حدیث کے تمام ضروری اور اہم مباحث ماخوذ از انتخاب حدیث
مولانا عبدالغفار حسن عمر پوری
حدیث کے تمام ضروری اور اہم مباحث اس مختصر مقدمہ میں نہیں سموئے جاسکتے، ان کے لیے علیحدہ مستقل تصنیف کی ضرورت ہے۔ سردست حدیث کے جمع و ترتیب کا ایک مختصر سا خاکہ پیش کیا جا رہا ہے، جس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ احادیث نبوی کے گراں قدر زخائر تیرہ سو سال کے عرصہ میں کن کن مراحل کو طے کرتے ہوئے ہم تک پہنچے ہیں، اور وہ کون کون سے پاک باز نفوس تھے۔ جنھوں نے حکمت و ہدایت کے ان بیش بہا خزانوں کو آئندہ نسلوں تک محفوظ شکل میں منتقل کرنے کے لیے اپنی زندگیاں وقف کر دیں ، اور اگر موقع آیا تو اس راہ میں جان کی بازی لگا دینے سے بھی گریز نہ کیا۔
اصطلاحات حدیث
حدیث
رسول اللہ ﷺ کے قول فعل اور تقریر(تقریر کا یہ مطلب ہے کہ آپﷺ کے سامنے کوئی کام کیا گیا ہو لیکن اس پر آپ نے انکار نہ فرمایا ہو ۔)کا نام حدیث ہے۔
اثر
صحابہ ؓکے قول اور فعل کو اثر کہا جاتا ہے، اس کی جمع آثار ہے۔
سند
حدیث کے راویوں کے سلسلہ کو سند کہتے ہیں ۔
متن
حدیث کی عبارت کو متن کہا جاتا ہے۔
خبر متواتر
جس کے راوی ہر دور میں اتنے زیادہ رہے ہوں کہ ان کا جھوٹ پر متفق ہوجانا عادۃ ناممکن ہو۔
فائدہ
تواتر کی چند قسمیں ہیں:
- ایک دور سے دوسرے دور کی طرف نسل بعد نسل پوری وسعت اور عموم کے ساتھ نقل وروایت کا سلسلہ جاری رہے۔ مثلا قرآن مجید
- تواتر عملی نماز کے اوقات اذان اور نماز کی بنیادی ہیئت ۔
- تواتر اسناد – مثلا من كذب على متعمدا فليتبوأ مقعده من النار صرف صحابہ ؓ کے دور میں اس کے سو سے زیادہ راوی ہیں ۔ اسی طرح ختم نبوت کی روایات ۔
- تواتر معنوی ۔ یعنی قدر مشترک تمام روایات میں درجہ تواتر کو پہنچا ہوا ہو۔ مثلا معجزات نبویﷺ ، دعا میں ہاتھ اٹھانا وغیرہ۔(مقدمہ فتح الملہم)
خبر واحد یا آحاد
جس کے راوی تعداد میں تواتر کے درجہ کو نہ پہنچے ہوں۔
محدثین کے نزدیک اس کی تین قسمیں ہیں:
(الف ) مشہور
صحابہ کے بعد جس کے راوی کسی دور میں تین سے کم نہ ہوں ۔
(ب) عزیز
جس کے راوی ہر دور میں دو سے کم نہ ہوں ۔
(ج ) غریب
جس کا راوی کسی دور میں ایک ہی رہ گیا ہو.
مرفوع
جس حدیث کی نسبت رسول اللہ ﷺ کی طرف ہو۔
موقوف
جس روایت کی نسبت صحابہ کی طرف ہو، یعنی ان کا قول و فعل ہو۔
متصل
جس کے سلسلہ سند میں کوئی راوی ساقط نہ ہو.
منقطع
متصل کے برعکس۔
معلق
سند کی ابتدا سے راوی چھوڑ دیا جائے یا پوری سند ہی حذف کر دی جائے ۔ اس حذف کرنے کو تعلیق کہتے ہیں۔
معضل
سند میں مسلسل دو یا دو سے زیادہ راوی غائب ہوں ۔
مرسل
تابعی اور آں حضور ﷺ کے درمیان صحابی کا ذکر نہ ہو۔
شاذ
وہ روایت جس میں ثقہ راوی اپنے سے قوی تر راوی کی مخالفت کرتا ہو۔قوی تر کی روایت کو محفوظ کہا جاتا ہے۔
منکر
اگر ضعیف راوی دوسرے ثقہ راوی کی مخالفت کرے تو ضعیف کی روایت کو منکر اور اس کے بالمقابل ثقہ کی روایت کو معروف کہتے ہیں ۔
معلل
ایسی روایت جس میں ایسا مخفی نقص موجود ہو جسے علم حدیث کے ماہرین ہی بھانپ سکتے ہوں۔مثلا کسی وہم کی بنا پر مرفوع کو موقوف یا اس کے برعکس کردینا۔
صحیح
جس روایت میں مندرجہ ذیل اُمور پائے جاتے ہوں:
( الف ) سند متصل ہو۔
(ب) راوی عادل یعنی سیرت و اخلاق کےاعتبار سے قابل اعتماد ہوں۔
(ج) حافظہ درست ہو۔
(د ) شاذ نہ ہو۔
(ہ) معلل نہ ہو۔
حسن
جس میں مذکورہ بالا تمام اوصاف پائے جاتے ہوں صرف حافظہ کے اعتبار سے ہلکا پن ہو ، اگر ایسی حسن روایت کی دوسری اسی قسم کی روایات مؤید ہوں تو اسے صحیح لغیرہ کہتے ہیں۔
ضعیف
وہ روایت جس کے مندرجہ بالا تمام اوصاف یا بعض میں نمایاں کمی پائی جائے ۔ کئی ضعیف روایات حسن لغیرہ کے حکم میں ہو جاتی ہیں ۔ بشرطیکہ یہ ضعف سیرت و کردار میں فساد کی وجہ سے نہ پیدا ہوا ہو۔
(قواعد التحديث ص 9)
ضعیف روایت کا انتہائی نا قابل اعتماد درجہ یہ ہے کہ اس کے راویوں کا تقوی ہی مشتبہ ہو کر رہ جائے۔ایسی روایت موضوع کہلاتی ہے۔
حفاظت حدیث کے تین ذرائع
احادیث رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم تک تین قابل اعتماد ذرائع سے پہنچی ہیں:
- تعامل امت۔
- تحریری یادداشتیں اور صحیفے۔
- حافظہ کی مدد سے روایت: یعنی سلسلہ درس و تدریس۔
اس لحاظ سے جمع و ترتیب اور تصنیف و تالیف کے پورے زمانے کو چار ادوار میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔
پہلا دور : (عہد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلی صدی ہجری کے خاتمہ تک)
اس دور کے جامعینِ حدیث اور قلم بند کی ہوئی یادداشتوں اور مجموعوں کی تفصیل یہ ہے:
مشہور حافظین حدیث
‼ صحابه کرام رضی اللہ عنہم‼
- حضرت ابو هريرة رضی اللہ عنہ ( عبد الرحمن)
انکی وفات 57ھ ۔بعمر 78 سال۔تعداد روایات 5374۔اور ان کے شاگردوں کی تعداد 800 تک پہنچتی ہے۔
- حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما
انکی وفات 68ھ ۔بعمر71 سال،تعداد روایات 2660۔
- حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا
انکی وفات 58ھ بعمر 67 سال تعداد روایات 2210.
- حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما
انکی وفات 73ھ.بعمر 84 سال۔تعداد روایات 1630.
- حضرت جابر بن عبد الله رضی اللہ عنہ
انکی وفات 78ھ۔بعمر94 سال،تعداد روایات 1560.
- حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ
انکی وفات 91ھ . بعمر 103 سال،تعداد روایات 1286.
- حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ
انکی وفات 74ھ بعمر 84 سال۔تعداد روایات 1170.
یہ وہ جلیل القدر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہیں جنھیں ایک ہزار سے زائد احادیث حفظ تھیں۔
ان کے علاوہ حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ ، وفات 63ھ ، حضرت علی رضی اللہ عنہ، وفات 40ھ ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ، وفات 23ھ کا شمار ان صحابہ کرام ؓ میں ہوتا ہے جن کی روایات کی تعداد پانچ سو اور ہزار کے درمیان ہے۔
اسی طرح حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ، وفات 13ھ۔حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنھا، وفات 59ھ- حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ ، وفات 51ھ، حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ ، وفات 32ھ- حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ ، وفات 52ھ، حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ ، وفات 21ھ یا 32 ھ، اور حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ ، وفات 18ھ سے سو (100) سے زیادہ اور پانچ سو (500) سے کم روایات منقول ہیں۔
تابعین
ان کے ماسوا اس دور کے اُن کبار تابعین کو بھی نہیں بھلایا جاسکتا،جن کی سرفروشانہ اور پر خلوص کوششوں کی بدولت سنت کے خزانوں سے اُمتِ محمدیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قیامت تک مالا مال ہوتی رہے گی ۔ چند بزرگوں کا تعارف درج ذیل ہے:
- * سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ *
عہد فاروقی کے دوسرے سال مدینہ میں ان کی ولادت ہوئی ، اور 105ھ میں وفات پائی ۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ، حضرت ابو ہریرہ اور حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہما سے انھوں نے علم حدیث حاصل کیا۔
- * عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ *
آپ کا شمار مدینہ کے ممتاز اہلِ علم میں ہوتا ہے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاکے خواہر زادے ہیں ۔ زیادہ تر انھوں نے اپنی خالہ محترمہ سے احادیث روایت کی ہیں۔ نیز حضرت ابو ہریرہ اور حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہما سے بھی شرف تلمذ حاصل ہے،صالح بن کیسان اور امام زہری رحمہما اللہ جیسے اہل علم ان کے تلامذہ میں شامل ہیں ۔ آپ کی وفات 94ھ میں ہوئی ۔
- *سالم بن عبد اللہ بن عمرؓ *
مدینہ کے سات فقہاء میں آپ کا شمار ہوتا ہے، آپ نے اپنے والد محترم اور دوسرے صحابہ کرام ؓ سے علم حدیث حاصل کیا ۔ نافع رحمہ اللہ، زہری رحمہ اللہ اور دوسرے مشہور تابعین آپ کے شاگرد ہیں ۔ 106ھ میں رحلت فرمائی ۔
- *نافع مولی عبداللہ بن عمرؓ*
یہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کے خاص شاگرد اور امام مالک رحمہ اللہ کے استاد ہیں ۔ محدثین کے نزدیک یہ سند ( مالک عن نافع عن عبد اللہ بن عمر ؓ عن رسول الله ) سلسلة الذہب ( طلائی زنجیر ) شمار ہوتی ہے۔ 117ھ میں وفات پائی ۔
دور اول کا تحریری سرمایہ
- صحیفہ صادقہ
یہ حضرت عبداللہ بن عمر بن العاص ؓ( وفات 63ھ بعمر 77 سال) کامرتب کیا ہوا ہے۔آپ کو تصنیف و تالیف کا خاص ذوق تھا۔ یہ جو کچھ بھی آں حضرت ﷺ سے سنا کرتے اسے قلم بند کر لیا کرتے تھے ، اس بارے میں خود رسول اللہ ﷺ نے انھیں اجازت دی ہوئی تھی۔(مختصر جامع بیان العلم ص 36,37(
یہ مجموعہ تقریباً ایک ہزار احادیث پر مشتمل تھا۔ عرصہ تک ان کے خاندان میں محفوظ رہا۔ اب یہ مسند امام احمد رحمہ اللہ میں بہ تمام و کمال مل سکتا ہے۔
- صحیفه صحیحه مرتبه حمام بن منبه
وفات 101ھ۔ یہ حضرت ابوہریرہ ؓ کے مشہور تلامذہ میں سے ہیں۔ انھوں نے اپنے اُستاذ محترم کی روایات کو یک جا قلم بند کر لیا تھا ، اس کے قلمی نسخے برلن اور دمشق کے کتب خانوں میں موجود ہیں ۔ نیز امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے اپنی مشہور مسند میں ابو ہریرہ ۔ کے زیر عنوان یہ پورا صحیفہ بجنسہ سمو دیا ہے۔(تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو دیباچہ صحیفہ ہمام ،مرتبہ ڈاکٹر حمید اللہ صاحب)(ملاحظہ ہو مسند احمد، ج ۲ ص ۳۱۲ تا ۳۱۸) یہ مجموعہ کچھ عرصہ قبل ڈاکٹر حمید اللہ صاحب کی کوشش سے طبع ہو کر حیدر آباد دکن سے شائع ہو چکا ہے۔ اس میں ( ۱۳۸ ) روایات ہیں۔
