Search

حنیف ڈار کی تحریر "مسلے کا حل کیا ہے ” کا جواب

[quote arrow=”yes”]

نوٹ: اس مضمون میں ڈار صاحب کے ایک مضمون ” مسئلے کا حل کیا ھے” کا تفصیلی جواب چار قسطوں میں دیا گیا ہے۔ ذوق رکھنے والے ان کے فیس بوک صفحے پر ان کی تحریر ملاحظہ کر سکتے ہیں جس کا تفصیلی جواب نیچے دیا گیا ہے۔ادارہ

[/quote]

حنیف ڈار کی تحریر کا جواب

”قاری حنیف ڈار کی پریشان خیالیوں کا تعاقب”

پہلی قسط

حدیث ِنبوی کے بارے میں عموماً یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ احادیث تو نبی اکرمﷺکے ڈیڑھ صدی بعد لکھی گئی ہیں، اس لئے ان میں غلطی کے امکانات بہت زیادہ ہیں لہٰذا احادیث سے استدلال کرنے اور اس کو ماخذ ِدین سمجھنے سے گریز کرنا چاہئے۔حقیقت یہ ہے کہ اس طرح کے شبہات پیدا کرکے حدیث ِنبوی کو مشکوک بنانے کی جسارت کرنے والے لوگ احکامِ دین سے ہی جان چھڑا کردین میں من مانی تاویلات کا دروازہ کھولنا چاہتے ہیں۔آج تک مسلمانوں کا یہ متفقہ موقف چلا آتا ہے کہ حدیث ِنبوی، قرآن کے ساتھ دین کا اہم ترین ماخذ ہے۔ ہمارے اس خطے کی بدقسمتی ہے کہ یہ چند دہائیوںسے تواتر سے حدیث پر اعتراضات کرنے والوں کی زد میں ہے اور جدید تعلیمافتہ ذہنوں میں حدیث کے بارے میں بہت سے شکوک وشبہات کو جنم دے کر دین سے انحراف کی راہ ہموار کی جارہی ہے۔

انہیں عقل کے پجاریوں ، اہل مغرب کے حواریوں میں سے ایک فیس بکی دانشور قاری حنیف ڈار صاحب ہیں ، یہاں ان کی ایک تازہ تحریر کا تعاقب پیش خدمت ہے ، رد سے بہلے ان کا اقتباس پیش کیا جائے گا ، تاکہ فریقین کی باتوں کاموازنہ ہوسکے .

قاری صاحب لکھتے ہیں :

’’ پہلی بات یہ کہ حدیث اور سنت دو الگ چیزیں ھیں ،،،،،،،کتاب و سنت کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ھے اور دونوں اس طرح جڑی ھوئی ھیں جس طرح رات اور دن جڑے ھوئے ھیں کہ رات کے بعد دن لازم آتا ھے اور دن کے ساتھ ھی رات آتی ھے ،، احادیث کا دور صدیوں بعد کا ھے جبکہ کتاب و سنت کبھی ایک دن کے لئے بھی ایک دوسرے سے جدا نہیں ھوئے ، امت جس طرح کتاب کو لے کر چلی ھے بالکل اسی سواری پر فرنٹ سیٹ پر سنت بھی ساتھ ھی چلی ھے وہ بعد میں کورئیر سے نہیں منگوائی گئی ‘‘

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ حدیث اور سنت میں فرق ہے ، لیکن یہ بات بالکل واضح ہے کہ ان میں وہ فرق نہیں جو منکرین حدیث ظاہر کرنا چاہتے ہیں ، آپ اصول حدیث کی کوئی بھی کتاب اٹھا کر دیکھ لیں اس میں حدیث کی تعریف یہی لکھی ہوگئی کہ ہر وہ بات جس کی نسبت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہو ، پھر اگر یہ نسبت درست ہو تو اس کو حدیث صحیح کہا جاتا ہے ، اور اگر یہ نسبت ثابت نہ ہو سکے تو اس کو حدیث ضعیف کہا جاتا ہے ، سنت بمعنی طریقہ ہے ، سنت رسول یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ کار ،اس اعتبار سے سنت کا معنی و مفہوم وہی ہے جو ’’ صحیح حدیث ‘‘ کا ہے ، سنت میں ضعیف والی بات اس لیے نہیں ، کیونکہ سنت کبھی ضعیف نہیں ہوسکتی ، کیونکہ کسی چیز کوسنت کہا ہی اس وقت جاتا ہے ، جب اس کی صحت نسبت ثابت ہو جائے ۔

اسی معنی میں اللہ تعالی نے قرآن مجید کو احسن الحدیث قرار دیا ہے ، اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سنت کو بھی حدیث کا نام دیا ہے ،

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال پر ’’ سنت ‘‘ اور ’’ حدیث ‘‘ کا اطلاق یہ ان دونوں کے اصطلاحی معنی ہیں ، ورنہ لغوی معنی میں یہ دونوں لفظ اس سے ہٹ کر بھی استعمال ہوتے ہیں ، لہذا عرب کے ہاں ’’ سنت ‘‘ کسی بھی شخص کے طریقہ کے لیے بھی بولا جاتا ہے ، خود حدیث کے اندر آتا ہے لتتبعن سنن من کان قبلکم

یہاں پہلے لوگوں کے غلط طریقوں کو سنت سے تعبیر کیا گیا ہے ، اسی طرح قرآن مجید میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے ، قد خلت سنۃ الأولین .

یہ تھوڑی سی وضاحت اس لیے کی گئی ہے تاکہ واضح ہو جائے کہ کسی لفظ کے ایک سے زیادہ معنی ہوسکتے ہیں ، لیکن کسی بھی فن میں اس کے معتبر معنی وہی ہیں جو اہل فن کے ہاں مقرر ہو گئے ۔

تو جس طرح سنت سے مراد ’’ سنت رسول ‘‘ مقرر ہوا ہے ، اسی طرح ’’ حدیث ‘‘ سے مراد ’’ حدیث رسول ‘‘ بھی طے شدہ معنی ہے ، اور یہ بھی اہل فن کے ہاں معلوم مفہوم ہے کہ سنت اور حدیث دونوں ہم معنی استعمال ہوتے ہیں ۔

لہذا جب سے سنت ہے ، تب سے حدیث ہے ، سنت کو امت آگے لے کر چلی تو حدیث کہلائی ، گویا بعد والوں کے لیے قرآن کے بعد سنت معلوم کرنے کا طریقہ سوائے حدیث کے اور کچھ نہ تھا ۔

گویا جب حدیث ثابت ہو جائے تو اس میں اور سنت میں اتنا سا فرق ہے کہ سنت طریقہ کار کو کہتے ہیں ، جب کہ اس طریقہ کار کی تبلیغ اور روایت اور پہنچانے کو حدیث کہتے ہیں ۔

( عہد نبوی میں حدیث کی کیا اہمیت تھی ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کا اس سلسلے میں کیا نظریہ تھا ، تفصیل سےجاننے کے لیے درج ذیل مضمون کا مطالعہ کیجیے :

لنک کے لیے کلک کریں)

اب ایسی صورت حال میں منکرین حدیث کا سنت کی بجائے حدیث کو تنقید کا نشانہ بنانا ویسے ہی ہے کہ کچھ لوگ اسلام کو برا کہنے کی سکت نہیں رکھتے تو مسلمانوں پر طعن و تشنیع کرتے ہیں ، اسلام پہنچانے والوں کو برا بھلا کہتے ہیں ۔

