تخريج حديث : ( من صلى علي يوم الجمعة ثمانين مرة غفرت له ذنوب ثمانين عاما ) کاترجمہ
يہ حديث تین صحابہ :حضرت ابوہريرهؓ، حضرت انسؓ، اورحضرت سہل بن عبدالله سے مروی ہے۔
(۱) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت:
حديثِ کی تخريج ابن شاہین نے (الترغيب فی فضائل الاعمال، 22)میں،ابن شاہین كے طريق سے ابن بشكوال نے (القربۃ 109)میں،اوردارقطنی نےاپنی كتاب (الافراد،واطراف الغرائب 5095)میں، اور ديلمی نے(مسندالفردوس:2/408) میں،اوراسی طرح ابوالشيخ اورضياء الدین مقدسی،ان سب نے دارقطنی كے طریق سے بيان كياہے۔کمافی(السلسلۃ الضعيفۃ:3804)۔
ان تمام حضرات نے حدیث کی روایت مندرجہ ذيل سند سے كی ہے:
حدثنا عون بن عمارة قال :حدثنا السكن البُرجُمی ، عن الحَجّاج بن سِنان ، عن علي بن زيد ، عن سعيد بن المسيب ، عن أبي هريرة مرفوعا بلفظ : ” الصلاة عليَّ نور علی الصراط ، فمن صلی عليَّ يوم الجمعة ثمانين مرة غفرت له ذنوبُ ثمانين عاما “۔
اورامام سخاوی علیہ الرحمہ نے ”القول البديع:ص284“میں حضرت ابوہريره كی روايت میں”قبل أن يقوم من مقامه“ اور ”وكتبت له عبادة ثمانين سنة“كی زيادتی نقل کی ہے، اس زيادتی كے نقل کرنےمیں امام سخاوی منفرد ہیں، اوراس كی نسبت انہوں نے ابن بشكوال كی طرف كی ہے، لیكن یہ زيادتی”القربۃ“ میں موجود نہیں ہے، تومعلوم نہیں کہ یہ زیادتی ابن بشكوال کی کونسی كتاب میں موجود ہے ؟
امام سخاوی ؒ کی عبارت ملاحظہ فرمائیں :”وفی لفظٍ عند ابن بشكوال من حديث أبي هريرة أيضا : من صلى صلاة العصر من يوم الجمعة فقال قبل أن يقوم مكانه : اللهم صل على محمد النبي الأمي وعلى آله وسلم تسليما ، ثمانين مرة ، غُفِرت له ذنوب ثمانين عاما ، وكتبت له عبادة ثمانين سنة “۔
حدیث کی متابعات :
(۱) زكريا برجمی كی متابعت:امام ازدی نے ”الضعفاء المتروكین“ میں سكن بن ابى السكن كے بجائے زكريا البرجمی سے يہ روايت نقل کی ہے، جیساکہ امام ذہبیؒ نے (ميزان الاعتدال:2881) اور حافظ ابن حجرؒ نے(لسان الميزان:3222)میں زكريا بن عبدالرحمن برجمی كے ترجمہ میں ذكركياہے، اور امام ازدی نے زكريا كوضعیف قراردياہے۔
(۲) منصور بن صقیر كی متابعت:شیخ البانی فرماتے ہیں: يوسف بن عمر القواس نےاس حدیث میں عون بن عمارةكے بجائےمنصور بن صقيرکو ذکر کیا ہے،گويايوسف بن عمر نے عون بن عمارة كی سندِ حديث میں مخالفت كی ہے، البتہ يہ دونوں یعنی عون اور منصور سكن البرجمی سے روايت كرنے میں متفق ہيں، نیز یہ متابعت (جزء ابی القاسم الازجی 16)میں بھی مذكورہے، البانی نے (تقريب التہذیب) كے حوالے سے منصوربن صقيركی تضعیف بھی نقل كی ہے۔
(۳) حضرت ابوذرؓكی متابعت:ابن عساكر نے ذكركياہے كہ عون بن عمارة كے علاوه راویوں نے سكن سے جب روايت كی تو انہوں نے حضرت ابوہريره كے بجائےحضرت ابوذرغفاریؓ کو صحابی حدیث بتایا ہے ۔(القول البدیع:284)۔
