صحیح بخاری – حدیث نمبر 4759
باب
وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: هَبَاءً مَنْثُورًا: مَا تَسْفِي بِهِ الرِّيحُ، مَدَّ الظِّلَّ: مَا بَيْنَ طُلُوعِ الْفَجْرِ إِلَى طُلُوعِ الشَّمْسِ، سَاكِنًا: دَائِمًا، عَلَيْهِ دَلِيلًا: طُلُوعُ الشَّمْسِ، خِلْفَةً: مَنْ فَاتَهُ مِنَ اللَّيْلِ عَمَلٌ أَدْرَكَهُ بِالنَّهَارِ، أَوْ فَاتَهُ بِالنَّهَارِ أَدْرَكَهُ بِاللَّيْلِ، وَقَالَ الْحَسَنُ: هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا: وَذُرِّيَّاتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ فِي طَاعَةِ اللَّهِ وَمَا شَيْءٌ أَقَرَّ لِعَيْنِ الْمُؤْمِنِ مِنْ أَنْ يَرَى حَبِيبَهُ فِي طَاعَةِ اللَّهِ، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: ثُبُورًا: وَيْلًا، وَقَالَ غَيْرُهُ: السَّعِيرُ مُذَكَّرٌ وَالتَّسَعُّرُ وَالْاضْطِرَامُ التَّوَقُّدُ الشَّدِيدُ، تُمْلَى عَلَيْهِ: تُقْرَأُ عَلَيْهِ مِنْ أَمْلَيْتُ وَأَمْلَلْتُ الرَّسُّ الْمَعْدِنُ جَمْعُهُ رِسَاسٌ، مَا يَعْبَأُ، يُقَالُ: مَا عَبَأْتُ بِهِ شَيْئًا لَا يُعْتَدُّ بِهِ، غَرَامًا: هَلَاكًا، وَقَالَ مُجَاهِدٌ: وَعَتَوْا: طَغَوْا، وَقَالَ ابْنُ عُيَيْنَةَ: عَاتِيَةٍ: عَتَتْ عَنِ الْخَزَّانِ.
حدیث کی عربی عبارت (بغیر اعراب)
وقال ابن عباس: هباء منثورا: ما تسفي به الريح، مد الظل: ما بين طلوع الفجر إلى طلوع الشمس، ساكنا: دائما، عليه دليلا: طلوع الشمس، خلفة: من فاته من الليل عمل أدركه بالنهار، أو فاته بالنهار أدركه بالليل، وقال الحسن: هب لنا من أزواجنا: وذرياتنا قرة أعين في طاعة الله وما شيء أقر لعين المؤمن من أن يرى حبيبه في طاعة الله، وقال ابن عباس: ثبورا: ويلا، وقال غيره: السعير مذكر والتسعر والاضطرام التوقد الشديد، تملى عليه: تقرأ عليه من أمليت وأمللت الرس المعدن جمعه رساس، ما يعبأ، يقال: ما عبأت به شيئا لا يعتد به، غراما: هلاكا، وقال مجاهد: وعتوا: طغوا، وقال ابن عيينة: عاتية: عتت عن الخزان.
حدیث کی عربی عبارت (مکمل اردو حروف تہجی میں)
وقال ابن عباس: ہباء منثورا: ما تسفی بہ الریح، مد الظل: ما بین طلوع الفجر الى طلوع الشمس، ساکنا: دائما، علیہ دلیلا: طلوع الشمس، خلفۃ: من فاتہ من اللیل عمل ادرکہ بالنہار، او فاتہ بالنہار ادرکہ باللیل، وقال الحسن: ہب لنا من ازواجنا: وذریاتنا قرۃ اعین فی طاعۃ اللہ وما شیء اقر لعین المومن من ان یرى حبیبہ فی طاعۃ اللہ، وقال ابن عباس: ثبورا: ویلا، وقال غیرہ: السعیر مذکر والتسعر والاضطرام التوقد الشدید، تملى علیہ: تقرا علیہ من املیت وامللت الرس المعدن جمعہ رساس، ما یعبا، یقال: ما عبات بہ شیئا لا یعتد بہ، غراما: ہلاکا، وقال مجاہد: وعتوا: طغوا، وقال ابن عیینۃ: عاتیۃ: عتت عن الخزان.
حدیث کا اردو ترجمہ
عبداللہ بن عباس (رض) نے کہا هباء منثورا کے معنی جو چیز ہوا اڑا کر لائے (گرد و غبار وغیرہ) ۔ مد الظل سے وہ وقت مراد ہے جو طلوع صبح سے سورج نکلنے تک ہوتا ہے۔ ساکنا کا معنی ہمیشہ۔ عليه دليلا میں دليل سے سورج کا نکلنا مراد ہے۔ خلفة سے یہ مطلب ہے کہ رات کا جو کام نہ ہو سکے وہ دن کو پورا کرسکتا ہے، دن کا جو کام نہ ہو سکے وہ رات کو پورا کرسکتا ہے۔ اور امام حسن بصری نے کہا قرة اعین کا مطلب یہ ہے کہ ہماری بیویوں کو اور اولاد کو خدا پرست، اپنا تابعدار بن دے۔ مومن کی آنکھ کی ٹھنڈک اس سے زیادہ کسی بات میں نہیں ہوتی کہ اس کا محبوب اللہ کی عبادت میں مصروف ہو۔ اور عبداللہ بن عباس (رض) نے کہا ثبورا کے معنی ہلاکت خرابی۔ اوروں نے کہا سعير کا لفظ مذکر ہے، یہ تسعر سے نکلا ہے، تسعر اور اضطرام آگ کے خوب سلگنے کو کہتے ہیں۔ تملى عليه اس کو پڑھ کر سنائی جاتی ہیں یہ أمليت اور أمللت سے نکلا ہے۔ الرس ،كان کو کہتے ہیں اس کی جمع رساس آتی ہے۔ كان بمعنی معدن ما يعبأ عرب لوگ کہتے ہیں ما عبأت به شيئا یعنی میں نے اس کی کچھ پروا نہیں کی۔ غراما کے معنی ہلاکت اور مجاہد نے کہا عتوا کا معنی شرارت کے ہیں اور سفیان بن عیینہ نے کہا عاتية کا معنی یہ ہے کہ اس نے خزانہ دار فرشتوں کا کہنا نہ سنا۔
حدیث کا انگریزی ترجمہ (English Translation)
Narrated Safiya bint Shaiba: `Aisha used to say: When (the Verse): They should draw their veils over their necks and bosoms, was revealed, (the ladies) cut their waist sheets at the edges and covered their faces with the cut pieces.