Search

"سلسلہ دفاع سنت قسط 11 "کیا میت کو اس کے گھر والوں کے رونےکے سبب عذاب ہوتا ہے؟ حقیقت، اشکالات،اور جواب

کیا میت کو اس کے گھر والوں کے رونےکے سبب عذاب ہوتا ہے؟ حقیقت، اشکالات،اور جواب” 

 میزبان : حدیث میں  آتا ہے کہ میت کے ورثاء اگر ماتم کریں یا اونچی آواز میں روئیں ، بین کریں تو میت کو عذاب ہوتا ہے۔ 

وان المیت یعذب ببکاء اھله علیه (صحیح البخاری 1304(

میزبان:اس پر لوگوں کے اعتراضات ہیں کہ میت کو کیوں عذاب ہو گا کیا میت وصیت کر کے گئی تھی۔ اسلام نے باقاعدہ اس پر حکم کیوں صادر کیا ہے؟ جب ایسا کوئی معاملہ پیش آ جائے ، تو صبر کرتے ہوئے کتنا رویا جا سکتا ہے ؟

مہمان : جو شخص دائرہ اسلام میں داخل ہوتا ہے ۔ اس کے لئے  اسلام کے ارکان کو ماننا ، ایمان کی شروط میں سے ہےاور ان میں سے ایک رکن ہے ( کہ اچھی اور بری تقدیر پر ایمان لائیں)۔

کسی کی فوتگی ایک بہت بڑا صدمہ ہوتا ہے۔ اس کے اہل خانہ کو ، اس پر اللہ تعالیٰ نے صبر   کی تلقین کی ہے اور صبر کا بہت بڑا بدلہ رکھا ہے ۔قرآن کریم میں آتا ہے کہ:

(اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ سورۃ البقرہ 153)

اور اس بات سے بھی قرآن کریم میں آگاہ کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ آزمائش میں ڈالے گا ۔ نعمتوں کے ذریعے سے، 

اور تمھیں آزمائیں گے خوف سے، بھوک سے، مالوں کی کمی سے، جانوں اور پھلوں سے، اور خوشخبری ہے ، صبر کرنے والوں کے لئے ۔”(سورۃ البقرہ 155)

کون ہیں صبر کرنے والے  وہ لوگ جب انہیں کوئی مصیبت پہنچتی ہے ” تو کہتے ہیں ۔ انا للّٰہ و انا الیہ راجعون "( سورۃ البقرہ156)

وہی انسان صبر کے ساتھ کام لیتا ہے۔ جو اللہ تعالٰی کے فیصلے پر راضی ہو۔جو اللہ کی رضا میں  راضی نہیں ہوتا ،وہ یقینًا واویلہ کرتا ہے ۔ نبی ﷺکی زندگی ہمارے لئے اسوہ و نمونہ ہے ۔سب سے بڑی مصیبت جو آپ ﷺ پر آئی ، آپﷺکے لخت جگر کی وفات تھی  اور بعض لوگوں نے یہ بھی کہا تھا کہ حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ کی وفات کی وجہ سے سورج گرہن لگا ہے۔آپﷺنے فرمایا تھا کہ یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے کسی کی زندگی موت  سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔آپ ﷺکے بیٹے حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ جب فوت ہوئے  تو آپﷺنے ان کو اپنے ہاتھوں میں اٹھایا، چھوٹی عمر ہے۔ حدیث میں آتاہے کہ آپﷺ نے فرمایا” فقبله و شمه(صحیح البخاری 1303)

حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ آپﷺنے ان کو اپنے ہاتھوں میں   اٹھایا ان کو بوسا دیا اور سونگھا آپﷺکی آنکھیں آنسو بہا رہی ہیں ۔ حضرت عبدالرحمٰن بن عوف پاس کھڑے ہوئے تھے  اور فرما رہے تھے ۔"اللہ کے رسول ﷺ آپﷺ بھی، آپﷺ نے فرمایا! اے عوف کے بیٹے یہ رحمت کے آنسو ہیں ۔میں کوئی ماتم نہیں کر رہا ، پھر آپﷺ نے وہ تاریخی جملے بولے ، جس کے اندر سبق تھا۔ ” کہ بیشک آنکھیں آنسو بہا رہی ہیں اور دل غمزدہ ہے اور ہم زبان سے کوئی ایسا لفظ ادا نہیں کرتے ، مگر وہ جس سے اللہ راضی ہو۔ 

اور ” اے ابراہیم ہم تمھاری جدائی میں غمزدہ ہیں ۔(صحیح البخاری 1303)

یہ آپﷺ پر سب سے بڑی آزمائش تھی ،آپﷺ کے لختِ جگر کا آپﷺ کے ہاتھوں میں  وفات پانا،اس وقت بھی نبیﷺ کی زبان پر شکر کے الفاظ ہی تھے۔ایک حدیث میں آتاہے کہ جب آپﷺ حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کی عیادت کرنے گئے۔ تو جب آپﷺ نے ان کی یہ حالت دیکھی تو اللہ کے نبی ﷺ کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے ۔بعض صحابہ نے کہا کہ آپﷺ بھی رو رہے ہیں ۔ آپﷺنے فرمایا کہ یہ پریشانی اور غم میں رونا ہے۔ ( صحیح البخاری 1304)