سند کی تحقیق:
اس حدیث کی سند بہت کمزور ہے۔اس میں تین رواۃ ضعیف ہیں:
(۱) عون بن عمارۃ:ان کے بارے میں ابو زرعہ نے فرمایا: منکر الحدیث، اور ابو حاتم نے کہا: میں نے ان کا زمانہ پایا البتہ میں ان کے بارے میں سکوت اختیار کرتاہوں، اور وہ منکر الحدیث بھی تھے اور ضعیف بھی تھے۔اور امام ابو داود نے فرمایا:ضعیف ]تہذیب التہذیب8/173]۔ ابن طاہر مقدسی نے کہا:وہ کثیر الغلط لوگوں میں سے ہیں، لہذا ان کی بات سے استدلال نہیں کیا جاسکتا۔[معرفۃ التذکرۃـ 1078]۔
(۲) حجاج بن سنان:امام ازدی نےان کومتروک الروایۃ بتایا ہے۔]لسان المیزان2/563]۔
(۳) علی بن زیدبن جدعان:امام ابو زرعہ نے کہا:وہ ثقہ نہیں ہیں، خطاکرتے ہیں اور وہم کے شکار ہوتے ہیں۔اورامام احمد نے کہا:معتبر نہیں ہیں۔ابوحاتم نے کہا:لایحتج بہ۔دار قطنی کہا:میرے نزدیک وہ ضعیف ہی رہے، اور شعبہ نے ان پر اختلاط کا الزام لگایا ہے۔[المغنی للذہبی2/447]۔ اور سعید بن المسیب کو صحابی کے بارے میں جوشک ہواہے کہ وہ ابوہریرہ ہیں یا ابو ذر؟اگر یہ شک سعید کو ہواہو تو کوئی حرج نہیں ہے، اور اگر ان کے علاوہ کسی ضعیف راوی کوشک ہواہو تووہ اضطراب ہوگا، اور وہ راوی کے ضبط میں مؤثر ہوگا۔
حدیث کا حكم:
دارقطنی نے فرمایا:علی بن زیدسے روایت كرنے میں حجاج بن سنان منفرد ہیں، اور حجاج سے بھی صرف سكن بن ابی السكن نے ہی روایت كیاہے۔
حافظ (لسان المیزان) میں حجاج بن سنان كے ترجمہ میں كہتے ہیں:حدیث منكر، اور (نتائج الافكار تخریج احادیث الاذكار-5/56)میں فرمایا:غریب، اوراس كے چاروں رواۃ ضعیف ہیں۔
البانی نے (سلسلۃضعیفہ حدیث3804) میں كہا:ضعیف۔
جبکہ امام عراقی نے (تخریج احادیث الاحیاء )میں ابوعبداللہ محمد بن موسی بن نعمان سے نقل كیا، کہ وہ فرماتے ہیں:حدیث حسن۔سخاوی نے (القول البدیع-285) میں اس پرتبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ:یہ بات محل نظرہے۔(یعنی:حدیث كی سند ،یا ابن نعمان كی تحسین )۔
(۲) حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت:
حدیث کی تخریج :
حدیثِ انس بن مالكؓ دوسندوں سے مروی ہے:
پہلی سند :
وهب بن داود بن سليمان المخرّمي ، عن إسماعيل بن إبراهيم الشهير بابن عُلية ، عن عبد العزيز بن صهيب ، عن أنس مرفوعا ۔
اس سند كے واسطہ سے حدیث کی تخریج:
(۱) خطیب بغدادی نے (تاریخِ بغداد3/489)میں وہب بن داود كے ترجمہ میں کی ہے۔
(۲) ابن الجوزی نے(العلل المتناہیۃ:796)میں ۔
(۳) اور ابوسعدنے( شرف المصطفی :حدیث2044)میں، مگرانہوں نے سند بیان نہیں كی ہے، اوراس میں”مئة مرة “ كے الفاظ ہیں ۔
پہلی سند سےحدیثِ انس بن مالكؓ کےالفاظ یہ ہیں: من صلی علي يوم الجمعة ثمانين مرة غفر الله له ذنوب ثمانين عاما ، فقيل له : و كيف الصلاة عليك يا رسول الله ؟ قال : تقول : اللهم صل علی محمد عبدك ونبيك ورسولك النبي الأمي ، وتعقد واحدا .
