Search

صحیح بخاری – حدیث نمبر 2780

صحیح بخاری – حدیث نمبر 2780

باب: اللہ تعالیٰ کا (سورۃ المائدہ میں) یہ فرمانا ”مسلمانو! جب تم میں کوئی مرنے لگے تو آپس کی گواہی وصیت کے وقت تم میں سے (یعنی مسلمانوں میں سے یا عزیزوں میں سے) دو معتبر شخصوں کی ہونی چاہئے یا اگر تم سفر میں ہو اور وہاں تم موت کی مصیبت میں گرفتار ہو جاؤ تو غیر ہی یعنی کافر یا جن سے قرابت نہ ہو دو شخص سہی (میت کے وارثوں) ان دونوں گواہوں کو عصر کی نماز کے بعد تم روک لو اگر تم کو (ان کے سچے ہونے میں شبہ ہو) تو وہ اللہ کی قسم کھائیں کہ ہم اس گواہی کے عوض دنیا کمانا نہیں چاہتے گو جس کے لیے گواہی دیں وہ اپنا رشتہ دار ہو اور نہ ہم اللہ واسطے گواہی چھپائیں گے، ایسا کریں تو ہم اللہ کے قصوروار ہیں، پھر اگر معلوم ہو واقعی یہ گواہ جھوٹے تھے تو دوسرے وہ دو گواہ کھڑے ہوں جو میت کے نزدیک کے رشتہ دار ہوں (یا جن کو میت کے دو نزدیک کے رشتہ داروں نے گواہی کے لائق سمجھا ہو) وہ اللہ کی قسم کھا کر کہیں کہ ہماری گواہی پہلے گواہوں کی گواہی سے زیادہ معتبر ہے اور ہم نے کوئی ناحق بات نہیں کہی، ایسا کیا ہو تو بیشک ہم گنہگار ہوں گے۔ یہ تدبیر ایسی ہے جس سے ٹھیک ٹھیک گواہی دینے کی زیادہ امید پڑتی ہے یا اتنا تو ضرور ہو گا کہ وصی یا گواہوں کو ڈر رہے گا ایسا نہ ہو ان کے قسم کھانے کے بعد پھر وارثوں کو قسم دی جائے اور اللہ سے ڈرتے رہو اور اس کا حکم سنو اور اللہ نافرمان لوگوں کو (راہ پر) نہیں لگاتا“۔

35- بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا شَهَادَةُ بَيْنِكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ حِينَ الْوَصِيَّةِ اثْنَانِ ذَوَا عَدْلٍ مِنْكُمْ أَوْ آخَرَانِ مِنْ غَيْرِكُمْ إِنْ أَنْتُمْ ضَرَبْتُمْ فِي الأَرْضِ فَأَصَابَتْكُمْ مُصِيبَةُ الْمَوْتِ تَحْبِسُونَهُمَا مِنْ بَعْدِ الصَّلاَةِ فَيُقْسِمَانِ بِاللَّهِ إِنِ ارْتَبْتُمْ لاَ نَشْتَرِي بِهِ ثَمَنًا وَلَوْ كَانَ ذَا قُرْبَى وَلاَ نَكْتُمُ شَهَادَةَ اللَّهِ إِنَّا إِذًا لَمِنَ الآثِمِينَ فَإِنْ عُثِرَ عَلَى أَنَّهُمَا اسْتَحَقَّا إِثْمًا فَآخَرَانِ يَقُومَانِ مَقَامَهُمَا مِنَ الَّذِينَ اسْتُحِقَّ عَلَيْهِمُ الأَوْلَيَانِ فَيُقْسِمَانِ بِاللَّهِ لَشَهَادَتُنَا أَحَقُّ مِنْ شَهَادَتِهِمَا وَمَا اعْتَدَيْنَا إِنَّا إِذًا لَمِنَ الظَّالِمِينَ ذَلِكَ أَدْنَى أَنْ يَأْتُوا بِالشَّهَادَةِ عَلَى وَجْهِهَا أَوْ يَخَافُوا أَنْ تُرَدَّ أَيْمَانٌ بَعْدَ أَيْمَانِهِمْ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاسْمَعُوا وَاللَّهُ لاَ يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ}:
2 وقَالَ لِي عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي زَائِدَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي الْقَاسِمِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ خَرَجَ رَجُلٌ مِنْ بَنِي سَهْمٍ مَعَ تَمِيمٍ الدَّارِيِّ، ‏‏‏‏‏‏وَعَدِيِّ بْنِ بَدَّاءٍ، ‏‏‏‏‏‏فَمَاتَ السَّهْمِيُّ بِأَرْضٍ لَيْسَ بِهَا مُسْلِمٌ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا قَدِمَا بِتَرِكَتِهِ فَقَدُوا جَامًا مِنْ فِضَّةٍ مُخَوَّصًا مِنْ ذَهَبٍ، ‏‏‏‏‏‏فَأَحْلَفَهُمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ وُجِدَ الْجَامُ بِمَكَّةَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالُوا:‏‏‏‏ ابْتَعْنَاهُ مِنْ تَمِيمٍ، ‏‏‏‏‏‏وَعَدِيٍّ، ‏‏‏‏‏‏فَقَامَ رَجُلَانِ مِنْ أَوْلِيَائِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَحَلَفَا لَشَهَادَتُنَا أَحَقُّ مِنْ شَهَادَتِهِمَا، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّ الْجَامَ لِصَاحِبِهِمْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَفِيهِمْ نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا شَهَادَةُ بَيْنِكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ سورة المائدة آية 106.

حدیث کی عربی عبارت (بغیر اعراب)

35- باب قول الله تعالى: {يا أيها الذين آمنوا شهادة بينكم إذا حضر أحدكم الموت حين الوصية اثنان ذوا عدل منكم أو آخران من غيركم إن أنتم ضربتم في الأرض فأصابتكم مصيبة الموت تحبسونهما من بعد الصلاة فيقسمان بالله إن ارتبتم لا نشتري به ثمنا ولو كان ذا قربى ولا نكتم شهادة الله إنا إذا لمن الآثمين فإن عثر على أنهما استحقا إثما فآخران يقومان مقامهما من الذين استحق عليهم الأوليان فيقسمان بالله لشهادتنا أحق من شهادتهما وما اعتدينا إنا إذا لمن الظالمين ذلك أدنى أن يأتوا بالشهادة على وجهها أو يخافوا أن ترد أيمان بعد أيمانهم واتقوا الله واسمعوا والله لا يهدي القوم الفاسقين}:
2 وقال لي علي بن عبد الله ، ‏‏‏‏‏‏حدثنا يحيى بن آدم ، ‏‏‏‏‏‏حدثنا ابن أبي زائدة ، ‏‏‏‏‏‏عن محمد بن أبي القاسم ، ‏‏‏‏‏‏عن عبد الملك بن سعيد بن جبير ، ‏‏‏‏‏‏عن أبيه ، ‏‏‏‏‏‏عن ابن عباس رضي الله عنهما، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ خرج رجل من بني سهم مع تميم الداري، ‏‏‏‏‏‏وعدي بن بداء، ‏‏‏‏‏‏فمات السهمي بأرض ليس بها مسلم، ‏‏‏‏‏‏فلما قدما بتركته فقدوا جاما من فضة مخوصا من ذهب، ‏‏‏‏‏‏فأحلفهما رسول الله صلى الله عليه وسلم، ‏‏‏‏‏‏ثم وجد الجام بمكة، ‏‏‏‏‏‏فقالوا:‏‏‏‏ ابتعناه من تميم، ‏‏‏‏‏‏وعدي، ‏‏‏‏‏‏فقام رجلان من أوليائه، ‏‏‏‏‏‏فحلفا لشهادتنا أحق من شهادتهما، ‏‏‏‏‏‏وإن الجام لصاحبهم، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ وفيهم نزلت هذه الآية يأيها الذين آمنوا شهادة بينكم إذا حضر أحدكم الموت سورة المائدة آية 106.

