں میں کیا کیا نئے امور پیدا ہوں گے مگر پھر بھی اللہ پا ک نے اپنے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف عورتوں کو مساجد سے روکنے کے بارے میں وحی نازل نہیں فرمائی اور اگر عورتوں کی نئی نئی باتوں کی ایجاد پر ان کو مساجد سے روکنا لازم آتا تو مساجد کے علاوہ دوسرے مقامات بازار وغیرہ سے بھی ان کو ضرور ضرور منع کیا جاتا اور یہ بھی ہے کہ نئے نئے امور کا احداث بعض عورتوں سے وقوع میں آیا نہ سب ہی سے۔ پس اگر منع کرنا ہی متعین ہوتا تو صرف ان ہی عورتوں کے لیے ہونا تھا جو احداث کی مرتکب ہوتی ہوں۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری میں ایسا فرمایا ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ بہتر یہ ہے کہ ان امور پر غور کیا جائے جن سے فساد کا ڈر ہو پس ان سے پرہیز کیا جائے جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ عورتوں کے لیے خوشبو استعمال کر کے یا زیب وزینت کر کے نکلنا منع ہے، اسی طرح رات کی بھی قید لگائی گئی۔ مقصد یہ کہ حنفیہ کا قول عائشہ رضی اللہ عنہ کی بنا پر عورتوں کو مساجد سے روکنا درست نہیں ہے اور عورتیں قیود شرعی کے تحت مساجد میں جاکر نماز با جماعت میں شرکت کر سکتی ہیں۔ عیدگاہ میں ان کی حاضری کے لیے خصوصی تاکید ہوئی ہے جیسا کہ اپنے مقام پر مفصل بیان کیا گیا ہے۔
عورات بنی اسرائیل کی مخالفت کے بارے میں حضرت مولانا مرحوم فرماتے ہیں: قلت منع النساءالمساجد کان فی بنی اسرائیل ثم اباح اللہ لھن الخروج الی المساجد لامۃ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ببعض القیود کما قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا استاذنتکم النساءباللیل الی المساجد فاذنوا لھن وقال لا تمنعوااماءاللہ مساجد اللہ الخ ( حوالہ مذکور ) یعنی میں کہتا ہوں کہ عورتوں کو بنی اسرائیل کے دور میں مساجد سے روک دیا گیا تھا پھر امت محمدصلی اللہ علیہ وسلم میں اسے بعض قیود کے ساتھ مباح کر دیا گیا جیسا کہ فرمان رسالت ہے کہ رات میں جب عورتیں تم سے مساجد میں نماز پڑھنے کی اجازت مانگیں تو تم ان کو اجازت دے دو اور فرمایا کہ اللہ کی مساجد سے اللہ کی بندیوں کو منع نہ کرو جیسا کہ یہاں امام بخاری رحمہ اللہ نے صراحت کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔
بخاری شریف میں عبداللہ بن عباس اور حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کی مرویات بکثرت آئی ہیں اس لیے مناسب ہوگا کہ قارئین کرام کو ان بزرگوں کے مختصر حالات زندگی سے واقف کرا دیا جائے تا کہ ان حضرات کی زندگی ہمارے لیے بھی مشعل راہ بن سکے یہاں بھی متعدد احادیث ان حضرات سے مروی ہیں۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ!
