كتاب صلاة الخوف
کتاب: نماز خوف کا بیان
The Book of Salat-Ul-Khauf (Fear Prayer).
5- بَابُ صَلاَةِ الطَّالِبِ وَالْمَطْلُوبِ رَاكِبًا وَإِيمَاءً:
باب: جو دشمن کے پیچھے لگا ہو یا دشمن اس کے پیچھے لگا ہو وہ سوار رہ کر اشارے ہی سے نماز پڑھ لے۔
(5) Chapter. The chaser and the chased can offer SaIat (prayer) while riding, and by signs.
وَقَالَ الْوَلِيدُ ذَكَرْتُ لِلْأَوْزَاعِيِّ صَلَاةَ شُرَحْبِيلَ بْنِ السِّمْطِ وَأَصْحَابِهِ عَلَى ظَهْرِ الدَّابَّةِ ، فَقَالَ : كَذَلِكَ الْأَمْرُ عِنْدَنَا إِذَا تُخُوِّفَ الْفَوْتُ وَاحْتَجَّ الْوَلِيدُ بِقَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يُصَلِّيَنَّ أَحَدٌ الْعَصْرَ إِلَّا فِي بَنِي قُرَيْظَةَ .
´اور ولید بن مسلم نے کہا` میں نے امام اوزاعی سے شرحبیل بن سمط اور ان کے ساتھیوں کی نماز کا ذکر کیا کہ انہوں نے سواری پر ہی نماز پڑھ لی، تو انہوں نے کہا ہمارا بھی یہی مذہب ہے جب نماز قضاء ہونے کا ڈر ہو۔ اور ولید نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلمکے اس اشارے سے دلیل لی کہ کوئی تم میں سے عصر کی نماز نہ پڑھے مگر بنی قریظہ کے پاس پہنچ کر۔
[quote arrow=”yes” "]
1: حدیث اعراب کے ساتھ:[sta_anchor id=”top”]
2: حدیث عربی رسم الخط میں بغیراعراب کے ساتھ:
3: حدیث اردو رسم الخط میں بغیراعراب کے ساتھ:
[/quote]
حدیث اعراب کے ساتھ: ⇪ [sta_anchor id=”artash”]
حدیث نمبر:946
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَسْمَاءَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا جُوَيْرِيَةُ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَنَا لَمَّا رَجَعَ مِنْ الْأَحْزَابِ : ” لَا يُصَلِّيَنَّ أَحَدٌ الْعَصْرَ إِلَّا فِي بَنِي قُرَيْظَةَ ” ، فَأَدْرَكَ بَعْضَهُمُ الْعَصْرُ فِي الطَّرِيقِ ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ : لَا نُصَلِّي حَتَّى نَأْتِيَهَا ، وَقَالَ بَعْضُهُمْ : بَلْ نُصَلِّي لَمْ يُرَدْ مِنَّا ذَلِكَ ، فَذُكِرَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ يُعَنِّفْ وَاحِدًا مِنْهُمْ .
.حدیث عربی بغیراعراب کے ساتھ: ⇪ [sta_anchor id=”arnotash”]
946 ـ حدثنا عبد الله بن محمد بن أسماء، قال حدثنا جويرية، عن نافع، عن ابن عمر، قال قال النبي صلى الله عليه وسلم لنا لما رجع من الأحزاب ” لا يصلين أحد العصر إلا في بني قريظة ”. فأدرك بعضهم العصر في الطريق فقال بعضهم لا نصلي حتى نأتيها، وقال بعضهم بل نصلي لم يرد منا ذلك. فذكر للنبي صلى الله عليه وسلم فلم يعنف واحدا منهم.
حدیث اردو رسم الخط میں بغیراعراب کے ساتھ: ⇪ [sta_anchor id=”urnotash”]
946 ـ حدثنا عبد اللہ بن محمد بن اسماء، قال حدثنا جویریۃ، عن نافع، عن ابن عمر، قال قال النبی صلى اللہ علیہ وسلم لنا لما رجع من الاحزاب ” لا یصلین احد العصر الا فی بنی قریظۃ ”. فادرک بعضہم العصر فی الطریق فقال بعضہم لا نصلی حتى ناتیہا، وقال بعضہم بل نصلی لم یرد منا ذلک. فذکر للنبی صلى اللہ علیہ وسلم فلم یعنف واحدا منہم.
