پندرہ شعبان کی رات اور مخصوص عبادت
__________________________
– محدث العصر زبیر علی زئی رحمہ اللہ
نصف شعبان کی رات کی فضیلت میں کئی احادیث ذکر کی جاتیں جن کا مفہوم یہ ہے کہ شعبان کی پندرہویں رات کو اللہ تعالیٰ آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے اور کلب (قبیلے) کی بکریوں کے بالوں کی تعداد سے زیادہ لوگوں (کے گناہوں )کو بخش دیتا ہے، وغیرہ وغیرہ،
ان احادیث کی وجہ سے بہت سے لوگ اس رات کو خاص طور پر غیر معمولی عبادت کرتے ہیں۔ اس مضمون میں ان روایات کا جائزہ پیشِ خدمت ہے۔
محدث کبیر شیخ محمد ناصرالدین البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ :
"یطلع اللہ تبارک و تعالیٰ إلی خلقه لیلة النصف من شعبان ، فیغفر لجمیع خلقه، إلا لمشرک أو مشاحن، حدیث صحیح، روي عن جماعة من الصحابة من طرق مختلفة یشد بعضها بعضاً و هم معاذ بن جبل و أبو ثعلبة الخشني و عبد اللہ بن عمرو و أبي موسی الأشعري وأبي هریرہ و أبي بکر الصدیق و عوف بن مالک و عائشة”
شعبان کی پندرهویں رات کو اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کی طرف (خاص طور پر) متوجہ ہوتا ہے پھر مشرک اور (مسلمان بھائی سے) دشمنی، بغض رکھنے والے کے سوا اپنی تمام (مسلمان) مخلوق کو بخش دیتا ہے۔ (السلسلة الصحیحة : ۱۳۵/۳ح۱۱۴۴)
شیخ رحمہ اللہ نے جو روایات ذکر کی ہیں ان کی تخریج، بعض اختلاف کے ساتھ اور ان پر تبصرہ درج ذیل ہے:
۱: حدیث معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ
اسے (امام )مکحول نے "عن مالک بن یخامر عن معاذ بن جبل رضي اللہ عنه” کی سند سے روایت کیا ہے۔
تخریج: (یعنی یہ حدیث درج ذیل کتابوں میں اسی سند کے ساتھ ،،وجود ہے)
کتاب السنة لابن ابی عاصم (ح: ۵۱۲، دوسرا نسخہ: ۵۲۴) صحیح ابن حبان(موارد الظمان: ۱۹۸۰، الاحسان: ۵۶۳۶)أمالي لأبي الحسن القزویني (۲/۴)المجلس لسابع لأبي محمد الجوهري(۲/۳) جزء من حدیث محمد بن سلیمان الربعي (۱/۲۱۷ و ۱/۲۱۸) الأمالي لأبي القاسم الحسیني (ق۱/۱۲) شعب الإیمان للبیهقي (۳۸۲/۳ح ۳۸۳۳، ۵/ ح ۶۶۲۸)تاریخ دمشق لابن عساکر (۱۷۲/۴۰، ۷۵/۵۷) الثالث والتسعین للحافظ عبد الغني المقدسي (ق۲/۴۴) صفات رب العالمین لابن أعجب (۲/۷، ۲/۱۲۹)المعجم الکبیر للطبراني (۱۰۸/۲۰، ۱۰۹ح ۲۱۵) والأوسط له (۳۹۷/۷ح ۶۷۷۲)حلیةالأولیاء لأبي نعیم الأصبهاني(۱۹۱/۵)
حافظ ذهبي رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"مکحول لم یلق مالک بن یخامر”
مکحول نے مالک بن یخامر سے ملاقات نہیں کی (الصحیحة: ۳/۱۳۵) یعنی یہ روایت منقطع ہے۔
نتیجہ: یہ سند ضعیف ہے۔ اصول حدیث کی کتاب "تیسیر مصطلح الحدیث” میں لکھا ہوا ہے کہ:
"المنقطع ضعیف بالاتفاق بین العلماء ، وذلک للجهل بحال الراوي المحذوف”
علماء (محدثین) کا اس پر اتفاق ہے کہ منقطع (روایت) ضعیف ہوتی ہے۔ یہ اس لئے کہ اس کا محذوف راوی (ہمارے لئے) مجہول ہوتا ہے۔ (ص۷۸)
۲: حدیث ابی ثعلبہ رضی اللہ عنہ
اسے احوص بن حکیم نے "عن مهاصر بن حبیب عن أبي ثعلبة رضي اللہ عنه” کی سند سے روایت کیا ہے۔
تخریج: کتاب السنة لابن أبي عاصم(ح۵۱۱، دوسرا نسخہ ح ۵۲۳) کتاب العرش لمحمد بن عثمان بن أبي شیبة (ح ۸۷ و عندہ : بشر بن عمارة عن الأحوص بن حکیم عن المهاصر بن حبیب عن مکحول عن أبي ثعلبة الخ) حدیث أبي القاسم الأزجی (۱/۶۷) شرح أصول اعتقاد أھل السنة و الجماعة تصنیف اللالکائي (۴۴۵/۳ح۷۶۰) المعجم الکبیر للطبرانی (۲۲۴/۲۲ح۵۹۳)
اس کا بنیادی راوی احوص بن حکیم: جمہور محدثین کے نزدیک ضعیف ہے۔
حافظ ابن حجر نے کہا: "ضعیف الحفظ”(تقریب:۲۹۰)
مهاصر (مهاجر) بن حبیب کی ابو ثعلبہ رضی اللہ عنہ سے ملاقات ثابت نہیں ہے۔
تنبیہ: کتاب العرش میں مهاصر اور ابو ثعلبہ رضی اللہ عنہ کے درمیان مکحول کا واسطہ آیا ہے۔ اس کی سند میں بشر بن عمارہ ضعیف ہے۔ (تقریب: ۶۹۷)
المعجم الکبیر للطبرانی (۲۲۳/۲۲ح۵۹۰) میں المحاربی، اس کا متابع ہے، لیکن اس سند کے دو راوی احمد بن النضر العسکری اور محمد بن آدم المصیصی نامعلوم ہیں۔ عبد الرحمٰن بن محمد المحاربی مدلس ہے (طبقات المدلسین: ۳/۸۰)
اسے بیہقی نے دوسری سند کے ساتھ "المحاربي عن الأحوص بن حکیم عن المهاجر بن حبیب عن مکحول عن أبی ثعلبة الخشني” کی سند سے روایت کیا ہے (شعب الإیمان : ۳۸۳۲)
۳: حدیث عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ
اسے حسن (بن موسی) نے "حدثنا ابن لهیعة : حدثنا یحیي بن عبد اللہ عن أبي عبد الرحمن الحبلي عن عبد اللہ بن عمرو” کی سند سے روایت کیا ہے(مسنداحمد: ۱۷۶/۲ح ۶۶۴۲)
یہ روایت ابن لهیعہ کے اختلاط کی وجہ سے ضعیف ہے۔ ابن لهیعہ کے اختلاط کیلئے دیکھئے تقریب التہذیب (۳۵۶۳)
اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ حسن بن موسی نے ابن لهیعہ کے اختلاط سے پہلے اس سے حدیث سنی ہے۔
حافظ المنذری فرماتے ہیں:
"رواہ أحمد بن اسناد لین” اسے احمد نے ضعیف سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔(الترغیب والترهیب: ۴۶۰/۳ح۴۰۸۰، نیز دیکھئے: ۱۱۹/۲ح۱۵۱۹)
محدث البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
رشدین بن سعد نے ابن لهیعہ کی متابعت کی ہے (حدیث ابن حیویہ ۱/۱۰/۳ و السلسلة الصحیحة ۱۳۶/۳)
عرض ہے کہ رشدین بن سعد بن مفلح المهری، بذات خود: ضعیف ہے۔ دیکھئےتقریب التہذیب (۱۹۴۲)