جس طرح قرآن اور سنت ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوئے اسی طرح سنت اور حدیث بھی کبھی جدا نہیں ہوئے ، جو سمجھتا ہے کہ ابتدائے اسلام میں سنت تو موجود تھی ، لیکن احادیث صدیوں بعد آئی ، اس کا دعوی یہ ہے کہ سنتیں بغیر کسی روایت ، بغیر کسی سند اور ذریعے کے بعد میں منتقل ہوتی رہیں ، حالانکہ یہ بالکل محال او رناممکن امر ہے ، کو ئی بھی عاقل اس طرح کا تصور بھی نہیں کرسکتا ۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں صحابہ کرام نے اپنی باریاں مقرر کی ہوئی تھیں ، جیساکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بارے آتا ہے ، ایک دن وہ حضور کی مجلس میں شریک ہوتے تو اپنے انصاری دوست کو اس دن کی احادیث بتادیتے ، پھر اگلے دن خود انصاری کی جگہ کام کاج کے لیے جاتے اور اس دن کی سنی ہوئی باتیں انصاری ان کو بتاتا ، اب ایک دوسرے کو دین اسلام کی باتیں بتانا ، اور حضور کی سنتوں سے باخبر رکھنا اسی کا نام حدیث ہے ، اور یہ طریقہ کار حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں موجود تھا ، اس کو صدیوں بعد کا کہنا منکرین حدیث کی لا علمی او رجہالت جس کی بنا پر وہ اہل علم کا محاکمہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں ۔

ڈار صاحب مزید لکھتےہیں :

’’اماموں اور صحاح ستہ کے مصنفین کی پیدائش سے پہلے ان کے والدین جس طریقے سے نماز پڑھتے ، روزہ رکھتے اور حج کرتے زکوۃ دیتے تھے اور جن عقائد پر جیتے تھے وہ سنت تھے ،، وھب ابن منبہ یا حضرت ابوھریرہؓ کا تحریر کردہ مخطوطہ ملنے کا مطلب یہ نہیں کہ وہ مخطوطہ تین براعظموں ، ایشیا ، یورپ ، اور افریقہ میں ھر شہر، بستی ڈھوک اور ھر گھر اور بندے کو دستیاب تھا کہ جن کو پڑھ کر لوگ عبادات ادا کیئے کرتے تھے اور عقیدے سیدھے کیا کرتے تھے ، صدیوں پیچھے مت جایئے کاغذ کی فراوانی کے باوجود آج بھی دیکھ لیجئے کہ مسلمان آبادی کے کتنے گھروں میں یہ کتابیں دستیاب ھیں اور بچے بوڑھے مرد اور عورتیں ان کتابوں کو پڑھ کر ھی سب مناسک ادا کر تے ھیں ،،حقیقت یہ ھے کہ حدیث سوائے تاریخی واقعات کے اور کچھ نہیں مذھبوں کی تاریخ کے ساتھ تقدس جڑا ھوتا ھے اور اسکی ھر کتاب ،ھر شخصیت اور ھر شہر شریف ھوتا ھے ،، جس جگہ کوئی پیر ھوتا ھے وہ گاؤں شریف ھو جاتا ھے اور مذھبی شخصیات کے ناموں کا مجموعہ شجرہ طیبہ بن جاتا ھے ،، لوگ مسلمان ھونے کے اگلے گھنٹے کے اندر نماز پڑھنے چلے جاتے تھے چاھے وہ صحراء میں ھوں یا گاؤں میں مشرق میں ھوں یا مغرب میں، اسپین میں ھوں یا مصر میں ، سعودیہ میں ھوں یا ھند میں یہ تھی سنت جو اقیموا الصلاۃ کو ھی نہیں بلکہ اس کے طریقے کو بھی ساتھ لے کر چلی تھی ، طریقہ 240 ھجری میں نہیں آیا تھا ، ، اور وھب ابن منبہ کے مخطوطے کی دوسری کاپی تک دستیاب نہیں گھر گھر کس نے پہنچانا تھا ،،

ڈار صاحب کا یہ اقتباس پڑھیں ، اور جتنا چاہیں حیران ہوتے جائیں ، اندازہ لگائیں کہ ایک طرف کبا رمحدثین و علماء کی ہمسری کا عملی دعوی ہے ، دوسری طرف بنیادی باتیں سمجھنے میں عقل ساتھ نہیں دے رہی ۔

آج اگر کوئی سر پھرا یہ کہے کہ لاؤ قرآن مجید کے سارے نسخے میں جلانا چاہتا ہوں یا دریا برد کرنا چاہتا ہوں ، کیونکہ جب یہ نسخے نہیں تھے اس وقت بھی تو لوگ مو من تھے ، مسلمان تھے ، میں تاج کمپنی پر بم گرانا چاہتا ہوں ، جب یہ پریس نہیں تھا اس وقت بھی تو لوگ مسلمان تھے یا نہیں ؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں کون سی تاج کمپنی تھی ؟ کون سا ضیاء القرآن پبلیکشنز تھا ؟

جس طرح ان پریس اور مطبع خانوں کی قرآن مجید چھاپنے کی وجہ سے ہمارے ہاں مقدس حیثیت ہے ، اسی طرح بخاری و مسلم اور دیگر مؤلفین حدیث کی حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی سنتیں ہم تک نقل کرنے کی وجہ سے ہمار ہاں شان اور عظمت ہے ،

اور پھر دین ایک ہی رہتا ہے ، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس کی خدمت و حفاظت اور نقل و روایت کے ذرائع تبدیل ہوتے رہتے ہیں ، شروع شروع میں لوگوں دين بالمشافه حاصل کرتے تھے ، لیکن پھر ہڈیوں پر ، چمڑے پر ہوتے ہوئے کاغذ پر آیا ، اور کاغذ کی بھی مختلف شکلوں سے ہوتا ہوتا ، آج ایک شاندار شکل اختیار کر چکا ہے ، پہلے دس بیس کتابیں اٹھانے میں مشتقت ہوتی تھی ، آج کل ہزاروں کتابیں کمپیوٹر میں بلا تکان آدمی ساتھ لیے پھرتا ہے ۔

آج ہمارے پاس قرآنی مصاحف اور احادیث کی کتابیں جدید تقاضوں کے مطابق موجود ہیں ، لیکن اس کے مطلب یہ نہیں کہ جب یہ سہولیات نہیں ہوتی تھیں ، اس وقت نہ قرآن ہوتا تھا ، اور نہ احادیث ، اسی طرح جب بخاری و مسلم نے احادیث کے مجموعے مرتب نہیں کیے تھے تو لوگ وہیں سے قرآن وسنت لیتے تھے ، جہاں سے انہوں نے لے کر ان کتب کو مرتب کیا ، 14 صدیاں بعد چند منکرین حدیث احادیث کے بارے میں ہر زہ سرائی کرتے ہیں تو پورا عالم اسلام سراپا احتجاج ہوجاتا ہے ، یہ کیسے ممکن ہے کہ خیر القرون میں سنتوں کے نام پر کوئی اتنا بڑی بڑی من گھڑت کتابیں لکھ دے اور کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگے ؟ بلکہ الٹا سب ان کے احسان مند ہوں ، کم از کم اس دور کے مسلمان عصر حاضر کے مسلمانوں سےتو زیادہ ہی دینی غیرت رکھتے تھے ۔

آج اگر کوئی تاج کمپنی کے چھپے ہوئے قرآنی نسخے کی توہین کرتا ہے تو مسلمان فورا احتجاج کرتے ہیں ، اسی طرح اگر کوئی بخار ی و مسلم کی توہین کرے گا تو بھی مسلمان احتجاج کریں گے ، کیونکہ ایک طرف قرآن ہے تو دوسری طرف میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے ۔

جس طرح تاج کمپنی کے معیار کی وجہ سے انہیں اتھارٹی ملی ہے ، اسی طرح بخار ی و مسلم کے معیار پر بھی صدیوں سے مسلمان متفق ہیں ۔

