كتاب العيدين
کتاب: عیدین کے مسائل کے بیان میں
The Book of The Two Eid (Prayers and Festivals).
3- بَابُ سُنَّةِ الْعِيدَيْنِ لأَهْلِ الإِسْلاَمِ:
باب: اس بارے میں کہ مسلمانوں کے لیے عید کے دن پہلی سنت کیا ہے؟
(3) Chapter. The legal way of the celebrations on the two Eid festivals for the Islamic World (Muslims).
[quote arrow=”yes” "]
1: حدیث اعراب کے ساتھ:[sta_anchor id=”top”]
2: حدیث عربی رسم الخط میں بغیراعراب کے ساتھ:
3: حدیث اردو رسم الخط میں بغیراعراب کے ساتھ:
[/quote]
حدیث اعراب کے ساتھ: ⇪ [sta_anchor id=”artash”]
حدیث نمبر:952
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، عَنْ هِشَامٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا ، قَالَتْ : دَخَلَ أَبُو بَكْرٍ وَعِنْدِي جَارِيَتَانِ مِنْ جَوَارِي الْأَنْصَارِ تُغَنِّيَانِ بِمَا تَقَاوَلَتْ الْأَنْصَارُ يَوْمَ بُعَاثَ ، قَالَتْ : وَلَيْسَتَا بِمُغَنِّيَتَيْنِ ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ : أَمَزَامِيرُ الشَّيْطَانِ فِي بَيْتِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَذَلِكَ فِي يَوْمِ عِيدٍ ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ” يَا أَبَا بَكْرٍ إِنَّ لِكُلِّ قَوْمٍ عِيدًا وَهَذَا عِيدُنَا ” .
.حدیث عربی بغیراعراب کے ساتھ: ⇪ [sta_anchor id=”arnotash”]
952 ـ حدثنا عبيد بن إسماعيل، قال حدثنا أبو أسامة، عن هشام، عن أبيه، عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ قالت دخل أبو بكر وعندي جاريتان من جواري الأنصار تغنيان بما تقاولت الأنصار يوم بعاث ـ قالت وليستا بمغنيتين ـ فقال أبو بكر أمزامير الشيطان في بيت رسول الله صلى الله عليه وسلم وذلك في يوم عيد. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ” يا أبا بكر إن لكل قوم عيدا، وهذا عيدنا ”.
حدیث اردو رسم الخط میں بغیراعراب کے ساتھ: ⇪ [sta_anchor id=”urnotash”]
952 ـ حدثنا عبید بن اسماعیل، قال حدثنا ابو اسامۃ، عن ہشام، عن ابیہ، عن عائشۃ ـ رضى اللہ عنہا ـ قالت دخل ابو بکر وعندی جاریتان من جواری الانصار تغنیان بما تقاولت الانصار یوم بعاث ـ قالت ولیستا بمغنیتین ـ فقال ابو بکر امزامیر الشیطان فی بیت رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم وذلک فی یوم عید. فقال رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم ” یا ابا بکر ان لکل قوم عیدا، وہذا عیدنا ”.
اردو ترجمہ: ⇪ [sta_anchor id=”urdtrjuma”]
´ہم سے عبید بن اسماعیل نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے، ان سے ان کے باپ (عروہ بن زبیر) نے، ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے، آپ نے بتلایا کہ` ابوبکر رضی اللہ عنہ تشریف لائے تو میرے پاس انصار کی دو لڑکیاں وہ اشعار گا رہی تھیں جو انصار نے بعاث کی جنگ کے موقع پر کہے تھے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ یہ گانے والیاں نہیں تھیں، ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں یہ شیطانی باجے اور یہ عید کا دن تھا آخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے فرمایا اے ابوبکر! ہر قوم کی عید ہوتی ہے اور آج یہ ہماری عید ہے۔
حدیث کی اردو تشریح: ⇪ [sta_anchor id=”urdtashree”]
قال الخطابی یوم بعاث یو م مشھودمن ایام العرب کانت فیہ مقتلۃ عظیمۃ للاوس والخروج ولقیت الحربۃ قائمۃ مائۃ وعشرین سنۃ الی الاسلام علی ما ذکر ابن اسحاق وغیرہ یعنی خطابی نے کہا کہ یوم بعاث تاریخ عرب میں ایک عظیم لڑائی کے نام سے مشہور ہے جس میں اوس اور خزرج کے دو بڑے قبائل کی جنگ ہوئی تھی جس کا سلسلہ نسلا بعد نسل ایک سو بیس سال تک جاری رہا یہاں تک کہ اسلام کا دور آیا اور یہ قبائل مسلمان ہوئے۔ دوسری روایت میں ہے کہ یہ گانا دف کے ساتھ ہو رہا تھا۔ بعاث ایک قلعہ ہے جس پر اوس اور خزرج کی جنگ ایک سو بیس برس سے جاری تھی۔ اسلام کی برکت سے یہ جنگ موقوف ہوگئی اور دونوں قبیلوں میں الفت پیدا ہو گئی۔ اس جنگ کی مظلوم روداد تھی جو یہ بچیاں گا رہی تھیں جن میں ایک حضرت عبد اللہ بن سلام کی لڑکی اور دوسری حسان بن ثابت کی لڑکی تھی ( فتح الباری )