پہلی سندکا حال :
اس میں وہب بن داود بن سلیمان المخرمی ہے، خطیب نےاسےغیر موثوق بہ كہاہے۔
پہلی سند کاحكم :
ابن الجوزی نے (العلل المتناہیۃ-796)میں فرمایا:یہ حدیث صحیح نہیں ہے۔
حافظ ذہبی نے (المغنی فی الضعفاء:6904)میں فرمایا:یہ وہب بن داود كی وضع کردہ ہے۔
البانی كہتے ہیں:كہ یہ روایت ابن الجوزی نے (الاحادیث الواہیۃ) میں ذكر كی ہے۔میں كہتاہوں كہ: یہ ان كی دوسری كتاب”الاحادیث الموضوعات“کے زیادہ مناسب ہے، اس لئے كہ اس حدیث میں علاماتِ وضع ظاہر ہیں۔
دوسری سند:
محمد بن رِزَام ، عن محمد بن عمرو ، عن مالك بن دينار وأبان ، عن أنس .
حدیثِ کی دوسری سندسے تخریج :
اس كی تخریج اسی سند سے قوام السنۃ نے(الترغیب-1696)میں ( من صلی علي في كل يوم جمعة أربعين مرة محا الله عنه ذنوب أربعين سنة ، ومن صلی علي مرة واحدة فتقبلت منه ، محا الله عنه ذنوب ثمانين سنة ، ومن قرأ : قل هو الله أحد أربعين مرة حتی يختم السورة بنی الله له مناراً في جسر جهنم حتی يجاوز الجسر ) كے الفاظ كے ساتھ كی ہے۔
دوسری سند کا حال :
اس میں محمد بن رزام بصری ہے، ذہبی نے (میزان –3/545)میں اس پروضعِ حدیث كی تہمت لگائی ہے۔اس كی كنیت ”ابوعبدالملك“ہے۔امام ازدی كہتے ہیں:يہ متروك الحدیث ہے۔دارقطنی نے كہا كہ:اباطیل بیان كرتاہے۔
(۳) حضرت سہل بن عبد اللہ کی روایت:
اسے ابن بشكوال نے (القربۃالی رب العالمین 111)میں روایت كیاہے، اوركہا:ہمارے شیخ ابوالقاسم نے ہم سے كہاکہ: سہل بن عبداللہ سے مروی ہے: من قال في يوم الجمعة بعد العصرِ : اللهم صل علی محمد النبي الأمي وعلی آله وسلم ، ثمانين مرة ، غفرت له ذنوب ثمانين سنة .
سہل بن عبداللہ صحابی تو نہیں ہیں، بلکہ سندمیں کوئی شیخ ہیں جن كی شخصیت میں پہچان نہیں سكا۔ممكن ہے كہ وہ سہل بن عبداللہ بن بریدۃ بن الحصیب الاسلمی المروزی ہوں، جوكہ منكرالحدیث ہیں۔(كمافی المغنی للذہبی:1/145) ياابوالحسن سہل بن عبداللہ الغازی الاصبہانی ہوں، جوكہ پانچویں صدی ہجری كے متاخرین میں سے ہیں۔(كمافی تاریخ دمشق:10/130)۔
تنبیہ:مجھے كراچی سے نكلنے والےرسالہ(بینات،شمارہ رجب۱۴۳۷ھ )میں اس حدیث كی تخریج كے متعلق ايك مقالہ ملا، جس میں كاتب ِمقالہ نے اپنی طرف سے سہل بن عبداللہ كی روایت كی مخترع سند بیان كی ہے، جو توجہ كے قابل نہیں ہے، اور یہ علوم ِ اسناد كے باب میں واضح جہالت ہے، اہل رسالہ كو چاہئےتھا كہ وہ ایسے ضعیف اور غیرمستند مقالہ کے شائع كرنے میں احتیاط برتتے۔
خلاصۂ حكم علی الحديث:
حدیث بیحد ضعیف ہے، ثبوت كے درجہ كونہیں پہنچتی، اوراس كی اصل فقط حدیثِ ابی ہریرہؓ ہے، جس میں تین ایسے ضعیف راوی ہیں جن كے ضعف كا ازالہ ان كےروایت کرنے میں منفرد ہونے كی وجہ سے ممكن نہیں ہےاور حدیثِ انس اس كےليے شاہد نہیں بن سكتی اس لیے كہ وہ موضوع ہے۔اورنہ ہی روایتِ سہل بن عبداللہ كيوں كہ اس كی كوئی معتمد سند نہیں ہے۔
