جاوید غامدی صاحب نے ٹی وی چینل ’’آج‘‘ کی بدولت گزشتہ دو تین سالوں میں کافی شہرت حاصل کی ہے۔ عوام الناس میں اُن کی ایک دوسری وجہ شہرت حدود آرڈیننس ۱۹۷۹ء کے خلاف مختلف ٹی وی پروگراموں میں اُن کے بیانات تھے، لیکن اِس سب سے قطع نظر لاہور میں اُن کا ایک دینی حلقہ ہے؛ ایک خاص تدریسی پروگرام ایک ادارے کے تحت چلتا ہے جس کو اُنھوں نے ’’المورد‘‘ کا ثقیل عربی نام دیا ہے، درحقیقت یہ بیروت سے شائع شدہ ایک لغت کا نام ہے، اِس ادارے سے ’’تجدّد پسندی‘‘ یا جدیدیت کے شیدائی نوجوان مرد و خواتین وابستہ ہیں۔
وہ اپنے آپ کو مولانا امین احسن اصلاحی مرحوم کا ’’خلیفہ‘‘ کہتے ہیں، اور خود اصلاحی صاحب مولانا حمید الدین فراہی مرحوم کے شاگرد رشید اور علمی خلیفہ تھے، اس طرح جاوید غامدی صاحب مولانا فراہی کے مکتب فکر کے نمائندہ ہیں۔ اور فراہی صاحب گو بڑے محقق اور ذہین و فطین عالم تھے، اور قرآنی علوم و تفسیر قرآن ان کا خاص موضوع تھا، لیکن فہم قرآن کے سلسلے میں اُن کا سارا دارو مدار جاھلی عربی شعر و شاعری پر تھا، سُنّت نبوی یا ذخیرۂ احادیث میں جو تفسیر قرآنی ہے، یا اُس ذیل میں صحابہؓ و تابعینؒ سے ہماری قدیم تفاسیر میں جو کچھ منقول ہے، اِس سب سے اُن کو کوئی سروکار نہ تھا، چونکہ مولانا فراہی صاحب کا یہ مسلک سلفِ صالحین اور بعد کے ائمہ تفسیر کے خلاف تھا، اِس لیے اُن کے تفسیری منہج کو اُمّت میں وہ مقبولیت حاصل نہ ہوئی جو قدیم و جدید دیگر مفسرین قرآن کو حاصل ہوئی۔ بہرحال اِس وقت ہمارا موضوع یہ نہیں بلکہ جاوید غامدی صاحب کی عربی زبان کی مہارت ہے، جس کے وہ بڑے طمطراق کے ساتھ مدّعی رہے ہیں۔ اگرچہ اب اُن کی عربی تحریریں اُن کے ماہنامے ’’اشراق‘‘ میں نہیں چھپتی ہیں۔ لیکن ماہنامہ ’’ساحل‘‘ کے ایڈیٹر صاحب نے ۱۹۸۲ء میں ’’الاعلام‘‘ میں شایع شدہ اُن کی بعض عربی نگارشات برائے تبصرہ بھیجی ہیں تاکہ اُن کی عربی دانی کی حقیقت منظر عام پر آسکے۔
لیکن اِس سے پہلے یہ عرض کرنا مناسب ہوگا کہ جاوید غامدی صاحب سے میری کوئی ذاتی شناسائی نہیں، کافی عرصہ پہلے غائبانہ تعارف، میرے مرحوم مجلہ ’’البیان‘‘ کے اشراق سے تبادلے کے سلسلے میں ہوا تھا، غالباً اِسی زمانے میں میں نے اُن کی عربی نسبتِ تسمیہ کے استفسار کے لیے ایک خط لکھا تھا، یہ ۱۹۸۹ء کی بات ہے کہ میں سال دو سال قبل ہی ریاض میں طویل قیام کے بعد کراچی واپس آیا تھا، ریاض کی اسلامک یونیورسٹی جامعۃ الامام محمد بن سعود میں میرے متعدد سعودی شاگردوں کے ناموں کے ساتھ ’’غامدی‘‘ کا لاحقہ تھا۔ یہ درحقیقت ایک عرب قبیلے ’’بنی غامد‘‘ کی طرف نسبت ہے، اور یہ قبیلہ سعودی عرب کے جنوب میں نجران کے علاقے میں آباد ہے، اِس قبیلے کے لوگ یمن میں بھی آباد ہیں، اور اِسی قبیلے سے وہ عورت ’’غامدیہ‘‘ تھی جس کو اُس کے دو ڈھائی سال مسلسل اعتراف زنا کی بنا پر اور پاک ہونے کے لیے اُس کے اجرائے حد رجم کے اصرار کے سبب سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں ماعزاسلمی کے ساتھ رجم (سنگساری کے ذریعہ موت) کی سزا دی گئی تھی۔ یہ قصّہ حدیث وقفہ کی کتابوں میں بہت مشہور ہے۔
میں نے سعودی عرب سے قریب العہد ہونے کے سبب خیال کیا کہ شاید یہ جاوید غامدی صاحب ’’بنی غامد‘‘ کی نسل کے کوئی عرب ہوں گے، جو پاکستان میں آباد ہوگئے اور اُردو میں لکھنے لگے ہیں۔ تحریری مختصر جواب جو آیا تھا اس سے بڑی مایوسی ہوئی تھی۔ موصوف نے لکھا تھا کہ درحقیقت ان کے ایام طفولت میں یمن (شاید سعودی عرب) سے کوئی عرب صاحب ان کے والد سے ملنے آئے تھے جن کے نام کا آخری حصہ ’’غامدی‘‘ تھا، جاوید صاحب کے والد صاحب کو یہ نام اچھا لگا اور انھوں نے اس کو اپنے بیٹے جاوید کے نام کا حصّہ بنا دیا۔ مجھے اس بات پر بہت تعجب ہوا تھا کیونکہ حدیث نبوی: ’’من انتسب الی غیرابیہ۔۔۔‘‘ میں اِس کی سخت ممانعت کی آئی ہے کہ کوئی شخص اپنے آباء و اجداد یا اپنے قبیلے کے سوا کسی دوسرے قبیلے یا آباء و اجداد کے ساتھ اپنی نسبت جوڑے۔ حدیث میں مذکورہ بالا جملے کے بعد ہے: وتولیٰ غیر موالیہ فعلیہ لعنۃ اللّٰہ و الملائکۃ و الناس اجمعین (جو اپنے باپ یعنی آبا و اجداد کے علاوہ کسی دوسرے باپ اور اپنے مالک یا آقا کے سوا کسی دوسرے آقا کے ساتھ اپنی نسبت جوڑے تو ایسے شخص پر اللہ اور فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہے (ابن ماجہ، کتاب الحدود، باب: ۳۶۶) اسی باب کی ایک دوسری حدیث میں ہے کہ ’’ایسے شخص پر جنت کی خوشبو حرام ہے‘‘، ہوسکتا ہے کہ جاوید صاحب کے والد اِس حدیث سے واقف نہ ہوں، لیکن یقین ہے کہ وہ خود تو اِس حدیث سے واقف ہوں گے، اور تعجب اس بات پر ہے کہ حصولِ علم کے بعد انھوں نے اِس نسبت کو اپنے نام کے ساتھ کیسے باقی رکھا؟ بہرحال یہ اُن کا ذاتی معاملہ ہے، لیکن مجھے اِس سے غلط فہمی ہوئی تھی اور ہوسکتا ہے کہ بعض دوسرے لوگوں کو بھی ہوتی ہو۔
اب جہاں تک اُن کی عربی نگارشات کا تعلّق ہے تو میرے سامنے ان کے مجلہ ’’الاعلام‘‘ میں شایع شدہ مندرجہ ذیل مضامین ہیں:
۱۔ شرح شواہد الفراہی (۱)
۲۔ شرح شواہد الفراہی (۲)
۳۔ تعال نقتبس من نور اسلافنا
۴۔ کتاب المفردات
ان مختصر عربی مضامین کے بارے میں پہلی بات تو یہ ہے کہ ان کے اندازِ بیان میں وہ عیب ہے جو عربی زبان میں ’’عجمہ‘‘ یعنی عجمیت کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، ساتھ ہی ان کی عربی تحریریں پڑھ کر یہ احساس ابھرتا ہے کہ یہ عربی زبان کے عصری اسلوب سے بے خبر ہیں۔ اُنھوں نے بیسویں صدی کے مشہور ادباء مصطفی صادق الرافعی، لطفی المنفلوطی، محمود احمد شاکر، طہ حسین، احمد حسن الزیات، احمد امین، احمد تیمور باشا وغیرہ مصری ادباء و علماء اور محمد کرد علی، خلیل مردم بک، بہجۃ البیطار، علی طنطاوی شامی اور باد و علماء اور اسی طرح عراق، سعودی عرب اور مراکش کے ادیبوں اور مصنفین کی تحریروں کو نہیں پڑھا ہے، ورنہ ان کی عربی کا وہ اسلوب نہ ہوتا جو مذکورہ بالا تحریروں میں ہے اور جس سے بوسیدگی کی بو آتی ہے۔ یا پھر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کسی طالب علم کے سامنے قدیم عربی کی کتابیں ہیں، وہ ان کے جملے، تشبیہات و استعارات اپنی تحریر میں منتقل کر رہا ہے۔
ہر زبان کا مختلف زمانوں کا اپنا اسلوب ہوتا ہے، اگر آج کوئی چوسر Chaucer شیکسپیئر وملٹن کے زبان میں انگریزی لکھنے لگے یا ولی دکھنی اور میر و سودا بلکہ میر امن کی طرح اُردو لکھے تو یہ مضحکہ خیز اور ناقابل قبول بات ہوگی۔ چلیے اس کو بھی تسلیم کرلیا جاتا مگر کیا کیا جائے کہ ان کی مذکورہ بالا تحریروں میں نحو یعنی قواعد زبان کی ایسی غلطیاں ہیں کہ کسی عرب کالج و اسکول کا لڑکا بھی نہیں کرے گا، بلکہ دارالعلوم ندوۃ العلماء (لکھنؤ) سے شایع ہونے والے عربی ماہنامے البعث الاسلامی میں لکھنے والے نوجوان ندوی بھی ایسی اغلاط نہیں کرتے، مثالیں آئندہ آئیں گی۔ یہ عربی مجلہ پچپن سال سے برابر نکل رہا ہے اور اگرچہ اس میں لکھنے والے زیادہ تر ندوی اساتذہ و طلبہ ہیں، لیکن ساتھ ہی ساتھ اس میں سعودی عرب مصر و شام و مغرب عربی کے اساتذہ بھی مضامین و مقالات لکھتے ہیں، کاش کہ اگر عربی مجلات سے جاوید احمد غامدی صاحب کا تعلق نہیں رہا ہے تو وہ اس ہندوستانی مجلے ہی کو زیر مطالعہ رکھتے تو اُن کو صحیح و دلآویز عربی لکھنا آجاتی، آج اگر کوئی امرؤ القیس کے انداز میں اپنی عربی نظموں میں عقنقل اور سجنجل جیسے متروک اور غیر عصری الفاظ استعمال کرے تو یہ ایک مضحکہ خیز بات ہوگی، عربی زبان کا اسلوب عہدِ اموی اور عہدِ عباسی سے آج تک برابر بدلتا رہا ہے۔ پانچویں و چھٹی صدی ہجری میں الحریری، القاسم بن علی (وفات ۵۱۵ھ) کے لغویانہ انداز نگارش اور مسّجع تحریر نے عربی زبان کو بڑا نقصان پہنچایا، یہ ایک طرح سے لسانی پہلوانی تھی، یہ اسلوب عہدِ نبوی، عہدِ اُموی اور عہدِ عباسی کی سادہ و دلآویز نثر سے بالکل جدا تھا، افسوس کہ چھٹی و ساتویں صدی ہجری اور بعد کے عہد انحطاط میں لوگ اس مصنوعی اسلوب کے اسیر ہوگئے جس میں تکلّف ہی تکلّف اور آورد ہی آورد تھی، اور برصغیر کے علماء و ادباء تو اس متکلّف اور مردہ اسلوبِ نگارش کے ایسے شیفتہ و شیدا بلکہ اسیر ہوئے کہ وہ اپنی تحریروں میں اس اسلوب سے باہر قدم ہی نہ رکھ سکے، عربی دنیا میں پہلے ابن خلدونؒ نے سجع کے ذریعہ عبارت آرائی چھوڑ کر سادہ و متین اسلوب اختیار کیا اور برِصغیر میں یہ امتیاز شاہ ولی اللہ صاحب کو حاصل ہوا، حجۃ اللہ البالغۃ کی نثر سادہ علمی نثر کی مثال ہے۔ مشہور ہے کہ انھوں نے مقامات حریری نہیں پڑھی تھی، اسی طرح تیرہ صدیوں میں برِصغیر کے مایہ ناز اور عرب دنیا میں مُسلم ادیب مرحوم مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ (علی میاں) نے مقامات حریری نہیں پڑھی تھی، اور غالباً ان کے رفقاء مولانا مسعود عالم ندوی مرحوم اور مولانا ناظم ندوی مرحوم نے بھی مقامات حریری درساً نہیں پڑھی تھی، اور راقم السطور نے بھی اپنے یک سالہ تعلیمی قیام ندوہ میں اسے نہیں پڑھا اور عرب ممالک، حجاز و شام جہاں بعد میں میری تعلیم کی تکمیل ہوئی وہاں تو مقامات حریری پڑھائی ہی نہیں جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اِس ناچیز کی عربی کتب جو بیشتر عرب ممالک میں چھپی ہیں، اِس مردہ و بے جان اور کرتبی اسلوب سے پاک ہیں۔
