اگلے روز ایک دوست نے ایک منکر حدیث کی پوسٹ پر منشن کیا ، موصوف بھی “کچے پکے علم” اور کاپی پیسٹنگ والے منکر ہیں، کل دن بھر حدیث غسل عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر ان کے لایعنی اعتراضات پر بحث چلتی رہی ، موصوف نے ایک دلچسپ دعویٰ کیا کہ نواب وحید الزماں نے حدیث میں موجود لفظ حجاب کا ترجمہ “ باریک پردہ” کیا ہے ، دو دن سے ان سے سکرین شارٹ مانگ رہا لیکن موصوف آگے آگے بھاگ رہے ہیں،
اور سب سے دلچسپ یہ ہے کہ اس حدیث میں غسل جنابت کا پوچھا ہی نہیں گیا۔۔۔مصیبت یہ ہوتی ہے کہ ہمارے احباب آدھی بات پکڑ لیتے ہیں ۔۔اور سیاق و سباق کو جانتے نہیں ہوتے اور جلدی سے نتیجہ نکال لیتے ہیں ۔۔
حضور بنیادی طور پر کچھ افراد میں بحث ہوئی کہ کم از کم پانی سے بندہ کتنے میں غسل کر لیتا ہے ۔۔۔۔ اس پر بطور فیصلہ سیدہ کے پاس ان کے بھائی اور بھانجے کو بھیجا گیا ۔۔۔۔۔اور اتفاق سے وہ غسل کرنے جا رہی تھیں یا انہوں نے اس سوال کے جواب میں اتنے پانی سے غسل کر دیا اور انہوں نے بطور مثال اور دلیل اتنا ہی پانی لیا جو کم از کم تھا ۔۔۔۔۔۔
آپ نوٹ کیجیے کہ حدیث میں غسل کے طریقے کا دور دور تک ذکر نہیں ، جبکہ پانی کی مقدار کو خاص طور پر بیان کیا گیا ہے ۔۔
لیکن منکرین حدیث کی بدقسمتی کہ جلدی سے انکار کرنا ان کا مزاج بن چکا ہوتا ہے اور آدھی ادھوری بات سمجھتے ہیں اور آدھی پکڑتے ہیں اور فتوے بازی شروع کر دیتے ہیں ۔۔۔
اندازہ کیجیے ان کے ذہن میں کتنا تعفن ہے کہ غسل خانے کی اوٹ کے لیے جان بوجھ کر جھوٹ بولتے ہوئے باریک پردے کا لفظ ترجمہ کرتے ہیں جب کہ عربی متن میں صرف لفظ پردہ ہے ۔۔۔
بہرحال اس حوالے سے چونکہ میں دو سال پہلے لکھ چکا تھا تو وہی مضمون مکرر آپ بھی پڑھ لیجیے ۔۔۔۔۔۔۔
انکار حدیث کرنے والے دوست دو قسم کے ہوتے ہیں ایک وہ جو بہت “اخلاص” سے انکار حدیث کرتے ہیں اور اس کو دین کی خدمت سمجھ کے کرتے ہیں دوسرا وہ گروہ جو سب جانتے ہیں لیکن بد دیانت ہوتے ہیں حقائق کو چھپاتے ہیں۔
یہ دونوں گروہ صحیح بخاری اور مسلم کی ایک حدیث پر بہت شد و مد سے اعتراض کرتے ہیں اور اس اعتراض میں بہت جذباتی جملے بازی بھی کرتے ہیں –
حدیث کا مفہوم اور خلاصه یہ ہے کہ:
(دو نوجوانوں میں سوال پیدا ہوا کہ کم پانی میں غسل کیونکر ممکن ہے ، اور طریق کیا ہے)
اس سوال کے حل کے لیے وہ ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آتے ہیں اور سوال کرتے ہیں ..اس پر سیدہ جواب دیتی ہیں کہ آپ صاع بھر پانی سے غسل کر لیتے تھے ..اور انہوں نے غسل کر کے دکھا دیا ..اور ان کے درمیان پردہ تھا۔
اس حدیث کو لے کر منکرین حدیث بہت شور کرتے ہیں ، حالانکہ بدباطن ایسے ہیں کہ خود ترجمے میں بد دیانتی سے کام لیتے ہیں۔ ہمارے لاہور میں منکرین حدیث کا ایک گروہ تھا جس کا دفتر غالبا ریواز گارڈن ہوتا تھا ..انہوں نے ایسے ہی بعض احادیث پر اعتراضات کرتے ہوے ایک کتابچہ شائع کیا تھا جس میں اس حدیث پر بھی اعتراض کیا تھا ..اور ترجمے میں جھوٹ لکھتے ہوے تاثر یہ دیا کہ جیسے کوئی اجنبی نوجوان آئے مسلہ پوچھا تو ام المومنین اٹھیں اور اپنی بات ثابت کرنے کے لیے غسل کر دکھایا ..اور ضمیر کی مکمل موت کا ثبوت دیتے ہوے حدیث کے ان الفاظ”بیننا و بینها حجاب" کا ترجمہ کیا کہ:
“ان کے درمیان باریک پردہ تھا”
اور اس کے بعد حسب معمول منکرین حدیث ” حدیثوں کو اور ائمہ کو خوب برا کہا۔
اب اگر کوئی عام آدمی بھی یہ ترجمہ پڑھے گا اور ساتھ ان منافقین کا تبصرہ تو اک بار تو اس کا دماغ خراب ہو ہی جائے گا…
حدیث میں سوال کے واسطے آنے والے دونوں نوجوانوں کا آپ سے رشتہ ذکر نہیں ، لیکن عقل ، فہم کا تقاضا ہے کہ اگر شیطان آپ کے دل میں کوئی وسوسہ پیدا کرتا ہے تو اس کی تحقیق کرتے ہیں نہ کہ شیطان کے چیلے بن کے اس کی چاکری پر لگ جاتے ہیں …ہمارے منکرین حدیث مگر ایسا ہی کرتے ہیں۔
جو دو نوجوان آپ کے پاس سوال کو آئے ایک ان میں ابو سلمہ تھے جو سیدنا عبد الرحمان کے بیٹے تھے اور اماں عائشہ کے بھتیجے تھے یعنی اماں صرف مومن ہونے کے حوالے سے کی ماں ہی نہ تھیں بلکہ سگی پھوپھی بھی تھیں – اور پھوپھو کیا ماں ہی نہیں ہوتی ؟
دوسرے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے رضاعی بھائی تھے …اور دودھ شریک بھائی مکمل محرم ہوتا ہے …اندازہ کیجئے منکرین حدیث کس طرح سادہ لوح افراد کو دھوکہ دیتے ہیں –
اب منکرین حدیث کے دماغ میں چونکہ پہلے سے تعفن ہوتا ہے سو اس سبب مثبت سوچنا ان کے لیے ممکن نہیں ہوتا ..ستر کا ترجمہ کیا ” باریک پردہ ” سوال یہ ہے باریک کی صفت کہاں سے آ گئی ….بھائی یہی وہ اندر کا گند ہوتا ہے جس سے ائمہ حدیث تو کیا امہات المومنین بھی محفوظ نہ رہیں – حدیث میں سیدھی بات ہے کہ ان کے درمیان پردہ تھا ..اور سیدہ کا مقام تقاضا کرتا ہے کہ مثبت سوچا جائے کہ پردہ دیوار کا ہی تھا جیسے غسل خانوں کی ہوتی ہے ..لیکن ضمیر مردہ تو پردہ باریک دکھائی دیتا ہے –
تیرے دماغ میں بت خانہ ہو تو کیا کہیے
جب دماغ میں موجود غلاظت سوچنے دے تو بندہ مثبت سوچے نا۔
اب بندہ اس حدیث کو ڈیڑھ ہزار سال امت نے اس طرح سوچا :
اماں کے بھائی اور بھتیجے آئے ، غسل کے پانی کی مقدار پوچھی ….
]مثبت سوچ ] ممکن ہے کہ اتفاق سے اماں غسل کا ارادہ کر رہی تھیں ،اور بچے آ گئے اور یہ سوال پوچھا ۔
سو بچوں نے سوال پوچھا تو اماں نے غسل کر کے دکھا دیا – انہوں نے سر پر تین بار پانی ڈالا –
] مثبت سوچ ] چونکہ محرم تھے سو سر دکھائی دے رہا تھا جس میں کوئی حرج نہیں ….
ان کے بیچ پردہ تھا
] مثبت سوچ] پردہ دیوار کا ہی ہو گا۔
مقصود صرف یہ تھا کہ اتنے کم پانی میں غسل ممکن ہے – عربوں میں پانی کی کمی ایک عام سی بات تھی ..صحراؤں کے سفر میں نکلتے تو ایسے مسائل پیش آنا معمول کی بات تھی .سو سوال بھی کیے جاتے ..خانگی مسائل میں بہترین جواب امہات المومنین ہی دے سکتی تھیں کہ ان سے بڑھ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے معمولات کو نہ جانتا تھا…سو یہ ایک عام سا اور آسان سا سوال تھا ..لیکن عرض کر چکا کہ :
تیرے دماغ میں بت خانہ ہو تو کیا کہئے
تحریر: ابو بکر قدوسی