یہ صحیفہ حضرت ابو ہریرہ ؓکی تمام روایات کا ایک حصہ ہے۔ اس کی اکثر روایات بخاری اور مسلم میں بھی ملتی ہیں۔ الفاظ ملتے جلتے ہیں۔ کوئی نمایاں فرق نہیں ہے۔
- بشیر بن نہیک
حضرت ابو ہریرہ ؓ کے دوسرے شاگرد بشیر بن نہیک نے بھی ایک مجموعہ مرتب کیا تھا ، جس کی تصدیق انھوں نے رخصت ہوتے وقت حضرت ابو ہریرہ ؓ کو سنا کر کرائی تھی۔(جامع العلم،ج 1.ص 72 اور تہذیب التہذیب ج 1 ,ص 470(
- مسند ابو ہریرہ ؓ
اس کے نسخے عہد صحابہ ؓ ہی میں لکھے گئے تھے۔ اس کی ایک نقل حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ کے والد عبد العزیز بن مروان گورنر مصر ، وفات 86ھ کے پاس بھی تھی ۔
انھوں نے کثیر بن مرہ کو لکھا تھا کہ تمھارے پاس صحابہ کرام ؓکی جو حدیثیں ہوں انھیں لکھ کر بھیج دو، لیکن حضرت ابو ہریرہ ؓکی روایات بھیجنے کی ضرورت نہیں، کیوں کہ وہ ہمارے پاس لکھی ہوئی موجود ہیں۔(دیباچہ صحیفہ ہمام ص 50، بحوالہ طبقات ابن سعد ج 7 ص 157(
مسند ابو ہریرہ کا ایک نسخہ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے ہاتھ کا لکھا ہوا جرمنی کے کتب خانے میں موجود ہے۔(مقدمۃ تحفۃ الاحوذی شرح ترمذی, ص 165(
- صحیفہ حضرت علی ؓ
امام بخاری کی تصریح سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ مجموعہ کافی ضخیم تھا۔(صحیح بخاری ۔ کتاب الاعتصام بالكتاب والسنة – ج ۱ ص ۴۵۱(
اس میں زکوة ، حرمت مدینہ، خطبہ حجتہ الوداع اور اسلامی دستور کے نکات درج تھے۔
- آن حضور ﷺ کا تحریری خطبہ فتح مکہ کے موقع پر رسول اللہ ﷺ نے ابو شاہ یمنی کی درخواست پر اپنا مفصل خطبہ قلم بند کرنے کا حکم دیا تھا۔(صحیح بخاری – مطبوعہ احمدی – ج 1 ص ۲۰ مختصر جامع العلم – ص ۳۶ صحیح مسلم – ج ۱ ص ۴۳۹(
یہ خطبہ حقوق انسانی کی اہم تفصیلات پر مشتمل ہے۔
- صحیفہ حضرت جابر ؓ
حضرت جابر بن عبد اللہ ؓ کی روایات کو ان کے تلامذہ وہب بن منبہ رحمہ اللہ ، وفات 110ھ اور سلیمان بن قیس الیشکری رحمہ اللہ نے تحریری طور پر مرتب کر لیا تھا۔(تہذیب التہذیب – ج ۴- ص ۲۱۵(
یہ مجموعہ مناسک حج ، خطبہ حجۃ الوداع پر مشتمل تھا۔
- روایات حضرت عائشہ صدیقہؓ
حضرت عائشہ کی احادیث ان کے شاگرد عروہ بن زبیرؓ نے قلم بند کر لی تھیں۔(تہذیب التہذیب – ج ۷، ص ۱۸۳(
- احادیث ابن عباسؓ
حضرت عبداللہ بن عباسؓ کی روایات کے متعدد مجموعے تھے۔حضرت سعید بن جبیررحمہ اللہ تابعی بھی ان کی روایات تحریری طور پر مرتب کرتے تھے۔(دارمی – ص ۶۸(
- انس بن مالکؓ کے صحیفے
سعید بن بلال رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ اپنی قلمی یادداشتیں نکال کر ہمیں دکھاتے اور فرماتے یہ روایات میں نے خود رسول اللہ ﷺ سے سنی ہیں اور قلم بند کرنے کے بعد آپ کو سنا کر تصدیق بھی کرالی ہے۔(دیباچه صحیفه ہمام ابن منبہ- ص ۳۴، بحوالہ خطیب البغدادی نیز مستدرک حاکم – ج ۳، ص ۵۷۴(
- عمرو بن حزمؓ
جنھیں یمن کا گورنر بنا کر بھیجتے وقت آں حضرت ﷺ نے ایک تحریری ہدایت نامہ دیا تھا.(دیباچه صحیفه ہمام بن منبہ- ص ۳۵ طبع چہارم(
انھوں نے نہ صرف یہ کہ اس ہدایت نامہ کو محفوظ رکھا بلکہ اس کے ساتھ اکیس دوسرے فرامین نبویﷺبھی شامل کر کے ایک اچھی خاصی کتاب مرتب کر لی۔(الوثائق السیاسیه – ص ۱۰۵- از ڈاکٹر حمید اللہ ۔ بحوالہ طبری ص ۱۰۴(
- رساله سمرة بن جندبؓ
یہ ان کے صاحب زادے کو وراثت میں ملا۔ یہ روایات کےایک بہت بڑے ذخیرے پر مشتمل تھا۔(تهذيب التہذيب لابن حجر – ج ۴، ص ۲۳۶(
- صحیفه سعد بن عبادہؓ
حضرت سعد بن عبادہؓ صحابی، دور جاہلیت ہی سے لکھنا پڑھناجانتے تھے۔
- مکتوبات حضرت نافع رضی اللہ عنہ
سلیمان بن موسیٰ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ عبد اللہ بن عمرؓ املا کرار ہے تھے اور نافعؓ لکھتے جاتے تھے۔(دارمی -ص- ۶۹ – نیز دیباچہ صحیفه همام بن منبہ -ص ۴۵، بحوالہ طبقات ابن سعد(
- معن سے روایت ہے کہ عبدالرحمن بن عبداللہ بن مسعودؓ نے میرے سامنے کتاب نکالی اور حلف اُٹھاتے ہوئے کہا کہ یہ میرے والد عبد اللہ بن مسعودؓ کے ہاتھ کی لکھی ہوئی ہے۔(مختصر جامع العلم – ص ۳۷(
اگر تحقیق و تفتیش کا سلسلہ جاری رکھا جائے تو ان کے علاوہ بہت سی مزید مثالیں اور واقعات مل سکتے ہیں ۔
اس دور میں صحابہ کرامؓ اور کبار تابعین رحمہم اللہ نے زیادہ تر اپنی ذاتی یادداشتوں کو قلم بند کرنے پر توجہ دی ، لیکن دوسرے دور میں جمع و تدوین کا کام مزید وسعت اختیار کر گیا۔ جامعینِ حدیث نے اپنی ذاتی معلومات کے ساتھ ساتھ اپنے شہر یا علاقہ کے اہل علم سے مل کر ان کی روایات بھی منضبط کر لیں ۔