انیسویں صدی عیسوی کے اواخر اور بیسویں صدی کے اوائل میں حریری کے مسجّع و مقفّیٰ نثر کے خلاف بغاوت کا ظہور ہوا، اور علی باشا مبارک، محمد عبدہ، احمد تیمور باشا، احمد زکی پاشا وغیرہ کے اثر سے اس عربی زبان میں لکھنے کی ریت پڑی جو عباسی عہد میں رائج تھی۔ بیسویں صدی کے مصری و شامی اُدبا کے طفیل عربی زبان دوبارہ اپنے عروج پر پہنچ گئی، ندوہ کو چھوڑ کر برِصغیر کے بیشتر علماء و ادباء حریری کے مردہ و بوسیدہ اسلوب کے اسیر رہے۔ حریری کے اسلوب نگارش کو اس مردہ دلہن سے تشبیہہ دی گئی ہے جس کو غازہ و کاجل اور زر و جواہر کے زیورات سے آراستہ و پیراستہ کر دیا جائے۔
ص ۳۵: شرح شواہد لفراہی (۱) چھ چھوٹے صفحات کے اس مختصر مضمون میں (سطر۵) وہ لکھتے ہیں: ’’اذا أراد ان یبلغ ما تحتوی کتبہ ہذا‘‘ یہاں ’’تحتوی‘‘ کے بجائے تحوی بہتر ہوتا کہ اگرچہ تحتوی بھی اس معنی میں آتا ہے، لیکن عصرِ حاضر کے فصحاء زیادہ تر ’’تحوی‘‘ استعمال کرتے ہیں، اور اگر تحتوی لکھنا تھا تو اس کے لیے صلہ ’’علیٰ‘‘ ضروری تھا، عصری عربی زبان میں ایسا ہی ہے۔ یہاں ’’یبلغ بھی کوئی اچھی عربی نہیں، یدرک یا یستوعب بہتر ہوتا، الباحث المستہدی (اسی سطر میں) بوسیدہ عربی کی مثال ہے، ہونا چاہیے ’’الباحث المستطلع‘‘۔
اس کے فوراً بعد دوسری سطر میں ایک فاش نحوی غلطی ہے کہ موصوف نے ’’بوادٍ قفرٍ ذوعقبات‘‘ لکھا ہے ایک عام عربی داں جانتا ہے کہ یہاں ’’ذو عقبات‘‘ نہیں بلکہ ’’ذی عقبات‘‘ ہونا چاہیے کہ اس سے قبل موصوف یعنی ’’وادٍ‘‘ مجرور ہے۔ اس کے بعد ’’ضفاف‘‘ بھی غیر فصیح ہے، ضفاف (کنارا) نہر کے کنارے کے لیے عام طور پر استعمال ہوتا ہے۔ لغت کی کتابوں میں ’’ضفاف‘‘ بھی وادی کے کنارے کے لیے مل جائے گا، لیکن پہلے تو یہ بات کہ کسی زبان میں بھی نثر یا نظم لغت کی کتابیں دیکھ کر نہیں لکھی جاتی ہے، اور دوسرے یہ کہ وادی یعنی ’’مسیل الماء‘‘ جب پانی سے بھری ہو تو ضفاف کا لفظ استعمال ہوسکتا ہے، ورنہ ’’حافۃ الوادی‘‘ مستعمل ہے۔ اس کے بعد کی دو سطروں میں حقاف و تلاع بھی غیر مانوس و غیر مستعمل الفاظ ہیں، الرمال والتلال زیادہ مناسب ہوسکتے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مصنف اپنی لغوی مہارت کا اظہار کرنا چاہتا ہے اور اس کوشش میں وہ روانی تحریر سے محروم ہوگیا ہے اور یہ لفظ ’’خبوت‘‘ تو مصنف کے احساس کمتری کی بہت واضح مثال ہے۔ ’’خبوت‘‘، فعل خَبتَ سے ہے یعنی کشادہ و پست زمین۔ یہ لفظ متروک ہے، حتی کہ مشہور و مستند لغوی جوھری نے بھی اپنی صحاح میں اس مادۂ (خ ب ت ن) کے تحت صرف اخیات یعنی خشوع اور عاجزی وزاری کا لفظ دیا ہے، ’’اعمق الأغوار‘‘ موزوں و مقبول ہوتا۔ عربی زبان میں ’’اِخبات‘‘ ہی کا استعمال زیادہ ہے، اور یہی قرآن میں آیا ہے۔
’’اکثر ماتحجب‘‘ بھی غیر مانوس ہے، ’’کثیرا ماتحجب‘‘ ہونا چاہیے، اس کے بالمقابل قلیلاما ہے۔ قرآن میں ’’قیللاً ماتؤمنون‘‘۔
’’فیغوص علیہ‘‘ غلط ہے، یغوص (غوطہ لگانا) کا صلہ ’’فی‘‘ ہے، یغوص فیہ ہونا چاہیے۔ یغوص علیہ کا مفہوم ہوگا: اس کے اوپر غوطہ لگاتا ہے، جو بداھۃً غلط ہے، جب کہ یغوص فیہ کے معنی ہوں گے، اس میں یا اس کے اندر غوطہ لگاتا ہے۔
مستوی الرجاء بھی درست نہیں، مستوی الأمل ہونا چاہیے، عربی ادب کا ذوق رکھنے والے دونوں الفاظ کے موقع و محل کا فرق جان سکتے ہیں۔
’’منتقلاً من بطن الی بطن‘‘ غیر فصیح بلکہ مضحکہ خیز ہے، شاید مقصود ’’بطن الوادی‘‘ ہے، ویسے بطن قبیلے کی ایک شاخ کا نام بھی ہوتا ہے، لیکن ظاہر و عام معنی پیٹ کے ہیں۔ ہونا چاہیے: من وادٍ الی واد۔
قام شعوری ذاک خطیباً: متصنع اور مہمل ہے، اور بعد کی دو سطروں میں جاور الفوز، اقوم الی العزم اعقدہ بالثقۃ، فنھضت الی اقلامی، مہمل، رکیک اور تصنع و عجمۃ سے بھرپور جملے ہیں۔ کیا ایک قلم لکھنے کے لیے کافی نہ تھا کہ مصنف صاحب نے بہت سے قلم اٹھائے؟
ص ۲۶: الشاعر المشہور الاسلامی غلط ہے، صحیح الشاعر الاسلامی المشہور ہے۔ ’’استھلہا یعجب من انکار خولۃ‘‘ رکیک ہے، صحیح ’’استھلہا باستعجابہ من انکار خولۃ‘‘ ہوگا۔ پھر اذطعن فی السن اور ثم اذجرّبہ الکلام بھی رکیک جملے ہیں، اور مفہوم مبہم ہے، صحیح ہوگا: ’’لکونہ طعن فی السن‘‘ اور ’’ثم جرّبہ الکلام‘‘۔۔۔۔۔۔ ’’وشبہ الناقۃ‘‘ بھی بے ربطی عبارت کی خبر دیتا ہے، تشبیہہ الناقۃ بالحمار ہونا چاہیے، یا پھر جملہ یوں ہوگا وحیث جرّبہ الکلام الے ۔۔۔۔۔۔
غامدی صاحب: املاء کے اصولوں سے ناواقف
ووصف ناقتہ شبہ الناقۃ بحمار الوحش‘‘ اس طرح شبہ سے پہلے کاما(،) غلط ہے۔
الکلاء، غلط املاء ہے صحیح ’’الکلأ‘‘ ہے۔
عن ابناء ہم غلط املاء ہے، ہمزہ جب حالت جر میں ہوتا ہے تو ایک شوشے پر لکھا جاتا ہے ابناۂم اور حالت رفع میں (واؤ) ہو اور حالت نصب میں تنہا لکھا جاتا ہے، مختلف مقامات سے واضح ہوتا ہے کہ مصنف کو ہمزہ کے املاء کے یہ قواعد معلوم نہیں۔
خیومۃ جرم (ج پر فتحہ اور راء پر سکون: ایک چھوٹے قبیلے کا نام) خیومۃ معاجم اللغۃ میں تو ضرور آیا ہے جو خام یخیم خیماً و خیمانا کے ساتھ اس فعل کا ایک مصدر ہے لیکن اِس کا استعمال غیر فصیح ہے، بلکہ اِس موقع کے لیے فصیح لفظ نکوص یا جبن (فرار، بزدلی) ہے، یہ لغت دانی کا بے جا استعمال ہے۔ خیومۃ رجل یا خیومۃ قوم کوئی فصیح عرب لکھتا نہیں ہے۔
حیرت کا مقام ہے کہ مضمون نگار صاحب کو قدیم شاعر مرار بن منقذ کے جاہلی انداز کے شعر کی شرح کرتے ہوئے حرف ’’فی‘‘ اور ’’اعلیٰ‘‘ جیسے عام الفاظ کی شرح بھی کرنا پڑی! انھوں نے اس موقعہ پر درحقیقت جاہلی دور کے اشعار کے اپنے حفظ کا مظاہرہ کیا ہے، قدیم اشعار کو یاد کرلینا اور ان کو اگلنا زبان دانی نہیں ہے۔
’’المنصب کا لجذل‘‘ صحیح یہاں منصوب ہے، جیسا کہ ظاہر ہے۔
فمعنی الترویۃ‘‘۔ صحیح ہے، فمعناہ الترویۃ۔ ترویۃ اگرچہ لغت میں ہے، لیکن زیادہ مستعمل اور فصیح الرویۃ اور التروی ہے۔
قسم فلان الأمر اذا فکربہ، صحیح فکرفیہ ہے۔
ص۲۷۔ منتصباً فی مکان اعلیٰ من ہضبۃ مہمل ہے۔ صحیح ہے، ’منتصباً فی اعلیٰ مکان من ہضبۃ‘‘
زہیربن ابی سلمیٰ (ذھیر غلط چھپا ہے) کے ایک شعر کی شرح میں مصنف نے جو الفاظ استعمال کیے ہیں: الاجباب، فازعۃ، فاہوی لہا ان سے معلوم ہوتا ہے کہ موصوف کو تقعر اور اظہار زبان دانی کا بہت شوق ہے، یا پھر یہ کہ وہ سلیس و رواں عربی لکھنے سے قاصر ہیں اور پھر اپنے اس شوق تقعر میں بڑی ٹھوکریں کھاتے ہیں۔ اب یہاں وارد جملوں میں لفظ الاجباب (جمعُ جبّ) مہمل ہے، کیونکہ جُب ایسے کنویں کو کہتے ہیں جو بہت گہرا اور غیر تعمیر شدہ ہوتا ہے، یعنی کچا کنواں، عام مستعمل لفظ ’’البئر‘‘ (الآبار اس کی جمع) ہے، فازعۃ غلط ہے یہاں صحیح ’’فَزِعۃ‘‘ ہے، کیونکہ فازعۃ باب فزع یفزَع فزْعاً سے ہے، جس کے معنی بیزار ہونے اور نفرت کرنا ہیں، جو یہاں مقصود نہیں، بلکہ فاختہ کا ڈر کر اُڑ جانا مفہوم ہے، اور ڈرنے کے لیے یہ لفظ باب فزع یفَزع فَزعاً یعنی باب سمع سے ہے، اور اس سے صفۃ مشبہ (فاعل) فزِع ہے جس کا مؤنث فَزِعۃ ہے۔
اھویٰ لہا الصقر کی جگہ ہویٰ لہا الصقر ہونا چاہیے، کیونکہ ھویٰ کے معنی گرنا جھپٹنا ہیں اور أھویٰ کے معنی جعلہ یسقط الی اسفل (المعجم الوسیط) گرانا ہیں، اگرچہ قدیم معاجم اللغۃ میں اھویٰ اور ھویٰ ہم معنی لکھا ہے، لیکن فصیح ھویٰ ہی ہے، کیونکہ قرآن کریم میں یہی استعمال ہے، والنجم اذاھویٰ (سورۃ النجم)
ص۲۸: غلب الکلاب، غلب علی الکلاب ہونا چاہیے۔
النبت، حیرت ہے کہ زھیر بن ابی سلمیٰ کے شعر کی عربی زبان میں شرح لکھتے ہوئے مصنف کو النبت جیسے عام فہم لفظ کی شرح کرنا ضروری معلوم ہوا!
