سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ (فتح مکہ کے موقع پر )سیدہ ہند بنت عتبہ ؓ نے آکر فرمایا کہ یا رسول اللہ ﷺ (اب سے پہلے) روئے زمین پر کسی گھرانے کی ذلت مجھے آپ کے گھرانے کی ذلت سے زیادہ پسند نہ تھی مگر اب مجھے روئے زمین پر کسی گھرانے کی عزت آپ ﷺ کے گھرانے کی عزت سے زیادہ پسند نہیں، اس پر نبی ﷺ نے فرمایا کہ اللہ کی قسم میرا بھی یہی حال ہے (یعنی مجھے بھی ہند ؓ بنت عتبہ کے گھر سے زیادہ کسی گھرانے کی عزت پیاری نہیں) اور اللہ اس میں (یعنی میرے گھرانے کے لئے تمہاری محبت میں )ابھی اور اضافہ فرمائے گا۔ انہوں (ہند ؓ) نے یہ بھی فرمایا کہ نبی ﷺ ابو سفیان ؓ ایک بخیل آدمی ہیں اگر میں ان کے مال میں سے کچھ چھپا کر اپنے بال بچوں پر خرچ کردوں تو مجھ پر کچھ گناہ تو نہیں ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا نہیں الا یہ کہ دستور کے مطابق ہو۔(صحیح بخاری، باب: ہند ؓ بنت عتبہ کی فضیلت کا بیان، جلد دوم، حدیث نمبر ۱۰۱۵)
امام بخاری اس حدیث کو اپنی صحیح بخاری میں دوسری جگہ ’’باب:قسموں اور نذروں کے بیان‘‘ میں بھی لائے ہیں، اسی طرح امام مسلم اس حدیث کو اپنی صحیح مسلم میں ’’باب: فیصلوں کے بیان‘‘ میں لائے ہیں۔ یہ ہند بنت عتبہ ؓ رشتے میں نبی ﷺ کی بالواسطہ ساس بھی لگتی تھیں کیونکہ نبی ﷺ کی بیوی ام المو منین ام حبیبہؓ ابوسفیانؓ کی بیٹی تھیں اور ہند ؓ بنت عتبہ ابو سفیانؓ کی بیوی تھی۔ یہاں یہ وضاحت کردینا بھی ضروری ہے کہ ہمارے انڈو پاک میں ان ہند بنت عتبہ ؓ کو ہندہ کہا جاتا ہے اور کئی بالغ نظر مورخ بھی اپنی سیرت النبیﷺ میں انکا نام ہندہ لکھ گئے۔ حالانکہ تمام احادیث اور تاریخ کی کتابوں میں انکا نام ہندؓ ہی آیا ہے ۔
ان سیدہ ہند بنت عتبہؓ کا ذکر کرتے ہوئے علامہ ابن کثیر اپنی تصنیف البدایہ والنہایہ جلد سابع، صفحہ ۵۱ میں ١٤ ہجری کے واقعات کے ضمن میں انکا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
و کانت میں سیدات نساء قریش ذات رای ودھا ء وریاسہ فی قومھا ۔۔۔۔۔۔ و کانت امراہ لھا نفس وانفہ ورای و عقل
یعنی ’’وہ (ہندؓ) قریش کی سردار عورتوں میں سے تھیں۔ صاحب رائے، زیرک و ہوشمند، خوددار اور بڑی عقلمند عورت تھیں۔ اپنی قوم میں اپنی صنف کے لئے رئیس سمجھی جاتی تھیں۔‘‘
فتح مکہ یا اس کے اگلے روز اسلام لے کر آئیں۔ قاعدہ یہ ہے کہ جس وقت انسان اسلام لے آئے تو گزشتہ گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ (ان الاسلام یھدم ما کان قبلہ)، اس آئین اسلامی کی رو سے ہندؓ بنت عتبہ کی بھی سب سابقہ غلطیاں معاف ہوگئیں۔