اس حدیث سے معلوم یہ ہوا کہ عید کے دن ایسے گانے میں مضائقہ نہیں کیونکہ یہ دن شرعاً خوشی کا دن ہے پھر اگر چھوٹی لڑکیاں کسی کی تعریف یا کسی کی بہادری کے اشعار خوش آواز سے پڑھیں تو جائز ہے کہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی رخصت دی۔ لیکن اس میں بھی شرط یہ ہے کہ گانے والی جواں عورت نہ ہو اور راگ کا مضمون شرع شریف کے خلاف نہ ہو اور صوفیوں نے جو اس بات میں خرافات اور بدعات نکالی ہیں ان کی حرمت میں بھی کسی کا اختلاف نہیں ہے اورنفوس شہوانیہ بہت صوفیوں پر غالب آگئے یہاں تک کہ بہت صوفی دیوانوں اور بچوں کی طرح ناچتے ہیں اور ان کو تقرب الی اللہ کا وسیلہ جانتے ہیں اور نیک کام سمجھتے ہیں اور یہ بلا شک وشبہ زنادقہ کی علامت ہے اور بیہودہ لوگوں کا قول۔ واللہ المستعان ( تسہیل القاری، پ:4ص39/326 )
بنو ارفدہ حبشیوں کا لقب ہے آپ نے برچھوں اور ڈھالوں سے ان کے جنگی کرتبوں کو ملاحظہ فرمایا اور ان پر خوشی کا اظہار کیا۔ حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد باب یہی ہے کہ عید کے دن اگر ایسے جنگی کرتب دکھلائے جائیں تو جائز ہے۔ اس حدیث سے اور بھی بہت سی باتوں کا ثبوت ملتا ہے۔ مثلاً یہ کہ خاوند کی موجودگی میں باپ اپنی بیٹی کو ادب کی بات بتلاسکتا ہے، یہ بھی معلوم ہوا کہ اپنے بڑوں کے سامنے بات کرنے میں شرم کرنی مناسب ہے، یہ بھی ظاہر ہوا کہ شاگرد اگر استاد کے پاس کوئی امر مکروہ دیکھے تو وہ از راہ ادب نیک نیتی سے اصلاح کا مشورہ دے سکتا ہے، اور بھی کئی امور پر اس حدیث سے روشنی پڑتی ہے۔ جو معمولی غور وفکر سے واضح ہو سکتے ہیں۔
English Translation:[sta_anchor id=”engtrans”] ⇪
اس حدیث سے معلوم یہ ہوا کہ عید کے دن ایسے گانے میں مضائقہ نہیں کیونکہ یہ دن شرعاً خوشی کا دن ہے پھر اگر چھوٹی لڑکیاں کسی کی تعریف یا کسی کی بہادری کے اشعار خوش آواز سے پڑھیں تو جائز ہے کہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی رخصت دی۔ لیکن اس میں بھی شرط یہ ہے کہ گانے والی جواں عورت نہ ہو اور راگ کا مضمون شرع شریف کے خلاف نہ ہو اور صوفیوں نے جو اس بات میں خرافات اور بدعات نکالی ہیں ان کی حرمت میں بھی کسی کا اختلاف نہیں ہے اورنفوس شہوانیہ بہت صوفیوں پر غالب آگئے یہاں تک کہ بہت صوفی دیوانوں اور بچوں کی طرح ناچتے ہیں اور ان کو تقرب الی اللہ کا وسیلہ جانتے ہیں اور نیک کام سمجھتے ہیں اور یہ بلا شک وشبہ زنادقہ کی علامت ہے اور بیہودہ لوگوں کا قول۔ واللہ المستعان ( تسہیل القاری، پ:4ص39/326 )
بنو ارفدہ حبشیوں کا لقب ہے آپ نے برچھوں اور ڈھالوں سے ان کے جنگی کرتبوں کو ملاحظہ فرمایا اور ان پر خوشی کا اظہار کیا۔ حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد باب یہی ہے کہ عید کے دن اگر ایسے جنگی کرتب دکھلائے جائیں تو جائز ہے۔ اس حدیث سے اور بھی بہت سی باتوں کا ثبوت ملتا ہے۔ مثلاً یہ کہ خاوند کی موجودگی میں باپ اپنی بیٹی کو ادب کی بات بتلاسکتا ہے، یہ بھی معلوم ہوا کہ اپنے بڑوں کے سامنے بات کرنے میں شرم کرنی مناسب ہے، یہ بھی ظاہر ہوا کہ شاگرد اگر استاد کے پاس کوئی امر مکروہ دیکھے تو وہ از راہ ادب نیک نیتی سے اصلاح کا مشورہ دے سکتا ہے، اور بھی کئی امور پر اس حدیث سے روشنی پڑتی ہے۔ جو معمولی غور وفکر سے واضح ہو سکتے ہیں۔
English Translation:[sta_anchor id=”engtrans”] ⇪
Narrated Aisha: Abu Bakr came to my house while two small Ansari girls were singing beside me the stories of the Ansar concerning the Day of Buath. And they were not singers. Abu Bakr said protestingly, "Musical instruments of Satan in the house of Allah’s Apostle !” It happened on the `Id day and Allah’s Apostle said, "O Abu Bakr! There is an `Id for every nation and this is our `Id.”