میزبان:رسولﷺ کا معراج کا واقع کیسا تھا۔جسمانی اور روحانی اعتبار سے اور اس کی حکمتیں اور عجائب کیا تھے؟اسرا اور معراج کا واقع کیا ہے؟ کیا یہ دونوں ایک ہی چیز کے نام ہیں؟ یا دو الگ الگ واقعات ہیں؟
مہمان:اسرا اور معراج یہ دونوں مختلف چیزیں ہیں۔اگرچہ یہ دونوں واقعات ایک ہی رات پیش آئے، لیکن اسرا سے مراد رات کو زمین میں چلنا ہے۔ اسرا سیر سے ہے، اور اس سے مراد رات کو چلنا ہے۔چونکہ نبی ﷺ کو بیعت اللہ سے بیعت المقدس تک لے جایا گیا اور پھر پہلے آسمان ، دوسرے اور پھر دیگر آسمانوں اور اللہ تعالٰی کی نشانیاں اور عجائب دیکھائے گئے ۔اسرا زمین کی سیر اس میں مکہ سے شام تک کا سفر اور انبیاء کی امامت نبی ﷺ نے کروائی اور یہ سفر براق پر ہوا۔معراج عروج سے ہے اور اس سے مراد وہ آلہ ہےجس کے ذریعے کسی بلندی پر چڑھا جائے، اسی سے معراج ہے۔
معراج اسم آلا ہے اور اسرا اسم فعل ہے۔ بیعت اللہ سے بیعت المقدس تک کے سفر کو اسرا کہتے ہیں۔ اس کو اللہ تعالٰی نے سورہ بنی اسرائیل میں بیان کیا ہے اور معراج پہلے آسمان سے دیگر آسمانوں اور پھر جنت و جہنم کے مناظر جو نبیﷺنے دیکھے ، اس کو سورةالنجم کے اندر ١٣ سے ١٨ تک اللہ تعالٰی نے اشارہ کیا ہے۔ اسرا کا تعلق زمین سے اور معراج کا تعلق آسمان اور اس کی نشانیوں سے ہے۔
میزبان:معراج کے واقعہ کے حوالے سے مختلف آراء ہیں۔ کچھ کے نزدیک ایک دفعہ پیش آیا، کچھ کے نزدیک زیادہ بار، اور کچھ کے نزدیک نیند میں پیش آیا،اسکی صحیح تعداد کیا ہے؟
مہمان:اسکے بارے میں مختلف آراء ہیں۔ یہ واقعہ ہجرت سے ایک سال پہلے پیش آیا۔ اس کے بارے میں مختلف آراء ہیں ۔بعض نے کہا کہ آٹھ مہینے بعض نے کہا کہ چھ مہینے، بعض نے کہا کہ تین سال اور بعض نے کہا کہ دو سال، زیادہ قوی قول یہ ہے کہ ہجرت سے ایک سال پہلے پیش آیا۔یہ معجزہ کس مہینے میں پیش آیا؟ بعض نے کہا رجب میں، بعض نے کہا رمضان میں، بعض نے کہا شوال میں اور بھی مختلف اقوال ہیں اس کے بارے میں، اس میں بنیادی سوال یہ ہے کہ اتنا بڑا معجزہ ہے ۔لیکن اس کی تاریخ کا علم کیوں نہیں ہے ۔جیسے دیگر غزوات اور واقعات ہیں ۔ان کی تاریخیں باقاعدہ تہہ ہیں ۔ مگر اس واقعہ کی نہیں ہے ۔اس کی تاریخ کے بارے میں اختلاف کیوں ہے؟
اصل میں ہجرت سے پہلے کا واقعہ ہے۔ اور اس وقت مسلمانوں کی قلت تھیاور اس وقت تاریخ لکھنے کا اتنا اہتمام نہیں تھا۔ جبکہ ہجرت کے بعد باقاعدہ اس کا اہتمام کیا گیا اور پھر مسلمانوں نے مختلف واقعات کو ہجرت کے ساتھ جوڑا اور تاریخ لکھنا شروع کی، اس سے پہلے یہ کیا جاتا تھا کہ کسی واقعے کو کسی خاص واقعہ کے ساتھ جوڑ دیا جاتا تھا۔مثلاً جب نبی صلی ﷲ علیہ و آلہ وسلم پیدا ہوئے، اس سال کو عام الفیل کے ساتھ جوڑ دیا گیا ۔ اس سے ایک سال پہلے اس سے ایک سال بعد، اس وجہ سے تاریخ میں اختلاف ہے،حق ہونے میں اختلاف نہیں ہے۔