علماء نے تصریح کی ہے کہ اسلام لانے کے بعد ہندؓ بنت عتبہ اپنے دین پر نہایت مستقیم تھیں اور ان کا اسلام نہایت پختہ تھا۔ علامہ ابن اثیر الجزری نے ’’اسد الغابہ‘‘ میں، علامہ نوادی نے ’’تہذیب الاسماء و اللغات ‘‘ میں اور علامہ ابن کثیر نے ’’البدایہ والنہایہ‘‘ میں مندرجہ ذیل الفاظ کے ساتھ ان کے ’’حسن اسلام‘‘ کی تصدیق فرمائی ہے۔
’’ان ھندا اسلمت یوم یوم الفتح و حسن اسلامھا، ھی ام معاویہ بن ابی سفیان اسلمت فی الفتح بعد اسلام زوجھا ابی سفیان بلیلہ و حسن اسلامھا‘‘ (اسد الغابہ للجزری ص ۵۶۲، جلد۵، تحت ھند بنت عتبہؓ۔ تہذیب الاسماء و اللغات للنوادی ص ۳۵۷ جز ثانی، تحت حرف الہاء (ہند بنت عتبہ)۔ البدایہ والنہایہ لابن کثیر ،ص ۵۱، جلد ۷، تحت ۱۴ ھجری)
ان سیدہ ہند ؓ کی فطرت کی طہارت طینیت کا تو یہ حال تھا کہ بقول ابن ھشام فی سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم زمانہ جاہلیت میں ہند رضی اللہ عنہا نے سید زینب رضی اللہ عنہا بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بڑا اچھا برتاؤ کیا ۔ سیدہ زینب اپنے شوہر کے ساتھ مکہ میں رہائش پذیر تھی غزوہ بدر کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں لانے کے لیے سیدنا زید بن حارثہ ؓ کو مکہ بھیجا ، بدر میں ہند رضی اللہ عنہا کو اپنے باپ، بھائی اور چچا کی ہلاکت کا صدمہ برداشت کرنا پڑا تھا وہ قریش کی محافل میں جاتی اور مسلمانوں سے انتقام کی آگ بھڑکاتی انہیں یہ خبر مل چکی تھی کہ دختر محمد اپنے والد کے پاس مدینہ جانے کی تیاری کر رہی ہیں اسی دوران جب ہند رضی اللہ عنہا کی ملاقات زینب رضی اللہ عنہا سے ہوئی تو ان سے کہا کہ بنت محمد مجھے معلوم ہوا کہ تم اپنے باپ کے پاس مدینہ جانے کی تیاری کر رہی ہو اگر سفری ضروریات کی تکمیل کے لیے کسی چیز کی ضرورت ہو تو میں تمہاری تمام ضروریات کی تکمیل کے لیے حاضر ہوں لہذا تمہیں مجھ سے شرمانے کی ضرورت نہیں ہے مردوں کے معاملات الگ ہیں اور ہم عورتوں کے الگ ۔ سیدہ زینب رضی اللہ عنہا ہند رضی اللہ عنہا کی اس فراخدلانہ پیش کش سے بڑی خوش ہوئیں ان کا کہنا تھا کہ ہند رضی اللہ عنہا نے ایسا کرنے کے لیے ہی یہ باتیں کی تھی ۔۔۔۔
پھر جب دختر رسول مدینہ منورہ کے لیے روانہ ہوئیں تو قریش کے کچھ لوگوں نے ان کا راستہ روک لیا سیدہ زینب رضی اللہ عنہا اس وقت حمل سے تھی مشرکین کے تشدد کی وجہ سے وہ اونٹنی سے گر گئی اور ان کا حمل ساقط ہو گیا یہ دیکھ کر ہند رضی اللہ عنہا دوڑتی ہوئی آئیں اور ان لوگوں کو غیرت دلاتے ہوئے چلا کر کہنے لگیں ایک غیر مسلح خاتون کے ساتھ معرکہ آرائی؟ تمہاری یہ شجاعت بدر کے دن کہاں گئی تھی؟ پھر انہوں نے سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کو اپنی آغوش میں لے کر ان کے جسم سے گردو غبار وغیرہ کو صاف کیا اور ان کی حالت کو درست کیا ۔ جب زمانہ جہالت میں ایک عورت کی شرافت و نجابت کا یہ عالم ہو تو اسلام لانے کے بعد اس میں کتنے چار چاند لگ جانے ہیں اندازہ کیا جاسکتا ہے۔
