سنت نبويہ كى حجيت پر شرعى دلائل !!!
كيا ہمارے ليے سنت نبويہ كى اتباع واجب ہے يا كہ صرف قرآن مجيد كى، اور كيا مسلمان شخص كے ليے كسى معين مسلك اور مذہب كى اتباع كرنى لازم ہے ؟
الحمد للہ:
پہلا سوال تو ايك حقيقى مسلمان كے ليے عجيب محسوس ہوتا ہے، اور دہشت زدہ كر ديتا ہے، كہ كس طرح ايك مسلم اور بدہى امر جو كہ دين كى اساسيات ميں شامل ہے وہ سوال ميں تحويل ہوا ہے ؟
ليكن جب يہ سوال ہو چكا ہے تو ہم اللہ كى مدد سے اس شرعى علمى اصل يعنى حجيت حديث اور اس كى اتباع كے وجوب اور حديث كى اہميت اور حديث كا انكار كرنے والے كا كے حكم جس ميں شكوك و شبہات ركھنے والوں كا رد اور گمراہ فرقے جو اپنے آپ كو اہل قرآن كا نام ديتے ہيں ان كے پيروكاروں كا رد حالانكہ قرآن ان سے برى ہے، ان شاء اللہ يہ جواب اس موضوع ميں ہر حق كے متلاشى كے ليے نافع ثابت ہو گا:
حجيت حديث كے دلائل:
اول:
حجيت حديث پر قرآن مجيد سے دلائل:
يہ كئى طرح سے ہے:
اول:
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
{ جو رسول ( صلى اللہ عليہ وسلم ) كى اطاعت كرتاہے اس نے اللہ كى اطاعت كى }.
اس آيت ميں اللہ سبحانہ و تعالى نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى اطاعت كرنے كو اپنى اطاعت ميں شمار كيا ہے.
پھر اللہ سبحانہ و تعالى نے اپنى اطاعت كو اپنے رسول كى اطاعت كے ساتھ ملا كر ذكر كرتے ہوئے فرمايا:
{ اے ايمان والو اللہ تعالى كى اطاعت كرو اور رسول كى اطاعت كرو }.
دوم:
اللہ سبحانہ و تعالى نے اپنے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كى مخالفت كرنے سے ڈرايا اور نافرمانى كرنے والے كو ہميشہ جہنم ميں رہنے كى وعيد سنائى ہے.
فرمان بارى تعالى ہے:
{ جو لوگ رسول ( صلى اللہ عليہ وسلم ) كے حكم كى مخالفت كرتے ہيں انہيں ڈرتے رہنا چاہيے كہ كہيں ان پر كوئى زبردست آفت نہ آ پڑے، يا انہيں دردناك عذاب نہ پہنچ جائے }النور ( 63 ).
سوم:
{ تيرے رب كى قسم يہ اس وقت تك مومن ہى نہيں ہو سكتے جب تك كہ وہ آپس كے تمام اختلافات ميں آپ كو حاكم تسليم نہ كر ليں، پھر آپ جو ان ميں فيصلہ كر ديں اس كے متعلق اپنے دل ميں كسى طرح كى تنگى اور ناخوشى نہ پائيں اور فرمانبردارى كے ساتھ قبول كر ليں }النساء ( 65 ).
چہارم:
{ اے ايمان والوں! تم اللہ اور اس كے رسول كے كہنے كو بجالاو، جب كہ رسول تم كو تمہارى زندگى بخش چيز كى طرف بلاتے ہوں }الانفال ( 24 ).
پنجم:
پھر اللہ سبحانہ و تعالى نے مومنوں كو حكم ديا ہے كہ جس ميں ان كا تنازع پيدا ہو جائے، اور اختلاف كے وقت وہ رسول صلى اللہ عليہ وسلم كى طرف لوٹائيں.
اللہ تعالى كا فرمان ہے:
{ اگر تم كسى چيز ميں تنازع كرو تو اسے اللہ اور اس كے رسول كى طرف لوٹاؤ }.
دوم:
حجيت حديث پر سنت نبويہ سے دلائل:
يہ بھى كئى طرح ثابت ہے:
پہلى وجہ:
ترمذى ميں ابو رافع وغيرہ كى مرفوع ( يعنى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم تك مرفوع ) حديث ہے آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” ميں تم ميں سے كسى ايك كو ايسا نہ پاؤں كہ وہ اپنے پلنگ وغيرہ پر تكيہ لگائے بيٹھا ہو اور اس كے پاس ميرے حكم ميں سے كوئى حكم آئے جو ميں نے ديا ہے، يا كوئى نہى آئے جس سے ميں نے روكا ہے تو وہ كہے: ميں نہ جانتا، ہم جو كتاب اللہ ميں پاتے ہيں اس كى اتباع كرينگے "
ابو عيسى كہتے ہيں يہ حديث حسن صحيح ہے ديكھيں: سنن ترمذى طبع شاكر حديث نمبر ( 2663 ).
اور عرباض بن ساريہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” كيا تم ميں سے كسى كو يہ كافى ہے كہ وہ اپنے پلنگ پر تكيہ لگائے بيٹھا ہوا يہ خيال كرے كہ اللہ نے وہى كچھ حرام كيا ہے جو اس قرآن ميں ہے، خبردار اللہ كى قسم ميں نے وعظ و نصيحت كى ہے، اور حكم ديا ہے، اور كچھ اشياء سے روكا بھى ہے يقينا يہ قرآن كى طرح ہى ہيں يا اس سے زيادہ …. الحديث
اسے ابو داود نے كتاب الخراج اور كتاب الامارۃ فئ ميں ذكر كيا ہے.