واقعہ معراج آپ صلی ﷲ علیہ و آلہ وسلم کو جسم و روح دونوں کے ساتھ کروایا گیا ۔ بعض نے کہا یہ جسمانی نہیں تھا، بلکہ روحانی تھا، اور بعض نے کہا کہ نیند کی حالت میں تھا، اﷲ تعالیٰ نے قرآن مجید میں جو واقعہ اسرا بیان کیا،( سورۃ الاسرار 1) یہاں اﷲ تعالیٰ نے لفظ (عبد) استعمال کیا،اور عبد سے مراد بندہ یعنی روح اور جسم دونوں، روح ہی سے عبد ہوتا ہے ۔ جب روح نکل جاتی ہے، تو میت ہو جاتی ہے، انسان نہیں، جب نبی صلی ﷲعلیہ و آلہ وسلم کو معراج پر لے جایا گیا ۔تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو ﷲ تعالیٰ کی بڑی بڑی نشانیاں دکھائی گئی ۔آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو (سدرۃ المنتہیٰ) تک لے جایا گیا ۔اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے آنکھ سے ہر چیز کا مشاہدہ کیا اور اگر یہ کہا جاتا ہے کہ یہ نیند کی حالت میں تھا، اور خواب میں سب ہوا تو پھر اہل مکہ کو اعتراض نہیں ہونا چاہیے تھا ۔ کیونکہ جب نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ان کو صحیح واقع سنایا تو انھوں نے کہا کہ اتنا طویل سفر ایک رات میں کیسے ہو سکتا ہے اہل مکہ نے اعتراض اس بات پر کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ میں جسم اور روح دونوں کے ساتھ گیا ہوں۔
میزبان :رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو بیت المقدس کیوں لے جایا گیا؟ اور یہ واقعہ رات کو کیوں پیش آیا؟ اگر دن کو ہوتا تو اہل مکہ کو بھی اعتراض نا ہوتا۔
مہمان :نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو رات و رات بیت ﷲ سے بیت المقدس، اور پھر آسمانوں تک لے جانے میں بہت سی حکمتیں ہیں ۔ یہ سارے واقعات غائبی ہیں اور ہمیں غائب پر یقین رکھنا چاہیے ۔ان کی تصدیق کرنی چاہیے، اور باطل تحویل نہیں کرنی چاہیے ۔اہل مکہ کو شام کے سفر کا پتہ تھا۔ اور بیت المقدس کا بھی پتہ تھا۔ بیت المقدس لے جانے میں یہ حکمت تھی کہ کیونکہ وہ لوگ وہاں پر پہلے جا چکے تھے۔
تو اگر وہ کوئی نشانی طلب کریں تو کیا نشانی اور حجت ہے۔کیا دلیل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو وہ نشانی بتائی گئی ۔اہل مکہ نے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے بہت سے سوالات کیے ۔کہ آپ صلی ﷲ علیہ والہ وسلم بتائیں کہ بیت المقدس کے کتنے دروازے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے قافلوں کا ذکر کیا کہ وہاں سے فلاں اور فلاں قافلہ جا رہا تھا ۔پھر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے چند نشانیاں بتائیں ۔جو کہ اہل مکہ جانتے تھے اور وہ سن کر ہکے بکے ہو گئے ۔ بیت المقدس کا سفر آپ صلی ﷲ علیہ و آلہ وسلم نے ایک مرتبہ کیا تھا اپنے چچا کے ساتھ، اور اس کے بارے میں شاید آپ صلیﷲ علیہ والہ وسلم کو یاد بھی نہیں تھا ۔