Search

حدیث [من کان لہ امام فقرأۃ الامام لہ قراۃ] کا تحقیقی جائزہ

أخبرنا أبو حنيفة قال حدثنا أبو الحسن موسي بن أبى عائشة عن عبدالله بن شداد بن الهاد عن جابر بن عبدالله عن النبى صلى الله عليه وسلم قال من صلى خلف الإمام . . . حديث من كان له امام . . . [موطا امام محمد ]

جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نمازی کا امام ہو تو اس کے امام کا پڑھنا ہی اس مقتدی کا پڑھنا سمجھا جائے گا۔

براہ کرم اس روایت کے بارے میں مکمل تحقیق سے بہرہ ور فرمائیں بہت ہی شکر گزار ہوں گا۔ اللہ تعالیٰ آپ کا حامی و ناصر ہو آمین۔

الجواب :

حدیث : من كان له إمام فقرأه الإمام له قرأة کے مفہوم و الفاظ کے ساتھ مختلف سندوں سے مروی ہے۔ یہ سندیں دو طرح کی ہیں :

اول : وہ اسانید جن میں کذاب، متروک، سخت مجروح اور مجہول روای ہیں : مثلاً

➊ حديث جابر الجعفي عن أبى الزبير عن جابر بن عبدالله رضى الله عنه . . إلخ [ رواه ابن ماجه، ح : 850 ]

جابر الجعفی : متروک ہے، دیکھئے کتاب الکنیٰ والأسماء للإمام مسلم [ق 96كنية : أبو محمد] و کتاب الضعفاء والمتروکین للإمام النسائی [98]

وقال الزیلعی : وكذبه أيضاأ يوب وزائدة

اور اسے ایوب (السختیانی) اور زائدہ نے کذاب کہا ہے۔ [ نصب الرايه 1؍345 ]

➋ حديث أبى هارون العبدي عن أبى سعيد الخدري رضى الله عنه إلخ . . [رواه ابن عدي فى الكامل 1؍524ترجمة إسماعيل بن عمر و بن نجيح ]

ابوہارون کے بارے میں زیلعی حنفی نے حماد بن زید کا قول نقل کیا ہے کہ : كان كذابا ’’ یعنی وہ کذاب (بڑا جھوٹا ) تھا“، دیکھئے نصب الرایہ [ج4ص201]

➌ حديث سهل بن عباس الترمذي بسنده إلخ رواہ الدارقطنی [1؍402ح1486] وقال : هذا حديث منكر، وسهل بن العباس : متروك

اصول حدیث میں یہ مقرر ہے کہ متروک وغیرہ سخت مجروح راویوں کی روایت مردود ہوتی ہے۔ مثلاً

ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں :

لأن الضعف يتفاوت فمنه مالا يزول بالمتا بعات يعني لا يؤثر كونه تابعا أ و متبوعا كرواية الكذابين و المتروكين

” کیونکہ ضعف کی قسمیں ہوتی ہیں، بعض ضعف متابعات سے بھی زائل نہیں ہوتے جیسے کذابین و متروکین کی روایت، یہ مؤید ہو سکتی ہے اور نہ تائید میں فائدہ دیتی ہے“ [اختصار علوم الحديث ص 38 تعريفات أخري للحسن، النوع : 2 ]

اس تمہید کے بعد اس روایت من كان له إمام ألخ کی ان سندوں پر جامع بحث پیش خدمت ہے جن پر مخالفین قرأتِ ففاتحہ خلف الامام کو ناز ہے۔ وللہ ھو الموفق

① محمد بن الحسن الشیبانی رحمہ الله : أخبرنا أبو حنيفة قال : حدثنا أبو الحسن موسي بن أ بي عائشة عن عبدالله بن شداد بن الهاد عن جابر بن عبدالله إلخ [ مؤطا الشيباني ص 98ح117 ]
اس روایت میں عبداللہ بن شداد اور جابر رضی اللہ عنہ کے درمیان ” ابوالولید “ کا واسطہ ہے۔ دیکھئے کتاب الآثار المنسوب إلی قاضی أبی یوسف [113] و سنن الدار قطنی [1؍335ح 1223 وقال : أبو الوليد هذا مجهول] و کتاب القرأہ للبیہقی [ص125ح314، وص126، 127دوسرا نسخہ ح341، 339]
معلوم ہوا کہ یہ روایت ابوالولید( مجہول ) کی وجہ سے سخت ضعیف ہے۔ اس مجہول راوی کو بعض راویوں نے سند میں ذکر نہیں کیا تاہم یہ معلوم ہے کہ جس نے ذکر کیا اس کی بات ذکر نہ کرنے و الے کی روایت پر مقدم ہوتی ہے۔
اس روایت میں دوسری علت یہ ہے کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ بذاتِ خود اپنی اس بیان کردہ روایت کو باطل سمجھتے تھے۔ ابوعبدالرحمن المقرئ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ :
كان أبو حنيفة يحدثنا، فإذا فرغ من الحديث قال : هذا الزي سمعتم كله ريح و باطل
” ابوحنیفہ ہمیں حدیثیں سناتے تھے۔ جب حدیث (کی روایت) سے فارغ ہوتے تو فرماتے : یہ سب کچھ، جو تم نے سنا ہے ہوا اور باطل ہے۔“ [كتاب الجرح و التعديل لابن ابي حاتم ج 8ص 450 و سند صحيح ]
ایک دوسری روایت میں امام ابوحنیفہ فرماتے ہیں کہ :
عامة ما أحدثكم خطأ
” میں تمہیں جو عام حدیثیں بیان کرتا ہوں وہ غلط ہوتی ہیں۔ “ [العلل الكبير للترمذي ج 2ص 966و سنده صحيح، و الكامل لابن عدي 7؍2473و تاريخ بغداد 13؍425]
ایک دوسری روایت میں امام ابوحنیفہ نے اپنی کتابوں کے بارے میں فرمایا کہ :
والله ما أدري لعله الباطل الذى لاشك فيه
” اللہ کی قسم مجھے ( ان کے حق ہونے کا) پتہ نہیں ہو سکتا ہے کہ یہ ایسی باطل ہوں جن میں (باطل ہونے میں ) کوئی شک نہیں ہے۔“ [كتاب المعرفة و التاريخ للإمام يعقوب بن سفيان الفارسي ج 2ص782و سنده حسن ]
اور یہ بات عام لوگ بھی بخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ اپنی بیان کردہ حدیثوں اور کتابوں کے بارے میں بعد والوں کی بہ نسبت سب سے زیادہ جانتے تھے۔ یہ عین ممکن ہے کہ ابوالولید( مجہول) کی وجہ سے امام صاحب نے اپنی روایت کو باطل قرار دیا ہو، والله أعلم و علمه أتم