لہٰذا یہ روایت دونوں سندوں سے ضعیف ہی ہے، حسن نہیں ہے۔
۴:حدیث ابی موسی رضی اللہ عنہ
اسے ابن لهیعہ نے "عن الزبیر بن سلیم عن الضحاک بن عبد الرحمن عن أبیه قال: سمعت أبا موسی۔۔۔” إلخ کی سند سے روایت کیا ہے۔
تخریج: ابن ماجه (۲/۱۳۹۰) السنة لابن أبی عاصم (۵۱۰، دوسرا نسخہ: ۵۲۲)السنة لللالکائی (۴۴۷/۳ح ۷۶۳)
اس سند میں عبد الرحمٰن بن عرزب: مجہول ہے (تقریب: ۳۹۵۰) اسی طرح زبیر بن سلیم بھی مجہول ہے (تقریب: ۱۹۹۶)
بعض کتابوں میں غلطی سے ربیع بن سلیمان اور بعض میں زبیر بن سلیمان چھپ گیا ہے۔
نتیجہ: یہ سند ضعیف ہے۔
تنبیہ: ابن ماجہ کی دوسری سند (۱/۱۳۹۰) میں ابن لهیعہ کے علاوہ ولید بن مسلم: مدلس اور ضحاک بن ایمن: مجہول ہے (تقریب: ۲۹۶۵) یہ سند منقطع بھی ہے۔ لہٰذا یہ سند بھی ضعیف ہے۔
۵: حدیث ابی هریرہ رضی اللہ عنہ
اسے هشام بن عبد الرحمٰن نے "الأعمش عن أبي صالح عن أبي هریرة رضی اللہ عنه” کی سند سے روایت کیا ہے۔
تخریج: کشف الأستار عن زوائدالبزار(۴۳۶/۲ح۲۰۴۶) والعلل المتناهیة لابنالجوزي (۷۰/۲ح۹۲۱)
اس کا راوی هشام بن عبد الرحمٰن نامعلوم العدالت یعنی مجہول ہے،
حافظ ہیثمی لکھتے ہیں کہ : "ولم أعرفه” اور میں نے اسے نہیں پہچانا(مجمع الزوائد: ۶۵/۸)
نتیجہ: یہ سند ضعیف ہے۔
۶: حدیث ابی بکر الصدیق رضی اللہ عنہ
اسے عبد الملک بن عبد الملک نے "عن مصعب بن أبي ذئب عن القاسم بن محمد عن أبیه أو عمه عن أبي بکر الصدیق رضی اللہ عنه” کی سند سے روایت کیا ہے۔
تخریج: کشف الأستار (۴۳۵/۲ح۲۰۴۵)کتاب التوحید لابن خزیمة (ص۱۳۶ح۲۰۰)السنة لابن أبی عاصم (۵۰۹، دوسرا نسخہ: ۵۲۱) السنة لللالکائی (۴۳۸/۳، ۴۳۹ ح ۷۵۰) أخبار أصبهان لابی نعیم (۲/۲)والبیهقی (فی شعب الإیمان: ۳۸۲۷)
اس سند میں عبد الملک بن عبد الملک پر جمہور محدثین نے جرح کی ہے۔
حافظ ابن حبان نے کہا:
"منکر الحدیث جدًا” یہ سخت منکر حدیثیں بیان کرنے والا ہے۔ (کتاب المجروحین: ۱۳۶/۲)
امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا:
"فیه نظر” یہ متروک و متہم ہے (التاریخ الکبیر ۴۲۵/۵)
امام دارقطنی نے کہا: متروک (سوالات البرقاني: ۳۰۴)
مصعب بن أبي ذئب بھی غیر موثق و غیر معروف ہے، دیکھئے کتاب الجرح والتعدیل (۳۰۷/۸ت۱۴۱۸)
نتیجہ: یہ سند ضعیف ہے۔
۷:حدیث عوف بن مالک رضی اللہ عنہ
اسے ابن لهیعہ نے "عن عبد الرحمن بن أنعم عن عبادۃ بن نسي عن کثیر بن مرۃ عن عوف بن مالک رضی اللہ عنه” کی سند سے روایت کیا ہے۔
تخریج: کشف الأستار (۴۳۶/۲ح۲۰۴۸)والمجلس السابع لأبی محمد الجوهری(الصحیحة: ۱۳۷/۳)
اس روایت میں عبد الرحمٰن بن زیاد بن انعم جمہور محدثین کے نزدیک ضعیف ہے۔