ص۲۹: الضاحی کی شرح میں فرمانا لاتظلہ شئی اس میں دو فاش اغلاط ہیں، ایک تو یہ کہ شئی مذکر ہے، اس کا فعل بھی مذکر ہونا چاہیے، پھر یہ کہ یہاں مطلوب ظل سے ’’یظللہ‘‘ ہے، یُظلّہ نہیں۔
الاغدرۃ و الحیضان، مصنف کے تقّعر و تعالم کی ایک اور مثال ہے، غدیر و حوض کی معروف جموع غدران و احواض چھوڑ کر یہ غیر معروف جمعیں لکھی ہیں۔
الحباک والجیکۃ للطریقہ التی توجد فی الثوب المنسوج۔۔۔ غلط اور غیر مفہوم ہے، الخطوط ہونا چاہیے۔ اس شعر میں پانی کی رعایت سے۔
زھیر بن ابی سلمیٰ (جاہلی شاعر) کے شعر کی شرح کے آخر میں موصوف فرماتے ہیں ’’(الشاہد فیہ) ان الحبک قدا ستعمل فی قولہ تعالی: و السماء ذات الحُبک اللطرائق التی توجد فی قطع السحاب المتجعد الشتوی المراد بالسماء۔
عبارت میں گنجلک ہے، مصنف سے بات سیدھے طریقے سے نہیں لکھی گئی، ہونا یوں چاہیے: ان الحُبک قدا ستعمل فی ۔۔۔۔۔۔ بمعنی الطرائق۔۔۔ پھر یہ کہ غامدی صاحب نے السحاب کی صفت المتجعد بتائی ہے۔ جو خلافِ واقعہ اور مضحکہ خیز ہے، جعودۃ اور تجّعد بالوں کے گھنگریالے پن کو کہتے ہیں۔ بادلوں میں بالوں کی طرح کا کوئی گھنگریالا پن نہیں ہوتا، البتہ آسمان میں تاروں کی جو ٹیڑھی سیدھی ترتیب ہے وہ، یا کہکشاؤں میں جو پیچیدگی نظر آتی ہے، اس کو بالوں کے تجعد سے تشبیہہ دی جاسکتی ہے۔ اسی لیے لسان العرب میں الحبک کے معنی طرائق النجوم دیے ہیں۔ پھر اس تجعد کو السحاب الشتوی (موسم سرما کے بادل) میں غامدی صاحب نے کہاں ملاحظہ فرمایا ہے؟ اور کیا السحاب الصیفی میں یہ تجعد نہیں ہوتا؟
مصنف کی یہ ساری شرح قرآن کے مصداق ’’ظلمات بعضہا فوق بعض‘‘ (النور) ہے۔ درحقیقت حُبُک کے ایک معنی بال کا گھنگریالا پن بھی ہے، امام طبریؒ نے جہاں حبک کے دیگر معانی لکھے ہیں، وہاں یہ بھی لکھا ہے: یقال لتکسیر الشعرۃ الجعدۃ: حبک‘‘۔
آیت قرآنی ’’والسماء ذات الحبکُ‘‘ کی جو تفسیر ہمارے قدیم عرب مفسرین امام طبریؒ ، زمخشری قرطبی اور ابن کثیر وغیرہ نے حضرت ابن عباسؓ اور الحسن البصری کے حوالے سے فرمائی ہے، یعنی ’’طرائق النجوم الحسنۃ‘‘ جن سے آسمان رات کو مزیّن دکھائی دیتا ہے، وہی صحیح ہے اور یہ تشریح اس اصول تفسیر ’’القرآن یفسّر بعضہ بعضاً (قرآن کے کچھ حصّوں کی قرآن کی دوسرے حصّے تفسیر کرتے ہیں) کے عین مطابق ہے۔ قرآن میں ہے: ولقد زینا السماء الدنیا بمصا بیح (الملک: آیت۵) ایک دوسری آیت میں ہے: افلم ینظر وا الی السماء فوقہم کیف بنینٰا ھاً وزینٰھاً (ق: آیت۶) انا زیّنا السماء الدنیا بزینۃ ن الکواکب (الصفت:۶)
اور اس کی تأیید معاجم اللغۃ اور خاص طور سے لسان العرب سے بھی ہوتی ہے، جس میں حبک السماء کے معنی طرائق اور والسماء ذات الحبک کے معنی طرائق النجوم دیے گئے ہیں، السحاب یا السحاب المتجعد (بادلوں) کا کہیں ذکر نہیں۔ اس ضمن میں اس طرف اشارہ کردوں کہ میرے ذہن میں اس جملۂ قرآنی کی تفسیر میں کہکشاؤں کی بات آئی تھی، اتفاق کی بات کہ یہی تفسیر طبری کے عظیم محقق اور مشہور مصری ماہر لغت شیخ محمود احمد شاکر نے بھی اس موقعہ پر اپنے تفسیری نوٹ میں لکھی ہے، وہ لکھتے ہیں:
’’والسماء ذات الحبک‘‘: ہی طرائق الضوء، تری فی السماء فی غیاب القمر وہی ماتسمی بالمَجرّۃ‘‘ المَجَرّۃ عربی میں اور انگریزی میں milky wayy کو کہتے ہیں۔ بلکہ یہ معنی ہم سب سے قبل امام قرطبیؒ نے بھی اپنی تفسیر میں تحریر کیے ہیں۔ ان کے دیے ہوئے سات معانی میں سے ایک یہ بھی ہے۔ ذات الحبک کے مفسرین اور اہلِ لغت نے دوسرے معانی بھی ذکر کیے ہیں، جو حسن تخلیق، متانت، زینت وغیرہ ہیں، اور ان کی تأیید دوسری آیات قرآنی سے ہوتی ہے، ویسے عربی میں ’’حبک‘‘ کے ایک معنی ہی سخت بندش کے ہیں، اس لیے ہاتھ پاؤں کا فطری طور پر جو مضبوط گھوڑا ہوتا ہے۔ اس کو ’’محبوک‘‘ کہتے ہیں، امرؤ القیس کا شعر ہے:
قد غدا یحملنی فی انفہ
لاحق الأیطل محبوک ممر
یہاں انف تیز رفتاری کے معنی میں ہے۔ (لسان العرب)
جاوید غامدی صاحب کے استاد کے استاد فراہی صاحب نے تو اس آیت قرآنی کی تفسیر کے لیے صرف ایک ہی جاہلی شعر لکھا ہے، لیکن اگر وہ تفسیر طبری، تفسیر زمخشری، تفسیر قرطبی وغیرہ دیکھیں گے تو انھیں ’’حُبک‘‘ کی تفسیر میں دوسرے جاہلی اشعار بھی نظر آئیں گے۔ اسی لیے یہ صرف انہی کا کارنامہ نہیں ہے کہ تفسیر قرآن کے لیے انھوں نے جاہلی اشعار کو بنیاد بنایا ہے، فرق صرف اتنا ہے کہ ہمارے یہ قدیم مفسرین صحابہ و تابعین کی تفاسیر کو پہلے ذکر کرتے اور ان پر اعتماد کرتے ہیں، اور بعد میں جاہلی اشعار پر۔ پھر یہ کہ انھوں نے زھیر کا یہ شعر بھی غلط لکھا ہے، موصوف نے جوشعر اپنے مضمون میں پیش کیا ہے اس کا پہلا مصرع یوں لکھا ہے:
’’مکلل باصول النبت تنسجہ‘‘ لیکن یہ مصرع تفسیر زمخشری، تفسیر قرطبی اور تفسیر اضواء البیان للشیخ محمد امین الشنقیطی میں: ’’مکلل باصول النجم تنسجہ‘‘ ہے۔
دوسری صدی ہجری کے مشہور ماہر لغت اور مفسر قرآن ابوعبیدۃ معمر بن المثنّٰی نے اپنی کتاب مجاز القرآن میں بھی النبت کی جگہ النجم لکھا ہے اور یہی جاہلی اسلوب شعر سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے، النجم کے ایک غیر معروف معنی نبت با نباتات کے بھی ہیں۔ بلکہ شاید مرحوم فراہی صاحب نے بھی یہاں ’’النجم‘‘ ہی لکھا ہوگا، جبھی غامدی صاحب نے اس لفظ کی تشریح زمین میں اُگنے والی مختلف نباتات سے کی ہے، جس پر میں نے اپنی حیرت کا بھی سابقہ صفحات میں اظہار کیا اور خیال کیا کہ موصوف نے اپنے مضمون شرح شواہد الفراہی میں غلط نقل کر دیا ہے۔ مولانا فراہی سے میرا یہ حسن ظن بعد میں اُن کی تفسیر سورۂ والذاریات دیکھنے پر غلط ثابت ہوا، اُنھوں نے بھی یہاں ’’اصول النبت‘‘ ہی لکھا ہے، جو غلط ہے۔
غامدی صاحب نے اپنے غرور علم (جس کی حقیقت واضح ہوچکی ہے اور مزید ظاہر ہوگی)میں ایک ایسا جملہ لکھ دیا ہے جس سے ہمارے اسلاف (صحابہ و تابعین) حضرت عبداللہؓ ابن عباس، حضرت حسن البصری، مجاہد، ضحاک وغیرہ کی تغلیط و تضحیک ہوتی ہے۔ موصوف فرماتے ہیں:واما الذین قالوا ان المراد بہ نجوم السماء فانہم لم یتتعبوا کلام العرب حق التتبع ولم یتأ ملو فیما یقتضی موقعہ ہنا، فلم یتبین لہم معناہ، فاخطا ؤا وجہ الصواب (اور جن لوگوں نے کہا کہ اس سے مراد آسمان کے ستارے ہیں تو یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے کلام عرب کی اچھی طرح چھان بین نہیں کی اور نہ اس پر غور کیا کہ یہاں کس بات کا موقع و محل ہے، اس لیے انھیں اس (ذات الحبک) کے معنی سمجھ میں نہیں آئے اور وہ غلطی کے مرتکب ہوئے)۔
معاذاللہ! آپ کو معلوم ہے کہ اس انسان نے جو عربی کے چند جملے بھی صحیح نہیں لکھ سکتا کس پر حملہ کیا ہے، امام حسن البصری و سعید بن جبیر جیسے تابعین اور طبری و زمخشری جیسے ادیب و ماہر لغت و مفسر قرآن پر (ملاحظہ ہو، اس آیتِ قرآنی کی تفسیر طبری اور زمخشری میں)، یہ وہ غرور علم ہے جو موصوف کو امین احسن اصلاحی مرحوم اور ان کو حمیدالدین فراہی صاحب سے ورثہ میں ملا تھا، اِس ’’لُغویّت‘‘ اور غرور کا اندازہ اِس بات سے ہوتا ہے کہ امین احسن اصلاحی صاحب کی وفات پر موصوف نے لکھا تھا کہ وہ بیسویں صدی کے امام تفسیر تھے، حالانکہ ان کی تفسیر ’’تدبر قرآن‘‘ میں نہ تو کوئی غیر معمولی تحقیق و استیعاب ہے اور نہ اس کو برصغیر میں وہ مقبولیت حاصل ہے جو مولانا مودودیؒ کی ’’تفہیم القرآن‘‘ کی ہے۔ اس انتہائی مبالغہ آمیز بیان سے تو جو حقیقت کے بالکل برعکس ہے مولانا فراہی کی تنقیص ہوتی ہے جن کے شعری شواہد کی وہ شرح لکھنے بیٹھے ہیں۔ مولانا فراہیؒ کے تفردات سے جتنا بھی اختلاف کیا جائے بہرحال وہ عربی داں اور مفسر قرآن تھے۔ عربی زبان میں صاحب تصانیف تھے۔ اصلاحی صاحب اس پایہ کے نہ تھے۔ السید رشید رضا المصری، مولانا مودودی، سید قطب اس صدی کے نامور ترین اور مقبول ترین مفسر تھے۔