➋ أحمد بن حنبل : حدثنا أسود بن عامر : أخبرنا حسن بن صالح عن أبى الزبير عن جابر إلخ [ مسند احمد، الموسوعة الحديثية 23؍12ح14643 ]
یہ روایت دو وجہ سے ضعیف ہے۔
اول : ابوالزبیر المکی مسدلس ہے بلکہ ”مشہور بالتدلیس“ ہے۔ [طبقات المدلسين، المرتبه الثالثه3؍101 ]
یہ روایت عن سے ہے۔ اول حدیث میں یہ مقرر ہے کہ مدلس کی (غیر صحیحین میں )عن والی روایت ضعیف ہوتی ہے۔ [ ديكهئے مقدمة ابن الصلاح مع التقييد والا يضاح ص99 والنسخة المحققةص161 ]
دوم : حسن بن صالح اور ابوالزبیر کے درمیان جابر الجعفی (متروک) کا واسطہ ہے دیکھئے مسند احمد [ج3ص339ح14698] و التحقیق فی اختلاف الحدیث لا بن الجوزی [1؍320ح567]
تنبیہ : یہ بات انتہائی حیران کن ہے کہ ابن الترکمانی حنفی نے ابوالزبیر کی تدلیس سے قطع نظر کرتے ہوئے، اس ضعیف و مردود روایت کو ”وھذا سند صحیح“ لکھ دیا ہے، دیکھئے الجوھر النقی [2؍159] بحوالہ ابن ابی شیبہ [1؍377 ح3802]

شیخ الناصر الدین الالبانی رحمہ اللہ نے دلائل کے ساتھ ابن الترکمانی کا زبردست رد کیا ہے۔ دیکھئے ارواء الغلیل [ج 2ص 270ح500]

➌ أحمد بن منیع : ثنا إسحاق الأزرق : ثنا سفيان و شريك عن موسي بن أبى عائشة عن عبدالله بن شداد عن جابر رضي الله عنه ألخ [اتحاف الخيرة المهره للبوصيري2؍225ح1567 ]
یہ روایت دو وجہ سے ضعیف ہے۔
اول : سفیان ثوری مدلس ہیں [عمدة القاري للعيني3؍112باب الوضوء من غير حدث، و الجوهر النقي8؍262 ]
نیز دیکھئے [الحديث : 1 ص 29، 28] اور یہ روایت عن سے ہے۔ شریک القاضی بھی مدلس ہیں [طبقات المدلسين56؍2 و جامع التحصيل للعلائي ص 107والمدلسين لأبي زرعة بن العراقي : 28 و المدلسين للسيوطي : 24و المدلسين للحلمي ص33] اور یہ روایت عن سے ہے۔
دوم : یہ گزر چکا ہے کہ عبداللہ بن شداد اور جابر رضی اللہ عنہ کے درمیان ابوالولید( مجہول) کا واسطہ ہے۔

نتیجۃ البحث : یہ روایت اپنی تمام سندوں کے ساتھ ضعیف ہے، لہٰذا شیخ البانی رحمہ اللہ کا اسے ”حسن“ [ارواء الغليل2؍268]
اور الموسوعۃ الحدیثیۃ کے محشی کا حسن بطرقه و شواهده کہنا صحیح نہیں ہے۔ اس حدیث کو حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ملعول [التلخيص الحبير2؍232ح345]
اور قرطبی نے حدیث ضعیف قرار دیا ہے۔ [تفسير قرطبي1؍122، الباب الثاني فى نزولهاأحكا مها، أيي سورة الفاتحة ]

فائدہ : ہمارے شیخ، امام ابومحمد بدیع الدین الراشدی رحمہ اللہ نے اس حدیث کی تضعیف پر اظهار البرأة عن حديث : من كان له إمام فقرأة الإمام له قرأة مستقل کتاب لکھی ہے۔ والحمد لله

اس پوسٹ کو آگے نشر کریں