دوسرا دور
یہ دوسرا دور تقریبا دوسری صدی ہجری کے وسط پر منتہی ہوتا ہے۔ اس دور میں تابعین کی ایک بڑی جماعت تیار ہوگئی جس نے دور اول کے تحریری سرمایہ کو وسیع تر تالیفات میں سمیٹ لیا۔
جامعین حدیث
- محمد بن شہاب زہری رحمہ اللہ
وفات ۱۲۴ھ، یہ اپنے زمانے کے ممتاز محدثین میں سے شمار ہوتے ہیں ۔ آپ نے علم حدیث مندرجہ ذیل جلیل القدر شخصیتوں سے حاصل کیا ہے۔
صحابہ میں سے (۱) عبد اللہ بن عمرؓ (۲) انس بن مالکؓ (۳) سہل بن سعد رضی اللہ عنہ اور تابعین میں سے سعید بن مسیب رحمہ اللہ اور محمود بن ربیع رحمہ اللہ وغیرہ۔ آپ کے تلامذہ میں امام اوزاعی ، امام مالک اور سفیان بن عیینہ رحمہم اللہ جیسے ائمہ حدیث کا شمار ہوتا ہے۔ انھیں حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ نے 101ھ میں احادیث جمع کرنے کا حکم دیا تھا۔ ان کے علاوہ حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ نے مدینہ کے گورنر ابو بکر محمد بن عمروؓ بن حزم کو ہدایت بھیجی تھی کہ عمرہ بنت عبد الرحمن اور قاسم بن محمد رحمہما اللہ کے پاس جو احادیث کا ذخیرہ ہے اسے قلم بند کر لیں ۔
یہ عمرہ حضرت عائشہ صدیقہ ؓکی خاص شاگردوں میں سے ہیں اور قاسم بن محمد رحمہ اللہ ان کے برادر زادے۔ حضرت عائشہؓ نے اپنی نگرانی میں ان کی تربیت و تعلیم کا اہتمام کیا تھا۔(تہذیب التہذیب ابن حجر، ج ۷، ص۱۷۲(
صرف اتنا ہی نہیں بلکہ حضرت عمر بن عبدالعزیزرحمہ اللہ نے مملکت اسلامی کے تمام ذمہ داروں کو ذخائر حدیث کے جمع و تدوین کرنے کا تاکیدی فرمان جاری کر دیا تھا، جس کے نتیجہ میں احادیث کے دفتر دار الخلافہ دمشق پہنچ گئے ۔ خلیفہ وقت نے ان کی نقلیں مملکت کے گوشے گوشے میں پھیلا دیں.(تذكرة الحفاظ ، ج ۱ ص ۱۰۶مختصر جامع العلم – ص ۳۸(
امام زہری رحمہ اللہ کے مجموعہ حدیث مرتب کرنے کے بعد اس دور کے دوسرے اہل علم نے بھی تدوین و تالیف کا کام شروع کر دیا۔
- عبدالملک بن جریج (متوفی150ھ) نے مکہ میں ۔ ۳ ۔ امام اوزاعی (متوفی157ھ) نے شام میں ۔
- معمر بن راشد (متوفی153ھ) نے یمن میں ۔
- امام سفیان ثوری (متوفی161ھ) نے کوفہ میں ۔
- امام حماد بن سلمہ (متوفی167ھ) نے بصرہ میں اور
- امام عبد الله بن المبارک (ف181ھ) نے خراسان میں احادیث کے جمع و تدوین کے کام میں سبقت کا شرف حاصل کیا۔ امام مالک بن انسؓ (ولادت 93ھ وفات 179ھ)۔ امام زہری کے بعد مدینہ میں حدیث نبویﷺ کی تدوین کا شرف آپ ہی کو حاصل ہوا ہے۔ آپ نے نافع، زہری اور دوسرے ممتاز اہل علم سے استفادہ کیا ، آپ کے اساتذہ کی تعداد نو سو تک پہنچتی ہے۔ آپ کے چشمہ فیض سے براہ راست حجاز ، شام، عراق، فلسطین، مصر، افریقہ اور اندلس کے ہزاروں تشنگانِ سُنت سیراب ہوئے ۔ آپ کے تلامذہ میں لیث بن سعد (175ھ) ابن مبارک (ف 181ھ ) امام شافعی (204ھ) ، امام محمد بن حسن الشیبانی رحمہم اللہ (179ھ ) جیسے مشاہیر شامل ہیں۔
دوسرے دور کا تحریری سرمایہ
موطا امام مالک
اس دور میں حدیث کے بہت سے مجموعے مرتب ہوئے جن میں امام مالک کی موطا کو نمایاں مقام حاصل ہے، اس کا زمانہ تالیف 130 ھ اور 141ھ کے درمیان ہے۔ کل روایات کی تعداد 1700 ہے۔ جن میں سے مرفوع 206 ، مرسل 228، موقوف 613، اور اقوال تابعین 285 ہیں۔
اس دور کی چند دوسری تالیفات کے نام یہ ہیں:
- جامع سفیان ثوری (ف 161ھ (
- جامع ابن المبارک (ف 181ھ (
- جامع امام اوزاعی (ف 187ھ(
- جامع ابن جریج (ف150ھ(
- كتاب الخراج قاضی ابو یوسف (ف182ھ (
- كتاب الآثار امام محمد (ف 189ھ(
اس دور میں رسول اللہ ﷺ کی احادیث، آثار صحابہؓ اور فتاوی تابعین کو ایک ہی مجموعہ میں مرتب کر لیا جاتا تھا لیکن ساتھ ہی یہ بھی وضاحت ہو جاتی تھی کہ یہ صحابی یا تابعی کا قول ہے یا حدیث رسول اللہ ﷺ ۔
تیسرا دور
یہ دور تقریبا دوسری صدی ہجری کے نصف آخر سے چوتھی صدی ہجری کے خاتمہ تک
پھیلا ہوا ہے۔
خصوصیات
اس دور کی خصوصیات یہ ہیں:
- احادیث نبویﷺکو آثار صحابہؓ اور اقوال تابعین رحمہم اللہ سے الگ کرکے مرتب کیا گیا۔
- قابل اعتماد روایات کے علیحدہ مجموعے تیار کیے گئے،اور اس طرح چھان بین اور تحقیق و تفتیش کے بعد دوسرے دور کی تصانیف تیسرے دور کی ضخیم کتابوں میں سما گئیں۔
- اس دور میں نہ صرف یہ کہ روایات جمع کی گئیں،بلکہ علم حدیث کی حفاظت کے لیے محدثین کرام نے سو سے زیادہ علوم کی بنیاد ڈالی ۔ جن پر اب تک ہزاروں کتابیں لکھی جاچکی ہیں۔
شَكَرَ اللَّهُ سَعْيَهُمْ وَجَزَاهُمُ عَنَّا أَحْسَنَ الْجَزَاءِ.
