صحیح بخاری – حدیث نمبر 4706
باب
رُوحُ الْقُدُسِ، جِبْرِيلُ، نَزَلَ بِهِ، الرُّوحُ الْأَمِينُ، فِي ضَيْقٍ يُقَالُ: أَمْرٌ ضَيْقٌ وَضَيِّقٌ مِثْلُ هَيْنٍ وَهَيِّنٍ، وَلَيْنٍ وَلَيِّنٍ، وَمَيْتٍ وَمَيِّتٍ، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: تَتَفَيَّأُ ظِلَالُهُ تَتَهَيَّأُ سُبُلَ رَبِّكِ ذُلُلًا، لَا يَتَوَعَّرُ عَلَيْهَا مَكَانٌ سَلَكَتْهُ، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: فِي تَقَلُّبِهِمْ: اخْتِلَافِهِمْ، وَقَالَ مُجَاهِدٌ: تَمِيدُ تَكَفَّأُ، مُفْرَطُونَ: مَنْسِيُّونَ، وَقَالَ غَيْرُهُ: فَإِذَا قَرَأْتَ الْقُرْآنَ فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ: هَذَا مُقَدَّمٌ وَمُؤَخَّرٌ، وَذَلِكَ أَنَّ الِاسْتِعَاذَةَ قَبْلَ الْقِرَاءَةِ وَمَعْنَاهَا الِاعْتِصَامُ بِاللَّهِ، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: تُسِيمُونَ: تَرْعَوْنَ، شَاكِلَتِهِ: نَاحِيَتِهِ، قَصْدُ السَّبِيلِ: الْبَيَانُ الدِّفْءُ مَا اسْتَدْفَأْتَ، تُرِيحُونَ: بِالْعَشِيِّ وَتَسْرَحُونَ بِالْغَدَاةِ، بِشِقِّ: يَعْنِي الْمَشَقَّةَ، عَلَى تَخَوُّفٍ: تَنَقُّصٍ، الْأَنْعَامِ لَعِبْرَةً: وَهِيَ تُؤَنَّثُ وَتُذَكَّرُ، وَكَذَلِكَ النَّعَمُ الْأَنْعَامُ جَمَاعَةُ النَّعَمِ، أَكْنَانٌ: وَاحِدُهَا كِنٌّ مِثْلُ حِمْلٍ وَأَحْمَالٍ، سَرَابِيلَ: قُمُصٌ، تَقِيكُمُ الْحَرَّ: وَأَمَّا سَرَابِيلَ تَقِيكُمْ بَأْسَكُمْ، فَإِنَّهَا الدُّرُوعُ، دَخَلًا بَيْنَكُمْ: كُلُّ شَيْءٍ لَمْ يَصِحَّ فَهُوَ دَخَلٌ، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: حَفَدَةً: مَنْ وَلَدَ الرَّجُلُ السَّكَرُ مَا حُرِّمَ مِنْ ثَمَرَتِهَا وَالرِّزْقُ الْحَسَنُ مَا أَحَلَّ اللَّهُ، وَقَالَ ابْنُ عُيَيْنَةَ: عَنْ صَدَقَةَ، أَنْكَاثًا: هِيَ خَرْقَاءُ كَانَتْ إِذَا أَبْرَمَتْ غَزْلَهَا نَقَضَتْهُ، وَقَالَ ابْنُ مَسْعُودٍ: الْأُمَّةُ مُعَلِّمُ الْخَيْرِ، وَالْقَانِتُ الْمُطِيعُ
حدیث کی عربی عبارت (بغیر اعراب)
روح القدس، جبريل، نزل به، الروح الأمين، في ضيق يقال: أمر ضيق وضيق مثل هين وهين، ولين ولين، وميت وميت، قال ابن عباس: تتفيأ ظلاله تتهيأ سبل ربك ذللا، لا يتوعر عليها مكان سلكته، وقال ابن عباس: في تقلبهم: اختلافهم، وقال مجاهد: تميد تكفأ، مفرطون: منسيون، وقال غيره: فإذا قرأت القرآن فاستعذ بالله من الشيطان الرجيم: هذا مقدم ومؤخر، وذلك أن الاستعاذة قبل القراءة ومعناها الاعتصام بالله، وقال ابن عباس: تسيمون: ترعون، شاكلته: ناحيته، قصد السبيل: البيان الدفء ما استدفأت، تريحون: بالعشي وتسرحون بالغداة، بشق: يعني المشقة، على تخوف: تنقص، الأنعام لعبرة: وهي تؤنث وتذكر، وكذلك النعم الأنعام جماعة النعم، أكنان: واحدها كن مثل حمل وأحمال، سرابيل: قمص، تقيكم الحر: وأما سرابيل تقيكم بأسكم، فإنها الدروع، دخلا بينكم: كل شيء لم يصح فهو دخل، قال ابن عباس: حفدة: من ولد الرجل السكر ما حرم من ثمرتها والرزق الحسن ما أحل الله، وقال ابن عيينة: عن صدقة، أنكاثا: هي خرقاء كانت إذا أبرمت غزلها نقضته، وقال ابن مسعود: الأمة معلم الخير، والقانت المطيع