حدیث کی عربی عبارت (مکمل اردو حروف تہجی میں)

35- باب قول اللہ تعالى: {یا ایہا الذین آمنوا شہادۃ بینکم اذا حضر احدکم الموت حین الوصیۃ اثنان ذوا عدل منکم او آخران من غیرکم ان انتم ضربتم فی الارض فاصابتکم مصیبۃ الموت تحبسونہما من بعد الصلاۃ فیقسمان باللہ ان ارتبتم لا نشتری بہ ثمنا ولو کان ذا قربى ولا نکتم شہادۃ اللہ انا اذا لمن الآثمین فان عثر على انہما استحقا اثما فآخران یقومان مقامہما من الذین استحق علیہم الاولیان فیقسمان باللہ لشہادتنا احق من شہادتہما وما اعتدینا انا اذا لمن الظالمین ذلک ادنى ان یاتوا بالشہادۃ على وجہہا او یخافوا ان ترد ایمان بعد ایمانہم واتقوا اللہ واسمعوا واللہ لا یہدی القوم الفاسقین}:
2 وقال لی علی بن عبد اللہ ، ‏‏‏‏‏‏حدثنا یحیى بن آدم ، ‏‏‏‏‏‏حدثنا ابن ابی زائدۃ ، ‏‏‏‏‏‏عن محمد بن ابی القاسم ، ‏‏‏‏‏‏عن عبد الملک بن سعید بن جبیر ، ‏‏‏‏‏‏عن ابیہ ، ‏‏‏‏‏‏عن ابن عباس رضی اللہ عنہما، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ خرج رجل من بنی سہم مع تمیم الداری، ‏‏‏‏‏‏وعدی بن بداء، ‏‏‏‏‏‏فمات السہمی بارض لیس بہا مسلم، ‏‏‏‏‏‏فلما قدما بترکتہ فقدوا جاما من فضۃ مخوصا من ذہب، ‏‏‏‏‏‏فاحلفہما رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم، ‏‏‏‏‏‏ثم وجد الجام بمکۃ، ‏‏‏‏‏‏فقالوا:‏‏‏‏ ابتعناہ من تمیم، ‏‏‏‏‏‏وعدی، ‏‏‏‏‏‏فقام رجلان من اولیائہ، ‏‏‏‏‏‏فحلفا لشہادتنا احق من شہادتہما، ‏‏‏‏‏‏وان الجام لصاحبہم، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ وفیہم نزلت ہذہ الآیۃ یایہا الذین آمنوا شہادۃ بینکم اذا حضر احدکم الموت سورۃ المائدۃ آیۃ 106.

