السلام علیکم ورحمۃ اللّہ وبرکاتہ.
کیا اس حدیث کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کرنا درست ہے ؟ یا یہ کسی صحابی کا قول ہے ؟ کیونکہ ایک صاحب ہمیشہ یہی حدیث پڑھتے رہتے ہیں ۔ ۔ ۔
(الدنیا جیفۃ ، وطالبہا کلاب ، لکل شیء ثقال …الحدیث )
الدنیا جیفۃ ، وطالبہا کلاب ، لکل شیء ثقال …الحدیث
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
علامہ ناصر الدین البانی کے معروف شاگرد الشیخ مشہور حسن سلمان حفظہ اللہ سے یہی سوال ہوا تو انہوں نے فرمایا :
السؤال : ما صحۃ حدیث : "الدنیا جیفۃ وطلابہا کلاب” ؟
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
الاجابۃ : ہذا الحدیث موضوع وکذب على رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم ، ولو قیل لا اصل لہ لکان اجود ، وبعد بحث وفتش وجدت باسانید ضعیفۃ جداً ومنقطعۃ عن علی عند ابی الشیخ مثلاً انہ قال : "الدنیا جیفۃ وطلابہا کلاب” ، وعند ابی
نعیم عن یوسف بن اسباط قال : قال علی : "الدنیا جیفۃ فمن ارادہا فلیصبر على مخالطۃ الکلاب” وہذا ایضاً لم یثبت من علی ، فلم تثبت ہذہ المقولۃ لا فی المرفوع ولا فی الموقوف.
ترجمہ :
سوال : "الدنیا جیفۃ وطلابہا کلاب” ؟ یہ روایت جس میں کہا گیا ہے کہ : دنیا ایک مردار ہے ، اور اس کے طلبگار کتے ہیں ‘‘ اس کی صحت و ضعف کے متعلق آگاہ فرمائیں ‘‘
جواب : یہ حدیث بالکل موضوع اور نبی مکرم ﷺ پر جھوٹ ہے ، بلکہ اگر کہا جائے کہ اس کی کوئی اصل نہیں تو بےجا نہ ہوگا ،
میں نے بہت بحث و تفتیش کے بعد اسے انتہائی ضعیف اور منقطع اسانید کے ساتھ ابو الشیخ کے ہاں پایا ،
اور ابونعیم کے ہاں جناب علی ؓ سے ان الفاظ میں منقول ہے کہ : دنیا مردار ہے ، تو جو اس کا مرید ہو اسے چاہیئے کہ کتوں سے ہم نشینی برداشت کرے ،
لیکن یہ جناب علی ؓ سے بھی ثابت نہیں ، یعنی یہ مقولہ نہ مرفوعاً ثابت ہے نہ موقوفاً ثابت ہے ،
————————-
اور علامہ اسماعیل العجلونی ( کشف الخفاء ) میں اس روایت کے متعلق فرماتے ہیں :
(الدنیا جیفۃ ، وطلابہا کلاب) قال الصغانی موضوع ، اقول وان کان معناہ صحیحا لکنہ لیس بحدیث ، وقال النجم لیس بہذا اللفظ فی المرفوع ، وعند ابی نعیم عن یوسف ابن اسباط قال قال علی بن ابی طالب الدنیا جیفۃ ، فمن ارادہا فلیصبر
على مخالطۃ الکلاب ، واخرجہ ابن ابی شیبۃ عنہ مرفوعا ورواہ البزار عن انس بلفظ ینادی مناد دعوا الدنیا لاہلہا ثلاثا ، من اخذ من الدنیا فوق ما یکفیہ اخذ حتفہ وہو لا یشعر ، وذکرہ السیوطی فی الدرر بلفظ الدنیا جیفۃ ، والناس کلابہا رواہ ابو الشیخ فی تفسیرہ عن علی موقوفا ،
کشف الخفاء اسماعیل بن محمد العجلونی الجراحی (المتوفى : 1162ہـ)
رضی الدین الصغانی الحنفی (المتوفى : 650 ھ)
خلاصہ یہ کہ یہ روایت موضوع ( من گھڑت ) ہے ، ہاں اس کا معنی صحیح ہے ، یعنی دوسری جگہ ثابت ہے
—————————————
دنیا مردار ہے اس معنے کی صحیح روایت درج ذیل ہے
عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ ، اَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَرَّ بِالسُّوقِ ، دَاخِلًا مِنْ بَعْضِ الْعَالِیَۃِ ، وَالنَّاسُ کَنَفَتَہُ ، فَمَرَّ بِجَدْیٍ اَسَکَّ مَیِّتٍ ، فَتَنَاوَلَہُ فَاَخَذَ بِاُذُنِہِ ، ثُمَّ قَالَ : «اَیُّکُمْ یُحِبُّ اَنَّ ہَذَا لَہُ بِدِرْہَمٍ ؟ » فَقَالُوا : مَا نُحِبُّ اَنَّہُ لَنَا بِشَیْءٍ ، وَمَا نَصْنَعُ بِہِ ؟ قَالَ :
«اَتُحِبُّونَ اَنَّہُ لَکُمْ ؟ » قَالُوا : وَاللہِ لَوْ کَانَ حَیًّا ، کَانَ عَیْبًا فِیہِ ، لِاَنَّہُ اَسَکُّ ، فَکَیْفَ وَہُوَ مَیِّتٌ ؟ فَقَالَ : «فَوَاللہِ لَلدُّنْیَا اَہْوَنُ عَلَى اللہِ ، مِنْ ہَذَا عَلَیْکُمْ»
سیدنا جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ بازار سے گزر تے ہوئے کسی بلندی سے مدینہ منورہ میں داخل ہو رہے تھے اور صحابہ کر ام رضی اللہ تعالی عنہم آپ کے دونوں طرف تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھیڑ کا ایک بچہ جو چھوٹے کانوں والا تھا اسے مرا ہوا دیکھا آپ نے اس کا کان پکڑ کر فرمایا تم میں سے کون اسے ایک درہم میں لینا پسند کرے گا ؟ صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم نے عرض کیا ہم میں سے کوئی بھی اسے کسی چیز کے بدلے میں لینا پسند نہیں کرتا اور ہم اسے لے کر کیا کریں گے ؟ آپ نے فرمایا کیا تم چاہتے ہو کہ یہ تمھیں مل جائے ؟
صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم نے عرض کیا اللہ کی قسم اگر یہ زندہ بھی ہوتا تو پھر بھی اس میں عیب تھا کیونکہ اس کا کان چھوٹا ہے حالانکہ اب تو یہ مردار ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ کی قسم اللہ کے ہاں یہ دنیا اس سے بھی زیادہ ذلیل ہے جس طرح تمہارے نزدیک یہ مردار ذلیل ہے
(صحیح مسلم : کتاب الزہد والرقائق 2921)
والبخاری فی الادب المفرد ، وابی داود فی سننہ ، واحمد فی المسند