Search

کیا محدثین اہل بیت سے بغض رکھتے تھے ؟

پہلا حصہ:

محدثین کتابوں میں فضائل علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور فضائل فاطمہ رضی الله عنہا کے باب باندھ باندھ تھک ہارے اور ہمارے  احساس کمتری کے ماروں کا کہنا کہ محدثین نے بغض اہل بیت کے تحت ان سے کم روایات  بیان کی ہیں ۔۔۔۔اور دوسروں کی مرویات سے کتابیں بھر دیں ۔۔۔

ایک صاحب نے اعتراض کیا ہے کہ اہل سنت کی کتب  میں اہل بیت سے مروی احادیث کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے ۔۔ اور اس دعوے کے بعد دعویٰ کرتے ہیں کہ اہل سنت کو اہل بیت سے بغض ہے ، اور ہمارے معصوم دوست بلاوجہ شرمندہ ہوئے پھرتے ہیں ۔۔ 

بہت معذرت کے ساتھ یہ ایک گھڑا گھڑایا جھوٹ ہے جو پوسٹ در پوسٹ چلتا آ رہا ہے ۔

اور افسوس یہ ہے جو سنتا  اور پڑھتا ہے وہ آنکھیں بند کر کے ایمان لے آتا ہے ؟ 

میرا سوال ہے کہ اگر آپ کے سامنے ایسا دعویٰ آتا ہے تو کیا اصولی طور پر ہمارا فرض نہیں ہے کہ اس کی تحقیق کریں یا کم از کم اس کو محض دعویٰ ہی سمجھا جائے ؟؟ 

اب اس کی حقیقت یہ ہے کہ

نبی  ﷺ کی وفات کے وقت سیدنا حسن رضی الله عنہ کی عمر قریب سات برس تھی ۔۔اور سیدنا حسین رضی الله عنہ کی چھے برس رہی ہو گی ۔۔اس عمر میں دنوں مکرم صاحبان کیسے زیادہ روایات کر سکتے تھے ۔۔۔بندہ شکوہ کرتے وقت ذرا عقل کو آواز دے لے تو کیا جاتا ہے ؟ 

اس کم سنی کے باوجود حضرات حسنین کریمین سے کچھ روایات اہل سنت کی کتب حدیث میں موجود ہیں ۔ سیدنا حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے 37 احادیث اہل سنت کی کتب میں موجود ہیں ، اور سیدنا حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے 43 احادیث موجود ہیں ۔۔

اب سیدنا علی رضی الله کی بات کر لیجئے ۔۔۔آپ کی بیان کردہ احادیث کی تعداد پندرہ سو تراسی (1583) ہے ۔۔۔جبکہ سیدنا ابوبکر صدیق سے کل 210، سیدنا عمر سے 977 اور سیدنا عثمان سے 312 احادیث مروی ہیں ۔۔۔۔

یعنی سیدنا علی رضی الله عنہ کی اکیلے کی تعداد ان تین خلفاء  کی تعداد کے مجموعے سے بھی کچھ زیادہ ہے ۔۔۔۔

اب ان سے پوچھیے کہ محدثین پر اہل بیت سے دشمنی کا الزام تو منہ کھول کے فورا لگا دیا ۔۔۔اب ان پہلے تین خلفاء کا بھی دشمن قرار دے دیجئے ۔۔۔

رہی دلیل تو آپ پہلے کون سے فہم و شعور کو دوست رکھتے ہیں کہ  اب کے دلیل کی ضرورت ہو ۔۔۔۔۔بہرحال  اوپر بیان کردہ تعداد کے حساب سے تو محدثین نے اکیلے سیدنا علی رضی الله عنہ کو تین خلفا پر فوقیت دی ہے ۔۔۔

لگے ہاتھوں بتاتا چلوں کہ اہل تشیع کی حدیث کی بنیادی کتب ” کتب اربعہ ” میں سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے "690” اور سیدنا حسن سے اکیس اور سیدنا حسین سے سات روایات موجود ہیں ۔۔