اور پھر بالا اقتباس میں آپ ایک اور بات نوٹ کریں گے گہ کہ ڈار صاحب نے خود کو گزرے زمانوں پر حاکم بنالیا ہے ، مثلا وہب بن منبہ کا نسخہ صرف ایک ہی تھا ، ذرا یہ بتائیے کہ آپ کو یہ خبر وحی کے ذریعے ہوئی ہے یا الہام ہوا ہے ؟

آپ تک ایک نسخہ پہنچا ہے تو اس کا یہ معنی کیسے ہوگیا کہ آپ صدیوں پہلے گزرے زمانوں میں بھی یہی نسخہ تھا ؟

ڈار صاحب سمیت منکرین حدیث کی یہی تنگ نظری انہیں اس بات پر آمادہ کرتی ہے کہ گزرے ہوئے پر بہتان طرازیاں کرنے میں ذرا حیا نہیں کرتے ۔ اللہ المستعان ۔

ڈار صاحب جہالت و کم علمی پر مبنی فلسفہ قرآن وسنت بیان کرنے بعد رقمطراز ہیں :

’’ صدیوں تک حدیث کو سنت بنا کر پیش کرنے کا نتیجہ ھے کہ آج حدیث پر بات کی جائے تو لوگ سنت کو ھاتھ سے جاتا دیکھتے ھیں ،،

گزارش یہ ہے کہ یہ حقیقت ہے ، اسی لیے صدیوں سے سب نے اس کو تسلیم کیا ، کیونک سنت کی روایت ہوئی تو حدیث کے ذریعے ، حدیث کو سائیڈ پر کردیں توسنت کہاں سے ملے گی ؟ ، قرآن سے ؟ جی ہاں قرآن سے بھی ، لیکن صرف قرآن سے نہیں ، قرآن کی عملی تفسیر کی شکل میں جو سنتیں ہیں وہ صرف احادیث سے ملیں گی ، احادیث کے بغیر سنت کو تلاش کرنے والے اپنی نفسانی خواہشات کو قرآن کی تفسیر اور سنت قرار دینا چاہتے ہیں ، کسی نے آپ کو خط بھیجا ، خط ڈاکیا لے کر آتا ہے ، آپ کا مطلوب و مقصود ڈاکیا نہیں بلکہ خط ہے ، لیکن اگر آپ ڈاکیا کو درمیان سے نکالنے کی کوشش کریں گے تو خط سے بھی محروم ہی رہیں گے ۔ ڈاکیا سے نظریں چرانے کا مطلب ہے کہ آپ اس کا لایا ہوا پیغام نہیں لینا چاہتے ۔ احادیث سے جان چھڑانے کا مطلب ہے کہ ان میں بیان کردہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتیں آپ کے لیے کوہ گراں ہیں ، ان میں بیان کردہ نبوی اوامر و نواہی آپ کی آزادی اور روشن خیالی کی راہ میں رکاوٹ ہیں ۔​


دوسری قسط

قاری صاحب لکھتے ہیں :
روایت میں تخریب کا عمل بہت پہلے شروع ھو گیا تھا جب اللہ پاک نے یہ حکم دیا تھا کہ ” اگر تمہارے پاس کوئی فاسق خبر لے کر آئے تو اس کو چھان پھٹک لیا کرو مبادا اس خبر کی بنیاد پر کسی قوم پر بے قصور جا پڑو اور پھر ندامت کا منہ دیکھنا پڑے ،، شہادت کا نصاب صحابہؓ کے لئے بھی دو اور چار کا تھا یعنی کتابت میں دو مرد اور بدکاری میں چار ،،، ایسا نہیں ھے کہ آج فسق و فجور کے زمانے میں 12 افراد کی گواھی مقرر کی گئ ھو، نماز کی رکعتیں ھوں یا روزوں کی تعداد ، زکوۃ کا نصاب ھو یا طواف اور صفا مروہ کے چکر سب کی تعداد صحابہؓ اور ھمارے لئے یکساں ھے تو پھر باقی چیزوں میں بھی استثناء کوئی نہیں ھے ،، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے بنائے گئے اصول کو بعد والے منسوخ نہیں کر سکتے ،حدیث موسی الاشعریؓ جیسا ماھر قرآن بھی پیش کرے تو دوسرا گواہ لازم ھے جیسا کہ خلیفہ راشد نے طے کیا کیونکہ وہ بہتر سمجھتے تھے کہ عجم کی فتح نے کس قسم کے لوگوں سے مدینہ بھر دیا ھے لہذا اب وقت آ گیا ھے کہ اس کے اصول طے کیئے جائیں ،چنانچہ انہوں نے ایک جید صحابیؓ سے اس کے اطلاق کی ابتدا کی ‘‘

اس اقتباس میں قاری صاحب نے دو تین باتیں کی ہیں :

1۔ روایت میں تخریب کاری کا عمل نزول قرآن کے زمانہ میں ہی شروع ہوگیا تھا ، اسی لیے تو قرآنی آیت نازل ہوئی ۔

اس پوائنٹ سے سب سے پہلی بات تو یہ ثابت ہوتی ہے کہ احادیث کا سلسلہ صدیوں بعد کا نہیں ، بلکہ نزول قرآن کے زمانہ سے ہی شروع ہو چکا تھا ، دوسری بات یہ ہے کہ روایت کے اندر احتیاط کرنے کے حکم قرآنی نازل ہونے کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام کا طریقہ کار کیا تھا ؟

کیا آپ کسی کی بات پر یقین نہیں کرتے تھے ؟ کیا صحت روایت کے لیے آپ نے دو گواہوں کی شرط عائد کردی تھی ؟

حقیقت یہ ہے کہ خبر واحد کے شرعی حجت ہونے کی بنیاد تو نبی کریمﷺ کے مبارک دور میں ہی پڑ گئی تھی، بلکہ آپ نے خود حجیتِ خبر واحد کو زیر عمل لاتے ہوئے بہت سے موقعوں پر ایک ہی شخص کو دوسرے علاقے کا مبلغ بنا کر بھیجا یہاں تک کہ امیر لشکر بھی ایک ہی ہوتا ،باقی سب مجاہدین پر اس کی بات کی اطاعت واجب ہوتی تھی۔ عبداللہ بن عباسؓ بیان کرتے ہیں:

«لما بعث النبي ﷺ معاذ بن جبل إلىٰ نحو أهل اليمن قال له: «إنك تقدم علىٰ قوم من أهل الكتاب فليكن أوّل ما تدعوهم إلىٰ أن يوحّدوا الله تعالىٰ، فإذا عرفوا ذلك فأخبرهم أن الله فرض عليهم خمس صلوات في يومهم وليلتهم، فإذا صلّوا فأخبرهم أنّ الله افترض عليهم زكاة أموالهم تؤخذ من غنيهم فترد علىٰ فقيرهم، فإذا أقرّوا بذلك فخذ منهم وتوق كرائم أموال الناس» (( صحیح بخاری مع الفتح: 13؍347)

”نبی اکرم ﷺ نے حضرت معاذؓ کو یمن بھیجا تو فرمایا آپ اہل کتاب کی طرف جارہے ہو، سب سے پہلے اُنہیں توحیدِ باری تعالیٰ کی دعوت دینا، جب وہ اس کا اعتراف کرلیں تو انہیں بتانا کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر دن رات میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں۔ جب وہ نماز پڑھنےلگیں تو اُنہیں بتانا کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر ان کے مالوں میں زکوٰۃ فرض کی ہے ، جو ان کے امیروں سے لے کر غریبوں کو دی جائے گی ، جب وہ اس کا بھی اقرار کرلیں تو آپ ان سے زکوٰۃ لیتے وقت ان کے عمدہ مال لینے سے بچیں۔”

اسی طرح نبی اکرمﷺ جب دعوتِ اسلام دینےکے لیےغیر مسلم حکمرانوں کو خط بھیجا کرتے تھے تو اس کے لیے بھی ایک آدمی کا انتخاب فرمایا کرتے تھے تاکہ وہ مراسلہ اس حکمران تک پہنچا دے، جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عباسؓ ہی بیان کرتے ہیں :