حدیث کی عربی عبارت (مکمل اردو حروف تہجی میں)
روح القدس، جبریل، نزل بہ، الروح الامین، فی ضیق یقال: امر ضیق وضیق مثل ہین وہین، ولین ولین، ومیت ومیت، قال ابن عباس: تتفیا ظلالہ تتہیا سبل ربک ذللا، لا یتوعر علیہا مکان سلکتہ، وقال ابن عباس: فی تقلبہم: اختلافہم، وقال مجاہد: تمید تکفا، مفرطون: منسیون، وقال غیرہ: فاذا قرات القرآن فاستعذ باللہ من الشیطان الرجیم: ہذا مقدم وموخر، وذلک ان الاستعاذۃ قبل القراءۃ ومعناہا الاعتصام باللہ، وقال ابن عباس: تسیمون: ترعون، شاکلتہ: ناحیتہ، قصد السبیل: البیان الدفء ما استدفات، تریحون: بالعشی وتسرحون بالغداۃ، بشق: یعنی المشقۃ، على تخوف: تنقص، الانعام لعبرۃ: وہی تونث وتذکر، وکذلک النعم الانعام جماعۃ النعم، اکنان: واحدہا کن مثل حمل واحمال، سرابیل: قمص، تقیکم الحر: واما سرابیل تقیکم باسکم، فانہا الدروع، دخلا بینکم: کل شیء لم یصح فہو دخل، قال ابن عباس: حفدۃ: من ولد الرجل السکر ما حرم من ثمرتہا والرزق الحسن ما احل اللہ، وقال ابن عیینۃ: عن صدقۃ، انکاثا: ہی خرقاء کانت اذا ابرمت غزلہا نقضتہ، وقال ابن مسعود: الامۃ معلم الخیر، والقانت المطیع
حدیث کا اردو ترجمہ
نزل به الروح الأمين میں روح الأمين سے روح القدس جبرائیل مراد ہیں۔ في ضيق عرب لوگ کہتے ہیں أمر ضيق اور ضيق جیسے هين اور وهين اور لين اور ولين اور ميت اور وميت.۔ ابن عباس (رض) نے کہا في تقلبهم کا معنی ان کے اختلاف میں۔ اور مجاہد نے کہا تميد کا معنی جھک جائے، الٹ جائے۔ مفرطون کا معنی بھلائے گئے۔ دوسرے لوگوں نے کہا فإذا قرأت القرآن فاستعذ بالله اس آیت میں عبارت آگے پیچھے ہوگئی ہے۔ کیونکہ اعوذ بالله قرآت سے پہلے پڑھنا چاہیے۔ لاستعاذة کے معنی اللہ سے پناہ مانگنا۔ اور عبداللہ بن عباس (رض) نے کہا تسيمون کا معنی چراتے ہو۔ شاكلة اپنے اپنے طریق پر۔ قصد السبيل سچے راستے کا بیان کرنا۔ الدفء ہر وہ چیز جس سے گرمی حاصل کی جائے، سردی دفع ہو۔ تريحون شام کو لاتے ہو۔ تسرحون صبح کو چرانے لے جاتے ہو۔ بشق تکلیف اٹھا کر محنت مشقت سے۔ على تخوف نقصان کر کے۔ وان لکم في الأنعام لعبرة میں الأنعام ، نعم کی جمع ہے۔ مذکر مؤنث دونوں کو الأنعام اور نعم کہتے ہیں۔ سرابيل تقيكم الحر میں سرابيل سے کرتے اور سرابيل تقيكم بأسكم میں سرابيل سے زرہیں مراد ہیں۔ دخلا بينكم جو ناجائز بات ہو اس کو دخل. کہتے ہیں۔ جیسے ( دخل. یعنی خیانت) ۔ ابن عباس (رض) نے کہا حفدة آدمی کی اولاد۔ السکر نشے آور مشروب جو حرام ہے۔ رزق الحسنا جس کو اللہ نے حلال کیا۔ اور سفیان بن عیینہ نے صدقة ابوالہذیل سے نقل کیا۔ أنکاثا ٹکڑے ٹکڑے یہ ایک عورت کا ذکر ہے اس کا نام خرقاء تھا (جو مکہ میں رہتی تھی) وہ دن بھر سوت کا تتی پھر توڑ توڑ کر پھینک دیتی۔ ابن مسعود نے کہا لأمة کا معنی لوگوں کو اچھی باتیں سکھانے والا اور قانت کے معنی مطيع اور فرمانبردار کے ہیں۔
حدیث کا انگریزی ترجمہ (English Translation)
Narrated Ibn `Abbas concerning: As We have sent down (the Scripture) on those who are divided (Jews and Christians). (15.90) They believed in part of it and disbelieved in the other, (and they) are the Jews and the Christians.