Search

انکارِ حدیث کے بنیادی اصول

انکارِ حدیث کے بنیادی اصول۔۔۔۔۔ قاری حنیف ڈار اور امین احسن اصلاحی صاحب کی یکساں فکر

 حافظ شاہد رفیق

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔………………………

سوشل میڈیا پر قاری حنیف ڈار کی حدیثِ نبوی کے انکار واستہزا پر مبنی پوسٹیں عموما دیکھنے کو ملتی ہیں۔

 مگر آئیے دیکھیے کہ ایسے افکار اور گمراہ کن اصول وقواعد کا قریبی مصدر کیا ہے اور اس فکر میں ان لوگوں کے ‘پیر ومرشد’ کون سے لوگ ہیں؟

عہدِ قریب میں ‘مفسر قرآن’ اور جاوید احمد غامدی کے ‘امام’ کے طور پہ جانے جانے والے امین احسن اصلاحی صاحب بھی حدیثِ نبوی کو عقل کی سان پر رکھ کر قبول کرنے کے بڑے دعویداروں میں سے ایک تھے۔

موصوف کا ‘حدیث کے غث وسمین میں امتیاز کے اصول’ کے نام سے ایک مفصل بیان ماہنامہ ‘اشراق’ لاہور (جون 1989ء) میں شائع ہوا جس میں وہ حدیث نبوی کے رد وقبول کے خود ساختہ معیار بتاتے ہوئے فرماتے ہیں:

"حدیث کے غث وسمین میں امتیاز کے لیے چھ رہنما اصول ہیں جن کی حیثیت ان بنیادی کسوٹیوں کی ہے جن پر پرکھ کر کے حدیث کے صحیح وسقیم کا فیصلہ کیا جا سکتا ہے۔

یہ اساسی کلیات یہ ہیں:

1۔ کوئی روایت، جس کو اہل ایمان اور اصحاب معرفت کا ذوق قبول کرنے سے اباء کرتا ہے، وہ قبول نہیں کی جائے گی۔

2۔ جو شاذ روایت عمل معروف کے خلاف ہو گی، قبول نہیں کی جائے گی۔

3۔ کوئی روایت جو کسی پہلو سے قرآن مجید کے خلاف ہو گی، قبول نہیں کی جائے گی۔

4۔ جو روایت سنت معلومہ کے خلاف ہوگی، وہ قبول نہیں کی جائے گی۔

5۔ جو روایت عقل کلی کے فیصلوں کے خلاف ہو گی، وہ قبول نہیں کی جائے گی۔

6۔ جو روایت دلیل قطعی کے خلاف ہو گی، وہ قبول نہیں کی جائے گی۔”

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اکیلا حنیف ڈار ہی انکارِ حدیث کا ہرکارہ نہیں بلکہ کچھ بڑے نام بھی ایسی ہی فکری یتیمی میں مبتلا اور انکارِ حدیث کے سرخیل ہیں جن کو کچھ لوگ لا علمی سے بڑا مفکر اور نا جانے کیا کچھ سمجھ بیٹھتے ہیں۔

باقی رہا حدیثِ نبوی سے جان چھڑانے کے لیے بنانے گئے ان جعلی اصول وقواعد کا علمی پوسٹ مارٹم تو اس کے لیے شیخ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ کی کتاب ” امین احسن اصلاحی کے افکار ونظریات کا جائزہ” ملاحظہ کیجیے۔ اس میں فکر اصلاحی اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی فکری گمراہیوں کا بھر پور تفصیلی جائزہ لیا گیا ہے۔ جزاہ اللہ خیرا۔

اس پوسٹ کو آگے نشر کریں