«أنّ رسول الله ﷺ بعث بكتابه إلىٰ كسرى مع عبد الله بن حذافة السهمي فأمره أن يدفعه إلىٰ عظيم البحرين فدفعه عظيم البحرين إلى كسرٰى فلمّا قرأه مزقه ). صحیح بخاری مع الفتح : 8 ؍126)

” رسول اکرمﷺ نے عبداللہ بن حذافہ سہمیؓ کے ہاتھ اپنا خط کسریٰ کی طرف بھیجا او رفرمایا کہ آپ یہ خط بحرین کے سردار کو دے دیں، وہ آگے کسریٰ تک پہنچا دے گا۔یوں یہ خط جب کسریٰ کے پاس پہنچا تو اُس نےپھاڑ دیا۔”

رسول اللہ ﷺ سے ایسی متعدد مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں کہ آپ نے اپنے دور میں خبر واحد پر اعتماد کرتے ہوئے ایک ہی آدمی کو مبلغ یا قاصد یا کمانڈر بنا کربھیجا اور ایسا کبھی بھی نہیں ہوا کہ آپ نے کبھی ایک بڑی جماعت کو قاصد یا مبلغ بنا کربھیجا ہو تاکہ ان کی کثیر تعداد سے تواتر حاصل ہوجائے اور ان کی بات یقینی قرار پائے۔

جب قرآنی آیت میں مطلوب احتیاط کی وضاحت خود سنت رسول سے ہوگئی تو پھر مزید کسی اور تشریح ضرورت باقی نہیں رہ جاتی ۔

2۔ صحت روایت کے لیے دو افراد کا ہونا ضروری ہے ۔

ڈار صاحب کی یہ بات خود ان کے اصول کے مطابق قابل قبول نہیں ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا دو افراد کی شرط لگانا اپنے اصولوں کے مطابق ثابت کردیں ۔

دوسری بات خود حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے کہ کہ ایک آدمی کی روایت کوقبول کر لیا کرتے تھے ، ذیل میں کچھ مثالیں پیش خدمت ہیں :

حضرت عبداللہ بن عمر ؓ بیان کرتے ہیں:

«أن عمر خرج إلى الشأم فلما كان بسرغ بلغه أن الوباء قد وقع بالشام فأخبره عبد الرحمٰن بن عوف أن رسول الله ﷺ قال: «إذا سمعتم به بأرض فلا تقدموا عليه وإذا وقع بأرض وأنتم بها فلا تخرجوا فرارًا منه (صحیح بخاری مع الفتح :10؍179، رقم5730 )

” سیدنا عمر فاروقؓ ملکِ شام جانے کے لیے مدینہ منورہ سے روانہ ہوئے، جب وہ ‘سرغ’ مقام تک پہنچے تو اُنہیں وہاں بتایا گیا کہ شام کے علاقے میں تو وبا پھیلی ہوئی ہے۔اس پرسیدنا عبدالرحمٰن بن عوفؓ نے یہ حدیث بیان کی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا کہ جب تم سنو کہ کسی علاقے میں وبا پھیلی ہوئی ہے تو وہاں آؤ نہیں، اور اگر تمہارے علاقے میں وبا پھیل جائے، جہاں تم مقیم ہو تو وہاں سے وبا (طاعون وغیرہ) سے بچنے کےلیے نکلو نہیں۔ یہ حدیث سن کر حضرت عمر فاروقؓ نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا او روہاں سے صحابہ کرام ؓ کے ساتھ واپس مدینہ آگئے ۔” (صحیح بخاری :10 ؍179، رقم5729)

مسلمانوں کے خلیفہ سیدناعمر فاروقؓ ایک آدمی سیدنا عبدالرحمٰن بن عوفؓ کی حدیث (خبر واحد) پر یقین کرتے ہوئے بجائے شام جانےکے، راستے سے ہی واپس آجاتے ہیں۔ اس پر اُنہوں نے کوئی گواہ طلب نہیں کیا اور نہ ہی اسے ظنّی کہہ کر رد کیا ہے، جیسا کہ یہ منکرین حدیث کا وتیرہ ہے۔ بلکہ سیدناعمر بن خطابؓ نے طلبِ علم کے لیے ایک انصاری صحابی سے باری مقرر کی ہوئی تھی ( جيسا کہ اوپر پہلی قسط میں اشارۃ گزر چکا ہے ) اوران کی بیان کردہ احادیث کوقبول کیا کرتے تھے۔ عبداللہ بن عباسؓ حضرت عمر فاروقؓ کے بارے میں بیان کرتے ہیں :

«قال كنت أنا وجار لي من الأنصار في بني أمية بن زيد وهي من عوالي المدينة وكنا نتناوب النزول علىٰ الرسول الله ﷺ فينزل يومًا وأنزِل يومًا فإذا نزلت جئتُه بخير ذلك اليوم من الوحي و غيره وإذا نزل فعل مثل ذلك» ( صحیح بخاری مع الفتح :1 ؍185، رقم 89)

” سیدنا عمرؓ فرماتے ہیں میں نے اپنے ایک انصاری پڑوسی سے باری مقرر کررکھی تھی جو مدینہ کے بالائی علاقہ میں بنو اُمیہ میں رہتا تھا، او رہم باری باری نبی اکرم ﷺ کے پاس حاضر ہوا کرتے تھے۔ ایک دن میں آتا (وہ اپنا کام کاج کرتا) او رایک دن وہ آپ کے پاس حاضر ہوتا اور میں اپنے گھریلو کام کاج کرتا رہتا۔ اور ہم میں ہر ایک، نبی اکرم ﷺ پر جو وحی نازل ہوتی یا کوئی دیگر مسئلہ ہوتا تو ،اپنے ساتھی کو آکربتا دیتے تھے۔ ” اس طرح گویا دونوں علم نبوت حاصل کیا کرتے تھے۔

یہ اور اس طرح کی دیگر مثالیں اس بات کو واضح کرنے کے لیے کافی ہیں کہ سیدنا عمرؓ کے ہاں ایک آدمی کی خبر قبول کرنے کے لیے کوئی شرطیں مقر رنہیں تھیں بس یہی کافی سمجھا جاتا تھا کہ خبر دینے والا ثقہ اور معتبر مسلمان ہو۔

اگرکبھی انہوں نے حدیث پر گواہ کا مطالبہ کیا ہے تو وہ اس لیے نہیں کہ وہ خبر واحد کو حجّت نہیں سمجھتے تھے او رنہ ہی ثقہ راوی پر کوئی الزام لگاتے تھے بلکہ وہ تو صرف خبر واحد کے ثابت ہونےکے لیے تحقیق کی ایک صورت تھی جیسا کہ حدیثِ استیذان وغیرہ والا واقعہ ۔ اورخبر واحد کی تحقیق کے تو سب قائل ہیں۔ ڈار جیسے منکرین حدیث اس طرح کی مثالوں کو خبر واحد کی حجیّت کے خلاف دلیل کےطو رپر پیش کرتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ اگر خبر واحد شرعی اعتبار سے حجت ہوتی تو حضرت عمرؓ اس پر گو اہ طلب نہ کرتے ،لیکن یہ لوگ اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہیں کہ حضرت عمر فاروقؓ کا شاہد کا طلب کرنا اطمينان کے لیے تھا اگر یہ بات ان کے نزدیک صحت حدیث کے لیے شرط ہوتی تو دیگر مقام پر خود کبھی بھی خبر واحد کو قبول نہ کرتے ۔ حافظ ابن حجر لکھتے ہیں کہ حضرت اُبی بن کعبؓ نے حضرت عمرؓ سے کہا:

«لاتکن عذابًا علىٰ أصحاب رسول الله ﷺ فقال: سبحان الله إنما سمعتُ شیئا فأحببت أن أتثبت» (فتح الباری :11؍30)

”اےعمرؓ ! آپ صحابہ کرام پر عذاب نہ بنیں تو آپ نے از راہِ تعجب فرمایا : سبحان اللہ! میں نے ایک بات سنی اور چاہا کہ اس کی صحت کا مزید یقین کر لوں .