علوم حدیث
مختصر طور پر چند علوم کا تعارف یہاں کرایا جاتا ہے:
- علم اسماء الرجال
اس علم میں راویوں کے حالات، پیدائش، وفات، اساتذہ، تلامذہ کی تفصیل ، طلب علم
کے لیے سفر اور ثقہ، غیر ثقہ ہونے کے بارے میں ماہرین علم حدیث کے فیصلے درج ہیں۔ یہ علم بہت ہی وسیع ، مفید اور دل چسپ ہے۔
بعض متعصب مستشرقین بھی یہ اعتراف کیے بغیر نہ رہ سکے کہ اس فن کی بدولت پانچ لاکھ راویوں کے حالات محفوظ ہو گئے ۔ یہ وہ خصوصیت ہے جس میں مسلمان قوم کی نظیر ملنا ناممکن ہے۔(مقدمة الاصابہ انگریزی شائع شده ۱۸۶۴ء از کلکته ، مرتبہ مستشرق اسپرنگر(
اس علم میں سیکڑوں کتابیں لکھی جاچکی ہیں۔ چند کے نام یہ ہیں:
) الف) تهذيب الكمال مؤلفہ امام یوسف مزی رحمہ اللہ (وفات 742ھ) اس علم میں یہ سب سے زیادہ اہم اور مستند کتاب ہے۔
) ب) تهذيب التهذيب مؤلفہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (852ھ) شارح بخاری یہ بارہ جلدوں میں ہے۔ حیدر آباد دکن سے شائع ہو چکی ہے۔
) ج) تذكرة الحفاظ مرتبہ: علامہ ذہبی رحمہ اللہ (وفات 784ھ) ۔
- علم مصطلح الحديث (أصول حديث(
اس علم کی روشنی میں حدیث کی صحت وضعف کے قواعد وضوابط معلوم ہوتے ہیں۔(اس علم کی رو سے حدیث کی اقسام و اصطلاحات پر مختصر بحث باب اصطلاحات حدیث ص ۳۵ تا ۳۷ پر ملاحظہ کریں(
اس علم کی مشہور کتاب علوم الحدیث معروف به مقدمہ ابن الصلاح ہے۔ مؤلفہ ابو عمرو عثمان ابن الصلاح ( وفات 577ھ)۔
ماضی قریب میں اُصول حدیث پر دو کتابیں شائع ہوئی ہیں:
) الف) توجیه النظر: مؤلفہ علامہ طاہر بن صالح الجزائری رحمہ اللہ (ف 1338ھ (
) ب) قواعد التحديث: مرتبه علامه سید جمال الدین قاسمی رحمہ اللہ (ف1332ھ (
اول الذکر وسعت معلومات اور آخر الذکر حسن ترتیب میں ممتاز ہیں۔
- علم غریب الحدیث
اس علم میں احادیث کے مشکل الفاظ کی لغوی تحقیق کی گئی ہے۔ اس علم میں علامہ زمحشری وفات (538ھ) کی الفائق اور ابن الاثیر (ف606ھ) کی نہایہ مشہور ہیں ۔
- علم تخریج الاحادیث
اس علم کے ذریعہ معلوم ہوتا ہے کہ مشہور کتب تفسیر، فقہ، تصوف و عقائد میں جو روایات درج ہیں ان کا اصل ماخذ و سرچشمہ کیا ہے۔ مثلاً ہدایہ از برہان الدین علی بن ابی بکر المرغینانی رحمہ اللہ
)ف592ھ) اور احیاء العلوم (امام غزالی رحمہ اللہ وفات 505ھ)۔ میں بہت سی روایات بلا سند اور بلا حوالہ مذکور ہیں۔ اب اگر کسی کو یہ معلوم کرنا ہو کہ یہ روایات کسی پایہ کی ہیں اور کون کون سی حدیث کی اہم کتابوں میں ان کا ذکر ہے۔ تو اول الذکر کے لیے حافظ زیلعی (وفات 792ھ) کی نصب الرایہ اور حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ (وفات 852ھ) کی الدرایہ کی طرف رجوع کرنا چاہیے اور آخر الذکر کے لیے حافظ زین الدین عراقی (ف806ھ) کی تالیف المغنی عن حمل الاسفار موزوں رہے گی۔
- علم الاحادیث الموضوعه
اس فن میں اہل علم نے مستقل کتابیں تصنیف کی ہیں اور موضوع (من گھڑت ) روایات کو الگ چھانٹ دیا ہے۔ اس بارے میں قاضی شوکانی (ف 1255ھ) کی الفوائد المجموعہ اور حافظ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ ( ف911ھ ) کی اللآلی المصنوعہ زیادہ نمایاں ہیں ۔
- علم الناسخ والمنسوخ
اس فن میں امام محمد بن موسیٰ حازمی رحمہ اللہ ( ف 784ھ ، عمر 35 سال ) کی تصنیف کتاب الاعتبار زیادہ مستند اور مشہور ہے۔
- علم التوفيق بين الاحادیث
اس علم میں ان روایات کی صحیح توجیہ بیان کی گئی ہے جن میں بظاہر تعارض اور ٹکراؤ معلوم ہوتا ہے۔ سب سے پہلے امام شافعی رحمہ اللہ (ف204ھ) نے اس موضوع پر گفتگو کی ہے۔ ان کا رسالہ مختلف الحدیث کے نام سے مشہور ہے ۔ امام طحاوی رحمہ اللہ (ف321ھ) کی مشکل الآثار بھی اس فن کی مفید کتاب ہے۔
- علم المختلف والمؤتلف
اس علم میں خاص طور پر ان راویوں کا ذکر کیا گیا ہے جن کے اپنے نام، کنیت ، لقب ، آباؤ
اجداد کے نام یا اساتذہ کے نام ملتے جلتے ہیں، اور اس اشتباہ کی بنا پر ایک ناواقف انسان مغالطہ میں مبتلا ہو سکتا ہے۔ اس فن میں حافظ ابن حجر کی تبصیر المتنبہ زیادہ جامع کتاب ہے۔
- علم اطراف الحدیث
