Search

صحیح بخاری جلد دؤم :كتاب العيدين (عیدین کے مسائل کے بیان میں) : حدیث:-989

كتاب العيدين
کتاب: عیدین کے مسائل کے بیان میں
The Book of The Two Eid (Prayers and Festivals).
26- بَابُ الصَّلاَةِ قَبْلَ الْعِيدِ وَبَعْدَهَا:
باب: عیدگاہ میں عید کی نماز سے پہلے یا اس کے بعد نفل نماز پڑھنا کیسا ہے۔
وَقَالَ أَبُو الْمُعَلَّى : سَمِعْتُ سَعِيدًا عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ كَرِهَ الصَّلَاةَ قَبْلَ الْعِيدِ .
‏‏‏‏ اور ابومعلی یحییٰ بن میمون نے کہا کہ میں نے سعید سے سنا، وہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے تھے کہ آپ عید سے پہلے نفل نماز پڑھنا مکروہ جانتے تھے۔

[quote arrow=”yes” "]

1: حدیث اعراب کے ساتھ:[sta_anchor id=”top”]

2: حدیث عربی رسم الخط میں بغیراعراب کے ساتھ:

3: حدیث اردو رسم الخط میں بغیراعراب کے ساتھ:

4: حدیث کا اردو ترجمہ:

5: حدیث کی اردو تشریح:

English Translation :6 

[/quote]

حدیث اعراب کے ساتھ:  [sta_anchor id=”artash”]

حدیث نمبر:989           

حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ ، قَالَ : حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، قَالَ : حَدَّثَنِي عَدِيُّ بْنُ ثَابِتٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ جُبَيْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، ” أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ يَوْمَ الْفِطْرِ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ لَمْ يُصَلِّ قَبْلَهَا وَلَا بَعْدَهَا وَمَعَهُ بِلَالٌ ” .

.حدیث عربی بغیراعراب کے ساتھ:  
[sta_anchor id=”arnotash”]

989 ـ حدثنا أبو الوليد، قال حدثنا شعبة، قال حدثني عدي بن ثابت، قال سمعت سعيد بن جبير، عن ابن عباس، أن النبي صلى الله عليه وسلم خرج يوم الفطر، فصلى ركعتين لم يصل قبلها ولا بعدها ومعه بلال‏.‏

حدیث اردو رسم الخط میں بغیراعراب کے ساتھ:   [sta_anchor id=”urnotash”]

989 ـ حدثنا ابو الولید، قال حدثنا شعبۃ، قال حدثنی عدی بن ثابت، قال سمعت سعید بن جبیر، عن ابن عباس، ان النبی صلى اللہ علیہ وسلم خرج یوم الفطر، فصلى رکعتین لم یصل قبلہا ولا بعدہا ومعہ بلال‏.‏

‏‏‏اردو ترجمہ:   [sta_anchor id=”urdtrjuma”]

´ہم سے ابوولید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھے عدی بن ثابت نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ میں نے سعید بن جبیر سے سنا، وہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بیان کرتے تھے کہ` نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عیدالفطر کے دن نکلے اور (عیدگاہ) میں دو رکعت نماز عید پڑھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ اس سے پہلے نفل نماز پڑھی اور نہ اس کے بعد۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بلال رضی اللہ عنہ بھی تھے۔


حدیث کی اردو تشریح:   [sta_anchor id=”urdtashree”]