حافظ ابن حجر نے کہا: "ضعیف فی حفظہ۔۔۔ وکان رجلاً صالحاً” (تقریب:۳۸۶۲)
۸: حدیث عائشہ رضی اللہ عنہا
اسے حجاج بن ارطاۃ "عن یحیی بن أبي کثیر عن عروۃ عن عائشة رضی اللہ عنها” کی سند سے روایت کیا ہے۔
تخریج: سنن الترمذی (۱۰۶/۱ح۷۳۹) ابن ماجه (۱۳۸۹) احمد (۲۳۸/۶ح۲۶۵۴۶) ابن ابی شیبه (المصنف: ۴۳۸/۱۰ح۲۹۸۴۹)عبد بن حمید (۱۵۰۷) البیهقیفی شعب الإیمان (۳۸۲۴) و العلل المتناهیة(۶۶/۲ح۹۱۵)
امام ترمذی فرماتے ہیں کہ :
"میں نے امام بخاری کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ یہ حدیث ضعیف ہے، اسے یحیی (بن ابی کثیر) نے عروہ سے نہیں سنا اور نہ حجاج بن ارطاۃ نے نے اسے یحیی (بن ابی کثیر) سے سنا ہے”(الترمذی: ۷۳۹)
حجاج بن ارطاۃ ضعیف عند الجمہور اور مدلس راوی ہے، یحیی بن ابی کثیر بھی مدلس ہیں۔
نتیجہ: یہ سند بھی ضعیف ہے۔
اس روایت کے تین شواہد بھی ہیں:
اول: العلل المتناهیہ (۶۷/۲، ۶۸ح۹۱۷)
اس میں سلیمان بن ابی کریمہ ضعیف ہے وہ منکر روایات بیان کرتا تھا، دیکھئے لسان المیزان (۱۰۲/۳)
دوم: العلل المتناهیہ (۶۸/۲، ۶۹ح۹۱۸)
اس میں سعید بن عبد الکریم الواسطی کا ثقہ ہونا نامعلوم ہے، دیکھئے لسان المیزان (۳۶/۳)
سوم: العلل المتناهیہ (۶۹/۲ح۹۱۹)
اس میں عطاء بن عجلان کذاب و متروک ہے دیکھئے الکشف الحثیث عمن رمي بوضع الحدیث (ص ۲۸۹) تقریب التہذیب (۴۵۹۴)
خلاصہ یہ کہ یہ تینوں شواہد بھی مردود ہیں۔
۹:حدیث علی رضی اللہ عنہ
اسے ابن ابی سبرہ نے "عن إبراهیم بن محمد عن معاویة بن عبد اللہ بن جعفر عن أبیه عن علي بن أبي طالب رضی اللہ عنه” کی سند سے بیان کیا ہے۔
تخریج:ابن ماجه (۱۳۸۸) العلل المتناهیة (۷۱/۲ح۹۲۳)
اس میں ابوبکر بن ابی سبرۃ کذاب ہے دیکھئے تقریب التہذیب (۷۹۷۳)
نتیجہ: یہ روایت موضوع ہے۔
تنبیہ: سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے اس مفہوم کی دیگر موضوع و مردود روایات بھی مروی ہیں۔ دیکھئے الموضوعات لابن الجوزی (۱۲۷/۲) میزان الاعتدال (۱۲۰/۳) واللآلی المصنوعة (۶۰/۲)
۱۰:حدیث کردوس رضی اللہ عنہ
اسے عیسی بن ابراهیم القرشی نے "عن سلمة بن سلیمان الجزري عن مروان بن سالم عن ابن کردوس عن أبیه” کی سند سے بیان کیا ہے۔ (کتاب العلل المتناهیة: ۷۱/۲، ۷۲ح ۹۲۴)
اس میں عیسی بن ابراهیم منکر الحدیث متروک ہے، مروان بن سالم متروک متہم ہے اور سلمة کا ثقہ ہونا نامعلوم ہے۔
نتیجہ: یہ سند موضوع ہے۔
۱۱: حدیث ابن عمر رضی اللہ عنہ
اسے صالح الشمومی نے "عبد اللہ بن ضرار عن یزید بن محمد عن أبیه محمد بن مروان عن ابن عمر رضی اللہ عنه” کی سند سے روایت کیا ہے۔ (الموضوعات لابن الجوزی ۱۲۸/۲)