جاوید غامدی صاحب نے بڑا ظلم یہ کیا ہے کہ انھوں نے آیت ’’والسماء ذات الحبک‘‘ کی شاذ تفسیر اپنے استاد کے استاد مولانا حمید الدین فراہی مرحوم کی تفسیر سورۂ ’’والذاریات‘‘ سے چرائی ہے۔ (ملاحظہ ہو مجموعۂ تفاسیر فراہی، ص۱۵۲) صرف اتنا ہے کہ انھوں نے ان جمہور مفسرین کی رائے سے اختلاف کرتے ہوئے جنھوں نے آیت بالا میں ’’السماء‘‘ کے معروف و متداول آسمان معنی لیے ہیں اور ذات الحبک کے یعنی ستاروں کی لائنیں یا المجَرَّۃ [Milky way] مراد لیے ہیں، ان کے لیے صرف اتنا کہا تھا کہ ’’ہمارے نزدیک ان کی رائے صحیح نہیں ہے‘‘۔ (حوالۂ بالا)
غامدی صاحب نے اپنے استادالاستاد سے ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے ان کی تجہیل و تغلیط ان الفاظ میں کی: فانہم لم یتتبعوا کلام العرب حق التتبع، ولم یتأملوا فیما یقتضی موقعہ ھنا، فلم یتبین لہم معناہ، فاخطاؤا وجہ الصواب‘‘ (کہ ان لوگوں نے کلامِ عرب میں پوری طرح جستجو نہیں کی، اور نہ اس پر غور کیا کہ یہاں اقتضائے محل کیا ہے اس لیے وہ صحیح معنی نہ پاسکے)۔
میں مزید عرض کروں گا کہ اس آیت قرآنی میں السماء سے بادل مراد لینا مولانا فراہیؒ کی کوئی اُپچ نہیں ہے، بلکہ قرطبی نے اپنی تفسیر میں یہ معنی صیغہ تمریض (یعنی شک) ’’قیل‘‘ کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ مولانا فراہی نے یہاں السماء کے معنی السحاب (بادل) اس لیے اختیار کیے ہیں جیسا کہ انھوں نے خود کہا ہے (حوالۂ بالا)، کہ سورۂ والذاریات کی ابتدائی چار آیات تمام کی تمام ہواؤں اور ان کی مختلف کیفیات و احوال کے لیے ہیں، جب کہ حضرت علیؓ سے منقول کردہ روایت میں ان چاروں آیات کے معانی مختلف ہیں، الذاریات: ہوائیں، الحاملات و قراً: بادل، فالجاریات یسراً: کشتیاں فالمقسات امراً: الملائکۃ۔ اب بتایا جائے کہ حضرت علیؓ سے بڑھ کر قرآن اور عربی زبان کا سمجھنے والا کون ہوسکتا ہے جب کہ انھوں نے یہ تفسیر پوچھنے والوں کو منبر پر کھڑے ہوکر اپنے اس دعویٰ کے ساتھ بتائی تھی: لایسأ لنی احد عن آیۃ من کتاب اللہ الا اخبرتہ (جو کوئی بھی مجھ سے قرآن کی کسی آیت کے بارے میں پوچھے گا میں اس کوبتا سکتا ہوں، تو عبداللہ بن الکواء نے ان آیاتِ بالا کے معانی آپ سے پوچھے اور حضرت علیؓ نے یہ معانی بتائے (تفسیر طبری، تفسیر آیات مذکورہ) اور یہی تفسیر اِن آیات کی حضرت عمرؓ، حضرت ابن عباسؓ کے شاگرد اور مشہور تابعی و مفسر قرآن مجاہدؒ سے بھی تفسیر طبری میں اسی مقام پر منقول ہے۔ فالحاملات و قراًo فالمقسات أمراً کے مذکورہ معانی حضرت عبداللہ ابن عباس سے مروی ہیں۔
فراہی صاحب کی تفسیر ماہرین لغت کے برعکس
ان آیات اور خاص طور پر چوتھی آیت ’’فالمقسمات امراً پر ہم بعد میں گفتگو کریں گے۔ یہاں ’’والسماء ذات الحبک‘‘ کے ضمن میں مولانا فراہی کی تفسیر معرض گفتگو میں آگئی، انھوں نے سورۂ ’’الذاریات‘‘ کی ان چار آیات کو مختلف ہواؤں کے معنی میں لیا ہے، اپنے مخصوص نظریۂ نظر قرآن کی بنیاد پر ہواؤں کی مناسبت سے انھوں نے ’’ذات الحبک‘‘ کے معنی بادلوں والا آسمان لیا ہے، لیکن ان کی یہ تفسیر ایک طرف تو جمہور مفسرین، طبری، زمخشریؒ ، رازیؒ ابن کثیرؒ اور قرطبیؒ وغیرہ کے خلاف ہے اور دوسری طرف ماہرینِ لغت صاحبِ لسان العرب، صاحبِ قاموس اور صاحب المفردات فی غریب القرآن وغیرہم کے بھی خلاف ہے، بلکہ راغب اصفہانی نے تو المفردات میں اس کے معنی صفائی کے ساتھ ’’ذات الطرائق المحسوسۃ بالنجوم و المجرۃ‘‘ (ستاروں اور کہکشاں کے محسوس راستوں والا آسمان) دیے ہیں۔
مزید برآں یہ کہ دوسری صدی ہجری کے مشہور مصنف مفسر اور ماہر لغت ابو عبیدۃ بن معمر ابن المثنی نے اپنی کتاب مجاز القرآن میں اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے زھیر بن ابی سلمیٰ کے اس شعر کے جس سے مولانا فراہی نے ’’حُبک‘‘ کے معنی بادلوں کی تہیں مراد لیے ہیں بالکل دوسرے معنی بتائے ہیں، اس نے حبک کے معنی ’’طرائق الماء‘‘ (پانی میں ہوا کے اثر سے پڑنے والی لہریں) لکھ کر استدلال میں زھیر کا وہی شعر:
مکلل باصول النجم تنسجہ
ریح حریق لضاحی ماۂ حُبُک
پیش کیا ہے۔ لہٰذا فراہی صاحب اور ان کے تتبع میں غامدی صاحب کا اس شعر سے اپنے مزعوم معنی (بادلوں کی تہوں یا گالوں) پر استدلال کرنا سراسر غلط ہے، زھیر کے شعر کے یہ معنی بہت واضح ہیں۔
پھر یہ کہ جب جناب غامدی کے مطابق زھیر اس شعر میں پانی کا وصف بیان کر رہا ہے۔ فاخذ یصف الماء (صفحہ ۳۸) تو پھر انھوں نے اس کا اطلاق بادلوں پر کیسے کرنا شروع کر دیا؟ وہ دوسری سطر میں (اللغۃ) کے تحت لکھتے ہیں: ’’المکلل الذی احدق بہ من جوانبہ کلہا ولذا استعمل صفۃ لضمام محفوف بقطع من السحاب‘‘۔ المکلل کی یہ بڑی عجیب اور مضحکہ خیز تشریح ہے، غمام تو خود ہی سحاب (یعنی بادل) کو کہتے ہیں۔ پھر بادل کا بادل سے محفوف (گھرا ہونا) مہمل بات ہے، صحیح وہ ہے جو مصری علامہ عبدالسلام ہارون نے اپنی کتاب ’’شرح القصائد السبع الطوال‘‘ میں لکھا ہے کہ یہاں سحاب سے مراد وہ بادل ہے جس پر بجلی کا تاج ہو، اور بجلی بادل کے لیے ایسی ہے جیسے تاج۔ ابو عبیدۃ معمر بن المثنی (وفات ۲۱۰ھ) کے اس قول کے بعد جو اوپر پیش کیا گیا کہ زہیر بن ابی سلمی کا شعر:
مکلل باصول النجم تنسج
ریح خریق لضاحی ماۂ حبک
پانی کے وصف میں ہے جس میں آبی پودے تاج کا منظر پیش کر رہے ہیں۔ غامدی صاحب کے ممدوح مولانا فراہی صاحب کا یہ قول نادرست ٹھہرتا ہے کہ یہ شعر بادلوں کے وصف میں ہے، اور خود غامدی صاحب کی اس شعر کی لمبی چوڑی تشریح کا رعبث ہے، ان کی داخلی نحوی اور لغوی غلطیاں تو علیحدہ بات ہے جن کی نشاندہی کر دی گئی ہے۔
الذاریات میں ستاروں کے ذکر کی حکمت
ایک اہم بات آیت کی تفسیر کے ضمن میں یہ ہے کہ اس آیت میں قسم کے بعد مقسم علیہ یعنی جس چیز کے لیے قسم کھائی گئی ہے اس پر غور کرنا ضروری ہے جس سے ہمیں مقسم بہ (یعنی جس کی قسم کھا گئی ہے) کا تعین کرنا آسان ہوجائے گا۔ قسم اس بات کو ثابت کرنے کے لیے کھائی گئی ہے کہ قیامت کے بارے میں تمھارے افکار پراگندہ ہیں: والسماء ذات الحبک o انکم لفی قول مختلف۔ ستاروں سے مزین آسمان اس کا گواہ ہے کہ تمہاری (قیامت کے بارے میں) باتیں بڑی مختلف ہیں۔ اس سے قبل کفار کے قیامت اور جزا و سزا کے انکار کی تردید کرتے ہوئے یہ بات کہہ دی گئی تھی کہ: وقوع حشر و نشر کا جو وعدہ تم سے کیا جا رہا ہے وہ سچ ہے، اور سزا و جزا یقیناًوقوع پذیر ہوں گی۔ ان ماتوعدون لصادق۔ وان الدین لواقع۔ (الذارایت:۵۔۶) لیکن کفار قیامت اور سزا و جزا کا صرف انکار ہی نہیں کرتے تھے، بلکہ اس بارے میں وہ بڑی مختلف اور اٹکل پچو باتیں کرتے تھے، کبھی کہتے تھے کہ قیامت ہوگی تو ہم ہی وہاں سرفراز ہوں گے کیونکہ ہم دنیا میں مال و دولت سے سرفراز ہیں، کبھی یہ کہتے تھے کہ اچھا یہ تو بتاؤ کہ یہ حشر و نشر اور جزا و سزا کب ہوگی؟ والسماء ذات الحبک کی قسم کے بعد چار چھوٹی چھوٹی آیتوں میں ان کے ان مختلف اقوال اور کیفیت کا ذکر کیا گیا ہے۔
اب اس مناسبت سے گواہ ایسی چیز ہی کو بنانا چاہیے جس میں اختلاف اور پراگندگی پائی جاتی ہو اور وہ چیز آسمان ہے جس میں ستارے بے ترتیبی کے ساتھ بکھرے ہوئے ہیں، ایسے ہی قیامت کے بارے میں ان کی باتیں بکھری ہوئی اور پراگندہ ہیں، جب کہ ان کی پراگندہ باتوں سے بادلوں کی کوئی مناسبت نہیں۔ جب سورج روشن ہو تو بادل روئی کے گالوں کی شکل میں نظر آتے ہیں، اور جب بادل گہرا اور گھٹا ٹوپ ہو تو وہ صرف ایک بہت بڑا سیاہ پردہ ہوتا ہے۔ یہ نہیں کہا جاسکتاکہ بادل بھی علیٰحدہ علیٰحدہ ٹکڑوں میں ہوتے ہیں، لیکن بادل اس طرح بکھرے ہوئے نظر نہیں آتے ستارے نظر آتے ہیں، پھر یہ کہ ستارے کچھ چھوٹے کچھ بڑے، کچھ بہت زیادہ چمکدار اور کچھ کم، کچھ بہت دور معلوم ہوتے ہیں اور کچھ قریب ، جبکہ بادلوں کی یہ صفت نہیں، مزیدیہ کہ وہ ہر موسم میں ہر وقت نہیں ہوتے۔ اس طرح جو اختلاف ستاروں میں نظر آتا ہے وہ بادلوں میں نہیں۔ اس لیے ’’إنکم لفی قول مختلف‘‘ کی مناسبت سے ذات الحُبُک کا ترجمہ ذات النجوم ہی زیادہ صحیح ہے اور یہی وہ مفہوم ہے جو جمہور مفسّرین سے منقول ہے۔
