Search

صحیح بخاری جلد اول :كتاب الجمعة(جمعہ کے مسائل کے بیان میں) : حدیث:-927

كتاب الجمعة
کتاب: جمعہ کے بیان میں
The Book of Al-Jumuah (Friday)
29- بَابُ مَنْ قَالَ فِي الْخُطْبَةِ بَعْدَ الثَّنَاءِ أَمَّا بَعْدُ:
باب: خطبہ میں اللہ کی حمد و ثنا کے بعد امابعد کہنا۔
(29) Chapter. Saying “Amma badu” in the Khutba (religious talk) after glorifying and praising Allah.

[quote arrow=”yes” "]

1: حدیث اعراب کے ساتھ:[sta_anchor id=”top”]

2: حدیث عربی رسم الخط میں بغیراعراب کے ساتھ:

3: حدیث اردو رسم الخط میں بغیراعراب کے ساتھ:

4: حدیث کا اردو ترجمہ:

5: حدیث کی اردو تشریح:

English Translation :6 

[/quote]

حدیث اعراب کے ساتھ:  [sta_anchor id=”artash”]

حدیث نمبر:927

حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبَانَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا ابْنُ الْغَسِيلِ ، قَالَ : حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا ، قَالَ : صَعِدَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمِنْبَرَ ، وَكَانَ آخِرَ مَجْلِسٍ جَلَسَهُ مُتَعَطِّفًا مِلْحَفَةً عَلَى مَنْكِبَيْهِ قَدْ عَصَبَ رَأْسَهُ بِعِصَابَةٍ دَسِمَةٍ فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ ، ثُمَّ قَالَ : ” أَيُّهَا النَّاسُ إِلَيَّ ، فَثَابُوا إِلَيْهِ ، ثُمَّ قَالَ : أَمَّا بَعْدُ ، فَإِنَّ هَذَا الْحَيَّ مِنْ الْأَنْصَارِ يَقِلُّونَ وَيَكْثُرُ النَّاسُ ، فَمَنْ وَلِيَ شَيْئًا مِنْ أُمَّةِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاسْتَطَاعَ أَنْ يَضُرَّ فِيهِ أَحَدًا أَوْ يَنْفَعَ فِيهِ أَحَدًا فَلْيَقْبَلْ مِنْ مُحْسِنِهِمْ وَيَتَجَاوَزْ عَنْ مُسِيئِهِمْ ” .

.حدیث عربی بغیراعراب کے ساتھ:        [sta_anchor id=”arnotash”]

927 ـ حدثنا إسماعيل بن أبان، قال حدثنا ابن الغسيل، قال حدثنا عكرمة، عن ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ قال صعد النبي صلى الله عليه وسلم المنبر وكان آخر مجلس جلسه متعطفا ملحفة على منكبيه، قد عصب رأسه بعصابة دسمة، فحمد الله وأثنى عليه ثم قال ‏”‏ أيها الناس إلى ‏”‏‏.‏ فثابوا إليه ثم قال ‏”‏ أما بعد، فإن هذا الحى من الأنصار يقلون، ويكثر الناس، فمن ولي شيئا من أمة محمد صلى الله عليه وسلم فاستطاع أن يضر فيه أحدا أو ينفع فيه أحدا، فليقبل من محسنهم، ويتجاوز عن مسيهم ‏”‏‏.‏

حدیث اردو رسم الخط میں بغیراعراب کے ساتھ:   [sta_anchor id=”urnotash”]

935 ـ حدثنا اسماعیل بن ابان، قال حدثنا ابن الغسیل، قال حدثنا عکرمۃ، عن ابن عباس ـ رضى اللہ عنہما ـ قال صعد النبی صلى اللہ علیہ وسلم المنبر وکان اخر مجلس جلسہ متعطفا ملحفۃ على منکبیہ، قد عصب راسہ بعصابۃ دسمۃ، فحمد اللہ واثنى علیہ ثم قال ‏”‏ ایہا الناس الى ‏”‏‏.‏ فثابوا الیہ ثم قال ‏”‏ اما بعد، فان ہذا الحى من الانصار یقلون، ویکثر الناس، فمن ولی شیئا من امۃ محمد صلى اللہ علیہ وسلم فاستطاع ان یضر فیہ احدا او ینفع فیہ احدا، فلیقبل من محسنہم، ویتجاوز عن مسیہم ‏”‏‏.‏

‏‏‏اردو ترجمہ:   [sta_anchor id=”urdtrjuma”]