اس سند میں صالح، عبد اللہ بن ضرار، یزید اور محمد بن مروان سب نامعلوم العدالت یعنی مجہول ہیں۔
حافظ ابن الجوزی فرماتے ہیں کہ: ہمیں اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ حدیث موضوع ہے (الموضوعات ۱۲۹/۲)
۱۲: حدیث محمد بن علی باقر رحمہ اللہ
اسے علی بن عاصم (ضعیف) نے "عمرو بن مقدام عن جعفر بن محمد عن أبیه” کی سند سے روایت کیا ہے (الموضوعات: ۱۲۸/۲، ۱۲۹)
عمرو بن ابی المقدام رافضی متروک راوی ہے، سیوطی نے کہا: یہ سند موضوع ہے (الللآلی المصنوعة: ۵۹/۲)
علی بن عاصم سے نیچے والی سند میں بھی نظر ہے۔
۱۳: حدیث ابی بن کعب رضی اللہ عنہ
اسے ابن عساکر نے نامعلوم راویوں کے ساتھ "محمد بن حازم عن الضحاک بن مزاحم عن أبي بن کعب” کی سند سے بیان کیا ہے، دیکھئے ذیل الللآلی المصنوعۃ (ص۱۱۲، ۱۱۳) یہ روایت منقطع ہونے کے ساتھ موضوع بھی ہے۔
۱۴: مکحول تابعی رحمہ اللہ کا قول
امام مکحول تابعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
"إن اللہ یطلع علی أهل الأرض فی النصف من شعبان فیغفرلهم إلا لرجلین إلا کافراً أومشاحن”
پندرہ شعبان کو اللہ تعالیٰ زمین والوں کی طرف (خاص طور پر) متوجہ ہوتا ہے پھر وہ ، کافر اور ایک دوسرے سے دشمنی رکھنے والے کے سوا سب لوگوں کو بخش دیتا ہے(شعب الإیمان للبیہقی ۳۸۱/۳ح۳۸۳۰)
یہ سند حسن ہے لیکن یہ حدیث نہیں ہے بلکہ امام مکحول کا قول ہے۔ معلوم ہوا کہ مکحول کے قول کو ضعیف و مجہول راویوں نے مرفوع حدیث کے طور پر بیان کر رکھا ہے، مکحول کے قول کو مرفوع حدیث بنادینا صحیح نہیں ہے اور اگر بنادیاجائے تو مرسل ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے۔
خلاصۃ التحقیق: پندرہ شعبان والی کوئی روایت بھی رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے ثابت نہیں ہے۔
محققین کا فیصلہ: ابوبکر بن العربی لکھتے ہیں: "ولیس فی لیلة النصف من شعبان حدیث یعول علیه لافی فضلها ولافی نسخ الآجال فیها، فلا تلتفتوا إلیها” یعنی: نصف شعبان کی رات اور فضیلت کے بارے میں کوئی حدیث قابلِ اعتماد نہیں ہے اور اس رات کو موت کے فیصلے کی منسوخی کے بارے میں بھی کوئی حدیث قابلِ اعتماد نہیں ہے۔ پس آپ ان (ناقابل اعتماد) احادیث کی طرف (ذرہ بھی) التفات نہ کریں۔ (احکام القرآن: ۱۶۹۰/۴)
حافظ ابن القیم لکھتے ہیں: لا یصح منها شئي ، یعنی پندرہ شعبان کی رات کو خاص نماز والی روایتوں میں سے کوئی چیز بھی ثابت نہیں ہے۔ (المنار المنیف ص ۹۸، ۹۹)
حافظ ابن القیم مزید فرماتے ہیں کہ :
"تعجب ہے اس شخص پر ، جس کو سنت کی سوجھ بوجھ ہے، وہ بھی یہ ھذیان سن کر ایسی (عجیب و غریب) نماز پڑھتا ہے (یعنی سو رکعت ایک ہزار سورہ اخلاص کے ساتھ)” (ایضاً ص ۹۹)