3۔ فتوحات ہوئیں تو عجمیوں کے آنے کی وجہ سے احتیاط کرنا لازمی ہو گیا تھا ۔

اس بات میں کوئی شک نہیں ، یہ سب باتیں محدثین نے کھل کر بیان کی ہیں ، لیکن احتیاط وہی تھی جس کا نمونہ عہد نبوی میں گزر چکا ، عہد صحابہ میں گزر چکا ، اور انہیں اصولوں کو محدثین نے اختیار کیا ، جو لوگ اعلی پائے کے قابل اعتماد تھے ، ان میں سے ایک نے بھی روایت بیان کی تو قبول کی گئی ، اور جو ضعیف اور ناقبل اعتبار تھے ، وہ چار پانچ مل کر بھی جھوٹ پر ایکا کر لیں ، ان کی روایت کو قبول نہیں کیا گیا ۔

منکرین حدیث کی مصیبت یہ ہے کہ جن لوگوں کو صحابہ کرام نے قابل اعتماد سمجھا ، تابعین نے قابل اعتماد سمجھا ، اس کے بعد کے لوگوں نے قابل اعتماد سمجھا ، ان کی روایات کو جانچا پرکھ کر کھوٹے کھرے کی تمیز کردی ، منکرین آج ان کے کھرے کو کھوٹا اور کھوٹے کو کھرا ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں ، کہ رواوی دھوکہ دیتے تھے ، راوی احتیاط نہیں کرتے تھے ، راوی بھول جاتے تھے وغیرہ وغیرہ ، حالانکہ اگر ان سب باتوں کی جان پہچان ان کے ساتھ رہنے والے لوگ اور کے زمانے کے قریب کے لوگ نہیں کرسکیں گے تو صدیوں بعد آنے والے منکرین کو ان سب حقائق کا الہام ہوجاتا ہے ؟

جس حکایات و قصص کی بنیاد پر منکرین ثقہ راویوں اور صحیح احادیث کو جھٹلانے پر تلے ہوئے ہیں ، وہ حکایات کس بنیاد پر مستند ہیں ؟ وہ قصے معیار کیوں ٹھہرے ؟ فیا للعجب !!


تیسری قسط

ڈار صاحب نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے متعلق جو باتیں کی ہیں ان کا ترتیب وار جواب ذکر کیا جاتا ہے :

ڈار صاحب نے کہا :​

’’ حضرت ابوھریرہؓ مشہور مدلس تھے بغیر اصلی حوالہ دیئے حدیث بیان کر دیتے تھے ، کہا جاتا ھے کہ صحابیؓ کی تدلیس نقصان دہ نہیں ھوتی قابلِ قبول ھوتی ھے مگر جب صحابیؓ کسی یہودی نومسلم تابعی کے تابع ھو جائے تو پھر تدلیس زھر قاتل بن جاتی ھے اور قولِ رسول ﷺ کو قولِ کعب احبار سے جدا کرنا بہت ضروری ٹھہرتا ھے ،، ‘‘

اہل علم میں سے کسی نے بھی حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو مدلس قرار نہیں دیا چہ جائیکہ انہیں ’’ مشہور مدلس ‘‘ کہا جائے ، امام شعبہ رحمہ اللہ سے ایک قول منقول ہے ، لیکن ایک تو اس کی سند محل نظر ہے ، دوسرا یہ بات بھی ثابت کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا اس سے مراد ابوہریرہ ہیں یا اس سے ملتے جلتے نام کے کوئی اور شخص ، مختصر یہ کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ جیسے جلیل القدر صحابی پر تدلیس کا الزام بے بنیاد ہے ، بعض منکرین حدیث کے علاوہ کوئی اس کا قائل نہیں ۔

رہا کعب احبار سے روایت کی بنیاد پر ان پر کلام کرنا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ بنی اسرائیل سے بیان کرنے میں کوئی حرج نہیں ، لہذا بعض صحابہ کرام نے اگر ان سے بیان کیا تو یہ کوئی قابل اعتراض بات نہیں ، رہی یہ بات کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کعب احبار کے تابع ہو گئے تھے تو یہ سوائے ایک اتہام و الزام کے اور کچھ نہیں ، امام بخاری علیہ الرحمہ کے نزدیک آٹھ سو اہل علم نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایات بیان کی ہیں ، کیا کسی ایک کوبھی یہ انکشاف نہیں ہوا جو چودھویں صدی میں منکرین حدیث کر رہے ہیں ۔

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے جو کچھ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا ، کتابیں اس سے بھری پڑی ہیں ، جو کچھ کعب احبار سے لیا ، اس کی بھی وضاحت موجود ہے ، البتہ یہ کہنا کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے جو کچھ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب کیا ، وہ اصلا کعب احبار کی باتیں تھیں ، یہ اعلی درجے کی بدگمانی اور صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی عدالت میں طعن تو ہے ہی ، ساتھی ہی ایک دعوی ہے ، جو بلا دلیل و ثبوت ہے ، منکرین حدیث کی اخلاقی حالت دیکھ لیں ، بالکل صحیح روایات کو عقل کی بھینٹ چڑھا دیتے ہیں ، لیکن ایک صحابہ رسول پر الزام لگاتے ہوئے ان کی عقل گھاس چرنے چلے جاتی ہے ، پہلی بات تو اس الزام کے ثبوت میں کوئی روایت ے ہی نہیں ، اگر ہو بھی تو کیا ان منکروں کی عقل تسلیم کرتی ہے کہ ایک صحابی رسول اس طرح کی جرأت کرسکتا ہے ؟

رہی یہ بات کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے لوگ سن کر قول رسول اور قول کعب کو خلط ملط کردیتے تھے ، تو اس میں غلطی کس کی ہے ؟ سننے والے کی یا بیان کرنے والے کی ؟

اس دلیل کی بنیاد پر ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ پر تابع ہونے کا الزام کس منطق سے لگادیا گیا ؟

یہ تو غلطی سننے والے کی ہوئی نہ کہ سنانے والے کی ۔ ڈار صاحب کے الفاظ ملاحظہ کریں :

’’ جرح و تعدیل کے ائمہ نے لکھا ھے کہ ابوھریرہؓ سے سننے والے یہ تفریق کیئے بغیر روایت کر دیتے تھے کہ یہ حدیثِ رسولﷺ ھے یا قولِ کعب احبار ، چنانچہ اس مجلس کے شریک یہ گواھی دیتے ھیں کہ ھم مجمعے میں جس کو قولِ کعب کے طور پر سنا کرتے تھے ، تھوڑی دیر بعد وہ قولِ رسول ﷺ کے طور پر مدینے میں مشہور ھو جاتا تھا ،،( اتحاف النبیل ) ‘‘

اس فضول استدلال کی حقیقت تو واضح ہو چکی کہ اس میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا کوئی قصور نہیں ، لیکن یہ بات بھی واضح کرنا ضروری ہے کہ جس بات کو ڈار صاحب نے ائمہ جرح و تعدیل کی طرف منسوب کیا ہے اتحاف النبیل کا حوالہ دے کر ، اس میں کتنی صداقت ہے ، ذرا اس حکایت کے الفاظ ملاحظہ کیجیے :

