“حدیث میں ظاہری تعارض کا حل”
میزبان :حدیث میں ظاہری تعارض کا حل کیا ہے اور حدیث کے ظاہری تعارض کا حل محدثین کی نظر میں کیا ہے؟
مہمان :حدیث کے ظاہری تعارض کا حل اس کا تعلق گزشتہ موضوع سے ہی ہے۔ وہ اس اعتبار سے کہ یہ حقیقت میں تعارض نہیں ہوتا۔یہ ظاہری طور پر ہی ہوتا ہے۔اس کے اندر تدبر اور فکر کی ضرورت ہوتی ہے۔پھر اس کا معنیٰ حقیقی طور پر ظاہر ہوتا ہےاور تعارض ختم ہو جاتا ہے۔یہ علماء کا کام ہوتا ہےعام آدمی کا نہیں ۔پہلی بات یہ کہ سنت صیح قرآن کے متعارض نہیں ہو سکتی۔اس کی کئی ایک وجوہات ہیں ۔ جن میں سے چند ایک پہلے بیان ہو چکی ہیں اور کچھ یہاں بیان ہونگی۔
سنت قرآن کے مخالف کیوں نہیں ہو سکتی کیونکہ کہ قرآن اور سنت دونوں حق ہیں۔
اوریہ اللہ کی طرف سے ہے۔ اور یہ حق ایسا ہے جو وحی ہے۔اور وحی اللہ کی طرف سے ہے۔اس میں تعارض نہیں ہو سکتا۔
قرآن کریم میں اللہ تعالٰی فرماتا ہے:
اَفَلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَؕ-وَ لَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اللّٰهِ لَوَجَدُوْا فِیْهِ اخْتِلَافًا كَثِیْرًا(۸۲(
“کیا تم دیکھتے نہیں کہ قرآن کریم جیسا کہ تم دعویٰ کرتے ہو کہ یہ محمد ﷺاپنی طرف سے گھڑ کر لے آئے ہیں اگر یہ اللہ کی طرف سے وحی نہ ہوتا اس میں بہت زیادہ اختلاف ہوتا۔”
قرآن کی کوئی بھی آیت دوسری کے خلاف نہیں ہے۔یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ وحی وحی کے خلاف ہو۔جس طرح قرآن کا قرآن کے ساتھ کوئی تعارض نہیں اس طرح اگر حدیث صیح ہواس کا قرآن کی آیت کے ساتھ تعارض نہیں ہوسکتا۔ ظاہری تعارض بعض لوگوں کو لگتا ہے کہ ہے۔ مگر اس کا حل علماء کے پاس ہے۔جیسے حدیث کا قرآن کے ساتھ کوئی ظاہری تعارض نہیں ہو سکتا۔اس طرح حدیث حدیث کی بھی مخالف نہیں ہو سکتی۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ:
وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْـهَـوٰى (3) اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْيٌ يُّوحٰى (4)
اور نہیں بولتا اپنی خواہش سے مگر وہی جو وحی کی جاتی ہے (سورتہ النجم3،4)
انسانوں کی باتوں کا آپس میں تعارض تب ہوتا ہے۔ جب وہ انسان عام انسان سے گفتگو کرتا ہے۔کیونکہ انسان سے بھول ہو سکتی ہے۔ مگر نبی ﷺعام آدمی نہیں ہیں۔نبی ﷺکی شخصیت خاص ہےاور آپ ﷺکی زندگی ساری کی ساری وحی کی نگرانی میں گزری ہے۔نبیﷺکے احوال و افعال وحی کی نگرانی میں گزرے ہیں تو اللہ تعالیٰ نے اس طرف اشارہ کیا کہ نبی ﷺاپنے پاس سے کچھ نہیں بولتے مگر جو وحی کی جاتی ہے۔اللہ تعالٰی شریعت دینے والے اور نبی ﷺشریعت کو لوگوں تک پہنچانے والے ہیں۔تویہ کیسے ہو سکتا ہے کہ جب نبی ﷺاللہ تعالٰی کی طرف سے شریعت کو لوگوں میں بیان کرنے والے ہیں تو نبیﷺکی ایک بات دوسری کے خلاف ہو۔ہم انسان چاہے کتنے ہی کمال کو پہنچ جائیں ہم سے کہیں نا کہیں بھول ہو جاتی ہے۔