حسن لغیرہ
________
محدث کبیر شیخ البانی رحمہ اللہ نے پندرہ شعبان والی روایت کو تعدد طرق کی وجہ سے "صحیح” قرار دیا ہے۔ حالانکہ یہ روایت "صحیح لغیرہ” کے درجہ تک نہیں پہنچتی، اس کی ایک سندبھی صحیح یا حسن لذاتہ نہیں ہے تو کس طرح صحیح لغیرہ بن گئی؟
بعض کہتے ہیں کہ یہ روایت حسن لغیرہ ہے، عرض ہے کہ حسن لغیرہ کی دو قسمیں ہیں:
۱: ایک ضعیف سند والی روایت بذاتِ خود ضعیف ہے، جبکہ دوسری روایت حسن لذاتہ ہے۔ یہ سند اس حسن لذاتہ کے ساتھ مل کر حسن ہوگئی۔
۲: ایک ضعیف سند والی روایت بذاتِ خود ضعیف ہے اور اس مفہوم کی دوسری ضعیف و مردود روایات موجود ہیں، بعض علماء اسے حسن لغیرہ سمجھتے ہیں حالانکہ یہ بھی ضعیف حدیث کی ایک قسم ہے۔
دلیل نمبر۱: قرآن و حدیث و اجماع سے یہ قطعاً ثابت نہیں ہے کہ ضعیف+ضعیف+ضعیف=حسن لغیرہ ، کا حجت ہونا ثابت ہو،
دلیل نمبر۲: صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ایسی روایت کا حجت ہونا ثابت نہیں ہے۔
دلیل نمبر ۳: تابعین کرام رحمہم اللہ سے ایسی روایت کا حجت ہونا ثابت نہیں ہے۔
دلیل نمبر ۴: امام بخاری و امام مسلم وغیرہما سے ایسی روایت کا حجت ہونا ثابت نہیں ہے۔
دلیل نمبر ۵۵: امام ترمذی رحمہ اللہ کے علاوہ عام محدثین سے ایسی "حسن لغیرہ” روایت کا حجت ہونا ثابت نہیں ہے۔
مثلاً محمد بن ابی لیلیٰ (ضعیف) نے "عن أخیه عیسی عن الحکم عن عبد الرحمن بن أبي لیلیٰ عنالبراء بن عازب” ترکِ رفع یدین کی ایک حدیث بیان کی ہے (سنن ابی داؤد: ۷۵۲) اس کی سند ضعیف ہے۔
اور اس کے متعدد ضعیف شواہد ہیں، مثلاً دیکھئے سنن ابی داؤد (۷۴۹، ۷۴۸) ان تمام شواہد کے باوجود امام ابو داؤد فرماتے ہیں:
"ھذا الحدیث لیس بصحیح” یہ حدیث صحیح نہیں ہے۔ (ابو داؤد: ۷۵۲)
عام نمازوں میں ایک طرف سلام پھیرنے کی کئی روایات ہیں، دیکھئے الصحیحۃ للشیخ الألبانی رحمہ اللہ (۵۶۴/۱۔۵۶۶ح۳۱۶) اس میں سے ایک روایت بھی صحیح یا حسن لذاتہ نہیں ہے۔
ان روایات کے بارے میں حافظ ابن عبد البر کہتے ہیں:
"إلا أنها معلولة ولا یصححها أھل العلم بالحدیث”
مگر یہ سب روایات معلول (ضعیف) ہیں، علمائے حدیث انہیں صحیح قرار نہیں دیتے۔ (زاد المعاد ج ۱ص۲۵۹)
حافظ ابن القیم رحمہ اللہ بھی فرماتے ہیں کہ:
"ولکن لم یثبت عنه ذلک من وجه صحیح”
لیکن آپ (ﷺ) سے صحیح سند کے ساتھ یہ ثابت نہیں ہے (ایضاً ص ۲۵۹)
دلیل نمبر ۶: حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ:
"یکفی في المناظرۃ تضعیف الطریق التي أبداها المناظر و ینقطع، إذا الأصل عدم ماسواها، حتی یثبت بطریق أخری، واللہ أعلم”
