Search

حدیث ”قربانی کے جانور کے خون کا پہلا قطرہ گرتے ہی مغفرت” کی تحقیق

عمر اثری

امام طبرانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَا فَاطِمَةُ، قُومِي فَاشْهَدِي أُضْحِيَّتَكِ، فَإِنَّهُ يُغْفَرُ لَكِ بِأَوَّلِ قَطْرَةٍ مِنْ دَمِهَا كُلُّ ذَنْبٍ عَمِلْتِيهِ، وَقُولِي: إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ لَا شَرِيكَ لَهُ وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ. قَالَ عِمْرَانُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَذَا لَكَ وَلِأَهْلِ بَيْتِكَ خَاصَّةً، فَأَهْلُ ذَاكَ أَنْتُمْ، أَوْلِلْمُسْلِمِينَ عَامَّةً؟ قَالَ: بَلْ لِلْمُسْلِمِينَ عَامَّةً

ترجمہ: عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اے فاطمہ! تم کھڑی ہو اور اپنی قربانی (کے جانور) کا مشاہدہ کرو کیونکہ اسکے خون کا پہلا قطرہ گرنے سے تمہارے گناہ جو تم نے کئے ہیں معاف ہو جائیں گے اور تم یہ کہو ”بیشک میری صلاۃ، میری قربانی، میرا جینا اور میرا مرنا یہ سب خالص اللہ ہی کے لیے ہے جو سارے جہاں کا مالک ہے“ عمران رضی اللہ عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول ﷺ! یہ آپ اور آپکی آل کے لیے خاص ہے یا عام مسلمانوں کے لیے بھی ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: بلکہ تمام مسلمانوں کے لیے ہے.

تخریج: معجم الکبیر للطبرانی: 18/239، معجم الاوسط للطبرانی: 3/69 (2509)، الدعاء للطبرانی: 1/1244 (947)، مسند الرویانی: 1/134 (138)، مستدرک حاکم: 4/348 (7604)، سنن الکبریٰ للبیہقی: 19/326 (19191)، شعب الایمان للبیہقی: 9/452 (6957)، فضائل الاوقات للبیہقی، صفحہ: 108 (حدیث: 255)، الکامل لابن عدی: 8/267

اس حدیث کا مدار ابو حمزة الثُّمالی پر ہے اور وہ سعید بن جبیر سے روایت کرنے میں منفرد ہیں . ابو حمزة الثُّمالی کا نام ثابت بن ابی صفیہ دینار الثُّمالی ہے جو کہ ضعیف الحدیث ہے.

امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کہتے ہیں :

ضعيف الحديث ليس بشيء

اسی طرح یحییٰ رحمہ اللہ کہتے ہیں :

ليس بشيء

امام دارقطنی رحمہ اللہ کہتے ہیں :

ضعیف. ومرۃ: متروك

امام نسائی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

ليس بثقة

(مزید تفصیل کے لیے دیکھیں : سؤالات البرقانی للدارقطنی: 20، الضعفاء والمتروکین للنسائی: 69، الضعفاء والمتروکین لابن الجوزی: 1/158، تہذیب الکمال للمزی: 4/357، تہذیب التہذیب لابن ججر: 1/264، میزان الاعتدال للذہبی: 1/363)

اسی طرح ابو حمزة الثُّمالی سے روایت کرنے والے راوی نضر بن اسماعیل البجلی بھی ضعیف راوی ہیں .

یحییٰ رحمہ اللہ کہتے ہیں :

ليس بشيء

نسائی اور ابو زرعہ رحمہما اللہ کہتے ہیں :

ليس بالقوى

(مزید تفصیل کے لیے دیکھیں : میزان الاعتدال للذہبی: 4/255، تہذیب الکمال للمزی: 29/372، تہذیب التہذیب لابن حجر: 4/221، تقریب التہذیب لابن حجر: 7130)

لہٰذا یہ حدیث ابو حمزة الثُّمالی اور نضر بن اسماعیل البجلی کی وجہ سے ضعیف ہے.

تنبیہ: امام حاکم رحمہ اللہ نے اس حدیث کو اگرچہ صحیح کہا ہے لیکن یہاں ان سے سہو ہوا ہے. اسی لیے علامہ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کا تعاقب کیا ہے، کہتے ہیں :

فيه أبو حمزة الثُّمالي، وهو ضعيف جدا

ترجمہ: اس کی سند میں ابو حمزة الثُّمالی ہے جو کہ سخت ضعیف ہے.