حدیث کا اردو ترجمہ

باب : اللہ تعالیٰ کا ( سورة المائدہ میں) یہ فرمانا مسلمانو ! جب تم میں کوئی مرنے لگے تو آپس کی گواہی وصیت کے وقت تم میں سے ( یعنی مسلمانوں میں سے یا عزیزوں میں سے) دو معتبر شخصوں کی ہونی چاہیے یا اگر تم سفر میں ہو اور وہاں تم موت کی مصیبت میں گرفتار ہوجاؤ تو غیر ہی یعنی کافر یا جن سے قرابت نہ ہو دو شخص سہی ( میت کے وارثوں) ان دونوں گواہوں کو عصر کی نماز کے بعد تم روک لو اگر تم کو ( ان کے سچے ہونے میں شبہ ہو) تو وہ اللہ کی قسم کھائیں کہ ہم اس گواہی کے عوض دنیا کمانا نہیں چاہتے گو جس کے لیے گواہی دیں وہ اپنا رشتہ دار ہو اور نہ ہم اللہ واسطے گواہی چھپائیں گے ، ایسا کریں تو ہم اللہ کے قصوروار ہیں ، پھر اگر معلوم ہو واقعی یہ گواہ جھوٹے تھے تو دوسرے وہ دو گواہ کھڑے ہوں جو میت کے نزدیک کے رشتہ دار ہوں ( یا جن کو میت کے دو نزدیک کے رشتہ داروں نے گواہی کے لائق سمجھا ہو) وہ اللہ کی قسم کھا کر کہیں کہ ہماری گواہی پہلے گواہوں کی گواہی سے زیادہ معتبر ہے اور ہم نے کوئی ناحق بات نہیں کہی ، ایسا کیا ہو تو بیشک ہم گنہگار ہوں گے۔ یہ تدبیر ایسی ہے جس سے ٹھیک ٹھیک گواہی دینے کی زیادہ امید پڑتی ہے یا اتنا تو ضرور ہوگا کہ وصی یا گواہوں کو ڈر رہے گا ایسا نہ ہو ان کے قسم کھانے کے بعد پھر وارثوں کو قسم دی جائے اور اللہ سے ڈرتے رہو اور اس کا حکم سنو اور اللہ نافرمان لوگوں کو ( راہ پر) نہیں لگاتا
امام بخاری (رح) نے کہا مجھ سے علی بن عبداللہ مدینی نے کہا ہم سے یحییٰ بن آدم نے ‘ کہا ہم سے ابن ابی زائدہ نے ‘ انہوں نے محمد بن ابی القاسم سے ‘ انہوں نے عبدالملک بن سعید بن جبیر سے ‘ انہوں نے اپنے باپ سے ‘ کہا ہم سے عبداللہ بن عباس (رض) سے انہوں نے کہا بنی سہم کا ایک شخص تمیم داری اور عدی بن بداء کے ساتھ سفر کو نکلا ‘ وہ ایسے ملک میں جا کر مرگیا جہاں کوئی مسلمان نہ تھا۔ یہ دونوں شخص اس کا متروکہ مال لے کر مدینہ واپس آئے۔ اس کے اسباب میں چاندی کا ایک گلاس گم تھا۔ آپ نے ان دونوں کو قسم کھانے کا حکم فرمایا (انہوں نے قسم کھالی) پھر ایسا ہوا کہ وہ گلاس مکہ میں ملا، انہوں نے کہا ہم نے یہ گلاس تمیم اور عدی سے خریدا ہے۔ اس وقت میت کے دو عزیز (عمرو بن العاص اور مطلب کھڑے ہوئے اور انہوں نے قسم کھائی کہ یہ ہماری گواہی تمیم اور عدی کی گواہی سے زیادہ معتبر ہے ‘ یہ گلاس میت ہی کا ہے۔ عبداللہ بن عباس (رض) نے کہا ان ہی کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی يا أيها الذين آمنوا شهادة بينكم‏ آخر آیت تک۔

حدیث کا انگریزی ترجمہ (English Translation)

Ibn ‘Abbas (ra) said, A man from the tribe of Bani Sahm went out in the company of Tamim Ad-Dari and ‘Adi bin Badda’. The man of Bani Sahm died in a land where there was no Muslim. When Tamim and ‘Adi returned conveying the property of the deceased, they claimed that they had lost a silver bowl with gold engraving. Allah’s Messenger (saws) made them take an oath (to confirm their claim), and then the bowl was found in Makkah with some people who claimed that they had bought it from Tamim and ‘Adu, Then two witnesses from the relatives of the deceased got up and swore that their witnesses were more valid than the witnesses of ‘Adi and Tamim, and that the bowl belonged to their deceased fellow. So, this verse was revealed in connection with this case ; ‘O you who believe! When death approached any of you …’, (V 5:106)

اس پوسٹ کو آگے نشر کریں