اس سے قبل غامدی صاحب نے جس شعر کی تشریح فرمائی ہے، وہ فراہی صاحب کی اسی سورۂ ’’الذاریات‘‘ کی آیت چار کی تفسیر کے ضمن میں وارد ہوا ہے۔افسوس کہ جاوید غامدی صاحب نے شرح شواہد الفراہی میں اس شعر کی تشریح کرتے ہوئے یہ نہیں بتایا کہ یہ شعر مولانا فراہی مرحوم نے آیت فالمقسمٰتِ أمرا کی تفسیر کے ضمن میں پیش کیا تھا، لیکن اس ساری تشریح کے آخر میں انھوں نے (الشاہدفیہ) کے تحت لکھا ہے کہ شعر زیر بحث:
ظلّ فی اعلیٰ یفاع جاذلا
یقسم الامر کقسم المؤتمر
میں ’’القسم معناہ التقدیر والترویۃ۔۔۔والتقسیم منہ بالمبالغۃ والتکثیر کمافی قولہ تعالیٰ: فالمقسمٰت امرا‘‘۔
اگر موصوف ابتداء ہی میں یہ فرمادیتے کہ یہ شعر مذکورہ آیت کے مزعوم معنی کے استدلال کے لیے فراہی صاحب نے پیش کیا ہے، تو پھر اس پر دوسرے انداز سے بحث ہوتی، اور بتایا جاتا کہ دوسرے مفسرین اور اہل لغت کے نزدیک ’’المقّسِمٰت امراً‘‘ کے کیا معنی ہیں۔ بہر حال اس بات کی وضاحت چونکہ ’’والسماء ذات الحبک‘‘ میں لفظ’’حُبک‘‘ کی تشریح کے وقت ہوئی اس لئے خود فراہی صاحب کی اس تفسیر پر بحث ضروری معلوم ہوتی ہے کہ اسی تفسیر کی صحت کے لیے یہ شعر پیش کیا گیا ہے۔
مولانا فراہی کی زبان دانی اور شعر فہمی صحابہ کبار سے زیادہ نہیں
حقیقت یہ ہے کہ مولانا فراہی مرحوم کی زبان دانی، شعر فہمی اور تدبر قرآن کے سلسلے میں ان کا نقطۂ انطلاق (Starting Point)جمہور مفسرین اور درایت کے خلاف ہے جمہور مفسرین کے نزدیک جس کی عقل بھی متقاضی ہے تفسیر قرآن کے لئے اس ذات گرامی کی تفسیر کی طرف رجوع ضروری ہے جس پر قرآن نازل ہو ا تھا اور اس کے بعد اُن صحابۂ کرام کی تفسیر کی طرف جو صاحب قرآن صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلیم قرآن حاصل کرچکے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت سے فیض یاب تھے اور جاہلی عربوں کے ذخیرۂ شعر سے بھی واقف تھے، کیونکہ وہ اس شعری ذخیرے سے قریب العہد تھے، اور سلیقۂ زبان ان کو ان عجمی زبان دانوں اور مفسرین سے بہت زیادہ تھا جو صدیوں بعد آئے۔ اور صحابۂ کرام کے بعد وہ تابعین ہیں جو ان فقہائے صحابہ عبداللہؓ بن مسعود، عبداللہؓ بن عباسؓ اورابیؓ بن کعب وغیرہ کے شاگرد تھے۔
اسی اصول پر ہمارے قدیم ترین صاحب تفسیر امام محمد بن جریر طبریؒ (م۳۱۰ھ) نے اپنی ضخیم تفسیر لکھی جسے تفسیر بالروایۃ کا نام دیا گیا، اس کو بے انتہا مقبولیت حاصل ہوئی اور ہے اور پھر تقریباً چار سو سال بعد اس ضخیم تفسیر کی تلخیص و تنقیح (تنقیح صرف احادیث پر کلام کی حیثیت سے) حافظِ حدیث ابنِ کثیرؒ نے آٹھویں صدی ہجری میں کی جو اپنے اختصار (۴ جلدیں)کی وجہ سے زیادہ مقبول و متداول ہے، یہاں یہ ملحوظ رہے کہ یہ دونوں مفسرین اور خاص طور پر امام طبری زبان دانی میں کسی ماہر لغت سے کم نہ تھے، ان کی تفسیر میں جہاں ارشادات نبوی اور اقوالِ صحابہؓ و تابعینؒ سے استناد ہے وہیں شعری استناد بھی ہے،حافظ ابن کثیرنے اختصار کی خاطر اپنی تفسیر میں بہت سے اشعار حذف کردیے، یہی ایک تیسری مشہور و متداول ضخیم تفسیر امام قرطبی اندلسی (م ۶۷۱ھ) کی تفسیر کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ انھوں نے اپنی تفسیر میں احکام القرآن پر خصوصی توجہ رکھنے (اس کا نام الجامع الاحکام القرآن ہے) کے باوجود بہت سے مقامات پر شعری ذخیرے سے استناد کیا ہے لیکن اولیت ان کے یہاں بھی اقوال صحابہؓ و تابعینؒ کو حاصل ہے اس کے ساتھ ہی ان مفسرین ماہرین لغت و نحو: فرّاء ابو عبیدۃ معمر بن المثنیٰ، ابن الاعرابی اور الزجاج وغیرہ کے اقوال کو بھی پیش نظر رکھا ہے۔
یہ ایک اصولی بات ہے جس کا فراہی صاحب مرحوم کے یہاں فقدان ہے غالباً اسی سبب سے ان کی چند سورتوں کی تفاسیر کو طبقۂ علماء میں قبولیت کی نظر سے نہیں دیکھا گیا اور نتیجۃً اس کو قبول عام حاصل نہیں ہوا۔
ایک دوسری اصولی بات کافقدان ان کی ان تفاسیر میں یہ نظر آتا ہے کہ وہ الفاظ قرآن کے متداول معانی کے بجائے ان کے غیر معروف و شاذ معانی اختیار کرتے ہیں، اور اس کے لیے ان کو اشعار عرب سے استناد پیش کرنا پڑتا ہے۔ جس میں بعض اوقات بہت تکلّف نظر آتا ہے۔ سورۃ الذاریات کی مذکورۂ بالا دو آیات کے کے سلسلے میں بھی یہی دونوں باتیں نظر آتی ہیں۔آیت نمبر(۷) پر تو ہم ان کی تفسیر پر کلام کرچکے ہیں، اور اب آیت نمبر: ۴ یعنی ’’فالمقسمٰت امراً‘‘ کے بارے میں عر ض ہے کہ مرحوم نے اس آیت کا ترجمہ لکھا ہے (یا یوں کہا جائے کہ امین احسن اصلاحی مرحوم نے ان کی عربی عبارت کا اردو ترجمہ کیا ہے): ’’پھر الگ الگ کرتی ہیں معاملے کو‘‘ ۔غالباً ہر شخص اس سے اتفاق کرے گا کہ یہ جملہ خواہ عربی میں ہو یا اردو میں خود ہی محتاج تفسیر ہے۔ سب سے بہتر ترجمہ وہ ہے جو حتی الامکان خود ہی تفسیر بھی ہو۔
تقسیم الامر اور قسم الموتمر ہم معنی نہیں ہیں
اہلِ لغت اور قدماء مفسرین کے خلاف اس آیت کا مفہوم اختیار کرنے کے لیے فراہی مرحوم کو اموی عہد کے ایک شاعر کے ایک شعر کا سہارا لیناپڑا اور اس کے لیے انھیں دور از کار لغوی تاویلات کرنا پڑیں۔
سب سے پہلی بات تو یہ کہ قرآن میں تقسیم الامر کا لفظ ہے جبکہ پیش کردہ شعری شاہد میں قسم الموتمر ہے، مولانا نے دونوں کو ہم معنی قرار دیا ہے حالانکہ اس کی تایئید کتب لغت سے نہیں ہوتی۔ لسان العرب میں قسم الامر قسماً کے معنی تو وہی دیے ہیں جو شعر میں ہیں، لیکن التقسیم کے معنی التفریق کے دیے ہیں اور اِس کی تایئید میں ابن منظور نے قِدر (ھانڈی) کے بارے میں یہ شعر بطور شاہد کے پیش کیا ہے۔
تُقسِّم ما فیہا، فان ھی قسَّمت
فذاک وان أکرت فعن اھلھا تکری
اب اس شعر میں تقسِّیم اور قسمت کے معنی کسی معاملے میں فرق وامتیاز کرنے اور غوروفکر کے نہیں ہوسکتے بلکہ اس کے معنی تقسیم کرنا اور بانٹنا ہی ہوسکتے ہیں، جو قدیم و مستند ماہر لغت ابو عمر و بن العلاء (م ۱۵۴ھ) سے اسی جگہ لسان العرب میں منقول ہیں۔ مصنف (فراہی مرحوم) اورشارح کا یہاں یہ کہنا کہ قسم مبالغے کے لیے ہے جیسے کسر کا مبالغہ کسّر (بہت زیادہ توڑنا) درست نہیں معلوم ہوتا، کیونکہ باب تفعیل ہمیشہ مبالغہ کے لیے نہیں آتا بلغ اور بلّغ، صدَق اور صدّق وغیرہ کی مثال سب کے سامنے ہے، باب تفعیل تعدیہ کے لیے بھی آتا ہے، اب بلغ کے معنی پہنچنا ہے جبکہ بلّغ کے معنی پہنچانا ہے اسی طرح صدق سچ کہنا اور صدّق کسی کو سچ ماننا ہے۔ پھر اسی موقعہ پر لسان العرب میں فلان جیّد القسم کے معنی جیّد الرأی (اچھی رائے رکھنے والا) دیے ہیں جبکہ رجل مقسَّم کے معنی دیے ہیں: مشترک الخواطر بالھموم (پریشانیوں کے باعث پر ا گندہ فکر)۔
پھر یہ کہ ائتمر جس سے شعر کا آخری لفظ المؤتمِر (ائتمر کا اسم فاعل، میم پر زیر) مشتق ہے، اس کے صرف وہی معنی نہیں جو مصنف نے اور اُن کے تتبع میں شارح غامدی صاحب نے دیے ہیں یعنی ’’خود رائے‘‘ (غالباً فراہی مرحوم نے عربی میں المستبد بالرأی لکھا تھا، جس کا ترجمہ اپنی جگہ صحیح ہے، لیکن لغت میں ائتمار کے معنی صرف استبداد بالرأی نہیں ہے بلکہ وہ صرف ایک معنی ہیں اور غیر معروف ائتمار جس سے فعل ائتمر اور اسم فاعل مؤتمر(میم پر زیر ) ہے اس کے معروف و متداول معنی باہم مشورہ کرنے کے ہیں۔قرآن میں اسی معنی میں دو جگہ آیاہے: اِن الملأ یأ تمرون بک لیتقلوک (القصص: ۲۰) اور دوسری جگہ وائتمر وابینکم بمعروف (الطلاق: ۶) اور یہی معنی قدیم مخضرم (جاہلی اسلامی) شاعر النمر بن تولب کے شعر میں ہے:
أری الناسَ قداحد ثواشیمۃ
وفی کل حادثۃ یوتَمر
اور یہی معنی امرؤالقیس کے شعر میں ہے:
احار بن عمر و کأ نّی خمیر
ویعدو علی المرء مایأ تمِر(۱)