دوسرى وجہ:
سنن ابو داود ميں ہى عرباس بن ساريہ رضى اللہ تعالى عنہ سے حديث مروى ہے وہ بيان كرتے ہيں:
” ايك روز رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ہميں نماز پڑھائى اور ہمارى طرف متوجہ ہوئے اور بہت ہى بليغ وعظ كيا …
اس حديث ميں ہے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” تم ميرى اور ميرے خلفاء مہديين اور راشدين كى سنت كو لازم پكڑو، اور اس پر سختى سے قائم رہو…. "
صحيح ابو داود كتاب السنۃ.
سوم:
حجيت حديث پر اجماع كى دلالت:
امام شافعى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
ميرے علم ميں تو يہى ہے كہ صحابہ كرام اور تابعين عظام ميں سے جس نے بھى كوئى خبر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے سنائى تو اس كى وہ خبر اور حديث قبول كى گئى اور اسے سنت ثابت كيا، اور تابعين كے بعد والے لوگوں نے بھى ايسے ہى كيا، اور جن سے ہم ملے وہ سب احاديث كو ثابت كرتے اور اسے سنت قرار ديتے، اور اس كى اتباع كرنے والے كى تعريف كرتے اور مخالفت كرنے والے پر عيب لگاتے.
لہذا جو كوئى بھى اس مذہب كو چھوڑے ہمارے نزديك وہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے صحابہ اور ان كے بعد آج تك كے اہل علم كى راہ كو چھوڑنے والا اور جاہل لوگوں ميں سے ہو گا "
چہارم:
حجيت حديث پر صحيح نظر سے دلالت:
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا اللہ كے نبى ہونا اس بات كا تقاضا كرتا ہے كہ آپ صلى اللہ عليہ وسلم كى ہر بات كى تقديق كى جائے، اور آپ نے جو حكم ديا ہے ہر حالت ميں اس كى اطاعت كى جائے، اور يہ بات طے شدہ اور مسلّم ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ايسے امور كا حكم ديا اور خبريں دى ہيں جو قرآن كريم سے زائد ہيں.
اس ليے اس كا التزام كرنے اور اسے تسليم كرنے كے وجوب ميں قرآن اور حديث ميں فرق كرنا ايسى تفريق ہے جس كى كوئى دليل نہيں، بلكہ يہ تفريق ہى باطل ہے، اس ليے لازم ہوا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى خبر واجب تصديق ہے، اور اسى طرح آپ صلى اللہ عليہ وسلم كا حكم واجب اطاعت ہے.
حجيت حديث كا انكار كرنے والے كو انكار حديث كى بنا پر كافر قرار دينے كا حكم ايسا ہے جو دين كى ان اشياء ميں شامل ہوتى ہيں جن كا علم ہونا ضرورى ہے.
رہا دوسرا سوال وہ يہ كہ: آيا مسلمان شخص كے ليے كسى معين مذہب كى اتباع كرنى لازم ہے ؟
تو اس كا جواب يہ ہے كہ: ايسا لازم تو نہيں، ہر عام مسلمان شخص كا مذہب اس كے مفتى كا مذہب ہے جس سے وہ فتوى لے رہا ہے، مسلمان شخص كو چاہيے كہ وہ كسى ثقہ اہل علم و فتوى سے سوال كرے، اور اگر شخص طالب علم ہو اور وہ دلائل اور اقوال كے درميان تميز كر سكتا ہو تو اسے اہل علم كے اقوال ميں سے راجح قول كو جو كتاب و سنت كے دلائل سے راجح ہو پر عمل كرنا چاہيے.
اس كے ساتھ يہ بھى ہے كہ مسلمان كے ليے مذاہب اربعہ ميں سے كسى ايك فقہى مذہب كى اتباع كرنى جائز ہے، ليكن اس كے ليے ايك شرط ہے وہ يہ كہ جب وہ كسى معين مسئلہ ميں يہ معلوم كر لے كہ حق اس كے مذہب كے خلاف ہے تو اس كے ليے اپنے اس مذہب كو چھوڑ كر حق كى پيروى كرنا فرض ہے، چاہے وہ كسى اور مذہب و مسلك ميں ہو، كيونكہ مقصود تو اتباع حق ہے جو كتاب و سنت سے پہچانا جاتا ہے.
اور يہ فقھى مذاہب تو صرف احكام شريعت كى معرفت كے طرق ہيں جو كتاب و سنت كى دلالت سے بتاتے ہيں، نہ كہ يہ مسلك اور مذاہب كتاب و سنت ہيں اس سے باہر نہيں جايا جا سكتا.
اللہ تعالى سے دعا ہے كہ وہ ہميں حق كو حق دكھائے، اور ہميں حق كى اتباع و پيروى كرنے كى توفيق دے، اور ہميں باطل كو باطل دكھائے اور ہميں باطل سے اجتناب كرنے كى توفيق بخشے، اللہ تعالى ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم پر اپنى رحمتيں نازل فرمائے.