عن بسر بن سعيد قال: اتقوا الله وتحفظوا من الحديث، فوالله لقد رأيتنا نجالس أبا هريرة فيحدث عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، ويحدثنا عن كعب الأحبار، ثم يقوم، فأسمع بعض من كان معنا يجعل حديث رسول الله صلى الله عليه وسلم عن كعب، وحديث كعب عن رسول الله، وفي رواية: يجعل ما قاله كعب عن رسول الله، وما قاله رسول الله عن كعب، فاتقوا الله وتحفظوا في الحديث»

بسر بن سعيد کہتے ہیں : لوگوں اللہ سے ڈور ، حدیث بیان کرنے میں احتیاط کرو ، اللہ کی قسم ہم حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی مجالس میں حاضر ہوا کرتے تھے ، وہ اللہ کے رسول سے بھی احادیث بیان کرتے ، اور کعب احبار سے بھی بیان کرتے ،پھر وہ چلے جاتے اور ہم بعض لوگوں کو سنا کرتے تھے کہ وہ حدیث رسول اور کعب احبار کو خلط ملط کر دیتے تھے …

اس حکایت سے دو تین باتیں ثابت ہوتی ہیں :

1۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو قول رسول کو الگ اور کعب احبار کے قول کو الگ بیان کرتے تھے ، نہ کہ خلط ملط کرکے بیان کرتے تھے ۔

2۔ سننے والے بعض لوگوں کو غلطی ہو جاتی تھی کہ وہ دونوں میں تمیز نہیں کرسکتے تھے ،

3۔ انہیں مجالس میں ایسے لوگ بھی ہوتے تھے جو دونوں کے فرق کوسمجھتے تھے ، اور غلطی کرنے والوں کی غلطی کو فورا پہچان لیتے تھے ، لہذا ڈار صاحب کا کہنا کہ مدینہ میں اسی طرح کی خلط ملط روایات مشہور ہو جاتی تھیں ، یہ ان کا جہل یا تجاہل ہے کہ روایات سے کام کی بات لیتے ہیں ، لیکن جو بات اپنے موقف کے خلاف ہو اس کو گول کر جاتے ہیں ۔

مزید غور کیا جائے تو اسی حکایت سے منکرین حدیث کے مزاعم و اتہامات کے قلع قمع کرنے والے مزید قرائن سمجھے جاسکتے ہیں ۔

پھر ڈار صاحب لکھتے ہیں :

’’ مسلم شریف کی ایک حدیث پر تبصرہ فرماتے ھوئے ،، شیخ بن باز فرماتے ھیں کہ یہ کعب احبار کی اباطیل ھیں جن کو راوی حضرت ابوھریرہؓ سے سن کر بطورحدیث بیان کر دیتے ھیں ،،

ومما أُخذ على مسلم رحمه الله رواية حديث أبي هريرة: أن الله خلق التربة يوم السبت، الحديث. والصواب أن بعض رواته وهم برفعه للنبي صلى الله عليه وسلم وإنما هو من رواية أبي هريرة رضي الله عنه عن كعب الأحبار؛ لأن الآيات القرآنية والأحاديث القرآنية الصحيحة كلها قد دلت على أن الله سبحانه قد خلق السماوات والأرض وما بينهما في ستة أيام أولها يوم الأحد وآخرها يوم الجمعة؛ وبذلك علم أهل العلم غلط من روى عن النبي صلى الله عليه وسلم أن الله خلق التربة يوم السبت، وغلط كعب الأحبار ومن قال بقوله في ذلك، وإنما ذلك من الإسرائيليات الباطلة. والله ولي التوفيق. ‘‘

آپ اس پوری عبارت سے ایک لفظ نہیں دکھا سکتے جس میں شیخ ابن باز نے یہ کہا ہو کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کعب احبار کی پیروی میں غلطی کی ، اس میں تو یہ بھی صراحت نہیں کہ غلطی کرنے والا رواوی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا شاگرد تھا ، ليكن اس كى باوجود ڈار صاحب صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نا قابل اعتماد قرار دینے کے لیے اس طرح کی غیر متعلقہ مثالیں پیش کر رہے ہیں ، حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی انسان معصوم نہیں ، کسی ایک آدھ روایت یا اس کی جزئی میں غلطی ہو جانا ، یہ ممکن ہے ، محدثین کا خاصہ یہ ہے کہ انہوں نے ثقہ و معتمد راویوں کی ہر بات کو آنکھیں بند کرکے قبول نہیں کیا ، بلکہ اگر کہیں غلطی ثابت ہوئی تو کھلے دل سے اس کا اعتراف کیا ، ڈار صاحب نے جو مثال بیان کی ہے ، یہ اس کی واضح مثال ہے ، لیکن محدثین کا صدیوں سے تحقیق و تفتیش کے چند لغزشوں کو بیان کرنے کا مطلب ہے کہ دیگر روایات کے درست ہونے میں سب متفق ہیں ، اب منکرین حدیث کس اصول اور ضابطے کے تحت ان مسلمہ حقائق میں کیڑے نکالنے کے کوشش کر رہے ہیں ؟

محدثین نے تو کھوٹا کھڑا سب اصولوں کے تحت واضح کردیا ہے ، منکرین کا ’’ میٹھأ میٹھا ہپ ہپ ، کوڑا کوڑا تھو تھو ‘‘ کے علاوہ اور کون سا اصول ہے ؟

پھر ڈار صاحب نے ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی طرف منسوب ایک قول نقل کیا ہے کہ وہ ابو ہریرہ ، انس بن مالک ، سمرۃ بن جندب رضی اللہ عنہم سے روایت نہیں لیتے تھے ۔

ہم ڈار صاحب سے گزارش کرتے ہیں ، اس بات کو امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے ثابت کردیں ، چاہے محدثین کے اصولوں کے مطابق ، چاہے اپنی ’’ بد دماغی ‘‘ کےزور سے جس کو آپ ’’ عقل کے استعمال ‘‘ کا نام دیتے ہیں ۔

کسی بھی مستند مصدر میں یہ بات موجود نہیں ، منکرین حدیث کو حیا آنی چاہیے ، ایک طرف مستند مصادر ، اور ثقہ راویوں کی روایات پر چھری چلاتے ہیں ، اور دوسری طرف بے سند اور ادھر ادھر کی حکایات پر اعتماد شروع کردیتے ہیں ۔

حقیقت یہ ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ساتھ رہتے تھے ، اس لیے حضور صلی اللہ وسلم کی آپ کی بہت قدر کرتے تھے ، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں قوت حافظہ کی دعا بھی دی تھی ، اس لیے وہ اپنے قوی حافظہ کی بنیاد پر سب سے زیادہ روایات کے حافظ بنے ، اسی بنا پر صحابہ کرام علیہم الرضوان کا آپ کا ادب و احترام کیا کرتےتھے ، بلکہزید بن ثابت،ابو ایوب انصاری، ابن عباس،ابن عمر،عبداللہ بن زبیر،ابی بن کعب،جابر ،عائشہ،مسور بن مخرمہ،عقبہ بن حارث،ابو موسٰی اشعری ،انس بن مالک،سائب بن زید،ابو رافع مولیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جیسے جلیل القدر صحابہ کرام جن کی تعداد 28 کے قریب ہے نے آپ سے احادیث بھی روایت کی ہیں

بلکہ ابن سعد نے لکھا ہے کہ عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد مدینہ منورۃ میں جو فتویٰ میں مراجع انام تھے، ان میں ابن عباس رضی اللہ عنہ، ابن عمر رضی اللہ عنہ، ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ، ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ اور جابر رضی اللہ عنہ” وغيره صحابہ کرام شامل ہیں .