یعنی: مناظرے میں یہ کافی ہے کہ مخالف کی بیان کردہ سند کا ضعیف ہونا ثابت کردیا جائے، وہ لاجواب ہوجائے گا، کیونکہ اصل یہ ہے کہ دوسری تمام روایات معدوم (وباطل) ہیں الا یہ کہ دوسری سند سے ثابت ہوجائیں، واللہ اعلم (اختصار علوم الحدیث ص ۸۵ نوع: ۲۲، دوسرا نسخہ ۲۷۴/۱، ۲۷۵ وعنہ نقلہ السخاوی فی فتح المغیث ۲۸۷/۱ فی معرفة من تقبل روایته و من ترد)
دلیل نمبر ۷: ابن قطان الفاسی نے حسن لغیرہ کے بارے میں صراحت کی ہے کہ:
"لا یحتج به کله بل یعمل به فی فضائل الأعمال۔۔۔۔” الخ
اس ساری کے ساتھ حجت نہیں پکڑی جاتی بلکہ فضائل اعمال میں اس پر عمل کیا جاتا ہے (النکت علی کتاب ابن الصلاح: ۴۰۲/۱)
دلیل نمبر۸: حافظ ابن حجر نے ابن القطان کے قول کو "حسن قوی” قرار دیا ہے (النکت۴۰۲/۱)
دلیل نمبر ۹: حنفی و شافعی وغیرهما علماء جب ایک دوسرے پر رد کرتے ہیں تو ایسی حسن لغیرہ روایت کو حجت تسلیم نہیں کرتے مثلاً کئی ضعیف سندوں والی ایک روایت "من کان له إمام فقراءۃ الإمام له قراءۃ” کے مفہوم والی روایت کو علامہ نووی نے ضعیف قرار دیا ہے (خلاصہ الاحکام ج۱ص۳۷۷ح۱۱۷۳، فصل فی ضعیفه)
کئی سندوں والی فاتحہ خلف الامام کی روایات کو نیموی حنفی نے معلول وغیرہ قرار دے کر رد کردیا ہے دیکھئے آثار السنن (۳۵۳، ۳۵۴، ۳۵۵، ۳۵۶)
دلیل نمبر ۱۰: جدید دور میں بہت سے علماء کئی سندوں والی روایات، جن کا ضعف شدید نہیں ہوتا، پر جرح کرکے ضعیف و مردود قرار دیتے ہیں مثلاً "محمد بن إسحاق عن مکحول عن محمود بن الربیع عن عبادہ بن الصامت” والی روایت، جس میں فاتحہ خلف الامام کا ثبوت موجود ہے، کے بارے میں محدث البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "ضعیف” (تحقیق سنن ابی داؤد: ۸۲۳مطبوعہ مکتبۃ المعارف، الریاض)
حالانکہ اس روایت کے بہت سے شواہد ہیں دیکھئے کتاب القرأت للبیہقی و الکواکب الدریۃ فی وجوب الفاتحۃ خلف الامام فی الجهریۃ لراقم الحروف، ان کئی سندوں و شواهد کے باوجود شیخ البانی رحمہ اللہ اسے حسن لغیرہ (!) تک تسلیم نہیں کرتے۔
(حالانکہ فاتحہ خلف الإمام والی روایت حسن لذاتہ اور صحیح لغیرہ ہے والحمداللہ)
خلاصہ یہ کہ نصف شعبان والی روایت ضعیف ہی ہے۔
ضعیف حدیث پر فضائل میں عمل
____________________
بعض لوگ فضائل میں (جب مرضی کے مطابق ہوں تو) ضعیف روایات کو حجت تسلیم کرتے ہیں اور ان پر عمل کے قائل و فاعل ہیں لیکن محققین کا ایک گروہ ضعیف حدیث پر مطلقاً عمل نہ کرنے کا قائل و فاعل ہے، یعنی احکام و فضائل میں ان کے نزدیک ضعیف حدیث ناقابل عمل ہے۔ جمال الدین قاسمی (شامی) نے ضعیف حدیث کے بارے میں پہلا مسلک یہ نقل کیا ہے کہ :