لہٰذا ،اب پوری بحث فقط حدیثِ ابی ہریرہ پرمنحصرہوگئی۔اورحدیث ابی ہریرہؓ كی صحت میں دومؤثر علتیں ہیں:
(۱) بعض راويوں كا تفرد۔
(۲) بعض راويوں كے بارے میں شدید جرح۔
پہلی علت کی تفصیلی بحث:
راوی کا تفرد محدثین كے نزدیك اس کی روایت كی صحت میں مؤثر ہوتاہے، خاص طورسے جب كہ تفردكرنے والا راوی ضعیف اورمجروح ہو۔
امام ابوداودعلیہ الرحمہ اپنی كتاب (سننِ ابی داود)كی احادیث كے وصف میں فرماتے ہیں:”وہ احادیث جنہیں میں نے كتاب السنن میں لیاہے ،وہ اكثرمشہور روایات ہیں، اوروہ ہرحدیث لكھنے والے كے نزدیك معروف ہيں، مگر ان کے ما بین تميزکرنے پر ہرایك قادرنہیں ہوتا۔البتہ ان كے علو مرتبہ كے ليے اتنا كافی ہے كہ وہ مشہورہیں۔اس ليے كہ حدیثِ غریب(غیر معروف) حجت نہیں ہے، چاہے يہ غریب حدیث امام مالك، يحیی بن سعید، اور ان جيسے ثقاتِ اہلِ علم كی روایات سے منقول ہو۔
اور جوكوئی غریب غیر مشہورحدیث سے استدلال كرے گاتو اس کی وجہ سے اس پر طعن کرنےوالا كوئی نہ كوئی آپ كوضرور ملے گا۔اورايسی حدیث قابل ِاحتجاج نہیں ہے جو غریب وشاذ ہو،رہ گئی بات اس صحیح حدیث كی جو مشہوراورمتصل الاسناد ہو تواس كی بابت آپ پرطعن كرنے پر كوئی قادرنہ ہوگا۔“
ابن الصلاح نے رواۃ كے تفرد پر بحث كرتے ہوئے فرمایا :” متفرد بالروایت راوی كے حالات میں غور كیا جائے، اگر وہ عادل حافظ اورموثوق بالاتقان والحفظ ہو،تو اس کا تفرد قابلِ قبول ہوگا، اور اس كا اس حدیث كے باب میں انفراد مؤثرنہیں ہوگا … پھر فرمایا:اور اگر وہ راوی اس روایت میں تفرد کی بابت موثوق بالحفظ والاتقان نہ ہو، تو اس کا تفرد اس کی ثقاہت میں مؤثر ہوگا،اور روایت مرتبۂ صحت سےمنحط ہوگی۔
پھر راویوں کاتفرد راویوں كے حالات كے اعتبارسے مختلف مراتب کا ہوتاہے۔چنانچہ تفرد کرنے والاراوی ،اگر ایسے راوی کے مرتبہ کے قریب ہو جوپختگی ِحفظ سے موصوف اور مقبول التفرد ہے، تو ہم اس کی منفرد روایت کو حسن کا درجہ دیں گے ، اور اس روایت کو ضعیف نہیں قرار دیں گے۔اوراگر تفرد كرنے والا راوی مذكورہ مرتبہ سے دورہو تو اس كاتفرد مردود ہوگا، اوراس کی روایت حدیثِ شاذ كی قبیل سے ہوگی۔[علوم الحدیث لابن الصلاح ص79]
امام ابن رجب فرماتے ہیں:كہ اكثر متقدمین علماء حدیث ایسی روایت كے بارے میں ،جب كہ اس كا راوی منفردہو، اگرچہ ثقہ راوی اس کی روایت کے خلاف بیان نہ كرتے ہوں ،فرماتے ہیں:اس راوی كی متابعت نہیں کی جائے گی ، اور اس کے تفرد كو وہ حضرات اس کے حفظ میں مؤثر شمار كرتے ہیں۔ الایہ كہ راوی ان اشخاص میں سے ہوجن کاحفظ وضبط اور عدالت مشہور ہو، جیسےامام زہری اور ان كے مانند۔بلکہ بعض مرتبہ کبارِ حفاظ ِ حدیث کے تفردات کو بھی منکر قرار دے کر رد کردیتے ہیں، اور نقادِ حدیث کی ہر حدیث میں ایک خاص ناقدانہ نظر ہوتی ہے ، جس کا ان کے یہاں کوئی ضابطہ نہیں ہوتا ہے ۔[شرح علل ترمذی 2/582]۔