امام حاکم کے استاد نے کیا خوب کہا :

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی احادیث کو رد کرنے کے لئے وہ شخص گفتگو کرتا ہے جس کے دل کو اللہ تعالیٰ نے اندھا کردیا ہو اور وہ احادیث کا مطلب سمجھنے سے قاصر ہویا تو وہ شخص فرقہ جہمیہ معطلہ میں سے ہوگاجو اپنے نظریے کے خلاف ابو ہریرہ کی مرویات سن کر ان کو گالیاں دیگا اور ادنٰی درجے کے لوگوں کو یہ تاثر دینےکی کوشش کریگا کہ یہ حدیث قابل احتجاج نہیں ہیں۔

یا وہ شخص خارجی ہوگا جس کے نزدیک ساری امت محمدی واجب القتل ہے اور کسی خلیفہ اور امام کی اطاعت ضروری نہیں ایسا شخص جب اپنے گمرہانہ عقائد کے خلاف حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنی کی روایت کردہ احادیث کو دیکھے گا اور کسی دلیل اور برہان سے ان کا جواب نہ دے سکے گا تو فی الفور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو برا بھلا کہنے لگے گا۔

یا وہ شخص قدریہ(منکرین تقدیر)میں سے ہوگا جن کا اسلام اور اہل اسلام سے کچھ تعلق نہیں اور جو تقدیر کا عقیدہ رکھنے والے مسلمانوں کی تکفیر کرتے ہیں ایسا شخص جب اثبات تقدیر کے مسئلہ سے متعلق ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت کردہ احادیث دیکھے گا تو اپنی بر کفر عقیدے کی تائید و حمایت میں اسے کوئی دلیل نہ ملے گی تو وہ کہے گا کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی مرویات استناد واحتجاج کے قابل نہیں۔

یا وہ شخص جاہل ہوگا جو جہالت کے باوجود فقہ دانی کا مدعی ہے اس شخص نے جس امام کی تقلید کا قلادہ اپنی گردن میں ڈالا ہوا ہے جب اس کے خلاف ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی مرویات دیکھے گا تو ان کی تردید کرنے لگے گا اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو مطعون ٹھہرائے گا۔لیکن جب ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت کردہ احادیث اس کے امام کے مسلک سے ہم آہنگ ہونگی تو اس وقت وہ ان کو اپنے مخالفین کی تردید میں استعمال کریگا۔(المستدرک ج۳ص۵۰۶)

اللہ تعالی ہمیں حق بات سمجھے کی توفیق عطا فرمائے .



 
چوتھی اور آخری قسط :

قاری حنیف ڈار صاحب لکھتےہیں :

یا د رکھیں مدینے اور اس کے ارد گرد کے منافقین کی چیرہ دستیوں کا نشانہ تین چیزیں رھی ھیں ،،
1- قرآن کو مشکوک کرنا ،،
2- نبئ کریم ﷺ کی ذاتِ اقدس اور آپ ﷺ کے سیرت و کردار،اور آپﷺ کی عائلی زندگی کو نشانہ بنانا،
3- خلفائے راشدین یعنی جید صحابہؓ کو متنازعہ بنانا ‘‘​

ڈار صاحب اپنی ان معلومات کا ذریعہ بتادیں کہ عہد نبوی سے نقل شدہ احادیث تو ان تک پہنچتے پہنچتے کچھ سے کچھ ہوگئی ہیں ، اس طرح کی ’’ چیرہ دستیاں ‘‘ کس فرشتے نے ان تک مکمل احتیاط سے پہنچا دی ہیں ؟ مرزا قادیانی والا ٹیچی ٹیچی اب ان پر آنا شروع ہوگیا ہے ؟
دوسری بات جو قرآن کو مشکوک بناتا ہے ، جو توہین رسالت کا مرتکب ہوتا ہے ، جو خلفائے راشدین کی توہین کرتا ہے ، اس کے ساتھ جو مرضی معاملہ کریں ، لیکن اس الزام کا ثبوت کس بنیاد پر ہوگا ؟
کون فیصلہ کرے گا کہ فلاں نے ان جرائم کا ارتکاب کیا ہے ؟
صحابہ کرام ، اور تابعین عظام کی ہزاروں لاکھوں پر مشتمل تعداد جو براہ راست صحابہ کرام کے احوال سے واقف تھے ، ان کا نیکی ، تقوی ، صدق و امانت سب ان کے سامنے تھا ، انہوں نے ان پر اعتماد کیا ہے ، آخر اس اعتماد اور اس اتفاق اور توارث علمی اور تواتر معنوی کو کس بنیاد پر منکرین حدیث جھٹلا رہے ہیں ؟
صدیوں پہلے کی شخصیات پر حکم لگانے کا کون سا ذریعہ ہے منکرین حدیث کے پاس ؟
قرآن مجيد ؟ دکھادیں نام ان منافقین کے جنہوں نے قرآن کو مشکوک بنانے میں سعی کی ، تاکہ ان کی روایات کو رد کردیا جائے ؟ جنہوں نے توہین رسالت کا ارتکاب کیا گنوا دیں تاکہ ان سے لیے گئے دینی ذخیرے سے امت بچ جائے .
متواتر اخبار ؟ جی ایسے لوگوں کے نام متواتر اخبار میں ہی دکھا دیں ۔
آپ کی عقل ؟ لعنت بھیجتے ہیں ایسے بے عقلوں اور دیوانوں پر ، جو صحابہ کرام ، تابعین عظام اور علماء امت کو بلا کسی دلیل صرف عقل کی بنیاد پر منافق بنانے پر تلے ہوئے ہیں .
اگر تمہاری عقل کا وہ فیصلہ ہے تو ہماری عقل کا یہ فیصلہ ہے ۔
اگر تم احادیث رسول ، اور مقدس ہستیوں پر عقل کے تیر چلاتے ہو تو جوابا ہم بھی تمہیں منافق ، دین کے غدار ، ننگ ملت ودین کہنے میں حق بجانب ہیں .۔ اور یہی عقل کا تقاضا ہے کہ جن کو قرآن مجید نے ’’ خیر امت ‘‘ کا لقب دیا ہے ، ان تمام کی کوششوں کو کاشوں کو منافقت ، دجل فریب قرار دینے والا فاتر العقل ہی ہوسکتاہے ۔
ڈار صاحب مزید لکھتے ہیں :
’’عجیب بات ھے کہ امام بخاری تو اپنی کتاب مکمل کر کے گئے ھیں مگر محمد رسول اللہ اپنے اوپر نازل شدہ کتاب ، جو بار بار اپنے آپ کو کتاب کہتی ھے وہ نامکمل چھوڑ کر گئے ھیں ،، بکھرے ھوئے اوراق کو دنیا کی کس لغت میں کتاب کہا جاتا ھے ؟‘‘
منكرين حديث کی کوئی انوکھی لغت ہوگی ، ورنہ تو خود اللہ تعالی نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا :
قالوا لولا نزل عليه القرآن جملة واحدة كذلك لنثبت به فؤادك
کافروں کا یہ اعتراض ہے کہ یہ قرآن مجید دفعتا نازل کیوں نہیں ہوتا ؟ ہم اسے ایسے ہی نازل کریں گے تاکہ آپ کے دل کو تقویت دیتے رہیں .
اب قرآن مجید کی آیت سے یہ بات ثابت ہے کہ سارا قرآن مجید دفعتا نازل نہیں ہوا ، بلکہ تھوڑا تھوڑا کرکے نازل ہوا ہے ، لیکن اس کے باوجود قرآن مجید میں متعدد بار اسے ’’ کتاب ‘‘ سے متصف کیا گیا ہے ۔
اب جو اعتراض کتابت قرآن سے متعلق احادیث پر کیا جاتا ہے ، وہی بات تو خود قرآن مجید میں موجود ہے ؟
منکرین اب یہاں بھی بے شرمی کا مظاہرہ کریں گے یا پھر احادیث کے بارے میں عقلی گھوڑے کو چابک رسید کرکے اس کی حدود میں رکھیں گے ؟
امام بخاری کی مثال دیکر احادیث پر اعتراض ہے یا حکمت خداوندی پر زبان کھول رہے ہیں ؟
اگر اسی طرح اعتراض کرنا ہے تو پھر لائیں دکھائیں ، قرآن مجید کا وہ نسخہ جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا ، اور وہ نسخہ بعد والوں کی طرف منتقل ہوتا رہا ، مصحف عثمانی کی تاریخ ، کہاں رہا ، کہاں گیا ؟ یہ سب تفصیلات تو کتابوں میں ملتی ہیں ، لیکن ڈار صاحب کی عقل کے تقاضا کے مطابق اللہ تعالی نے جو نسخہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کودیا وہ کہاں گیا ؟
اسی طرح کرنا ہے تو اس سے بڑھ کر اعتراض کریں کہ انسان تو اپنی کتابوں کو خود لکھتے ، نقل کرتے ، کرواتے ہیں ، لیکن اللہ تعالی كے ہاتھ کی لکھی ہوئی کوئی کتاب ہمارے پاس نہیں ؟
ڈار صاحب عقل وا نصاف کا خون کرتے ہوئے مزید لکھتے ہیں :
’’ عجیب عجیب ڈائیلاگ مسلمان ھضم کر لیتے ھیں ” کہ عمرؓ نے کہا کہ اگر ” لقد جاءکم رسول من انفسکم ،عزیز علیہ ما عنتم ” والی آیتوں کے بارے میں کہا کہ اگر یہ تین آیتیں ھوتیں تو ھم ان کی الگ سورت بنا دیتے ،مگر چونکہ دو آیتیں ھیں لہذا ھم ان کی سورت نہیں بنا سکتے لہذا سب سے آخر نازل ھونے والی سورت کے آخر میں ان کو رکھ دو ” اس مکالمے سے ثابت یہ کیا گیا ھے کہ باقی کی سورتیں بھی ان حضرات نے اپنی مرضی سے بنائی اور مرتب کی ھیں ،،
حقیقت یہ ہے کہ جس بات کو لے کر یہ احادیث صحیحہ پر اعتراض کا راہ سیدھا کر رہے ہیں ، اسے خود اہل روایت نے ضعیف قرار دیا ہے ( ديکھیں مسند احمد ت احمد شاکر 2/ 340 ) ، یہ کہاں کا انصاف ہے کہ نمبر بڑھانے کے لیے ایسے الزام لگائے جائیں جو مد مقابل کے ہاں مسلم ہی نہیں ؟
پھر ضعیف حدیث پیش کرکے اس سے جو نتیجہ نکال کر دوسروں کے کندھوں پر ڈال دیا گیا ہے ، اہل علم اس سے بری ہیں ، کئی علما نے یہ روایت بیان کی ، لیکن کسی نے موقف نہیں اپنایا کہ عہد تدوین میں صحابہ قرآن مجید کی ترتیب میں من مانی کرتے رہے ۔ یہ سب ڈار صاحب کے اضافے ہیں زیب داستان کے لیے ۔
اس کے بعد ڈار صاحب نے لکھا ہے :
’’جبکہ حقیقت یہ ھے کہ خلفاء راشدینؓ نے بار بار صرف نامکمل قرآن ھی لوگوں سے جمع کیئے ھیں تا کہ دنیا کو قرآن کا کوئی غیر مکمل نسخہ نہ ملے ،، اور یہ کام صرف خلفاء راشدین ھی کر سکتے تھے کہ بزرو بازو اور شرطہ بھیج کر جید صحابہؓ سے ان کے نامکمل نسخے ضبط کریں ، جن کے حواشی پر ان حضرات نے کچھ احادیثِ قدسیہ تک لکھ رکھی تھی ، جنہیں کل کلاں قرآن سمجھا جا سکتا تھا ،،
پتہ نہیں یہ عبارت خود ان کی ہے یا کہیں سے نقل مارنے میں کمی بیشی ہو گئی ہے ، بہرصورت کم از کم ہمیں اس کا مطلب سمجھ نہیں آیا کہ ڈار صاحب اس سے کیا مراد لینا چاہتے ہیں ، باقی صحابہ کرام کے حفاظت قرآن کے متعلق رضائے الہی کے تقاضوں کے کس خوبی سے پورا کیا ہے ، اس کی تفصیل درج ذیل لنک پر دیکھی جاسکتی ہے :