آپ صلی ﷲ علیہ و آلہ وسلم کو بیت المقدس لے جانا ایک ٹھوس دلیل تھی، اﷲ تعالیٰ کی طرف سے، اگر اہل مکہ یہ بات مان جائیں تو باقی کے سفر کا بھی مان جائیں گے ۔کیونکہ وہ آپ صلی ﷲ علیہ و آلہ وسلم کو صادق اور امین کہتے تھے اور دوسری وجہ یہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو بیت المقدس اس وجہ سے بھی لے جایا گیا کہ مسلمانوں کا تعلق شام سے جڑا رہے اور بتایا گیا کہ یہ قبلہ اوّل ہے۔ آپ صلی ﷲ علیہ و آلہ وسلم نے انبیاء کی امامت کروائی ۔مقدس جگہ کا تقدس اور مسلمانوں کا تعلق مضبوط کرنا تھاتاکہ احترام اور محبت بڑھ جائے ۔تیسری وجہ انبیاء کی امامت کروائی اور نبی صلی ﷲ علیہ و آلہ وسلم کی فضیلت کو بیان کرنا تھا۔ کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سب سے افضل ہیں ۔ اور ختم نبوت، مقام اور مرتبہ اجاگر کرنا مقصود تھا اور بہت سی حکمتیں اس میں پوشیدہ تھی اور رہی یہ بات کہ رات کو کیوں لے جایا گیا ۔دن کو کیوں نہیں لے جایا گیا؟
اس میں اہل ایمان کا امتحان تھا۔ جن کے دل میں آپ صلی ﷲ علیہ و آلہ وسلم کی سچائی کا یقین تھا۔وہ فوراً ایمان لے آئے۔ جیسے حضرت ابوبکر صدیق نے اعتراف کیا۔ اہل کفر اور اہل ایمان کا امتحان تھا۔
میزبان:واقعہ معراج کتنی دفعہ پیش آیا؟
مہمان :بعض لوگوں نے کہا کہ یہ واقعہ بہت دفعہ پیش آیا، بعض نے کہا کہ اسرا دو بار اور معراج ایک بار، بعض نے کہا کہ معراج دو بار اور اسرا ایک بار اور بعض نے کہا کہ دونوں دو دو بار، یہاں روایات میں فرق ہے۔ بعض نے تفصیل سے بیان کیا اور بعض نے مختصر بیان کیا۔
راوی شریک ابن عبدﷲ امام مسلم نے جب ان کی طرف روایت اشارہ کیا تو انھوں نے فرمایا (وقدم فیہ شیئا واخر وزاد ونقص) صحیح مسلم 148/1
یعنی اس راوی کی طرف سے اضطراب ہے۔ کہ اس نے شریک راوی کی طرف حد بندی میں فرق کیا۔مطلب کہ جہاں کسی نبی سے ملاقات پانچویں آسمان پر تھی، اس نے چھ کا ذکر کیا، ترتیب میں فرق ہے ۔بعض چیزوں کے اندر اضافہ کیا ہے جو بعض راویوں نے بیان نہیں کیا ۔اس فرق کی وجہ سے لوگوں نے شاید یہ واقعہ ایک سے زائد بار پیش آیا۔امام مسلم نے بہت بہترین طریقہ اختیار کیا ۔ جہاں پر روایت کو حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرنے والے صحابہ اور تعین کی روایت کو ذکر کیا ہے ۔وہاں انھوں نے شریک کی روایت کو بھی ذکر کیا ہے ۔کہ "زاد ونقص قدم واخر” بعض جگہوں پر اضافہ کیا اور بعض میں کمی کی، اور بعض جگہوں پر تقدیم و تاخیر کی۔اس کمی کا بیان کرنا بھی حدیث کی صحیح ہونے کی دلیل ہے کہ آئمہ اور علماء نے ہر غلطی کو پکڑا ہے ۔اصل میں یہ واقعہ ایک بار پیش آیا۔ ایک ہی رات میں روح اور جسم کے ساتھ، یہ صحیح احادیث سے ثابت ہے ۔اور اس میں کسی قسم کا کوئی شک نہیں ۔