اسلام میں جہاں صبر کا حکم ہے ۔وہاں نبیﷺکی زندگی میں ہمیں یہ بھی ملتا ہےکہ اگر کسی کا کوئی قریبی رشتہ دار ، اہل خانہ میں سے کوئی فوت ہو جائے تو یہ اس کے لئے اظہارِ محبت و شفقت ہے کہ آنسو جاری ہو جاتے ہیں ۔اہل خانہ کا اس پر کنٹرول نہیں ، یہ اظہار محبت و شفقت ہے ۔ اگر آنسو نکل جاتے ہیں ۔یہ اللہ کی رضا کے منافی نہیں ہے  یہ رحمت ہے۔ لیکن دوسری صورت میں  اگر کوئی شخص   کسی کے فوت ہونے پر ماتم کرتا ہے ماتھا پیٹتا ہے،گریبان چاک کرتا ہے۔ زمانہ جاہلیت میں  باقاعدہ ایسی خواتین ہوتی تھیں جو کہ اجرت لے کر ماتم کرتی تھیں ۔ان کو فوتگی والے گھر لے جایا جاتا اور وہاں یہ عورتیں ماتم کرتیں اور پیسے لیتی  اور ایسے الفاظ ادا کرتیں کہ جن میں  اللہ کی رضا اور قضا پر اعتراض ہوتااور شرکیہ جملے بھی بولے جاتے ، اور اس بات کا بھی اظہار ہوتا کہ مرنے والا بڑا قیمتی تھا اس لئے اس کو رونے والے بھی ہیں ۔نبیﷺ نے اس حوالے سے جو تعلیمات دی ہیں ۔وہ یہ ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود روایت کرتے ہیں کہ نبی ﷺنے فرمایا کہ وہ بندہ ہم میں سے نہیں ہے  جس نے اپنے رخسار پیٹے ، اپنے گریبان کو چاک کیا، اورجہالت کا دعویٰ لے کر نکلا (صحیح البخاری 1297)

ایسا شخص مسلمان ہی نہیں  یہ عام انسانوں کے بارے ہے  اورجو خاص اشخاص کے بارے میں ایسا کرتے ہیں  کہ جب سال پورا ہوتا ہے کپڑے لیے جاتے ہیں ایک جیسے کپڑے پہنے جاتے ہیں ،پھر ماتم کیا جاتا ہے، اپنے اوپر چھریاں چلائی جاتی ہیں ان نیک ہستیوں پر ایسا کرتے ہیں ۔آپﷺ نے فرمایا کہ وہ مسلمان ہی نہیں ، اور ایسی عورت جو کہ ماتم کرتی ہے اگر وہ توبہ کیے بغیر دنیا سے چلی جاتی ہےتو آپﷺ نے فرمایا کہ قیامت کے دن اس کو گندک کا لباس پہنایا جائےگا۔(مسلم 934)ایک حدیث میں آتا ہے کہ اسے آگ کا کرتا پہنایا جائے گا ۔(سنن ابی ماجہ1581) 

ایک اور حدیث میں ایسی عورت پر لعنت کی ہے ۔ جو مرنے والے پر لعنت کرتی ہے۔ (سنن ابی داوٴد   3128)

اسلام کا ایک دائرہ کار ہے  اس میں  رہ کر ہر کام کیا جا سکتا ہے۔ رونا منع نہیں ، اللہ کے نبی ﷺسے زیادہ صابر کون ہو سکتاہے۔ اسلام کا ایک دائرہ کار ہے ۔ اس میں  رہ کر ہر کام کیا جا سکتا ہے۔ رونا منع نہیں ، اللہ کے نبی ﷺسے زیادہ صابر کون ہو سکتاہے۔ مگر آپﷺ کے بھی  شفقت کے آنسو نکل آئےتھے ۔ اپنے بیٹے کی وفات پر، جملے کسنا ، تقدیر اور اللہ کی ذات کو ملامت کرنا ، یہ کسی بھی طرح جائز نہیں ہے ۔

میزبان : منکرین حدیث یہ اعتراض کرتے ہیں ۔ کہ حدیث میں آتا ہےکہ میت کے ورثاء اگر واویلا کرتے ہیں تو میت کو اس کا عذاب ہوتا ہے ۔ (البخاری1304)۔جب کہ قرآن میں آتا ہے کہ ” اللہ تعالٰی نے فرمایا کہ کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا ۔ (سورۃ انعام 164) یہ بظاہر آپس میں  تعارض ہے۔ اس کا کیا جواب ہے؟

مہمان : عموماً یہ لوگ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث سے استدلال کرتے ہیں۔ کہ جب ان کو یہ حدیث بیان کی گئی کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ یہ فرماتے ہیں کہ میت کو اس کے اہل خانہ کے رونے کی وجہ سے عذاب ہوتا ہے۔ (سنن ابی داؤد 3129)