تشریح : علامہ شوکانی فرماتے ہیں قولہ لم یصل قبلھا ولا بعدھا فیہ وفی بقیۃ احادیث الباب دلیل علی کراھۃ الصلوۃ قبل صلاۃ العید وبعدھا الیہ ذھب احمد بن حنبل قال ابن قدامۃ وھو مذھب ابن عباس وابن عمرالخ ( نیل الاوطار ) یعنی اس حدیث اور اس بارے میں دیگر احادیث سے ثابت ہوا کہ عید کی نماز کے پہلے اور بعدنفل نماز پڑھنی مکروہ ہے۔ امام احمد بن حنبل کا بھی یہی مسلک ہے اور بقول ابن قدامہ حضرت عبد اللہ بن عباس اور حضرت عبداللہ بن عمر اور حضرت علی وحضرت عبد اللہ بن مسعود اور بہت سے اکابر صحابہ وتابعین کا بھی یہی مسلک ہے۔ امام زہری فرماتے ہیں لم اسمع احدا من علماءنا یذکر ان احدا من سلف ھذہ الامۃ کا ن یصلی قبل تلک الصلوۃ ولا بعدھا ( نیل الاوطار ) یعنی اپنے زمانہ کے علماءمیں میں نے کسی عالم سے نہیں سنا کہ سلف امت میں سے کوئی بھی عید سے پہلے یا بعد میں کوئی نفل نماز پڑھتا ہو۔ ہاں عید کی نماز پڑھ کر اور واپس گھر آکر گھر میں دو رکعت نفل پڑھنا ثابت ہے جیسا کہ ابن ماجہ میں حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے، وہ فرماتے ہیں عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم انہ کان لا یصلی قبل العید شیئا فاذا رجع الی منزلہ صلی رکعتین رواہ ابن ماجہ واحمد بمعناہ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عید سے پہلے کوئی نماز نفل نہیں پڑھی جب آپ اپنے گھر واپس ہوئے تو آپ نے دو رکعتیں ادا فرمائیں۔ اس کو ابن ماجہ اور احمد نے بھی اس کے قریب قریب روایت کیا ہے۔ علامہ شوکانی فرماتے ہیں وحدیث ابی سعید اخرجہ ایضا الحاکم وصححہ وحسنہ الحافظ فی الفتح وفی اسنادہ عبد اللہ بن محمد بن عقیل وفیہ مقال وفی الباب عن عبداللہ بن عمروبن العاص عند ابن ماجہ بنحو حدیث ابن عباس الخ ( نیل الاوطار ) یعنی ابو سعید والی حدیث کو حاکم نے بھی روایت کیا ہے اور اس کو صحیح بتلایا ہے اور حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں اس کی تحسین کی ہے اور اس کی سند میں عبداللہ بن محمد بن عقیل ایک راوی ہے جن کے متعلق کچھ کہا گیا ہے اور اس مسئلہ میں عبد اللہ بن عمرو بن العاص کی بھی ایک روایت حضرت عبد اللہ بن عباس کی روایت کی مانند ہے۔
خلاصہ یہ کہ عیدگاہ میں صرف نماز عید اورخطبہ نیز دعا کرنا مسنون ہے عیدگاہ مزید نفل نماز پڑھنے کی جگہ نہیں ہے۔ یہ تو وہ مقام ہے جس کی حاضری ہی اللہ کو اس قدر محبوب ہے کہ وہ اپنے بندوں اور بندیوں کو میدان عید گاہ میں دیکھ کر اس قدر خوش ہوتا ہے کہ جملہ حالات جاننے کے باوجود اپنے فرشتوں سے پوچھتا ہے کہ یہ میرے بندے اور بندیاں آج یہاں کیوں جمع ہوئے ہیں؟ فرشتے کہتے ہیں کہ یہ تیرے مزدور ہیں جنہوں نے رمضان میں تیرا فرض ادا کیا ہے، تیرے رضا کے لیے روزے رکھے ہیں اور اب میدان میں تجھ سے مزدوری مانگنے آئے ہیں۔ اللہ فرماتا ہے کہ اے فرشتو!گواہ رہو میں نے ان کو بخش دیا اور ان کے روزوں کو قبول کیا اور ان کی دعاؤں کو بھی شرف قبولیت تا قیامت عطا کیا۔ پھر اللہ کی طرف سے ندا ہوتی ہے کہ میرے بندو! جاؤ اس حال میں کہ تم بخش دیئے گئے ہو۔
خلاصہ یہ کہ عیدگاہ میں بجزدوگانہ عید کے کوئی نماز نفل نہ پڑھی جائے یہی اسوہ حسنہ ہے اور اسی میں اجروثواب ہے۔
واللہ اعلم وعلمہ اتم
۔
English Translation:[sta_anchor id=”engtrans”] 

Narrated Ibn ‘Abbas:
The Prophet went out and offered a two Rakat prayer on the Day of ‘Id ul Fitr and did not offer any other prayer before or after it and at that time Bilal was accompanying him.

اس پوسٹ کو آگے نشر کریں