ان نصوص کی روشنی میں اگر دیکھا جائے تو زیرِ بحث روایت میں دارقطنی نے دو راویوں کے بارے میں تفرد کا حکم لگایا ہے:
پہلے راوی :حجاج بن سنان ، کہا کہ وہ علی بن زید سے روایت کرنے میں منفرد ہیں۔
دوسرے راوی :سکن بن ابراہیم ، کہا کہ وہ حجاج بن سنان سے روایت کرنے میں منفرد ہیں۔
حجاج تو متروک الروایت ہے ، تو اس کا تفرد منکر غیر مقبول ہے ۔ جبکہ سکن کی دراقطنی نے توثیق کی ہے ، تو اس کا تفرد محدثین کی اصطلاح کے مطابق شذو ذواغراب ہے ۔
دوسری علت کی تفصیلی بحث:
سند میں بعض راویوں پر محدثین نے بہت شدید جرح كی ہے، اور وہ تین راوی ہیں:(۱)عون بن عمارۃ۔(۲)حجاج بن سنان۔(۳)علی بن زیدبن جدعان۔
اوران میں سے ہرایك راوی پرجوجروح كی گئیں ہیں كمامرّ، وہ جروح ایسی ہیں جو ان كی روایت كی صحت میں مؤثر ہیں ۔ناقدینِ حدیث نے مذكورہ راویوں كے بارے میں ان كے تفرد، كثرتِ اغلاط ،اور قابل حجت نہ ہونے كی تصریح كی ہے۔اور حافظ ابن حجرؒ نے حجاج كی روایت كو ”غریب منكر“كہاہے۔
اسی طرح حدیث كی جومتابعات ذكركی گئیں، جیسے:زكریا برجمی كی سكن ابن ابی السكن كی متابعت، اور منصوربن صقیر كی عون بن عمارۃ كی متابعت، تو یہ متابعات حدیث كو تقویت دینے كی صلاحیت نہیں رکھتی ہے۔اس لیے كہ متابعت كرنے والا راوی ،متابعت كئے گئے راوی سےزیادہ ضعیف ہے۔
ایک اشکال کا جواب:
پھر اگر یہ اشكال كیا جائے كہ مذكورہ روایت فضائلِ اعمال كے باب میں ہے، اورعلماءِ حدیث فضائل میں حدیثِ ضعیف كو معتبرمانتے ہیں؟
تواس كا جواب یہ ہے كہ ہر ضعیف حدیث كو فضائل كے باب میں معتبر ماننا جیساكہ بعض لوگ گمان كرتے ہیں، یہ صحیح نہیں ہے۔بلكہ فضائل كے باب میں ضعیف حدیث پر عمل كرنے كے چند شرائط علماء نے ذكركیے ہیں:
حافظ ابن حجرؒنے مندرجہ ذیل شرائط ذكركیے ہیں:
(۱) پہلی شرط :روایت ضعفِ شدید سے متصف نہ ہو۔اس شرط كی قید سے وہ روایتیں جو كذابین، متہمین بالكذب اور فاحش الغلط راویوں كی سند سے منقول ہیں وہ باہر ہوجائیں گی۔اور امام علائی نے اس شرط پر اتفاق نقل كیاہے۔[القول البدیع-472-473]۔
اسی بناء پر ایسی حدیث كی روایت كرنا، اگرچہ فضائل كے باب میں ہو،جائزنہیں ہے، الایہ كہ اس كے ضعف كی صراحت كی جائے، تاكہ كوئی اس كے بارے میں دھوكہ میں نہ پڑے۔
(۲) دوسری شرط:شریعت كے عام اصولوں میں سے كسی اصلِ عام كے ماتحت مندرج ہو۔اس شرط سے وہ روایات خارج ہیں جو من گھڑت ہوں ، اور كسی اصل كے تحت نہیں آتی ہوں۔