ایک بڑی دلچسپ بات یہا ںیہ ہے کہ کہ مرار بن منقذ کے پیش کردہ شعر میں مولانا فراہی کے مطابق ’’گدھا گھانس کے مواقع کا جائزہ لے رہاہے‘‘ اور اس شعر کا جو نثری ترجمہ انھوں دیا ہے وہ یہ ہے: ’’وہ (گدھا) ٹیلے کی بلندی پر سر اٹھائے ہوئے ایک خود رائے کی طرح معاملے میں فرق و امتیاز کرتا رہا‘‘ اور یہی بات غامدی صاحب نے لکھی ہے ’’ظل الحمار ینظر فی امرہ و یفرق وجوہہ‘‘ سوال یہ ہے کہ گدھے میں کب سے اتنی عقل آگئی کہ وہ غور و فکر کرے اور معاملے کا جائزہ لے وہ بیچارہ تو اپنی بیوقوفی کے لیے ضرب المثل ہے۔ یہ بات دلچسپ بلکہ مضحکہ خیز اس لیے ہوگئی کہ مصنف اور شارح دونوں نے حمار الواحش (گورخر) کے معنی قصباتی گدھے کے لیے ہیں، جاہلی عربی قصائد میں اکثر حمار الوحش یا صرف الحمار کے شکار کا ذکر قصیدے کی ابتدا میں ہوتا ہے، اس سے مراد گورخر [Zebra]ہی ہوتا ہے۔
تفسیر میں سند اقوال صحابہ یا کلام جاہلی
’’المقِّسمٰت امراً‘‘کی تفسیر میں یہ تورہی بات لغت کی جس پر مولانا فراہی اور غامدی بہت اعتبارکرتے ہیں، لیکن ان مفسّرین کے یہاں جو اقوال صحابہؓ و تابعینؒ پر اعتماد کرتے ہیں، جیسے طبریؒ ، قرطبیؒ ، ابن کثیرؒ وغیرہ ان کے یہاں اِس دو لفظی آیت کی تفسیر وہی ہے جو سیّدنا علیؓ، سیّدنا عمرؓ اور سیّدنا عبداللہؓ ابن عباسؓ اور ان شاگردوں سے روایت ہے، ان صحابۂ کرام اور تابعین نے ’’فالمقسمٰت أمراً‘‘ کے معنی فرشتے دیے ہیں، جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مختلف امورِ دنیا پر مامور ہیں۔اور یہی معنی اس آیت کے دوسری صدی ہجری کے دو قدیم ماہرین لغت قرآن الفرّاء (م۲۰۷ھ) اور ابو عبیدہ معمر بن المثنّی (م ۲۱۰ھ) نے علی الترتیب اپنی کتابوں معانی القرآن (ج۳ ص ۸۲ طبعہ الھئیۃ العامۃ المصریۃ ۲۰۰۱ء) اور مجاز القرآن (ج ۲ ص ۲۲۳، طبقہ بیروت، ۱۹۸۱ء) میں دیے ہیں۔ فرّاء نے یہ معنی لکھتے ہوئے وضاحت کی ہے: الملائکۃ تاتی بامر مختلف: جبریل صاحب الغلظۃ ، ومیکائیل صاحب الرحمۃ، وملک الموت یاتی بالموت فتلک قسمۃ الامور (فرشتے مختلف کام کرتے ہیں، جبریل سختی کرنے والے، میکائیکل رحمۃ کرنے والے اور فرشتۂ موت (عزرائیل) روح قبض کرنے والے ہیں) یہ ملحوظ رہے کہ ان دونوں ماہرین لغت نے یہاں یہ معنی کسی صحابی یا تابعی سے نقل نہیں کیے ہیں۔ مصر کی مجمع اللغۃ العربیۃ [Arab Academy] کی طرف سے دو جلدوں میں جو ضخیم معجم الفاظ القران الکریم (قرآنی الفاظ کی لغت) شایع ہوئی (۱۹۷۰ء القاھرۃ) ہے اس میں بھی المقسِمٰت أمرا کے معنی یہی دیے ہیں: جماعۃ الملائکۃ الذین تقسِمون الاشیاء او الامور بین الناس باذن اللّہ‘‘ ساتھ ہی صیغۂ تمریض (مشکوک وضعیف) میں یہ بھی لکھ دیا ہے، ’’وقیل: ہی الریاح تقسم الامطار بتصریف السحاب‘‘۔
اب اگر مولانا فراہی کو یہی ضعیف معنی پسند تھے اور یہی ان کے معتقد و مقلد غامدی صاحب کو پسند ہیں تو ہوا کریں، جمہور عرب ماہرین لغت مفسرین کے بر خلاف اسی کمزور تفسیر کو صحیح کہہ کر پیش نہ کریں،اور عربی الفاظ کی صرف ایک شعر کی بنیاد پر دور از کا ر تاویلات نہ کریں۔ علم ایک میراث مشترک ہے، فضلائے سابقین اور خاص طور پر تفسیر قرآن میں صحابہ کے اقوال سے مستفید ہو نا نقص علم نہیں۔ مولانا فراہی کے مکتبۂ فکر کی یہی کمزوری ہے جس میں جاوید احمد غامدی صاحب بھی گرفتار ہیں۔ یہی استبداد بالرای ہے۔
ایک قدیم عربی شعر کی شرح کرتے ہوئے، اپنے حفظ کردہ دوسرے قدیم جاہلی وغیرجاہلی اشعار پیش کردینا علم نہیں تعالم یعنی اظہار علمیت ہے۔ مولانا عبدالعزیز میمن مرحوم اور مولانا محمد سورتی مرحوم کو مولانا فراہی مرحوم سے کہیں زیادہ جاہلی وغیر جاہلی قدیم عربی اشعار یاد تھے، لیکن انھوں نے صرف ان اشعار کی بنیادپر تفسیر قرآن نہیں کی۔ القصائد السبع المعلقات یاد کرلینے سے عربی زبان نہیں آجاتی، یہی کمزوری ہمارے عربی مدارس کی ہے کہ وہاں ان قصائد (جن کو وہ غلط نام سبعۂ معلقہ دیتے ہیں) کو حفظ کرنے والے تو کافی مل جائیں گے لیکن صحیح اور اچھی عربی نثر لکھنے والا شاذو نادر ہی ملے گا اور یہ ملکہ قرآن کو ادبی نقطۂ نظر سے پڑھنے اور کثرت سے عباسی عہد اور جدید دور کی عربی نثر کے مطالعہ سے پیدا ہوتا ہے۔
میں لکھنے تو جاوید غامدی صاحب کی عربی کے بارے میں بیٹھا تھا، بات ان کے استاد کے استاد مولانا فراہی کی تفسیر پر پہنچ گئی اور اسی پر دو تین صفحے ہوگئے لیکن ان کے طریقۂ تفسیر اور اس کے کمزور پہلوؤں پر، ان شاء اللہ، پھر کبھی لکھوں گا جب ان کی اصلی عربی تحاریر مہیا ہو جائیں گی۔
جاوید غامدی صاحب کی جو عربی نگار شات مجھے مہیا کی گئی ہیں، وہ ان کے مجلّہ ’’الاعلام‘‘ کے قدیم اعداد سے ہیں افسوس کہ ان کو غلط ترتیب دیا گیا ہے، اب میرے سامنے سورۃ الذاریات کی پہلی آیت پر پیش کردہ شعری شاہد کی شرح موصوف کے قلم سے ہے۔
مولانا فراہی نے لفظ قرآنی’’ ذرواً‘‘ کے معنی بیان کرنے کے لیے اعشی بکربن وائل کا شعر پیش کرکے اس پر صرف دو سطریں بطور تشریح لکھی ہیں۔ مولانا فراہی نے تو تفسیر سورۂ الذاریات عربی زبان میں اہل علم کے لیے لکھی تھی۔ معلوم تھا کہ الفاظ: شبہ، حریق، الیبس الریح کے معانی سب جانتے ہیں اور یہ کہ فاء (ف) تعقیب کے لیے اور ’’باء‘‘ تعدیۃ الفعل کے لیے اور ’’لام‘‘ عہد کے لیے ہوتاہے۔ یہ تو عربی زبان کے متوسط طلبہ بھی جانتے ہیں اس لیے انھوں نے ان عام عربی الفاظ اور حروف کی تشریح نہیں کی تھی، لیکن غامدی صاحب نے مولانا فراہی کے قاری کو بہت ضعیف العلم سمجھا اور ان عام فہم الفاظ و حروف کی شرح فرمانے لگے اور ان الفاظ و حروف کی تشریح میں جاہلی شعراء کے نو اشعار پیش کردیے جو خود محتاجِ تشریح ہیں، اب بتایا جائے اس کو ’’تعالم‘‘ (اظہار ہمہ دانی) نہ کہا جائے تو کیا کہا جائے؟
قدیم کتابوں کے عربی جملوں سے نثر نگاری کا شوق
پھر طرفہ تماشا یہ کہ وہ ا ن عام الفاظ کی تشریح کرتے ہوئے، عربی کے وہ نامانوس اور غیر مستعمل الفاظ استعمال کرتے ہیں۔ جو تشریح کردہ الفاظ سے بہت زیادہ مشکل ہیں، مثلاً وہ ’’ریح الشمال‘‘ (شمالی ہوا) کی تشریح میں فرماتے ہیں:
’’قرت الایام وغامت السماء۔۔۔وألقت فی صوادھا ثلجا یبرک النیوب بالجعجاع‘‘۔ اب قرّت اور غامت کو چھوڑیے کہ شاید ذکی اور لایق طلبہ ان کے معانی جانتے ہوں، اگرچہ بہر حال یہ ’’شبہ‘‘، ’’حریق‘‘ اور ’’ریح‘‘ سے زیادہ مشکل الفاظ ہیں، لیکن خدارا یہ تو بتایا جائے کہ یہ صواد، نیوب اور جعجاع کون سے عام فہم اور مستعمل الفاظ ہیں جو جناب غامدی صاحب نے ریح الشمال کی تشریح میں استعمال کیے ہیں؟ یہ کیا؟ آسان الفاظ کی شرح مشکل الفاظ سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے کبھی جو مقامات حریری پڑھی ہوگی اس کے کچھ الفاظ ان کے ذہن میں شرح شواہد الفراہی لکھتے ہوئے چپکے ہوئے تھے، شاید اب وہ خود ہی ان الفاظ کے معانی بغیر لغت دیکھے ہوئے نہیں بتاسکیں۔ پھر یہ کہ انہوں نے ایک عام فہم لفظ ’’ریح‘‘ جملے میں یہاں استعمال کیا ہے تو اس میں ٹھوکر کھائی ہے کہ ’’وکثرت الریح‘‘ لکھا ہے، کثرت یہاں مہمل ہے اشتدت ہونا چاہیے، محل بھی اسی کا ہے کہ ذکر شمال کی شدید ہواؤں کا ہورہا ہے۔ نتیجہ اس سے یہ بر آمد ہوتا ہے کہ موصوف کو بعض قدیم کتابوں سے عربی کے جو جملے یاد ہیں وہ تو صحیح لکھ دیتے ہیں اگرچہ وہ خود محتاج تشریح ہو تے ہیں اور جہاں وہ خود خامہ فرسائی فرماتے ہیں تو وہاں ٹھوکر کھاتے ہیں۔ اس کی مثالیں گذشتہ صفحات میں گذر چکی ہیں، مزید اور سامنے آئیں گے، پہلے میں ان کے حفظ کردہ مشکل جملوں اور غیر مانوس الفاظ کی شرح کردوں۔
۱۔ قرّت الایام: دنوں کا ٹھنڈا ہوجانا، ’بَردَت‘‘ عام اور مستعمل لفظ ہے، اس کا مصدر قُرّوقِرّۃ ہے، لیکن قرّت کے عام مستعمل معنی ٹہرنے کے ہیں، اور یہ استقرت کا ہم معنی ہے، مگر اس صورت میں اس کا مصدر قرار ہے۔ کہا جائے گا کہ ’’قرّت المراۃ فی بینھا‘‘ یہاں بھی استقرت زیادہ فصیح اور مانوس ہے۔
۲۔ غامت السماء: انتشرت السحب فی السماء تشریح کے لیے زیادہ عام فہم ہے۔
۳۔ صواد: صادیۃ کی جمع ہے، معنی: بہت زیادہ پیاسی، پُبرک (ی پر ضمہ) اونٹ کو بٹھانا، صوادی کھجور کے درختوں کو بھی کہتے ہیں۔ اس کا واحد بھی صادیۃ ہے۔
۴۔ النیوب: سن رسیدہ اونٹنیاں۔
۵۔ الجعجاع: تنگ و دشوار جگہ یا خراب موسم
