صحیح بخاری – حدیث نمبر 5274
خلع اور اس امر کا بیان کہ خلع میں طلاق کس طرح ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کا قول کہ جو کچھ تم نے ان عورتوں کو دیا ہے، اس کالینا تمہارے حلال نہیں ہے، آخر آیت ظالمون تک، اور حضرت عمر (رض) نے خلع کو جائز کہا ہے، اگرچہ سلطان کے سامنے نہ ہو اور حضرت عثمان رضی اللہ نے سرکے چٹلے سے کم قیمت کے عوض بھی خلع کو جائز کہا اور آیت الا ان یخافا الایقیما حدود اللہ کے متعلق طاؤس فرماتے ہیں کہ یہ ان حدود کے متعلق ہے جو اللہ نے ان دونوں میں سے ہر ایک کے لئے ایک دوسرے پر مقرر کی ہیں، یعنی صحبت اور ایک ساتھ رہنا اور طاؤس نے نادانوں کی سی بات نہیں کی کہ خلع جائز نہیں، جب تک وہ یہ نہ کہے کہ میں تجھ سے جنابت کا غسل نہیں کروں گا
حدیث نمبر: 5274
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ الْوَاسِطِيُّ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ، عَنْ عِكْرِمَةَ، أَنَّ أُخْتَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أُبَيٍّ بِهَذَا، وَقَالَ: تَرُدِّينَ حَدِيقَتَهُ ؟ قَالَتْ: نَعَمْ، فَرَدَّتْهَا، وَأَمَرَهُ يُطَلِّقْهَا. وَقَالَ إِبْرَاهِيمُ بْنُ طَهْمَانَ، عَنْ خَالِدٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَطَلِّقْهَا.
حدیث نمبر: 5275
وَعَنْ أَيُّوبَ بْنِ أَبِي تَمِيمَةَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّهُ قَالَ: جَاءَتْ امْرَأَةُ ثَابِتِ بْنِ قَيْسٍ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي لَا أَعْتِبُ عَلَى ثَابِتٍ فِي دِينٍ وَلَا خُلُقٍ وَلَكِنِّي لَا أُطِيقُهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَتَرُدِّينَ عَلَيْهِ حَدِيقَتَهُ ؟ قَالَتْ: نَعَمْ.
حدیث کی عربی عبارت (بغیر اعراب)
حدیث نمبر: 5274
حدثنا إسحاق الواسطي، حدثنا خالد، عن خالد الحذاء، عن عكرمة، أن أخت عبد الله بن أبي بهذا، وقال: تردين حديقته ؟ قالت: نعم، فردتها، وأمره يطلقها. وقال إبراهيم بن طهمان، عن خالد، عن عكرمة، عن النبي صلى الله عليه وسلم: وطلقها.
حدیث نمبر: 5275
وعن أيوب بن أبي تميمة، عن عكرمة، عن ابن عباس، أنه قال: جاءت امرأة ثابت بن قيس إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالت: يا رسول الله، إني لا أعتب على ثابت في دين ولا خلق ولكني لا أطيقه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: فتردين عليه حديقته ؟ قالت: نعم.
حدیث کی عربی عبارت (مکمل اردو حروف تہجی میں)
حدیث نمبر: 5274
حدثنا اسحاق الواسطی، حدثنا خالد، عن خالد الحذاء، عن عکرمۃ، ان اخت عبد اللہ بن ابی بہذا، وقال: تردین حدیقتہ ؟ قالت: نعم، فردتہا، وامرہ یطلقہا. وقال ابراہیم بن طہمان، عن خالد، عن عکرمۃ، عن النبی صلى اللہ علیہ وسلم: وطلقہا.
حدیث نمبر: 5275
وعن ایوب بن ابی تمیمۃ، عن عکرمۃ، عن ابن عباس، انہ قال: جاءت امراۃ ثابت بن قیس الى رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم، فقالت: یا رسول اللہ، انی لا اعتب على ثابت فی دین ولا خلق ولکنی لا اطیقہ، فقال رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم: فتردین علیہ حدیقتہ ؟ قالت: نعم.
حدیث کا اردو ترجمہ
ہم سے اسحاق واسطی نے بیان کیا، کہا ہم سے خالد طحان نے بیان کیا، ان سے خالد حذاء نے، ان سے عکرمہ نے کہ عبداللہ بن ابی (منافق) کی بہن جمیلہ (رض) (جو ابی کی بیٹی تھی) نے یہ بیان کیا اور رسول اللہ ﷺ نے ان سے دریافت فرمایا تھا کہ کیا تم ان (ثابت رضی اللہ عنہ) کا باغ واپس کر دو گی ؟ انہوں نے عرض کیا ہاں کر دوں گی۔ چناچہ انہوں نے باغ واپس کردیا اور انہوں نے ان کے شوہر کو حکم دیا کہ انہیں طلاق دے دیں۔ اور ابراہیم بن طہمان نے بیان کیا کہ ان سے خالد نے، ان سے عکرمہ نے نبی کریم ﷺ سے اور (اس روایت میں بیان کیا کہ) ان کے شوہر (ثابت رضی اللہ عنہ) نے انہیں طلاق دے دی۔
اور ابن ابی تمیمہ سے روایت ہے، ان سے عکرمہ نے، ان سے ابن عباس (رض) نے، انہوں نے بیان کیا کہ ثابت بن قیس (رض) کی بیوی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا : یا رسول اللہ ! مجھے ثابت کے دین اور ان کے اخلاق کی وجہ سے کوئی شکایت نہیں ہے لیکن میں ان کے ساتھ گزارہ نہیں کرسکتی۔ نبی کریم ﷺ نے اس پر فرمایا کہ پھر کیا تم ان کا باغ واپس کرسکتی ہو ؟ انہوں نے عرض کیا جی ہاں۔
حدیث کا انگریزی ترجمہ (English Translation)
Narrated Ikrima (RA) :
The sister of Abdullah bin Ubai narrated (the above narration, 197) with the addition that the Prophet ﷺ said to Thabits wife, "Will you return his garden?” She said, "Yes,” and returned it, and (then) the Prophet ﷺ ordered Thabit to divorce her. Narrated Ibn Abbas (RA) : The wife of Thabit bin Qais came to Allahs Apostle ﷺ and said, "O Allahs Apostle ﷺ ! I do not blame Thabit for any defects in his character or his religion, but I cannot endure to live with him.” On that Allahs Apostle ﷺ said, "Will you return his garden to him?” She said, "Yes.”