سیدہ ہندؓ کے بلند کردار اور عالی مرتبت ہونے کے لئے یہ بات ہی کافی ہے کہ جب قبول اسلام کے بعد ہند بنت عتبہؓ بیعت کے لئے نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور نبی ﷺ نے انکے سامنے بدکاری نہ کرنے کی شرط پیش کی تو حیرت و استعجاب سے ہند بنت عتبہؓ کے منہ سے نکلا کہ کیا آیا آزاد شریف عورت بھی ایسا کام کرتی ہے؟ یعنی گویا بدکاری ہند بنت عتبہؓ کی نظروں میں اس قدر گھناؤنا فعل تھا کہ مومن ہو یا کافر ہر ایک کے لئے وہ اسکو ناقابل سرزد فعل سمجھتی تھیں۔ اسی طرح سے مورخین و محدثین نے ہند بنت عتبہ ؓ کے ایمان لانے سے متعلق نقل کیا ہے کہ جب وہ ایمان لیکر آئیں تو ان کے گھر میں ایک بت تھا جسکی دور جاہلیت میں پرستش کرتی تھیں، اس کو ایک کلہاڑا لے کر پاش پاش کردیا۔ ساتھ ساتھ فرماتی تھیں کہ تیری وجہ سے ہم دھوکہ میں پڑے ہوئے تھے اور فریب خوردہ تھے:
لما اسلمت ھندؓ جعلت تضرب صنمافی بیتھا بالقدوم فلزہ فلزہ وھی تقول کنا منک فی غرور ( طبقات الکبیر لابن سعد ص ۱۷۳ جلد ۸، تحت ہند بنت عتبہؓ)
جنگ یرموک میں سیدنا ابو سفیانؓ سمیت انکا پورا گھرانہ موجود تھا اور بہت دلیری اور جہانداری سے لڑا۔ ان کے فرزند یزید بن ابو سفیانؓ، معاویہ بن ابو سفیانؓ، ان کی زوجہ ہند بنت عتبہؓ اور انکی لڑکی جویریہ بنت ابو سفیانؓ سب اس میدان میں اسلام کی خاطر قربانی پیش کرنے کے لئے حاضر تھے۔ مورخین نے لکھا ہے کہ اہل اسلام کی عورتیں جنگ یرموک میں شریک ہوئیں اور ان اضطراری حالات میں قتال میں شدید حصہ لیا۔ ہند بنت عتبہؓ مخالفین اسلام رومیوں کے قتال کے لئے مسلمانوں کو قتال پر ترغیب دلاتی تھیں اور دشمنوں کے خلاف تحریض کرتی تھیں۔ بعض ہنگامی حالات میں جوش دلاتے ہوئے ہندؓ فرماتی جاتی تھیں کہ ’’اے مسلمانو! ان غیر مختونوں کو اپنی تیغوں سے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالو۔ تقول عضدو الاغلفان بسیوفکم‘‘ (فتوح البلدان للبلاذری ص ۱۴۱ تحت یوم یرموک)
اسلام میں ان کی نہایت شاندار خدمات ہیں جو انہوں نے عمر رسیدہ ہونے کے باوجود سر انجام دیں اور میدان کارزار میں اپنے شوہر سمیت شریک ہوئیں۔ یہ سب کچھ اعلاء کلمۃالحق کی خاطر اور دین متین کی اشاعت کے لئے تھا۔ جنگ یرموک کے اگلے سال ۱۴ ہجری میں مدینہ منورہ میں انکا انتقال ہوا۔ صاحب مشکوٰۃ کے قول کے مطابق جس روز ابو بکر صدیقؓ کے والد ابو قحافہؓ کا انتقال ہوا، اسی روز ہند بنت عتبہؓ نے بھی وفات فرمائی۔ ’’وما تت یوم مات ابو قحافہؓ فی سنہ اربع عشرہ وھی ام معاویہؓ بن ابو سفیانؓ ‘‘ (الاکمال فی اسماء الرجال ص ۲۲۳ ، فصل فی صحابیات تحت ہند بنت عتبہؓ)
تحریر: محمد فھد حارث