ڈار صاحب لکھتے ہیں :
’’ نبی کریمﷺ کی طرف منسوب ایسے تمام واقعات جو کہ آپ کے شایان شان نہ ھوں جن میں گلیوں اور کھیتوں کھلیانوں میں شادیاں اور طلاقیں وغیرہ ھوں ناقابلِ التفات ھیں ،،، اسی طرح دیگر انبیاء کی توھین اور تنقیص پر مبنی احادیث پر بھی کوئی توجہ نہ دی جائے ایسی تمام حدیثیں جن میں توھمات کی تائید ،،
ہم بھی کہیں گے کہ اگر تو ’’ شایان شان نہ ہونا ‘‘ اور ’’ توہم پرستی کا حکم ‘‘ قرآن سے ثابت ہے ، یا اہل علم نے بہ دلائل اس کی وضاحت کی تو سر آنکھوں پر ، اور اگر یہ بات اہل مغرب اور اس کے لونڈوں نے طے کرنی ہے تو پھر جس سہولت سے یہ لوگ حدیث اور اہل حدیث پر بد زبانی کرتے ہیں ، ہم بھی اسی روانی سے اس ’’ مہان عقلوں ‘‘ پر لعنتوں کی برکھا برسنے کی دعا کرتے ہیں ۔
آخر میں جاتے جاتے نصحیت کرتے ہیں :
’’ نیز احادیث کو سلاد کی طرح لینے کی بجائے دوا کی طرح لینا چاھئے اور خوب غور فکر کر کے ، کتاب اللہ پر پیش کر کے پرکھ کر لینا چاھئے ،،
ہماری گزارش یہ ہے کہ جو احادیث صحیح ثابت ہو جائیں ، ان كو ’’ سلاد ‘‘ ، ’’ دوا ‘‘ کہنے کی بجائے ان کے سامنے سر تسلیم خم کردینا چأہیے ، غور و فکر کرنا ہے تو اس پر عمل کے لیے کریں ، ان کو زندگی کے لیے اوڑنا بچھونا بنائیں ، اگر آج کے ’’ جغت باز ‘‘ قرآن کی موجودگی میں قابل اعتناء ہوسکتے ہیں اور ان کی وضاحت کی ضرورت ہے ، تو جس ہستی پر قرآن نازل ہوا ، جنہوں نے قرآن کے احکامات کی عملی تفسیر دیکھی ، ان کی وضاحت و تشریح کی ہمیں زیادہ ضرورت ہے ، یہ نہیں ہوسکتا کہ قرآن مجید تو ہم تک خالی چیک کی طرح پہنچ جائے ، اور ہم اس کو اپنی من مرضی سے جو مرضی معانی دیتے رہیں ، اللہ تعالی نے الفاظ قرآن مجید کی حفاظت کے ساتھ ساتھ سنت نبوی ، آثار صحابہ کی شکل میں اس کی عملی تفسیر بھی ہم تک پہنچائی ہے ، لیکن اس میں ذرا امتحان کا پہلو رکھا ہے تاکہ پتہ چل جائے کہ کون شیطان اور اس کے چیلوں کی باتوں میں آتا ہے اور کون قرآن کی عملی تفسیر حاصل کرنے میں جدو جہد اور محنت کرتا ہے .
ہماری گزارش ہے کہ منکرین حدیث کی طرح سہولت پسند نہ بنیں ، محنت کرکے قرآن وسنت کو سمجھنے کی کوشش کریں ، یقینا اللہ تعالی محنت کرنے والوں کو ہی سیدھا رستہ دکھاتا ہے ۔
والذین جاهدوا فينا لنهدينهم سبلنا و إن الله لمع المحسنين

اس پوسٹ کو آگے نشر کریں