احباب ! حقیقت یہ ہے کہ جو صحابہ بطور طالب علم زندگی بسر کرتے رہے ان کی روایات زیادہ ہی ہونی چاہیے تھیں ۔۔سو ایسا ہی رہا ۔۔۔اور بہت سے اصحاب کہ شان دار علمی ذوق رکھنے کے باوجود کم روایت کر سکے کیونکہ دیگر مصروفیات کی بنا پر ان کی توجہ ادھر نہ ہو سکی ، جیسے سیدنا ابوبکر رضی الله عنہ علمی اعتبار سے امت کے مضبوط ترین فرد تھے لیکن حکمرانی کے دباؤ کے سبب وقت نہ ملا کہ علمی امور کی طرف توجہ دے پاتے ۔

اسی طرح سیدنا عمر کی فقاہت کمال درجے کو پہنچی ہوئی تھی ۔۔۔۔لیکن ان کی روایات بھی سیدنا علی سے کم ہیں ۔۔۔یعنی مختلف حالات اور وجوہات اس کمی کا سبب بن سکتے ۔۔۔

اب سیدنا ابو ہریرہ کو ہی دیکھ لیجئے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری چند برس میں سایہ بن کے ساتھ رہے ۔۔سو آپ نے ڈیڑھ ہزار کے قریب احادیث روایت کیں ۔

اسی طرح عبد الله بن عباس اور عبد الله بن عمر کی شہرت ہی علم اور حصول علم ہے ، سو ان کی روایات بھی اسی سبب زیادہ ہیں وگرنہ سیدنا عمر اور سیدنا عباس کے دیگر بیٹے بھی تھے ان کی روایات سے کتابیں کیوں نہ بھر گئیں ؟ 

اسی طرح ام المومنین سیدہ عائشہ کا بھی علم و تعلم سے گہرا تعلق تھا ، کبار صحابہ تک ان سے مسائل پوچھنے آتے تھے ۔ اور ان کی علمی پختگی اور تفقہ کبار صحابہ بھی مانتے تھے ، سو ان کی روایت کردہ احادیث آپ کو زیادہ ملیں گی ۔ حالانکہ دوسری امہات المؤمنین بھی ادھر ہی  موجود تھیں ،اور  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وقت گزاری میں کبھی ناانصافی بھی نہیں کی اور سب کو برابر وقت دیا ، خانگی امور بھی یکساں رکھے ۔ لیکن ان کی روایت بہت کم ہیں ، حتی کہ خانگی معاملات یعنی غسل و طہارت کے امور وغیرہ کی روایات بھی زیادہ سیدہ عائشہ سے ملتی ہیں ۔ اسی سے واضح ہوتا ہے کہ سیدہ عائشہ کا علمی امور کی جانب میلان زیادہ تھا۔ 

اور ہاں آخری بات ۔۔۔۔صحاح ستہ و دیگر کتب حدیث کے مرتبین محدثین کو اگر آل علی سے بغض ہوتا تو کیوں الگ الگ ان کی شان میں ابواب باندھے گئے ۔ سیدنا علی کے الگ اور سیدنا فاطمہ کے الگ ۔۔۔۔رضی الله عنہا ۔۔۔

اسی طرح امام احمد بن حنبل اور امام نسائی نے تو اپنی کتابوں میں سیدنا علی ، سیدہ فاطمہ ، سیدنا حسن اور سیدنا حسین چاروں پر الگ الگ باب فضیلت لکھے ۔۔۔فضائل فاطمہ ۔۔۔فضائل علی ، فضائل حسن ، فضائل حسین ۔۔۔۔

سوال صرف یہ ہے کہ جھوٹ اور غلط بیانی یا جہالت کو کیونکر علم بنا کے آپ پیش کرتے ہیں ؟؟

 کمال یہ ہے کہ "دوست” اہل سنت پر بغض اہل بیت کا الزام لگاتے ہیں اور اس بات کو بہت شدومد سے بیان کرتے ہیں ۔۔ کیونکہ ان کو معلوم ہوتا ہے لوگ کون سا تحقیق کرتے ہیں ۔۔ اور ویسے بھی اہل بیت کا نام لے کر   لوگوں کو آسانی سے جذباتی کیا جا سکتا ہے ۔۔

یہی حال دوستوں کے دوسرے دعوؤں کا ہے لیکن اگر کوئی تحقیق کرے

۔۔

رضی اللہ تعالیٰ عنھم اجمعین

 

اس پوسٹ کو آگے نشر کریں