´ہم سے اسماعیل بن ابان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابن غسیل عبدالرحمٰن بن سلیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عکرمہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کے واسطے سے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ` نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف لائے۔ منبر پر یہ آپ کی آخری بیٹھک تھی۔ آپ دونوں شانوں سے چادر لپیٹے ہوئے تھے اور سر مبارک پر ایک پٹی باندھ رکھی تھی۔ آپ نے حمد و ثنا کے بعد فرمایا لوگو! میری بات سنو۔ چنانچہ لوگ آپ کی طرف کلام مبارک سننے کے لیے متوجہ ہو گئے۔ پھر آپ نے فرمایا «امابعد» ! یہ قبیلہ انصار کے لوگ (آنے والے دور میں) تعداد میں بہت کم ہو جائیں گے پس محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی امت کا جو شخص بھی حاکم ہو اور اسے نفع و نقصان پہنچانے کی طاقت ہو تو انصار کے نیک لوگوں کی نیکی قبول کرے اور ان کے برے کی برائی سے درگزر کرے۔
حدیث کی اردو تشریح:   [sta_anchor id=”urdtashree”]
تشریح : یہ آپ کا مسجد نبوی میں آخری خطبہ تھا۔ آپ کی اس پیشین گوئی کے مطابق انصار اب دنیا میں کمی میں ہی ملتے ہیں۔ دوسرے شیوخ عرب کی نسلیں تمام عالم اسلامی میں پھیلی ہوئی ہیں۔ اس شان کریمی پر قربان جائیے۔ اس احسان کے بدلے میں کہ انصار نے آپ کی اور اسلام کی کسمپرسی اور مصیبت کے وقت مدد کی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی تمام امت کو اس کی تلقین فرمارہے ہیں کہ انصار کو اپنا محسن سمجھو۔ ان میں جو اچھے ہوں ان کے ساتھ حسن معاملت بڑھ چڑھ کر کرو اور بروں سے در گزر کرو کہ ان کے آباءنے اسلام کی بڑی کسمپرسی کے عالم میں مدد کی تھی۔ اس باب میں جتنی حدیثیں آئی ہیں یہاں ان کا ذکر صر ف اسی وجہ سے ہوا ہے کہ کسی خطبہ وغیرہ کے موقع پر اما بعد کا اس میں ذکر ہے۔ قسطلانی نے کہا کہ حدیث کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انصارپر سے حدود شرعیہ اٹھادی جائیں حدود توآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر امیر غریب سب پر قائم کرنے کی تاکید فرمائی ہے۔ یہاں انصار کی خفیف غلطیاں مراد ہیں کہ ان سے در گزر کیاجائے۔
حضرت امام الائمہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس باب کے تحت یہ مختلف احادیث روایت فرمائی ہیں۔ ان سب میں ترجمہ باب لفظ اما بعد سے نکالا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ہر خطبہ میں اللہ کی حمد وثنا کے بعد لفظ اما بعد کا استعمال فرمایا کرتے تھے۔ گزشتہ سے پیوستہ حدیث میں عشاءکے بعد آپ کے ایک خطاب عام کا ذکر ہے جس میں آپ نے لفظ امابعد استعمال فرمایا۔ آپ نے ابن لبتیہ کو زکوۃ وصول کرنے کے لیے بھیجا تھا جب وہ اموال زکوۃ لے کر واپس ہوئے تو بعض چیزوں کے بارے میں وہ کہنے لگے کہ یہ مجھ کو بطور تحائف ملی ہیں اس وقت آپ نے عشاءکے بعد یہ وعظ فرمایا اور اس پر سخت اظہار ناراضگی فرمایا کہ کوئی شخص سر کاری طورپرتحصیل زکوۃ کے لیے جائے تو اس کا کیا حق ہے کہ وہ اس سفر میں اپنی ذات کے لیے تحائف قبول کرے حالانکہ اس کو جو بھی ملے گا وہ سب اسلامی بیت المال کا حق ہے۔ اس حدیث کو امام بخاری رحمہ اللہ نے ایمان ونذور میں پورے طور پر نقل فرمایا ہے۔
گزشتہ حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک آخری اور بالکل آخری خطاب عام کاتذکرہ ہے جو آپ نے مرض الموت کی حالت میں پیش فرمایا اور جس میں آپ نے حمد وثنا کے بعد لفظ امابعد استعمال فرمایا۔ پھر انصار کے بارے میں وصیت فرمائی کہ مستقبل میں مسلمان ذی اقتدار لوگوں کا فرض ہوگا کہ وہ انصار کے حقوق کا خاص خیال رکھیں۔ان میں اچھے لوگوں کو نگاہ احترام سے دیکھیں اور برے لوگوں سے درگزر کریں۔ فی الواقع انصار قیامت تک کے لیے امت مسلمہ میں اپنی خاص تاریخ کے مالک ہیں جس کو اسلام کا سنہری دور کہا جا سکتا ہے۔ یہ انصار ہی کی تاریخ ہے پس انصار کی عزت واحترام ہر مسلمان کا مذہبی فریضہ ہے۔ 

 
English Translation:[sta_anchor id=”engtrans”] 

Narrated Ibn `Abbas: Once the Prophet ascended the pulpit and it was the last gathering in which he took part. He was covering his shoulder with a big cloak and binding his head with an oily bandage. He glorified and praised Allah and said, "O people! Come to me.” So the people came and gathered around him and he then said, "Amma ba’du.” "From now onward the Ansar will decrease and other people will increase. So anybody who becomes a ruler of the followers of Muhammad and has the power to harm or benefit people then he should accept the good from the benevolent amongst them (Ansar) and overlook the faults of their wrong-doers.”

اس پوسٹ کو آگے نشر کریں