اس علم کے ذریعہ معلوم ہو سکتا ہے کہ فلاں روایت کس کتاب میں ہے اور اس کے راوی کون کون سے ہیں ۔ مثلاً آپ کو انما الاعمال بالنيات حدیث کا ایک جملہ یاد ہے۔ آپ چاہتے ہیں کہ اس کے تمام ماخذ ، روایت کے پورے الفاظ اور راوی معلوم ہو جائیں تو آپ کو اس علم کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ اس عنوان پر حافظ مزی (ف742ھ) کی کتاب تحفة الاشراف زیادہ مفصل ہے۔ اس میں صحاح ستہ کی روایات کی پوری فہرست آگئی ہے۔ اس کتاب کی ترتیب میں حافظ یوسف مزی کے 26 سال صرف ہوئے ہیں۔ انتہائی محنت شاقہ کے بعد یہ کتاب مکمل ہوئی ہے۔
آج کے مستشرقین نے ایسی ہی کتابوں سے خوشہ چینی کر کے ذرا نئے ڈھب سے احادیث کی فہرست مرتب کی ہے۔ مثلاً مفتاح کنوز السنہ انگریزی میں شائع ہوئی تھی جس کا عربی میں ترجمہ 1934ء میں مصر سے شائع ہوا ہے اور اب ایک وسیع فہرست المعجم المفہرس کے نام سے زیر ترتیب ہے جس کے بیس اجزاء شائع ہوچکے ہیں۔
- فقه الحديث
اس علم میں احکام پر مشتمل احادیث کے اسرار اور حکمتیں بے نقاب کی گئی ہیں۔ اس موضوع پر حافظ ابن قیم رحمہ اللہ (ف 751ھ ) کی کتاب اعلام الموقعین اور شاہ ولی اللہ صاحب کی حجۃ اللہ البالغہ سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔ ان کے علاوہ اہل علم نے زندگی کے مختلف مسائل پر الگ الگ تصانیف بھی مرتب کی ہیں۔ مثلاً مالی معاملات میں ابو عبید قاسم بن سلام رحمہ اللہ (ف224ھ) کی تالیف کتاب الاموال مشہور ہے۔ اور زمین کے مسائل عشر، خراج وغیرہ پر قاضی ابو یوسف کی کتاب الخراج بہترین تصنیف ہے۔ نیز سنت کے ماخذ شریعت ہونے اور منکرین حدیث کی پھیلائی ہوئی غلط فہمیوں کا پردہ چاک کرنے کے لیے مندرجہ ذیل تصنیفات کا مطالعہ مفید ہو سکتا ہے:
- كتاب الأم جلد 7۔
- الرسالہ للامام الشافعی.
- الموافقات جلد چہارم، مؤلفہ ابو اسحاق شاطبی (ف790ھ(
- صواعق مرسله جلد 2 ، ابن قیم.
- الاحکام لابن حزم الاندلسی (ف456ھ(
- مقدمه ترجمان السنہ اردو ۔ از مولانا بدر عالم میرٹھی۔
- اثبات الخبر مؤلفه والد محترم مولانا حافظ عبدالستار حسن عمر پوری
( وفات 1916ء بمطابق 1334ھ بعمر 34 سال)،(جد امجد مولانا حافظ عبد الجبار محدث عمر پوری ( 1916ء، مطابق 1334ھ ) کے زمانے ہی میں مولوی عبد اللہ چکڑالوی کے فتنہ انکار حدیث نے سر اٹھایا تھا۔ جد محترم نے بھی اس زمانے میں اپنے ماہنامہ ضیاءالسنہ میں اس کے رد میں مفید اور مدلل مقالات کا سلسلہ شروع کیا تھا.)
- سنت کی آئینی حیثیت ، مرتبہ مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی، نیز
- انکار حدیث کا منظر اور پس منظر کے نام سے جناب افتخار احمد بلخی کی تصنیف بھی دل چسپ اور معلومات افزا ہے۔ اب تک اس کے دو حصے شائع ہو چکے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل علامہ مصطفیٰ سباعی نے احادیث کے حجت ہونے پر رسالہ المسلمون (دمشق) میں نہایت ہی مفید سلسلہ مضامین شائع کیا تھا جس کا اُردو ترجمہ محترم رفیق ملک غلام علی صاحب نے کیا ہے۔ سنتِ رسولﷺ کے نام سے یہ کتابچہ شائع ہو چکا ہے۔(اس سلسلے کی اہم کتاب مؤلف کی تالیف ہے۔۔'عظمت حدیث" جس کا دوسرا ایڈیشن زیر طبع ہے.(سہیل حسن(
تاریخ علم حدیث اور متعلقہ مباحث پر مندرجہ ذیل تصانیف اپنے اندر جامعیت اور افادیت کا پہلو رکھتی ہیں ۔ مقدمہ فتح الباری، حافظ ابن حجر – جامع بیان العلم وفضلہ ، ، حافظ ابن عبد البر اندلسی (ف 463ھ) ، معرفت علوم الحدیث، امام حاکم (ف405ھ)، مقدمه تحفه الاحوذی، مؤلفہ مولانا عبدالرحمن صاحب محدث مبارک پوری ف 1335ھ مطابق 1935ء. ماضی قریب کی تصانیف میں یہ کتاب اپنی جامعیت اور افادیت کے لحاظ سے ایک شاہ کار ہے۔ اسی طرح مقدمہ فتح الملہم مرتبہ مولانا شبیر احمد عثمانی اور اُردو میں تدوین حدیث مرتبہ مولانا مناظر احسن گیلانی مرحوم، وسیع معلومات کا گنجینہ ہیں۔
تیسرے دور کے جامعینِ حدیث
اس دور کے ممتاز اور مشہور جامعینِ حدیث اور مستند تالیفات کا تعارف ذیل میں کرایا جاتا ہے۔
- امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ
(ولادت 164 ھ وفات (241ھ) آپ کی اہم تالیف مسند احمد کے نام سے مشہور ہے۔ یہ تیس ہزار روایات پر مشتمل ہے، اس کی چوبیس جلدیں ہیں ۔ قابلِ ذکر احادیث سب اس میں آگئی ہیں۔ اس میں عنوان کے لحاظ سے ترتیب کے بجائے ہر صحابیؓ کی تمام روایات یکجا مرتب کردی گئی ہیں ۔ اس کتاب کی تبویب یعنی عنوان وار ترتیب حسن البنا شہید کے والد محترم احمد عبد الرحمن ساعاتی نے شروع کی تھی۔ اس وقت تک 14 جلدیں شائع ہو چکی ہیں۔ مصر کے مشہور عالم احمد شاکر صاحب بھی اس سلسلہ میں کام کر رہے ہیں۔ اب تک 15 کے قریب اجزا مرتب ہو چکے ہیں ۔