اردو ترجمہ: ⇪ [sta_anchor id=”urdtrjuma”]
´ہم سے عبداللہ بن محمد بن اسماء نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے جویریہ بن اسماء نے نافع سے، ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ` جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلمغزوہ خندق سے فارغ ہوئے (ابوسفیان لوٹے) تو ہم سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کوئی شخص بنو قریظہ کے محلہ میں پہنچنے سے پہلے نماز عصر نہ پڑھے لیکن جب عصر کا وقت آیا تو بعض صحابہ نے راستہ ہی میں نماز پڑھ لی اور بعض صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا کہ ہم بنو قریظہ کے محلہ میں پہنچنے پر نماز عصر پڑھیں گے اور کچھ حضرات کا خیال یہ ہوا کہ ہمیں نماز پڑھ لینی چاہیے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلمکا مقصد یہ نہیں تھا کہ نماز قضاء کر لیں۔ پھر جب آپ سے اس کا ذکر کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی پر بھی ملامت نہیں فرمائی۔
حدیث کی اردو تشریح: ⇪ [sta_anchor id=”urdtashree”]
تشریح : طالب یعنی دشمن کی تلاش میں نکلنے والے، مطلوب یعنی جس کی تلاش میں دشمن لگا ہو۔ یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب غزوہ احزاب ختم ہوگیا اور کفار ناکام چلے گئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فورا ہی مجاہدین کو حکم دیا کہ اسی حالت میں بنو قریظہ کے محلہ میں چلیں جہاں مدینہ کے یہودی رہتے تھے جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو ان یہودیوں نے ایک معاہدہ کے تحت ایک دوسرے کے خلاف کسی جنگی کاروائی میں حصہ نہ لینے کا عہد کیا تھا۔ مگر خفیہ طور پر یہودی پہلے بھی مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرتے رہے اور اس موقع پر تو انہوں نے کھل کر کفار کا ساتھ دیا۔ یہود نے یہ سمجھ کر بھی اس میں شرکت کی تھی کہ یہ آخری اور فیصلہ کن لڑائی ہوگی اور مسلمانوں کی اس میں شکست یقینی ہے۔ معاہدہ کی رو سے یہودیوں کی اس جنگ میں شرکت ایک سنگین جرم تھا، اس لیے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے چاہا کہ بغیر کسی مہلت کے ان پر حملہ کیا جائے اور اسی لیے آپ نے فرمایا تھا کہ نماز عصر بنو قریظہ میں جا کر پڑھی جائے کیونکہ راستے میں اگر کہیں نماز کے لیے ٹھہر تے تو دیر ہو جاتی چنانچہ بعض صحابہ رضی اللہ عنہ نے بھی اس سے یہی سمجھا کہ آپ کا مقصد صرف جلد تر بنو قریظہ پہنچنا تھا۔اس سے ثابت ہوا کہ بحالت مجبوری طالب اور مطلوب ہر دو سواری پر نماز اشارے سے پڑھ سکتے ہیں، امام بخاری رحمہ اللہ کا یہی مذہب ہے اور امام شافعی اور امام احمد کے نزدیک جس کے پیچھے دشمن لگا ہو وہ تو اپنے بچانے کے لیے سواری پر اشارے ہی سے نماز پڑھ سکتا ہے اور جوخود دشمن کے پیچھے لگا ہو تو اس کو درست نہیں اور امام مالک رحمہ اللہ نے کہاکہ اس کو اس وقت درست ہے جب دشمن کے نکل جانے کا ڈر ہو۔ ولید نے امام اوزاعی رحمہ اللہ کے مذہب پر حدیث لا یصلین احد العصر الخ سے دلیل لی کہ صحابہ بنو قریظہ کے طالب تھے یعنی ان کے پیچھے اور بنی قریظہ مطلوب تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز قضا ہوجانے کی ان کے لیے پروانہ کی۔ جب طالب کو نماز قضا کر دینا درست ہوا تو اشارہ سے سواری پر پڑھ لینا بطریق اولی درست ہوگا حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کا استدلال اسی لیے اس حدیث سے درست ہے۔ بنو قریظہ پہنچنے والے صحابہ میں سے ہر ایک نے اپنے اجتہاد اور رائے پر عمل کیا بعضوں نے یہ خیال کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کا یہ مطلب ہے کہ جلد جاؤ بیچ میں ٹھہرو نہیں تو ہم نماز کیوں قضا کریں، انہوں نے سواری پر پڑھ لی بعضوں نے خیال کیا کہ حکم بجالانا ضروری ہے نماز بھی خدا اور اس کے رسول کی رضا مندی کے لیے پڑھتے ہیں تو اب آپ کے حکم کی تعمیل میں اگر نماز میں دیر ہو جائے گی تو ہم کچھ گنہگار نہ ہوں گے ( الغرض ) فریقین کی نیت بخیر تھی اس لیے کوئی ملامت کے لائق نہ ٹھہرا۔ معلوم ہوا کہ اگر مجتہد غور کرے اور پھر اس کے اجتہاد میں غلطی ہو جائے تو اس سے مؤاخذہ نہ ہوگا۔ نووی نے کہا اس پر اتفاق ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہر مجتہد صواب پر ہے۔
English Translation:[sta_anchor id=”engtrans”] ⇪
English Translation:[sta_anchor id=”engtrans”] ⇪
Narrated Ibn `Umar:When the Prophet (saws) returned from the battle of Al-Ahzab (The confederates), he said to us, "None should offer the ‘Asr prayer but at Bani Quraiza.” The ‘Asr prayer became due for some of them on the way. Some of them decided not to offer the Salat but at Bani Quraiza while others decided to offer the Salat on the spot and said that the intention of the Prophet (saws) was not what the former party had understood. And when that was told to the Prophet (saws) he did not blame anyone of them.