(۳) تیسری شرط:اس ضعیف روایت پر عمل كرنے والا عمل کرتے وقت اس روایت كے ثبوت كا اعتقاد نہ ركھے، بلكہ ثواب كی امید ركھتے ہوئے احتیاطاً عمل كرے۔تاكہ ثبوت كے اعتقاد ركھنے میں حضور اكرم ﷺ كی طرف كسی غیرثابت بات كی نسبت لازم نہ آئے۔اس لیے كہ یہ جائزنہیں ہے كہ حضورﷺ كی طرف كوئی بات منسوب كی جائے، جب تك اس كی كوئی معتبرسند نہ ہو۔
اب اگر مذکورہ شرائط پر زیرِ بحث روایت کو پیش كیاجائے تاكہ انطباق وعدمِ انطباق كا پتہ چل جائے، تو ہم دیكھیں گے كہ اس حدیث میں شرطِ اول تومفقود ہے۔
جہاں تك تعلق ہے شرطِ ثانی كا، تو یہ شرط حدیثِ پاك میں تین اصول كے تحت پائی جارہی ہے:
(۱) شبِ جمعہ اور یومِ جمعہ میں آپﷺ پر درودِ پاك پڑھنے كی فضیلت۔اوریہ اصل مشہورہے، اس لئےاس پرتدلیل كی كوئی ضرورت نہیں ہے۔
(۲) یومِ جمعہ كی فضیلت۔جوكہ احادیثِ صحیحہ سے ثابت ہے۔چنانچہ نبی كریمﷺ كا ارشاد ہے:” « خَيْرُ يَوْمٍ طَلَعَتْ عَلَيْهِ الشَّمْسُ يَوْمُ الْجُمُعَةِ ، فِيهِ خُلِقَ آدَمُ ، وَفِيهِ أُدْخِلَ الْجَنَّةَ ، وَفِيهِ أُخْرِجَ مِنْهَا، وَلاَ تَقُومُ السَّاعَةُ إِلاَّ فِي يَوْمِ الْجُمُعَةِ ». ]رواه مسلم برقم 854من حديث ابی هريرة[ .
(۳) جمعہ كے دن عصركے بعد كے وقت كی فضیلت۔اس پر بہت سی احادیث دلالت كرتی ہیں، چنانچہ ایك حدیث میں ارشاد ہے: « يَوْمُ الْجُمُعَةِ ثِنْتَا عَشْرَةَ » يُرِيدُ سَاعَةً « لاَ يُوجَدُ مُسْلِمٌ يَسْأَلُ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ شَيْئًا إِلاَّ آتَاهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ ، فَالْتَمِسُوهَا آخِرَ سَاعَةٍ بَعْدَ الْعَصْرِ ».[ اخرجہ ابوداود برقم 1050من حديث جابر ].
ترجمہ: حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :جمعہ کا دن بارہ ساعت کا ہوتا ہے، ان میں سے ایک ساعت (گھڑی) ایسی ہے کہ اگر اس وقت کوئی مسلمان بندہ اللہ سے کچھ مانگے تو اس کو ضرور دیا جاتا ہے ،پس اس گھڑی کو عصر کے بعد آخر وقت میں تلاش کرو۔
ایک اور حدیث جوحضرت ابو ہريرة رضی الله عنہ سے مروی ہے : « خير يوم طلعت فيه الشمس يوم الجمعة ، فيه خلق آدم ، وفيه أدخل الجنة ، وفيه أهبط منها ، وفيه ساعة لا يوافقها عبد مسلم فيسأل الله فيها شيئا إلاأعطاه إياه. قال أبو هريرة : فلقيت عبد الله بن سلام فذكرت له هذا الحديث ، فقال : أنا أعلم بتلك الساعة ، فقلت : أخبرني بها ولا تضنن بها علي ؟ قال : هي بعد العصر إلى أن تغرب الشمس. فقلت : كيف تكون بعد العصر وقد قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ( لا يوافقها عبد مسلم وهو يصلي) وتلك الساعة لا يصلّى فيها ؟ فقال عبد الله بن سلام : أليس قد قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ( من جلس مجلسا ينتظر الصلاة فهو في صلاة ) ؟ قلت: بلى ، قال: فهو ذاك»[ اخرجہ بنحوه الترمذی برقم 914] .