- امام محمد بن اسماعیل البخاری
ولادت 194ھ ، وفات 256ھ۔ آپ کی تاریخ ولادت "صدق" اور تاریخ وفات ”نور“ نکلتی ہے۔ امام بخاری کی تصانیف میں سے سب سے زیادہ اہم اور مستند کتاب صحیح بخاری ہے، جس کا پورا نام یہ ہے: الجامع الصحيح المسند المختصر من امور رسول الله صلى الله عليه واله وسلم و سننہ وايامه
اس کتاب کی تالیف میں سولہ سال صرف ہوئے ۔ آپ سے براہ راست صحیح بخاری پڑھنے والے تلامذہ کی تعداد نوے ہزار تک پہنچتی ہے۔ بعض دفعہ ایک ہی مجلس میں حاضرین کی تعداد تیں ہزار تک پہنچ جایا کرتی تھی۔ اس قسم کے اجتماعات میں املا کرانے والوں کا شمار 300 سے متجاوز ہو جاتا تھا۔ کل تعداد احادیث 9684 ہے۔ اگر مکرر روایات اور تعلیقات ( بے سند روایات ) شواہد ( آثار صحابہؓ ) اور مرسل احادیث کو حذف کر دیا جائے تو مرفوع روایات کی تعداد 2623 بنتی ہے ۔ امام بخاری نے دوسرے محدثین کی بہ نسبت راویوں کے پرکھنے کا معیار زیادہ بلند رکھا ہے۔
- امام مسلم ابن حجاج قشیری
( ولادت 202ھ وفات (261ھ) امام بخاری ، امام احمد بن حنبل ان کے اساتذہ میں شامل ہیں اور امام ترمذی ، ابو حاتم رازی، ابو بکر بن خزیمہ رحمہم اللہ کا شمار ان کے تلامذہ میں ہوتا ہے۔ان کی کتاب صحیح مسلم حسن ترتیب کے لحاظ سے زیادہ ممتاز مانی جاتی ہے۔
- امام ابوداؤد اشعث بن سلیمان سجستانی
( ولادت 202ھ وفات 275ھ ) ان کی اہم تالیف سنن ابوداؤد کے نام سے مشہور ہے۔ اس زمانے میں زیادہ تر احکام پر مشتمل روایات کو پوری جامعیت کے ساتھ یک جا کر دیا گیا ہے۔ فقہی اور قانونی مسائل کا یہ بہترین ماخذ ہے۔یہ چار ہزار آٹھ سو احادیث پر مشتمل ہے۔
- امام ابو عیسی ترمذی
ولادت 209ھ وفات 279ھ۔ ان کی کتاب جامع ترمذی میں فقہی مسالک کی تفصیل وضاحت سے کی گئی ہے۔
- امام احمد بن شعیب نسائی
وفات سن 303ھ۔ ان کی تصنیف کا نام السنن المجتبیٰ ہے۔
- امام محمد بن یزید ابن ماجہ قزوینی
(ف273ھ)۔ ان کی کتاب سنن ابن ماجہ کے نام سے مشہور ہے۔
مسند احمد کے علاوہ ان چھے کتابوں کو محدثین کی اصطلاح میں صحاح ستہ کہا جاتا ہے۔ بعض اہل علم نے بجائے ابن ماجہ کے موطا امام مالک کو صحاح ستہ میں شمار کیا ہے۔ان کے علاوہ اس دور میں اور بھی بہت سی مفید اور جامع تالیفات شائع ہوئی ہیں جن کی تفصیل کی یہاں گنجائش نہیں ہے۔ بخاری، مسلم،ترمذی جامع کہلاتی ہیں ۔ یعنی عقائد، عبادات،اخلاق ، معاملات وغیرہ تمام عنوانات پر ان میں احادیث موجود ہیں اور ابوداؤد، نسائی ، ابن ماجہ سنن کہلاتی ہیں۔ یعنی ان میں زیادہ تر عملی زندگی سے متعلق روایات درج ہیں ۔
طبقات کتب حدیث
محدثین نے روایات کی صحت وقوت کے لحاظ سے تمام کتب حدیث کو چار طبقات پر تقسیم کیا ہے۔
- موطا امام مالک صحیح بخاری
صحیح مسلم ۔ یہ تینوں کتابیں صحت سند اور راویوں کی ثقاہت کے اعتبار سے اعلیٰ مقام رکھتی ہیں ۔
- ابوداؤد، ترمذی ، نسائی
ان کتابوں کے بعض راوی ثقاہت کے اعتبار سے طبقہ اول سے فروتر ہیں۔ لیکن انھیں بہر حال قابل اعتماد مانا جاتا ہے۔ مسند احمد کا شمار بھی اسی طبقہ میں ہوتا ہے۔
- سنن دارمی (ف) 225ھ) ، ابن ماجه، بیہقی، دارقطنی (ف 385ھ) کتب طبرانی (ف 360ھ) تصانیف طحاوی (ف) 321ھ)، مسند امام شافعی، مستدرک حاکم (ف 405ھ)۔ ان کتابوں میں صحیح ، ضعیف ہر قسم کی روایات موجود ہیں۔ لیکن قابل اعتماد روایات کا عنصر غالب ہے۔
- تصانیف ابن جریر طبری (ف) 310ھ) – کتب خطیب بغدادی (ف463ھ)، ابو نعیم (ف 403ھ)، ابن عساکر (ف 571ھ) – دیلمی صاحب فردوس (ف 509ھ) کامل ابن عدی (ف365ھ) ، تالیفات ابن مردویہ (ف410ھ) ، واقدی (ف207ھ)۔ اور اسی نوع کے دوسرے مصنفین کی کتابیں اسی طبقہ میں شمار ہوتی ہیں۔ یہ تالیفات رطب و یابس کا مجموعہ ہیں، موضوع (من گھڑت) روایات تک بھی ان میں بکثرت موجود ہیں، زیادہ تر عام واعظین ، مورخین اور اصحاب تصوف کا سہارا یہی کتابیں ہیں، لیکن اگر چھان بین سے کام لیا جائے تو ان تالیفات میں سے بھی بیش بہا جواہر ریزے نکالے جاسکتے ہیں۔