تو حضرت عائشہ نے اس پر اعتراض کیا، کہ قرآن میں آتا ہے کہ اللہ قیامت کو کسی دوسرے کا بوجھ کسی پر نہیں ڈالے گا۔ ہر کسی کو اس کے کیے کا بدلہ ہی ملے گا۔ لہذ اس سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت عائشہ نے بھی اس پر اعتراض کیا تھااور یہ اعتراض بنتا بھی ہے  کہ قرآن میں آیا ہے کہ بدلہ اپنے اعمال کا ہی ملے گا اب سوال یہ ہے کہ گھر والوں کے رونے پیٹنے کا میت کے ساتھ کیا تعلق ہے ۔پہلی بات کہ حضرت عائشہ رضی اللہ کا یہ اعتراض منفرد ہے۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی پوری جماعت ہے۔جن میں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ، حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ، اور بہت سے صحابہ ہیں ۔ جنہوں نے اس حدیث کو بیان کیا ہے۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو بظاہر ایسا لگا، وہ دو احادیث کو جمع نہیں کر سکیں ۔ جیسے دیگر صحابہ نے جمع کیا تھا۔صاف ظاہر ہے کہ اجتہاد میں صحابہ کرام کو بھی غلطی ہو سکتی ہے ۔بہت سی جگہوں پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے اجتہاد صحیح ہوئے ہیں ۔ 

دیگر صحابہ کے مقابلے میں کچھ ایسے مقامات ہیں کہ جہاں صحابہ کی رائے ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی رائے سے زیادہ درست ثابت ہوئی ہیں ۔یہ ایک رائے ہے ، ہم نے حدیث کو دیکھنا ہے۔ نبیﷺکی حدیث ہے اور یہ حدیث صحیح ہے۔ بخاری و مسلم کے علاوہ دیگر کتب احادیث میں موجود ہے۔دوسری بات اس حدیث کا جو صحیح معنی محدثین نے لیا ہے۔ اس کے مطابق یہ اشکال رہتا ہی نہیں ۔یعنی قرآن کریم کی آیت کا حدیث کے ساتھ کوئی ظاہری تعارض نہیں بنتا ، محدثین کہتے ہیں کہ میت کو اس وقت عذاب ہوتا ہے ۔ جبکہ میت کی وصیت ہو، جیسا کہ زمانہ جاہلیت میں ہوتا تھا، مرنے والا وصیت کرتا تھاکہ اگر میں مر گیا تو ماتم کرنا ہے۔ اگر گھر والے  اس وصیت پر عمل کرتے ہیں تو عذاب ہو گا، یہ اصل بات ہے۔ 

تیسری بات اگر اس کی عادت تھی ، کہ وہ ہر فوتگی پر ماتم کرتا تھا،روتا پیٹتا تھا تو قرآن میں فرمان ہے کہٖ:

"اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو آگ سے بچا لو ۔”(سورۃالتحریم 6)

انسان جو کچھ اپنے عمل سے کرتا ہے اس کے گھر والوں پر اسکا اثر ہوتا ہے۔وہ اپنے گھر والوں کی تربیت کر رہا ہوتا ہے۔ اس نے تربیت ہی ایسے انداز میں  کی ہے  کہ اس کے مرنے کے بعد اس کے اوپر واویلا کریں کیونکہ وہ بھی زندگی میں ایسا کرتارہا ہے۔ نبیﷺ نے فرمایا کہ تم میں سے  ہر بندہ داعی ہے اور اس سے اس کی رعائیہ کے بارے میں پوچھاجائے گا۔ (بخاری 5200)

بعض علماء جیسے ابن قیم رحمتہ اللہ علیہ اور حضرت تمیمہ رحمتہ اللہ علیہ انھوں نے اس کا ایک اور معنی بھی بتایا ہے کہ جب گھر والے روتے ہیں۔ 

تو میت کو اس کی تکلیف پہنچتی ہے۔ تکلیف کا مطلب یہاں عذاب نہیں ہے ۔ بلکہ غم اور پریشانی میں اضافہ ہے ۔مگر علماء کہتے ہیں کہ یہ معنی درست نہیں ہے کیونکہ وہاں عذاب کا ذکر ہے۔عذاب سے مراد حقیقی عذاب ہےصرف دکھاوے کے لئے ایک دوسرے کے گھر جایا جاتا ہے۔ یہ درست نہیں ہے یہ ایک رسم ہے۔ نبی ﷺنے فرمایا ” کہ میری امت میں کچھ چیزیں ایسی ہونگی ، جو زمانہ جاہلیت سے ہونگیاور یہ چھوڑنے والی نہیں ہیں  ان میں ایک ماتم بھی ہے ۔( سنن الترمزی 1001)

اسلام میں تعزیت کرنا یہ ہے کہ میت کے گھر والوں کو صبر کی تلقین کریں ، ان کا حوصلہ بڑھائیں اور مرنے والوں کے لئے دعا مغفرت کریں۔ شریعت میں تین دن سوگ مناناجائز ہے۔

اس پوسٹ کو آگے نشر کریں