ترجمہ :ابوہریرہ ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :تمام دنوں میں بہترین دن کہ اس میں سورج نکلتا ہے جمعہ کا دن ہے، اس دن آدم علیہ السلام پیدا ہوئے ،اور اسی دن جنت میں داخل ہوئے ،اور اسی دن جنت سے نکالے گئے، اس میں ایک وقت ایسا ہے کہ اگر اس میں مسلمان بندہ نماز پڑھتا ہو پھر اللہ تعالیٰ سے کسی چیز کا سوال کرے تو اللہ تعالیٰ اسے وہ چیز ضرور عطا کر دیتا ہے۔
حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں میں نے عبداللہ بن سلام سے ملاقات کی تو ان سے اس حدیث کا تذکرہ کیا، انہوں نے فرمایا :میں وہ گھڑی جانتا ہوں ،میں نے کہا پھر مجھے بتائیے اور بخل سے کام نہ لیجئے۔ انہوں نے کہا :عصر سے غروب آفتاب تک۔ میں نے کہا :یہ کیسے ہو سکتا ہےجبکہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ :(نہیں پاتا کوئی بندہ مسلم حالت نماز میں) اور عصر کے بعد تو کوئی نماز نہیں پڑھی جاتی ؟عبداللہ بن سلام نے کہا :کیا رسول اللہ ﷺ نے یہ نہیں فرمایا کہ: جو شخص کہیں نماز کے انتظار میں بیٹھے گویا کہ وہ نماز میں ہے؟ میں نے کہا ہاں یہ تو فرمایا ہے، عبداللہ بن سلام نے کہا :یہ بھی اسی طرح ہے۔
بہر حال یہ تین فضائل كے اصول ہیں جن كے ماتحت یہ حدیث مندرج ہوجاتی ہے۔
رہ گئی حدیثِ ضعیف پر عمل كرنے كی تیسری شرط، اوروہ ہے كہ: حدیث پرعمل كرتے وقت اس كے ثبوت كا یقین نہ ركھنا، بلكہ ثواب كی امید پر احتیاطاً عمل كرنا۔اس شرط كالحاظ ركھتے ہوئے ضعیف حدیث پر عمل كرنے كی اجازت متقدمین اور متاخرینِ اہلِ علم نے دی ہے۔اورعلامہ سخاویؒ نے ان كےاقوال (القول البدیع )كے خاتمہ میں تفصیل كے ساتھ نقل كیے ہیں۔
الحاصل میری ذاتی رائے اس حدیث كے متعلق یہ ہے: كہ اس حدیث كواگرہم احتجاج اور ثبوت كی نظرسے دیكھیں تو وہ احتجاج كے قابل نہیں ہے۔لیكن اس پر عمل كرنے كی گنجائش ہے ، بشرطیكہ اس كے مسنون ہونے كا اعتقاد نہ ہو،سند كے شدید الضعف ہونے کی وجہ سے۔ البتہ اس پر ثواب كی امید كے ساتھ عمل كرسكتےہیں من باب الاحتیاط، اس لیے كہ ممكن ہے كہ كسی درجہ میں اس كاثبوت ہو۔مگر اس كےساتھ ساتھ مذكورہ قیودات كاالتزام نہ كرے، جیسے:عصركے بعد پڑھنا، اوراپنی جگہ سےاٹھنے سے پہلے پڑھنا۔اوریہ بھی ہے کہ ہر جمعہ اس كے پڑھنے كا التزام نہ كرے، بلكہ كبھی كبھی ترك بھی كردے، تاكہ سنتِ ثابتہ ہونے كا اعتقاد دل میں راسخ نہ ہو۔
هذا ما تيسر جمعه وترتيبه في تخريج هذا الحديث ، والله الموفق للصواب .
قام بترجمته من العربية الفاضلان :
المولوي :محمد عبيد بن عبد الباسط منيار
والمولوي : خبيب بن محمد أيوب منيار
نفع الله بهما