چوتھا دور
تقریبا پانچویں صدی ہجری سے شروع ہوتا ہے اور اس کا سلسلہ اب تک جاری ہے۔
اس دور میں کام کی نوعیت
اس عرصہ میں تیسرے دور کا انداز تدوین اختتام کو پہنچ گیا تھا۔ اس طویل مدت میں جو کام ہوا ہے اس کی تفصیل یہ ہے:
- حدیث کی اہم کتابوں کی شرحیں ، حواشی اور دوسری زبانوں میں تراجم لکھے گئے۔
- جن علوم حدیث کا ذکر اوپر آیا ہے۔ ان پر بہت سی تصانیف اس دور میں وجود میں آئی ہیں،اور ان کی شرحیں اور خلاصے لکھے گئے ہیں۔
- اہل علم نے اپنے ذوق یا ضرورت کے مطابق تیسرے دور کی تالیفات سے احادیث منتخب کر کے مفید کتابیں مرتب کی ہیں۔ ان میں سے چند کے نام یہ ہیں :
) الف) مشكوة المصابیح، مؤلفہ ولی الدین خطیب تبریزی رحمہ اللہ۔ اس میں عقائد، عبادات، معاملات،اخلاق ، آداب اور حشر و نشر سے متعلق روایات جمع کر دی گئی ہیں۔
) ب) ریاض الصالحین – مرتبہ امام ابو زکریا یحیی بن شرف نووی رحمہ اللہ شارح مسلم (وفات 276ھ) ۔ یہ زیادہ تر اخلاق و آداب پر مشتمل احادیث کا انتخاب ہے۔ ہر باب کے شروع میں عنوان کے مطابق قرآنی آیات بھی ذکر کی گئی ہیں۔ یہ اس کتاب کی اہم خصوصیت ہے۔ صحیح بخاری کا بھی انداز تالیف و ترتیب یہی ہے۔
- منتقی الاخبار
مؤلفه مجددالدین ابوالبركات عبد السلام بن تیمیہ رحمہ اللہ۔ (وفات 652ھ) ۔ یہ مشہور شیخ الاسلام تقی الدین احمد بن عبد الحلیم ابن تیمیه (وفات 728ھ) کے جد امجد ہیں ۔ اس کتاب کی شرح آٹھ جلدوں میں قاضی شوکانی نے نیل الاوطار کے نام سے مرتب کی ہے۔
- بلوغ المرام
مرتبہ حافظ ابن حجر – شارح بخاری (وفات 852ھ)۔ اس میں زیادہ تر عبادات اور معاملات سے متعلق احادیث جمع کی گئی ہیں۔ اس کی شرح سبل السلام عربی میں محمد بن اسماعیل صنعانی ( وفات 1182ھ) کے قلم سے شائع ہوئی ہے اور دوسری مسك الختام کے نام سے فارسی میں نواب صدیق الحسن خان (ف 1307ھ) نے ترتیب دی ہے۔ ان میں سے اکثر کے تراجم عرصہ ہوا اردو میں شائع ہو چکے ہیں۔
غیر منقسم ہندوستان میں علم حدیث
غیر منقسم ہندوستان میں سب سے پہلے شیخ عبدالحق محدث دہلوی بن سیف الدین ترک (وفات 1052ھ) نے علم حدیث کی شمع روشن کی۔ اس کے بعد حضرت شاہ ولی اللہ (وفات 1167ھ) اور ان کی اولاد ، احفاد اور ارشد تلامذہ کی جاں فشانیوں اور جگر کاریوں سے اس ملک کی سرزمین نور سنت سے جگ مگا اُٹھی۔ واشرقت الارض بنور ربها
شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کے بعد سے اس ملک میں تراجم ، شروح اور منتخب احادیث کے مجموعوں کی ترتیب و اشاعت کا مقدس مشغلہ اب تک جاری ہے۔ یہ تالیف انتخاب حدیث بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔
یہ خدا کا انعام ہے کہ اس مجموعہ کے مرتب کو بھی خادمین حدیث سے تشبہ کی سعادت حاصل ہو رہی ہے، ورنہ کہاں یہ ناچیز اور کہاں وہ بزرگ ہستیاں جنھوں نے حدیث رسول ﷺ کی تدوین و تبلیغ کے لیے اپنی زندگیاں وقف کر دی تھیں ۔
احب الصالحين ولست منهم
لعل الله يرزقني صلاحا
اس پوری تفصیل کے مطالعہ سے یہ اندازہ ہو سکتا ہے کہ عہد نبویﷺ سے لے کر اب تک کوئی دور بھی ایسا نہیں گزرا ہے جس میں حدیث کے لکھنے اور روایت کرنے کا سلسلہ منقطع ہو گیا ہو۔ یہ وہ سلسلہ علم ہے جس کا دن بھی روشن ہے اور جس کی رات کا دامن بھی درخشانیوں اور تابناکیوں سے بھر پور ہے ۔ ليلها كنهارها
حضرت محمد ﷺ اور موجودہ دور کے طالبین حدیث کے درمیان اساتذہ کے 23 یا 24 واسطے ہیں ۔ صفحہ 38 تا 39 پر محدثین کے اقتداء کے طور پر مؤلف کتاب کی سند کا ایک نقشہ پیش کیا جاتاہے۔جس سے تیرا سو سال کے راویان حدیث کا پورا تسلسل آنکھوں کے سامنے آجائے گا۔ وَاخِرُ دَعوانَا أن الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ. رَبَّنَا تَقَبَّلُ مِنَّا إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيم
رَبِّ أَوْزِعْنى أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتِكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَعَلَى وَالِدَيَّ وَ انْ أعْمَلَ صَالِحًا تَرْضَاهُ وَأَصْلِحُ لِي فِي ذُرِّيَّتِي طَ إِنِّي تُبْتُ إِلَيْكَ وَإِنِّي مِنَ الْمُسْلِمِينَ
۱۶ ربیع الثانی ۱۳۷۶ھ
مطابق ۲۰ نومبر ۱۹۵۶
عاجز
عبد الغفار حسن عمر پوری
☆☆☆