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچازاد بھائی تھے والدہ گرامی کا نام ام فضل لبابہ اور باپ کانام حضرت عباس تھا۔ ہجرت سے صرف تین سال پیشتر اس احاطہ میں پیدا ہوئے جہاں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے تمام خاندان والوں کے ساتھ قید محن میں محصور تھے۔ آپ کی والدہ گرامی بہت پیشتر ایمان لا چکی تھیں اور گو آپ کا اسلام لانا فتح مکہ کے بعد کا واقعہ بتایا جاتا ہے تاہم ایک مسلم ماں کی آغوش میں آپ اسلام سے پوری طرح مانوس ہو چکے تھے اور پیدا ہوتے ہی حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا لعاب دہن آپ کے منہ میں پڑچکاتھا۔ بچپن ہی سے آپ کو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے استفاضہ وصحبت کا موقع ملا اور اپنی خالہ ام المؤمنین حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کے یہاں آتے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دعائیں لیتے رہے، اسی عمر میں کئی بار حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھنے کا بھی اتفاق ہوا۔
ابھی تیرہ ہی سال کے تھے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے رحلت فرمائی۔ عہد فاروقی میں سن شباب کو پہنچ کر اس عہد کی علمی صحبتوں میں شریک ہوئے اور اپنے جوہر دماغی کا مظاہرہ کرنے لگے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ آپ کو شیوخ بدر کے ساتھ بٹھایا کرتے تھے اور برابر ہمت افزائی کرتے پیچیدہ مسائل حل کراتے اور ذہانت کی داد دیتے تھے۔ 17ھ میں یہ عالم ہو گیا تھا کہ جب مہم مصرمیں شاہ افریقہ جرجیہ سے مکالمہ ہوا تو وہ آپ کی قابلیت علمی دیکھ کر متحیر رہ گیا تھا۔ 25 ھ میں آپ امیر الحج بنا کر مکہ معظمہ بھیجے گئے اور آپ کی عدم موجودگی ہی میں حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت کا واقعہ ہائلہ پیش آگیا۔
علم وفضل میں آپ کا مرتبہ بہت بلند ہے۔ ایک وحید العصر اور یگانہ روزگار ہستی تھے۔ قرآن، تفسیر، حدیث، فقہ، ادب، شاعری آیات قرآنی کے شان نزول اور ناسخ منسوخ میں اپنی نظیر نہ رکھتے تھے۔ ایک دفعہ شقیق تابعی کے بیان کے مطابق حج کے موقع پر سورۃ نور کی تفسیر جو بیان کی وہ اتنی بہتر تھی اگر اسے فارس اور روم کے لوگ سن لیتے تو یقینااسلام لے آتے ( مستدرک حاکم )
قرآن کریم کے فہم میں بڑے بڑے صحابہ سے بازی لے جاتے تھے۔ تفسیر میں آپ ہمیشہ جامع اور قرین عقل مفہوم کو اختیار کرتے تھے۔ سورۃ کوثر میں لفظ کوثر کی مختلف تفاسیر کی گئیں مگر آپ نے اسے خیر کثیر کے مفہوم سے تعبیر کیا۔ قرآن کریم کی آیت پاک لَا تَحسَبَنَّ الَّذِینَ یَفرَحُونَ بِمَا اَتَوا ( آل عمران : 188 ) الخ یعنی“جو لوگ اپنے کئے پر خوش ہوتے ہیں اور جونہیں کیا ہے اس پر تعریف چاہتے ہیں تو ایسے لوگوں کی نسبت ہرگز یہ خیال نہ کرو کہ وہ عذاب سے بچ جائیں گے بلکہ ان کے لیے درد ناک عذاب ہے۔” یہ چیز فطرت انسانی کے خلاف ہے اور بہت کم لوگ اس جذبہ سے خالی نظر آتے ہیں۔مسلمان اس پر پریشان تھے۔ آخر مروان نے آپ کو بلا کر پوچھا کہ ہم میں سے کون ہے جو اس جذبہ سے خالی ہے۔ فرمایا ہم لوگوں سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ نیز بتایا یہ ان اہل کتاب کے متعلق ہے جن سے حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی امر کے متعلق استفسار کیا، انہوں نے اصل بات کو جو ان کی کتاب میں تھی، چھپا کر ایک فرضی جواب دے دیا اور اس پر خوشنودی کے طالب ہوئے اور اپنی اس چالاکی پر مسرور ہوئے۔ ہمارے نزدیک عام طور پر اس کے یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ جو لوگ خفیہ طور پر درپے آزار رہتے ہیں بظاہر ہمدرد بن کر جڑیں کاٹتے رہتے ہیں اور منہ پر یہ کہتے ہیں کہ ہم نے فلاں خدمت کی،فلاں احسان کیا اور اس پر شکریہ کے طالب ہوتے ہیں اور اپنی چالاکی پر خوش ہوتے اور دل میں کہتے ہیں کہ خوب بے وقوف بنایا وہ لوگ عذاب الہی سے ہرگز نہیں بچ سکتے کہ یہ ایک فریب ہے۔
علم حدیث کے بھی اساطین سمجھے جاتے تھے۔ 1660حادیث آپ سے مروی ہیں۔ عرب کے گوشہ میں پہنچ کر خرمن علم کا انبار لگا لیا۔ فقہ وفرائض میں بھی یگانہ حیثیت حاصل تھی۔ ابوبکر محمد بن موسیٰ ( خلیفہ مامون رشید کے پوتے ) نے آپ کے فتاوی بیس جلدوں میں جمع کئے تھے۔ علم فرائض اور حساب میں بھی ممتاز تھے۔ عربوں میں شاعری لازمہ شرافت سمجھی جاتی تھی بالخصوص قریش کی آتش بیانی تو مشہور تھی۔ آپ شعر گوئی کے ساتھ فصیح بھی تھے۔ تقریر اتنی شیریں ہوتی تھی کہ لوگوں کی زبان سے بے ساختہ مرحبا نکل جاتا تھا۔ غرض یہ کہ آپ اس عہد کے جملہ علوم کے منتہی اور فاضل اجل تھے۔
آپ کا مدرسہ یا حلقہ درس بہت وسیع اور بہت مشہور تھااور دوردور سے لوگ آتے اور اپنی دلچسپی اور مذاق کے مطابق مختلف علوم کی تحصیل کرتے۔ مکان کے سامنے اتنا اژدھام ہوتا تھا کہ آمد ورفت بند ہو جاتی تھی۔ ابو صالح تابعی کا بیان ہے کہ آپ کی علمی مجلس وہ مجلس تھی کہ اگر سارا قریش اس پر فخر کرے تو بھی بجا ہے، ہر فن کے طالب وسائل باری باری آتے اور آپ سے تشفی بخش جواب پاکر واپس لوٹتے۔ واضح رہے کہ اس وقت تک کتابی تعلیم کا رواج نہ ہوا تھااور نہ کتابیں موجود تھیں، علوم وفنون کا انحصار محض حافظہ پر تھا۔ خدا نے اس عہد کی ضرورتوں کے مطابق لوگوں کے حافظے بھی اتنے قوی کر دیئے تھے کہ آج اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ ایک ایک شخص کو دس دس بیس بیس ہزار احادیث اور اشعار کا یاد کر لینا تو ایک عامۃ الورود واقعہ تھا، سات سات اور آٹھ آٹھ لاکھ احادیث کے حافظ موجود تھے۔ جنہیں حافظہ کے ساتھ فہم ذہانت سے بھی حصہ ملا تھا۔ وہ مطلع انوار بن جاتے تھے۔ آج دو ہزار احادیث کے حافظ بھی بمشکل ہی کہیں نظر آتے ہیں اور ہمیں اس زمانے کے بزرگوں کے حافظہ کی داستانیں افسانہ معلوم ہوتی ہیں۔ سفرو حضر ہر حالت میں فیض رسانی کا سلسلہ جاری تھا اور طالبان ہجوم کا ایک سیلاب امنڈا رہتا تھا۔
نومسلموں کی تعلیم وتلقین کے لیے آپ نے مخصوص ترجمان مقرر کر رکھے تھے تاکہ انہیں اپنے سوال میں زحمت نہ ہو ایران وروم تک سے لوگ جوق در جوق چلے آتے تھے، تلامذہ کی تعداد ہزاروں تک پہنچ چکی تھی اور ان میں کثرت ان بزرگوں کی تھی جو حافظہ کے ساتھ ساتھ فہم وفراست اور ذہانت کے بھی حامل تھے۔ علمی مذاکروں کے دن مقرر تھے۔ کسی روز واقعات مغازی کا تذکرہ کرتے۔ کسی دن شعروشاعری کا چرچہ ہوتا۔ کسی روز تفسیر قرآن پر روشنی ڈالتے۔ کسی روز فقہ کا درس دیتے۔ کسی روز ایام عرب کی داستان سناتے۔ بڑے سے بڑا عالم بھی آپ کی صحبت میں بیٹھتا، اس کی گردن بھی آپ کے کمال علم کے سامنے جھک جاتی۔