"احکام ہوں یا فضائل، اس پر عمل نہیں کیا جائے گا، اسے ابن سید الناس نے عیون الاثر میں ابن معین سے نقل کیا ہے۔ اور (سخاوی نے) فتح المغیث میں ابوبکر بن العربی سے منسوب کیا ہے۔ اور ظاہر ہے کہ امام بخاری و امام مسلم کا یہی مسلک ہے صحیح بخاری کی شرط اس دلالت کرتی ہے۔ امام مسلم نے ضعیف حدیث کے راویوں پر سخت تنقید کی ہے جیساکہ ہم نے پہلے لکھ دیا ہے۔ دونوں اماموں نے اپنی کتابوں میں ضعیف روایات سے ایک روایت بھی فضائل و مناقب میں نقل نہیں کی”(قواعد التحدیث ص ۱۱۳، الحدیث حضرو: ۴ ص ۷)
عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما مرسل روایات کو سننے کے ہی قائل نہ تھے(دیکھئے مقدمۃ صحیح مسلم ح: ۲۱ والنکت علی کتاب ابن الصلاح ۵۵۳/۲) معلوم ہوا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما ضعیف حدیث کو فضائل میں بھی حجت تسلیم نہیں کرتے تھے۔
حافظ ابن حبان فرماتے ہیں:
"کأن ماروی الضعیف ومالم یرو فی الحکم سیان”
گویا کہ ضعیف جو روایت بیان کرے اور جس روایت کا وجود ہی نہ ہو، وہ دونوں حکم میں ایک برابر ہیں (کتاب المجروحین: ۳۲۸/۱ ترجمۃ سعید بن زیاد بن قائد)
مروان (بن محمد الطاطری) کہتے ہیں کہ میں نے (امام) لیث بن سعد (المصری) سے کہا:
"آپ عصر کے بعد کیوں سوجاتے ہیں جبکہ ابن لهیعہ نے ہمیں عن عقیل عن مکحول عن النبی ﷺ کی سند سے حدیث بیان کی ہے کہ: جو شخص عصر کے بعد سوجائے پھر اس کی عقل زائل ہوجائے تو وہ صرف اپنے کو ہی ملامت کرے۔
لیث بن سعد نے جواب دیا:
"لا أدع ما ینفعني بحدیث ابن لهیعة عن عقیل”
مجھے جس چیز سے فائدہ پہنچتا ہے، میں اسے ابن لهیعہ کی عقیل سے حدیث کی وجہ سے نہیں چھوڑسکتا” (الکامل لابن عدی: ۱۴۶۳/۴ وسندہ صحیح)
معلوم ہو ا کہ امام لیث بن سعد بھی ضعیف حدیث پر فضائل میں عمل نہیں کرتے تھے۔
تنبیہ: ابن لهیعہ ضعیف بعد اختلاط و مدلس ہے اور یہ سند مرسل ہے لہٰذا ضعیف ہے۔
حافظ ابن حجر العسقلانی فرماتے ہیں کہ:
"ولا فرق في العمل بالحدیث في الأحکام أو فی الفضائل إذا لکل شرع”
احکام ہوں یا فضائل، ضعیف حدیث پر عمل کرنے میں کوئی فرق نہیں ہے کیونکہ یہ سب (اعمال) شریعت ہیں۔(تبیین العجب بما ورد فی فضائل رجب ص ۷۳)
آخر میں عرض ہے کہ پندرهویں شعبان کو خاص قسم کی نماز مثلاً سو (۱۰۰) رکعتیں مع ہزار (۱۰۰۰) مرتبہ سورہ اخلاص، کسی ضعیف روایت میں بھی نہیں ہے۔ اس قسم کی تمام روایات موضوع اور جعلی ہیں۔
تنبیہ: نزول باری تعالیٰ ہر رات کو پچھلے پہر ہوتا ہے جیسا کہ صحیحین وغیرہما کی متواتر احادیث سے ثابت ہے، ہم اس پر ایمان لائے ہیں اور اس کی کیفیت کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کرتے ہیں، وہی بہتر جانتا ہے۔
وما علینا إلا البلاغ