اس جملے میں صرف دو لفظ القت اور الثلج عام فہم اور کثیر الاستعمال ہیں، باقی چار الفاظ غیر مانوس اور خاص طور پر صواد، نیوب اور جعجاع لغت کے الفاظ ہیں یا قدیم جاہلی۔ اور زبان نہ تو لغت کانام ہے اور نہ جاہلی اشعار کا۔ عام عربی داں قاری کے لیے اس ثقیل و غیر فصیح جملے کا مطلب ہوگا کہ: ’’سخت ٹھنڈی ہوا نے بلند و بالا کھجور کے درختوں پر سے اتنی برف گرائی کہ اونٹنیاں تنگ و غیر ہموار جگہوں پر بیٹھنے پر مجبور ہوگئیں۔‘‘ معلوم ہوتا ہے کہ غامدی صاحب سلیس و صحیح عربی میں ایک جملہ لکھنے پر قادر نہیں اور ثقیل و غیر مانوس الفاظ کا سہارا لے کر وہ قاری پر اپنی عربی زبان دانی کا رعب ڈالنا چاہتے ہیں، لیکن یہ ریح الشمال کی تشریح کے سیاق میں انتہائی مضحکہ خیز اور لایق افسوس بھی ہے۔
مہمل، غلط در غلط عربی جملے
اسی ریح الشمال کی تشریح میں وہ آگے چل کر فرماتے ہیں، الریح العاصفۃ الشدیدۃ المرور‘‘ اس میں الشدیدۃ المردر تو قطعاً غلط ہے، اس لیے کہ ہوا کے چلنے کے لیے عربی زبان میں ھبوب کا لفظ استعمال کیاجاتا ہے، مرور نہیں،مزید یہ کہ یہ جملہ ہی مہمل ہے، جاننے والے جانتے ہیں کہ عاصفہ تو کہتے ہی ہیں الریح الشدیدۃ الھبوب (سخت تیز ہوا: آندھی) کو، پھر یہ باقی الفاظ اسی کے ساتھ کیوں پروئے گئے ہیں؟
جو بات یہاں قاری کو بتانے کی تھی وہ یہ تھی کہ اگرچہ شاعر نے شعر میں ’’ریح الشمال‘‘ استعمال کیا ہے، لیکن صرف ’’شمال‘‘ بھی شمالی ٹھنڈی ہوا کہ کہا جاتا ہے۔
اگلی سطر میں موصوف اپنی شرح میں ایسے الفاظ استعمال کرتے ہیں جو خود محتاج شرح ہیں، یہ دو لفظ ہیں:
’’سہوک الریح‘‘: اگر جاوید غامدی صاحب یا کوئی اور القاموس دیکھے گا تو اس کو معلوم ہوگا کہ اس کے بنیادی معنی پسینے کی بدبو اور سڑے ہوئے گوشت کی بدبو ہے۔ اس لفظ کے اور بھی بہت سے معانی ہیں، ان میں سے ایک سہوک کے معنی سخت آندھی کے بھی ہیں،اور ریح ساہکۃ بھی آتا ہے، لیکن عام فہم اور فصیح لفظ ہوا کہ چلنے کے لیے ’’ھبوب‘‘ ہی ہے۔
’’المحل‘‘ بھی مشکل الفاظ کی شرح میں کسی طرح مناسب نہیں، فصیح اور عام عربی لفظ قحط ہے۔
’’از جاء ھا‘‘ یہ قرآنی لفظ ہے،خود محتاج شرح ہے، اس کی جگہ عام فہم لفظ سوق (س پر فتحہ) ہے، قرآن میں بضاعۃ مز جاۃ بھی ہے یعنی متاع قلیل۔ افسوس ناک بات یہ کہ غامدی صاحب نے اس لفظ کا املاء بھی اس جگہ غلط لکھا ہے چونکہ ا ز جاء یہاں مجرور ہے۔اس لئے ہمزہ منفصلہ لکھنا درست نہیں بلکہ ا س کو ایک شوشہ پر اس طرح (ازجاءھا) لکھنا چاہیے۔ ھمزہ لکھنے کی یہ غلطی میں نے غامدی صاحب کی تحریر میں دوسری جگہوں پر دیکھی ہے۔ تنہا ھمزہ حالت نصب (مفعولی) میں لکھا جاتا ہے۔اور حالت رفع میں (فاعلی) یہ واو پر ہوتاہے۔ غامدی صاحب کو وسط کلمہ میں ہمزہ لکھنے کا قاعدہ دیکھنا چاہیے۔
ایک طرف تو موصوف نیوب، جعجاع ، سہوک، محل، از جاء جیسے ثقیل الفاظ استعمال کررہے اور دوسری طرف مصیبۃ جیسے عام لفظ کی شرح فرمارہے اور اس کی غیر فصیح جمع ’’مصیبات‘‘ لکھ رہے ہیں۔ فصحاء کی زبان پرمصائب کا لفظ ہے، دوسری سطر میں اذکربعضاً کے بجائے بعضھا ہونا چاہیے۔
’’شدۃ القر‘‘: القّر (تشدید کے ساتھ)تو خود ہی محتاج شرح ہے،شدۃ البرد ہونا چاہیے، اسی کو تعالم کہتے ہیں، غامدی صاحب حریری کی طرح کوئی مقامہ تو نہیں لکھ رہے ہیں۔
پیش کردہ نو اشعار کاموضوع سے کوئی تعلق نہیں
’’تعالم‘‘ کی ایک اور واضح مثال جاہلی شعراء کے دس شعر ہیں جو موصوف نے اسی صفحہ (۴۲)پیش کیے ہیں جن میں سے ’’ریح الشمال‘‘ (شمالی سخت ٹھنڈ ہی ہوا) سے کوئی تعلق نہیں، جس کی شرح میں جناب نے ۹ سطریں تحریر کی ہیں، یہ تمام اشعار جاہلی عربوں کی جو دو سخا اور مہمانداری سے متعلق ہیں، اور سب میں اتنے مشکل الفاظ ہیں کہ ایک عام قاری جس کے لیے یہ شرح الشواہد لکھی گئی ہے، لغت کی کتابیں کھنگا لنے کا محتاج ہے۔ اور پھر یہ کہ جاہلی عربوں کی یہ مہمان داری صرف ٹھنڈی ہواؤ ں سے مصائب کے موقع پر نہیں وہ تو ہر حال میں مہمان داری اور کھانا کھلانے کے لیے مشہور تھے۔
جاہلی اشعار و قصائد کا حفظ کرلینا زبان دانی کی علامت نہیں
’’کلاء‘‘: اس لفظ کا یہ املاء غلط ہے، صحیح کلأ (ھمزہ الف کے اوپر) ہے، جیسے لفظ خطأ ہے اور خطّاء (بہت زیادہ غلطیاں کرنے والا) کے آخر میں ھمزہ ہے۔آخر میں عرض ہے کہ سورۃ الذاریات کے قرآنی لفظ ’’ذرواً‘‘ کی شرح میں مفسر فراہی مرحوم نے ایک شعر لکھا تھا اور دوسطروں میں لفظ کی مناسب اور اطمینان بخش شرح کردی تھی، غامدی صاحب نے اس شعر کی شرح میں اپنی علمیت کے اظہار کے لئے ۱۳ اس سے زیادہ مشکل شعر لکھ ڈالے جن کا موضوع سے کوئی تعلق نہ تھا۔میں ان سے پھر عرض کرو ں گا کہ جاہلی اشعار وقصائد حفظ کر لینا عربی زبان دانی کی علامت نہیں ، عباسی دور میں عربی نثر کو جاہلی اشعار نے نہیں بلکہ قرآن نے اپنی معراج پر پہنچادیا تھا جو جاحظ، ابن قتیبہ، المبرد، ابوالفرج الاصفہانی (صاحب الاغانی) اور ابن عبدرّبہ اور ابو حیان توحیدی وغیرہ کے منثور ادب میں اوج کمال پر ہے۔جاہلی ادب (شعر) کے تو سینکڑوں الفاظ متروک ہوچکے ہیں، لیکن قرآن کی شگفتہ و دلآویز و اثر آفر ین زبان آج بھی زندہ ہے، سوائے معدودے چند: سیارۃ (بمعنی قافلہ) جاریہ (بمعنی کشتی، بحری جہاز) غلام (بمعنی ولد) وغیرہ الفاظ کے۔ عربی زبان کا شستہ اور شگفتہ ذوق اور سلیقہ رکھنے والا قرآن کی الہامی زبان سے متاثر ہو کر ایسی نثر لکھ سکتا ہے جسے پڑھ کر روح وجد میں آجائے عصر حاضر میں یہ سعادت ’’فی ظلال القرآن‘‘ کے مصنف سید قطب شہید کو حاصل ہوئی ہے۔ میر ا جاوید غامدی صاحب کو مخلصانہ مشورہ ہے کہ عربی زبان سے ان کو اگر اب بھی لگاؤ ہے تو یہ تفسیر پڑھیں جو داعیانہ مزاج اور ادب کے قلم سے لکھی گئی ہے، وہ دیکھیں گے کہ قرآن کی فیض رسانی سے کیسی معجزانہ نثر وجود میں آئی ہے۔ یہ بیسویں صدی کی بلا شبہ معجزاتی نثر ہے۔ سید قطب اس میں مصطفی صادق الرافعی، احمد حسن الزیات اور طہ حسین جیسے اساطینِ ادب سے آگے نکل گئے ہیں۔ یہ سب کچھ امرؤالقیس، نابغۃ ذبیانی، زھیربن ابی سلمی اور عنترہ بن شداد وغیرہ جاہلی شعرا کے اثر سے نہیں ہو۔ ان قصیدوں کو پڑھتے رہنے اور حفظ کرنے والا ان میں اسیر ہو کر رہ جاتا ہے۔ وہ شگفتہ و دلآویز عصری نثر لکھ ہی نہیں سکتا، یہی غامدی صاحب کا معاملہ ہے شگفتگی اور دلآویزی تو دوسری بات ہے، قاری پر واضح ہوگیا ہوگا کہ وہ تو ایک صفحہ بھی صحیح عربی کا نہیں لکھ سکتے۔
آخر میں (الشاہدفیہ) کے تحت غامدی صاحب لکھتے ہیں: ان الفاء الداخلۃ علی الصفات تدل علی الترتیب کما ذکرنا، وعلی انہا متعلقۃ بموصوف واحد لا بموصوفات متعددۃ یہ عربی قواعد کا ایک عام قاعدہ ہے نہ تو یہ کوئی انکشاف ہے اور نہ کسی غیر معمولی نحوی قاعدے کی نشان دہی۔ افسوس ہے کہ یہ بھی ان کا مولانا فراہی سے سرقہ ہے، بعینہ یہی الفاظ فراہی مرحوم کے ہیں۔ بس جناب غامدی نے اتنا کرم کیا ہے کہ یہاں وہ دعوی نہیں دہرایا جو مولانا فراہی نے کیا ہے، جو یہ ہے:
’’پس یہ خیال کسی طرح صحیح نہیں ہے کہ یہ (یعنی والذاریات۔۔۔ فالحٰملٰت۔۔۔ فالجاریات ۔۔۔ فالمقسِّمٰت)مختلف چیزوں کی صفتیں ہیں، یہ بات نظائر قرآن اور کلامِ عرب کے خلاف ہے‘‘۔
فراہی مکتب فکر: حضرت عمرؓ و علیؓ اور ماہرین لغت کو قابل اعتنا نہیں سمجھتا
مولانا فراہی نے ایک جگہ اپنے اس مجموعہ تفاسیر میں لکھا ہے کہ تفسیر طبری اور رازی ان کے سامنے رہتی ہے۔ مگر اس ناچیز کا خیال ہے کہ شاید اس موقع پر طبری ان کے سامنے نہ تھی ورنہ وہ اتنے بڑے دعوے کی جسارت نہ کرتے۔ آپ کو معلوم ہے کہ ان کے اس دعوے کی ضرب کس پر پڑتی ہے؟ سیّدنا عمرؓ، سیّدنا علیؓ اور سیّدنا عبداللہؓ ابن عباسؓ جیسے فقہاء صحابہ پر ہے جس کی تفصیل درج ذیل ہے۔