تمام جلیل القدر اور ذی مرتبہ صحابہ کرام کو آپ کی کم سنی کے باوجود آپ کے فضل وعلم کا اعتراف تھا۔ جضرت فاروق اعظم آپ کے ذہن رسا کی تعریف میں ہمیشہ رطب اللسان رہے۔ حضرت طاؤس یمانی فرمایا کرتے تھے میں نے پانچوں صحابہ کو دیکھا۔ ان میں جب کسی مسئلہ پر اختلاف ہوا تو آخر ی فیصلہ آپ ہی کی رائے پر ہوا۔ حضرت قاسم بن محمد کا بیان ہے کہ آپ سے زیادہ کسی کا فتوی سنت نبوی کے مشابہ نہیں دیکھا۔ حضرت مجاہد تابعی کہا کرتے تھے کہ ہم نے آپ کے فتاویٰ سے بہتر کسی شخص کا فتوی نہیں دیکھا۔ ایک بزرگ تابعی کا بیان ہے کہ میں نے آپ سے زیادہ سنت کا عالم، صائب الرائے اور بڑا دقیق النظر کسی کو نہیں پایا۔ حضرت ابی بن کعب بھی بہت بڑے تھے۔انہوں نے ابتدا ہی میں آپ کی ذہانت وطباعی دیکھ کر فرمایا تھا کہ ایک روز یہ شخص امت کا زبردست عالم اور منتہی فاضل ہوگا۔
تمام معاصرین آپ کی حد درجہ عزت کرتے تھے۔ ایک مرتبہ آپ سوار ہونے لگے تو حضرت زید بن ثابت نے پہلے توآپ کی رکاب تھام لی اور پھر بڑھ کر ہاتھ چومے۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کریم سے غیر معمولی شیفتگی وگرویدگی حاصل تھی۔ جب حضور کی بیماری کی کرب اور وفات کی حالت یاد ہوتی بے قرار ہو جاتے۔ روتے اور بعض اوقات اس قدر روتے کہ ریش مبارک آنسوؤں سے تر ہو جاتی۔ بچپن ہی سے خدمت نبوی میں مسرت حاصل ہونے لگی اور خودحضور بھی آپ سے خدمت لے لےا کرتے تھے۔ احترام کی یہ حالت تھی کہ کم سنی کے باوجود نماز میں بھی آپ کے برابر کھڑا ہونا گستاخی تصور کرتے تھے اور بے حد ادب ملحوظ رکھتے تھے۔ امہات المومنین رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھی عزت وتکریم کے ساتھ پیش آتے رہتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا دی تھی خدا وند ابن عباس کو دین کی سمجھ اور قرآن کی تفسیر کا علم عطا فرما۔ ایک مرتبہ اور آپ کے ادب سے خوش ہو کر آپ کے لیے فہم وفراست کی دعا عطا فرمائی۔ یہ اسی کا نتیجہ تھا کہ آپ جوان ہو کر سرآمدروزگار بن گئے اور مطلع اخلاق روشن ہوگیا۔ صحابہ کے آخرزمانہ میں نو مسلم عجمیوں کے ذریعہ سے خیر وشراور قضا وقدر کی بحث عراق میں پیدا ہو چکی تھی۔ آپ نابینا ہو چکے تھے مگر جب معلوم ہوا کہ ایک شخص تقدیر کا منکر ہے تو آپ نے فرمایا مجھے اس کے پاس لے چلو۔ عرض کی کیا کروگے؟ فرمایا ناک کاٹ لوں گا اور گردن ہاتھ میں آگئی تو اسے توڑ دوں گا کیونکہ میں نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ “تقدیر کا انکار اس امت کا پہلا شرک ہے” میں اس ذات کی قسم کھا کر کہتا ہوں جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ ایسے لوگوں کی بری رائے یہیں تک محدود نہ رہے گی بلکہ جس طرح انہوں نے خدا کو شر کی تقدیر سے معطل کر دیا ہے۔ اسی طرح اس کی خیر کی تقدیر سے بھی منکر ہو جائیں گے۔
یوں تو آپ کی زندگی کا ہر شعبہ اہم ودلکش ہے لیکن جو چیز سب سے زیادہ نمایاں ہے وہ یہ ہے کہ کسی کی طرف سے برائی و مخاصمت کا ظہور اس کی حقیقی عظمت اور خوبیوں کے اعتراف میں مانع نہیں ہوتا تھا۔
حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے خلافت کا دعوی کیا اور آپ کو بھی اپنی بیعت پر مجبور کر نے کی سعی کی، اس زور وشور کے ساتھ کہ جب آپ نے اس سے انکار کیا تو یہی نہیں کہ آپ کو زندہ آگ میں جلا ڈالنے کی دھمکی دی بلکہ آپ کے کاشانہ معلی کے ارد گرد خشک لکڑیوں کے انبار بھی اسی مقصد سے لگوادیئے اور بمشکل آپ کی جانبری ہو سکی۔ اس سے بھی زیادہ یہ کہ انہی کی بدولت جوار حرم چھوڑ کر آپ کو طائف نقل وطن کرنا پڑی۔ ظاہر ہے کہ یہ زیادتیاں تھیں اور آپ کو ان کے ہاتھ سے بہت تکلیف اٹھانا پڑی تھی لیکن جب ابن ملیکہ نے آپ سے کہا ہے کہ لوگوں نے ابن زبیر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت شروع کر دی ہے سمجھ میں نہیں آتا کہ ان کے اندر آخر وہ کون سی خوبیاں اور مفاخر ہیں جن کی بنا پر انہیں ادعائے خلافت کی جرات ہوئی ہے اور اتنے بڑے حوصلہ سے کام لیا ہے۔ فرمایا:“یہ تم نے کیاکہا۔ ابن زبیر رضی اللہ عنہ سے زیادہ مفاخر کا حامل کون ہو سکتا ہے۔ باپ وہ ہیں جو حواری رسول کے معزز لقب سے ملقب تھے۔ ماں اسماءذات النطاق تھیں۔ نانا وہ ہیں جن کا اسم گرامی ابو بکر رضی اللہ عنہ اور“لقب”رفیق غار ہے۔ان کی خالہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی محبوب ترین زوجہ ام المؤمنین حضرت عائشہ تھیں اور ان کے والد محترم کی پھوپھی ام المؤمنین حضرت بی بی خدیجہ رضی اللہ عنہ حرم محترم رسول اکرم تھیں اور دادی حضرت صفیہ خود حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی تھیں، یہ تو ہیں ان کے خاندانی مفاخر۔ ذاتی حیثیت سے بہت بلند اور بے حد ممتاز ہیں، قاری قرآن ہیں، بے مثل بہادر اور عدیم النظیر مدبر ہیں، وہاۃ العرب میں سے ہیں۔بہت پاکباز ہیں۔ ان کی نماز یں پورے خشوع وخضوع کی نمازیں ہیں۔ پھر ان سے زیادہ خلافت کا مستحق کون ہو سکتا ہے، وہ کھڑے ہوئے ہیں اور بجا طور پر کھڑے ہوئے ہیں، ان کا بیعت لینا بجا ہے، خدا کی قسم اگر وہ میرے ساتھ کوئی احسان کریں گے تو یہ ایک عزیزانہ احسان ہوگا اور میری پرورش کریں گے تو یہ اپنے ایک ہمسر محترم کی پرورش ہوگی۔ 67 ھ میں آپ نے وفات پائی۔ انتقال کے وقت آیات کریمہ ( یٰاَیَّتُھَا النَّفسُ المُطمَئِنَّۃُ ) ( الفجر: 27 ) کے مصداق ہوئے رضی اللہ عنہ وارضاہ۔
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما!
حضرت فاروق اعظم کے یگانہ روزگار صاحبزادے اور اپنے عہد کے زبردست جید عالم تھے۔باپ کے اسلام لانے کے وقت آپ کی عمر صرف پانچ سال تھی۔ زمانہ بعثت کے دوسرے سال کتم عدم سے پردہ وجود پر جلوہ افروز ہوئے۔ ہوش سنبھالا تو گھر کے دروبام اسلام کی شعاعوں سے منور تھے۔ باپ کے ساتھ غیر شعوری طور پر اسلام قبول کیا۔ چونکہ مکہ میں ظلم وطغیانی کی گرج برابر بڑھتی جا رہی تھی اس لیے اپنے خاندان والوں کے ساتھ آپ بھی ہجرت کر گئے۔ تیرہ برس ہی کی عمرتھی کہ غزوہ بدر میں شرکت کے لیے بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئے اور کم سنی کی وجہ سے واپس کر دیئے گئے۔ اگلے سال غزوہ احد میں بھی اسی بنا پر شریک نہ کئے گئے۔ البتہ پندرہ سال کی عمر ہوجانے پر غزوہ احزاب میں ضرور شریک ہوئے جو 5 ھ میں وقوع پذیر ہواتھا۔ 6ھ میں بیعت رضوان کا بھی شرف حاصل کیا۔غزوہ خیبر میں بھی بڑی جانبازی کے ساتھ لڑے۔ اسی سفر میں حلال وحرام کے متعلق جو احکام دربار رسالت سے صادر ہوئے تھے آپ ان کے راوی ہیں۔ اس کے بعد فتح مکہ غزوہ حنین اور محاصرہ طائف میں بھی شریک رہے۔ غزوہ تبوک میں جارہے تھے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجر کی طرف سے گزرتے ہوئے جہاں قدیم عاد وثمود کی آبادیوں کے کھنڈرات تھے، فرمایا کہ:
“ان لوگوں کے مساکن میں داخل نہ ہو جنہوں نے خدا کی نافرمانی کر کے اپنے اوپر ظلم کیا کہ مبادا تم بھی اس عذاب میں مبتلا ہو جاؤ جس میں وہ مبتلا ہوئے تھے اور اگر گزرنا ہی ہے تو یہ کرو کہ خوف خدا اور خشیت الٰہی سے روتے ہوئے گزرجاؤ۔”
جوش جہاد!عہد فاروقی میں جو فتوحات ہوئیں اس میں آپ سپاہیانہ حیثیت سے برابر لڑتے رہے، جنگ نہاوند میں بیمار ہوئے تو آپ نے ازخود یہ کیا“پیاز کو” دوا میں پکاتے تھے اور جب اس میں پیاز کا مزہ آجاتا تھا تو اسے نکال کر دواپی لیتے تھے۔ غالباً پیچش کا مرض لاحق ہوگیا ہو گا۔ شام ومصر کی فتوحات میں بھی مجاہدانہ حصے لیتے رہے۔ لیکن انتظامی امور میں حصہ لینے کا کوئی موقع نہ ملا کہ حضرت فاروق اعظم اپنے خاندان وقبیلہ کے افراد کو الگ رکھتے رہے۔ عہد عثمانی میں آپ کی قابلیت کے مدنظر آپ کو عہد قضا پیش کیا گیا لیکن آپ نے یہ فرماکر انکار کر دیا کہ قاضی تین قسم کے ہوتے ہیں جاہل، عالم مائل الی الدنیا کہ یہ دونوں جہنمی ہیں۔ تیسرے وہ ہیں جو صحیح اجتہاد کرتے ہیں انہیں نہ عذاب ہے نہ ثواب اور صاف کہہ دیا کہ مجھے کہیں عامل نہ بنائیے اس کے بعد امیر المومنین نے بھی اصرار نہ کیا البتہ اس عہد کے معرکہ ہائے جہاد میں ضرور شریک ہوتے رہے۔ تیونس،الجزائر، مراکش، خراسان اور طبرستان کے معرکوں میں لڑے۔ جس قدر اصب اور عہدوں کی قبولیت سے گھبراتے تھے جہادوں میں اسی قدر جوش وخروش اور شوق ودل بستگی کے ساتھ حصہ لیتے تھے۔
آخر عہد عثمانی میں جو فتنے رونما ہوئے آپ ان سے بالکل کنارہ کش رہے۔ ان کی شہادت کے بعد آپ کی خدمت میں خلافت کا اعزاز پیش کیا اور عدم قبولیت کے سلسلے میں قتل کی دھمکی دی گئی لیکن آپ نے فتنوں کے نشو وارتقا کے پیش نظر اس عظیم الشان اعزاز سے بھی انکار کر دیااور کوئی اعتنا نہ کی۔ اس کے بعد آپ نے اس شرط پر حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے ہاتھ پر بیعت کر لی کہ وہ خانہ جنگیوں میں کوئی حصہ نہ لیں گے۔ چنانچہ جنگ جمل وصفین میں شرکت نہ کی۔ تاہم متاسف تھے اور کہا کرتے تھے کہ: “گو میں نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی طرف سے اپنا ہاتھ آگے نہیں بڑھایا لیکن حق پر مقابلہ بھی افضل ہے” ( مستدرک )
فیصلہ ثالثی سننے کے لیے دومۃ الجندل میں تشریف لے گئے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے بعد امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کر لی اور شوق جہاد میں اس عہد کے تمام معرکوں میں نیز مہم قسطنطنیہ میں شامل ہوئے۔ یزید کے ہاتھ پر فتنہ اختلاف امت سے دامن بچائے رکھنے کے لیے بلا تامل بیعت کر لی اور فرمایا یہ خیر ہے تو ہم اس پر راضی ہیں اور اگر یہ شر ہے تو ہم نے صبر کیا۔ آج کل لوگ فتنوں سے بچنا تو درکنار اپنے مقاصد ذاتی کے لیے فتنے پیدا کرتے ہیں اور خدا کے خوف سے ان کے جسم پر لرزہ طاری نہیں ہوتا۔ پھر یہ بیعت حقیقتاً نہ کسی خوف کی بنا پر تھی اور نہ آپ کسی لالچ میں آئے تھے۔ طنطنہ اور حق پرستی کا یہ عالم تھا کہ امر حق کے مقابلہ پر کسی بڑی سے بڑی شخصیت کو بھی خاطر میں نہیں لاتے تھے۔
English Translation:[sta_anchor id=”engtrans”] ⇪