اس حدیث کے دو شواہد بھی ہیں . ان میں سے ایک حدیث ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اور دوسری علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے لیکن دونوں احادیث سخت ضعیف ہیں بلکہ ان میں سے ایک (یعنی حدیث علی) موضوع ہے. تفصیل دیکھیں :

حدیث ابی سعید خدری رضی اللہ عنہ:

اس کو امام حاکم رحمہ اللہ نے مستدرک حاکم: 4/348 (7605) میں ، ابن ابی حاتم رحمہ اللہ نے علل الحدیث: 4/495 میں اور امام عقیلی رحمہ اللہ نے الضعفاء الکبیر: 2/37 میں «داود بن عبد الحميد عن عمرو بن قيس الملائي عن عطية عن أبي سعيد الخدري رضي اللّه عنه» کے طریق سے نقل کیا ہے. حدیث کے الفاظ کچھ اس طرح ہیں :

عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ – رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ – قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ – لِفَاطِمَةَ (عَلَيْهَا الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ): قُومِي إِلَى أُضْحِيَّتِكَ فَاشْهَدِيهَا فَإِنَّ لَكِ بِأَوَّلِ قَطْرَةٍ تَقْطُرُ مِنْ دَمِهَا يُغْفَرُ لَكِ مَا سَلَفَ مِنْ ذُنُوبُكَ، قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَذَا لَنَا أَهْلَ الْبَيْتِ خَاصَّةً أَوْ لَنَا وَلِلْمُسْلِمِينَ عَامَّةً؟، قَالَ: بَلْ لَنَا وَلِلْمُسْلِمِينَ عَامَّةً

ترجمہ: ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اے فاطمہ! تم اپنی قربانی (کے جانور) کے پاس کھڑی ہو جاؤ اور اسکا مشاہدہ کرو (یعنی قربان ہوتے ہوئے دیکھو) کیونکہ اسکے خون کا پہلا قطرہ گرتے ہی تمہارے پچھلے گناہ معاف ہو جائیں گے. فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کہا: اے اللہ کے رسول ﷺ! یہ ہم اہل بیت لیے خاص ہے یا ہمارے اور عام مسلمانوں کے لیے بھی ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: بلکہ یہ ہمارے اور عام مسلمانوں کے لیے ہے.

اس سند میں دو علتیں ہیں :

1) عطیہ. یہ ابن سعد الکوفی ہے. یہ ضعیف راوی ہے.

(مزید تفصیل کے لیے دیکھیں : تہذیب الکمال للمزی: 20/145، سیر اعلام النبلاء للذہبی: 5/325، میزان الاعتدال للذہبی: 3/79، تہذیب التہذیب لابن حجر: 3/114)

2) داؤد بن عبدالحمید.

ابو حاتم رحمہ اللہ کہتے ہیں :

حديثه يدل على ضعفه

عقیلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

روى عن عمرو بن قيس الملائي أحاديث لا يتابع عليها، منها: عن الملائي عن عطيةعن أبي سعيد يا فاطمة قومي إلى أضحيتك فاشهديها

(مزید تفصیل کے لیے دیکھیں : میزان الاعتدال للذہبی: 2/11، المغنی فی الضعفاء للذہبی: 1/319، لسان المیزان لابن حجر: 3/403)

لہٰذا یہ حدیث اس سند سے سخت ضعیف ہے.

امام ابن ابی حاتم رحمہ اللہ نے اس حدیث کے متعلق اپنے والد محترم ابو حاتم رحمہ اللہ سے پوچھا تو انہوں نے جواب دیا کہ یہ حدیث منکر ہے.

(علل الحدیث لابن ابی حاتم: 4/495)

حدیث علی رضی اللہ عنہ:

اس کو عبد بن حمید نے اپنی مسند (المنتخب): 1/119 (78) میں ، امام بیہقی رحمہ اللہ نے سنن الکبریٰ: 19/326 (19190) میں اور امام ابو قاسم اصبہانی رحمہ اللہ نے الترغیب والترھیب: 1/241 (355) میں «سعيد بن زيد أخي حماد بن زيد عن عمرو بن خالد عن محمد بن علي عن آبائه عن علي رضي اللّه عنه» کے طریق سے مرفوعا بیان کیا ہے.

یہ حدیث اس سند سے موضوع ہے. کیونکہ اس میں ایک راوی عمرو بن خالد (ابو خالد القرشی) ہے. اس پر سخت جرح کی گی ہے. کئی محدثین نے اسے کذاب کہا ہے.

(مزید تفصیل کے لیے دیکھیں : تہذیب التہذیب لابن حجر: 3/267، تہذیب الکمال للمزی: 21/603)

علامہ البانی رحمہ اللہ نے بھی اس حدیث کو منکر کہا ہے.

(ضعیف الترغیب: 674)

خلاصہ کلام یہ ہے کہ یہ روایت تمام طرق سے ضعیف ہے.

واللہ تعالی اعلم بالصواب

اس پوسٹ کو آگے نشر کریں