Search

روایت لولاك لما خلقتا الا فلاك

تحریر: مولانا ابوالحسن مبشر احمد ربانی حفظ اللہ

سوال : کیا یہ روایت لولاك لما خلقت الا فلاك صحیح ہے ؟
جواب : اس روایت کا مطلب ہے ”اے محمد ! اگر میں تجھے پیدا نہ کرتا تو جہانوں ہی کو پیدا نہ کرتا۔“
یہ روایت موضوع ہے جیسا کہ امام صنعانی رحمه الله نے اپنی کتاب ’’ الاحادیث الموضوعۃ : ص 52، رقم78“ میں اور علامہ عجلونی نے ’’ کشف الخفاء : 163/2“ میں اور امام شوکانی رحمه الله نے ’’ الفوائد المجموعۃ فی الاحادیث الموضوعۃ : 326“ میں ذکر کیا ہے۔

ملا علی قاری کا یہ کہنا کہ حدیث کا معنی صحیح ہے اور اس کی تائید کے لیے دیلمی کی روایت يا محمد ! لو لاك لما خلقت الجنة ولو لاك ما خلقت النار اور ابن عساکر کی روایت لولاك ما خلقت الدنيا پیش کرنا حقیقت کے خلاف ہے۔ کیونکہ یہ روایات تب تائید میں پیش کی جا سکتی تھیں جب یہ پایہ ثبوت کو پہنچتیں جب کہ بلاشک و شبہ یہ روایات بھی ثابت نہیں۔

ابن عساکر والی روایت کو سیوطی اور امام ابن جوزی رحمه الله نے موضوع قرار دیا ہے۔ اسی طرح دیلمی والی روایت کو بھی علامہ ناصرالدین البانی رحمه الله نے ضعیف قرار دیا ہے۔ قرآن مجید میں تو اللہ تعالیٰ نے جن و انس کی پیدائش کی حکمت بیان کی ہے :
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ [51-الذاريات:56]
’’ جن و انس کی پیدائش کا مقصد صرف یہ ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔“
گویا اس مقصد کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے جن و انس کی پیدائش کا کوئی اور مقصد نہیں بتایا۔ کہیں یہ ثابت نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے یہ سب کچھ اس لیے پیدا کیا یا اس کے لیے پیدا کیا۔
پھر لطف کی بات ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی نے اس حدیث کو چرا کہ اپنی کتاب حقیقۃ الوحی کے صفحہ (99) پر لکھا ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھ سے ان الفاظ کے ساتھ مخاطب ہوا ہے : لولاك لما خلقت الا فلاك
سوچیے ! رب کائنات کی تخلیق کی وہ حکمت تسلیم کی جائے گی جو قرآن میں ہے یا وہ جو اس موضوع، من گھڑت اور جھوٹی روایت میں ہے ؟

اس پوسٹ کو آگے نشر کریں