طبری میں متعدد اسناد سے بتایا گیا ہے کہ حضرت علیؓ نے سورۃ الذاریات کی ابتدائی چار آیات والذاریت ذرواً۔ فالحٰملٰتِ وِقراً ۔فالجاریات یسرا۔ فالمقسّمٰتِ امراً۔ میں فرمایاکہ الذاریات سے ہوائیں اور الحاملات سے بادل اور الجاریات سے کشتیاں اور فالمقسّمٰت سے فرشتے مراد ہیں۔اور حضرت علی نے ان آیات کے یہ معانی یا تفسیر جیسا کہ اوپر مذکور ہوا منبر پر کھڑے ہو کر اس دعوے کے بعدبتائی تھی کہ : ’’لایسأ لنی احد عن آیۃ من کتاب اللہ الا اخبر تہ‘‘۔ (کہ جو کوئی بھی مجھ سے قرآن کی کسی آیت کے معنی پوچھے گا میں اس کو بتاسکوں گا)۔جس پر تاریخ میں مشہور ہونے والے ایک شخص عبدالدین الکواء نے ان چاروں آیات کے معانی پوچھے اور آپ نے بتائے، یہ شخص بعد میں خوارج کا ایک رہنما ہوا۔اس سے پہلے انھیں آیات کی تفسیر ایک ایسے ہی اور معترض و عنید شخص صبیغِ ابن عِسْل (ع پر زیر س پر جزم) نے حضرت عمرؓ سے پوچھی تھی،جس پر انھوں نے اس کے کوڑے مارے اور اس کو بصرہ میں جلا وطن کردیا تھا۔
یہ واقعہ قرطبی اور ابن کثیر دونوں میں ہے، حافظ ابن کثیر نے اس کو ایک مشہور قصہ بتاتے ہوئے اس سزا کی وجہ یہ بتائی ہے کہ اس نے حضرت عمرؓ سے یہ سوال اس نے ہٹ دھرمی اور آپ کو زک پہنچانے کے لئے کیا تھا جس میں آیات قرآنی پر اعتراض کی صورت تھی۔حضرت عمرؓ نے بھی اس صبیغ التمیمی کو ان آیات کے وہی معنی بتائے تھے جو بعد میں حضرت علیؓ نے عبداللہ بن الکواء کو بتائے۔ یہی نہیں بلکہ یہ تفسیر مجاہدؒ ، سعید بن جبیرؒ ، الحسن البصریؒ ، قتادہؒ ، السدیؒ وغیرہ کتنے ہی تابعین سے مروی ہے۔
قرطبی اور ابن کثیر سے قبل مشہور عقلیت پسند (معتزلی) مفسر زمخشری نے بھی ان آیات کے وہی معنی بتائے ہیں، جو اوپر منقول ہوئے، اور اس نے بھی بعد میں حضرت علیؓ کی تفسیر کو نقل کیا ہے، ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا ہے کہ ذاریات، حاملات، جاریات اور مقسّمات سے مختلف ہوائیں بھی مراد ہوسکتی ہیں اور یہی مسلک بعد کے مفسرین کا ہے۔ لیکن دوسری صدی ہجری کے مذکورہ بالا دواہل لغت الفراء اور ابو عبیدۃ نے تو اپنی مذکورہ بالا کتابوں میں ان چاروں آیات کے معنی: ہوائیں، بادل ، کشتیاں اور فرشتے ہی مراد لیے ہیں۔ مولانا فراہی قدیم مفسرین کو تو درخور اعتناء نہیں سمجھتے تھے لیکن یقین ہے کہ وہ ان دونوں ماہرین لغت کے مرتبے سے واقف ہوں گے۔ مرحوم کے زمانے میں ان کی دونوں کتابیں مطبوع نہ تھیں، مجھے یقین ہے کہ یہ کتابیں ان کے سامنے ہوتیں تو شایدوہ اپنی رائے بدل دیتے، لیکن جاوید غامدی صاحب کے زمانے میں تو یہ کتابیں مطبوع ہیں، ان کے پاس کوئی عذر نہیں کہ وہ مولانا فراہی کی تفسیر ہی کو صحیح سمجھیں۔ بہر حال مولانا فراہی کی یہ بات کسی طرح قابل قبول نہیں کہ:
’’پس یہ خیال کسی طرح صحیح نہیں ہے کہ یہ مختلف چیزوں کی صفتیں ہیں، یہ بات نظائر قرآن اور کلام عرب کے خلاف ہے‘‘۔
جب یہ ثابت ہوگیا کہ سید نا عمرؓ اور سید نا علیؓ ، حضرت عبداللہ بن عباسؓ، اور دسیوں تابعین اور اُن کے فوراً بعد دو قدیم ترین مشہور ماہرین لغت نے ان چار آیات کے معانی چار مختلف چیزیں بتائی ہیں تو ان کی اس رائے کی کوئی وقعت نہیں رہتی کہ یہ بات نظائر قرآن اور کلام عرب کے خلاف ہے‘‘۔ کیا تیرہ سو سال بعد کا ایک عجمی مصنف ان سے زیادہ کلامِ عرب کا راز داں ہوسکتا ہے !! اسی کو میں نے سابق صفحے میں غرورِ علم کہا تھا جو غامدی صاحب کو بھی ورثہ میں ملاہے۔
ایک اہم بات یہ کہ مولانا فراہی نے ’’والذاریات‘‘ کے بعد کی تین آیتوں میں حرف عطف (ف) کے ورود کو اس بات کو دلیل بنایا ہے کہ ’’ان صفات میں ترتیب ہے نیز ان سے یہ بھی سمجھا جاتا ہے کہ یہ سب ایک ہی چیز کی صفتیں ہیں‘‘۔ (مجموعہ تفاسیر فراہی ص ۱۴۷) نابغۂ روز گار مفّسر اور ماہر لغت و نحو (مصنف اساس البلاغہ والمفصل فی النحو) زمخشری نے اس موقع پر حرف (ف)پر کلام کرتے ہوئے کہا ہے کہ: ’’پہلے معنی (چار مختلف چیزیں) کی صورت میں تو یہ ف ’’تعقیب‘‘ کے لیے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہواؤں کی قسم کھائی، پھر بادلوں کی، پھر کشتیوں کی، پھر فرشتوں کی، جو اللہ کے حکم سے رزق تقسیم کرتے ہیں بارشوں اور سمندری تجارت کے ذریعہ‘‘ ساتھ ہی اس نے دوسرے معنی ترتیب کے بھی لکھ دیے ہیں کہ پہلے ہوائیں چل کر مٹی اڑاتی ہیں، بادلوں کو اٹھاتی ہیں۔ پھر فضا میں ان بادلوں کو پھیلاتی ہیں، پھر بارش تقسیم کرتی ہیں۔ یہی عملی طریقہ ہے کہ زمخشری نے دونوں نقطۂ ہائے نظر پیش کردیے ہیں اگرچہ اولیت اس کے یہاں تفسیر ماثور (صحابہؓ و تابعینؒ سے منقول) کو ہے۔
زمخشری کے قول سے معلوم ہوا کہ (ف)صرف تعقیب (یعنی بمعنی واو) کے لیے بھی ہوتی ہے اور ترتیب کے لیے بھی۔ اِسی طرح (ثم) بھی حرف عطف ہے اور ترتیب کے لیے ہوتا ہے، لیکن یہی (ثم) قرآن میں متعدد جگہ صرف عطف کے لیے یعنی (واو) کی جگہ استعمال ہواہے۔ اس طرح (ف) کے عطف سے ہمیشہ ایک ہی موصوف مراد نہیں ہوتا۔
قرآن نحوی قواعد کا تابع نہیں قرآن سے قواعد نحو مرتب ہوں گے
قرآن میں سورۃ’’ المرسلات‘‘ کی ابتدائی آیات ہیں: والمرسلٰتِ عُرفا۔ فالعٰصفٰتِ عصفا۔ والناشرات نشرا۔ فالفارقات فرقا۔ فاَلملقیٰت ذکراً۔ یہاں پہلی تین آیات ہواؤں کے لیے ہیں، اور آخری دو آیات بداہۃً فرشتوں کے لیے ہیں۔ کہ حق و باطل کی تمیز ہوائیں نہیں کرتیں اور نہ ذکر، یعنی اللہ کا کلام اور وحی ہوائیں لے کر آتی ہیں بلکہ یہ فرشتے لاتے ہیں۔ اور یہی وہ معنی ہیں جو تفسیر ابن کثیر میں حضرت عبداللہؓ بن مسعودؓ اور حضرت عبدا للہؓ ابن عباسؓ اور متعدد تابعی مفسرین سے مروی ہیں۔ اور عبداللہ بن مسعودؓ وہ صحابی ہیں جنھوں نے بخاری کی روایت کے مطابق بیان کیا ہے کہ جب یہ سورت نازل ہوئی تو وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ منیٰ میں ایک غار میں تھے جہاں سورت کا نزول ہوا۔ اور فالملقیٰت ذکراً۔ کے متعلق تو قرطبی و ابن کثیر دونوں نے یہ کہا ہے کہ اس بات میں کسی کا اختلاف نہیں کہ اس سے مراد فرشتے ہیں کوئی شک نہیں کہ نحویوں نے یہ قاعدہ مقرر کیا ہے کہ (ف) ترتیب و تعقیب کے لیے ہوتی ہے اور اسی کو بنیاد بنا کر انھوں نے سورۃ الذاریات کی ابتدائی مذکورہ بالا چار آیات کی تفسیر صحابہؓ و تابعینؒ کے بر خلاف مختلف ہواؤں سے کی ہے۔ لیکن اس قاعدہ کا استثناء بھی ہے۔ قرآن نحوی قواعد کا تابع نہیں،بلکہ قرآن ہی سے نحوی قواعد مرتب کیے گئے ہیں۔
مولانا فراہی نے سورۃ الذاریات کی زیر بحث چار آیات کی اپنی من مانی تفسیر کے لیے صرف ایک مثال سورۃ العادیات سے پیش کی ہے، ہم نے اس کے مقابل مثال سورۃ المرسلات سے پیش کردی ہے۔ اور پھر چوتھی آیت فالمقسمٰت امراً کی ان کی تفسیرتو قرآن کی ہم معنی دیگر آیات کے بالکل خلاف ہے۔ کیونکہ جو بات سورۃ الصافّات کی تیسری آیت فالتالیات ذکرا اور سورۃ المرسلات کی آیت نمبر ۵ فالملقیت ذکراً میں کہی گئی ہے وہی سورۃ الذاریات کی اس آیت میں کہی گئی ہے کہ : فرشتے اللہ کا ذکر تلاوت کرکے انبیاء کو سناتے ہیں جیسے حضرت جبریل حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن کی وحی لاتے اور تلاوت کرتے تھے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے نصائح اور احکام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچاتے تھے اس طرف یہ فرشتے مختلف امور پر مامور ہیں۔
یہاں قاری کے لیے یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہ ہوگی کہ مولانا فراہی ’’والسماء ذات الحبک‘‘ کے ترجمہ میں تضاد کا شکار ہیں، انھوں نے صفحہ ۱۴۳ پر اس آیت کا معنی لکھا ہے: ’’قسم ہے دھاریوں والے بادلوں کی‘‘ اور صفحہ ۱۵۹ پر اس کا ترجمہ کیا ہے: ’’دھاریوں والے آسمان کی‘‘۔ اب غامدی صاحب ہی اس تضاد کو حل کریں۔
آخر میں عرض ہے کہ ان سب لغوی اور تفسیری بحثوں سے قطع نظر قارئین خود ہی فیصلہ کرسکتے ہیں کہ اللہ کے وعدے کی سچائی اور روز قیامت کے اثبات: انّ ما توعدون لصادق ۔ وان الدین لواقع۔ کے لیے یہ بات زیادہ وزنی اور اثر انگیز ہے کہ اللہ تعالیٰ چار چیزوں: ہواؤں، بادلوں، کشتیوں اور فرشتوں کو گواہ بنائے جیسا کہ صحابہؓ اور جمہور مفسرینؒ کی تفسیر ہے، یا صرف ہواؤں کو گواہ بنانا جو مولانا فراہی اور ان کے شاگرد کے شاگرد و معتقد غامدی صاحب کی تفسیر ہے۔ خود رائی اور تعصب سے بری ہر منصف مزاج انسان جمہور کی بات کو صحیح سمجھے گا۔ ارادے کے بغیر مولانا فراہی کی تفسیر پر گفتگو ہوگئی، شاید اس میں کوئی کام کی بات ہو۔