اپنی ہی کسی بات کے خلاف کوئی بات بول دیتے ہیں۔ اس کے مترادف کوئی ایک ایسی حدیث ہو جو دوسری کے خلاف ہو یا اس میں کوئی تعارض ہو ۔اگر ہمیں کہیں ظاہری تعارض نظر آتا ہے۔ کسی حدیث کا قرآن کے ساتھ یا قرآن کا کسی حدیث کے ساتھ تو اس کے لیے علماء نے ترجیحات کے اصول پچاس سے زیادہ بیان کیے ہیں۔جب دو حدیث کا یا حدیث قرآن کریم کی آیت کے ساتھ کوئی تعارض ہو گا تو اس کو ہم نے ترجیح کیسے دینی ہے ۔پہلی بات یہ ہے کہ جب کوئی حدیث ایسی سامنے آتی ہے کہ بظاہر یہ لگتا ہو کہ یہ قرآن کی آیت کے خلاف ہے۔تو اس کا ثبوت دیکھنا ہوگا کہ محدثین کے قواعد و شروط جو انھوں نے وضع کیے ہیں۔یہ حدیث ان قواعد و شروط کے مطابق ثابت ہے۔
اگر صیح ثابت ہے تو اس کے بعد یہ دیکھنا ہوگا کہ یہ ناسخ و منسوخ والا معاملہ تو نہیں مطلب کہ جن دو حدیث کا آپس میں ٹکراؤ اور تعارض ہے۔اس میں کوئی ناسخ تو نہیں ناسخ کا مطلب یہ ہے کہ ایک حکم دیا جاتا ہے ۔اور حالات و واقعات کی وجہ سے اس میں تبدیلی ہوئی ہو اللہ تعالٰی نے قرآن مجید کے اندر اس کا اشارہ کیا ہے کہ:
مَا نَنْسَخْ مِنْ اٰيَةٍ اَوْ نُـنْسِهَا نَاْتِ بِخَيْـرٍ مِّنْهَآ اَوْ مِثْلِهَا
ہم قرآن کریم کا جو حصہ منسوخ کر دیتے ہیں ہم اس سے بہتر لے کر آتے ہیں یا اس طرح کا اور حکم لے آتے ہیں (سورتہ البقرہ 106)
نبی ﷺکی حدیث کے اندر بھی ایسی حدیث موجود ہیں کہ آپ ﷺنے پہلے کوئی حکم دیا ہو اور اس کے بعد یا پہلے کسی کام سے روکا بھی ہو اورپھر اجازت دی ہو ایسی بے شمار مثالیں موجود ہیں جیسا کہ نبی ﷺنے قبرستان میں جانے سے پہلے روکا پھر اجازت دے دی۔اور ساتھ یہ بھی فرمایا کہ:
“ میں نے تمہیں قبر کی زیارت سے منع کیا تھا لیکن اب زیارت کیا کرو کیونکہ اس سے آخرت کی یاد آتی ہے۔”( مسند احمد 23005)
اس کے اعلاوہ کئی ایسے واقعات اور احکام ہیں کہ نبی ﷺنے پہلے منع کیا اور بعد میں اجازت دے دی۔ہم نے یہ دیکھنا ہوگا کہ اگر کوئی تعارض ہے تو کہیں یہ منسوخ تو نہیں تھی۔جب ایک حدیث منسوخ ہے اور دوسری ناسخ ہے تو یہاں تعارض نہیں رہے گا ۔ہم اس حدیث کو لیں گے کہ جس میں نبی ﷺنے بعد میں حکم جاری کیا ہے ۔ پہلے حکم پر تو یہاں قابلِ اعتبار ناسخ ہے منسوخ نہیں ہے ۔ اور اگر دونوں احادیث ثابت ہیں ان قواعد و شروط کے مطابق جو علماء نے لیے ہیں۔
تو دیکھیں گے کہ جمع کی صورت کیا نکالی جا سکتی ہے ۔کوئی ایسا حل نکالیں کہ ان میں سے کسی حدیث کے احکامات کو نظر انداز نہ کیا جائے یا راستہ نکالا جائے کہ دونوں پر عمل ہو جائے اس کے بعد ترجیح کی طرف آئیں گے ۔ جمع کی صورت میں یہ ہوتا ہے کہ ایک ایسی رائےاختیار کریں کہ دونوں احادیث پر عمل ہو سکتا ہوپھر راجح اور مرجوح کا مسئلہ آتا ہے۔ترجیح کی وجوہات علماء نے پچاس سے زائد ذکر کی ہیں۔یعنی جن وجوہات کو دیکھ کر ہم دو متعارض احادیث کہ جنکا معنی ٹکڑا رہا ہے ۔ ان کے اندر ترجیح کیسے ہو گی کہ اگر جمع ممکن نہیں تو پھر ترجیح کی طرف آئیں گے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو زیادہ قوت و ثبوت والی حدیث ہو گی اس کو مقدم رکھیں گے بامقابل اس حدیث کے جس کی شروط کم ہیں یہ تعارض کا حل ہے۔
ترجیح اور جمع کا جو مسئلہ ہے ۔اس میں جمع کی صورت نکالی جا سکتی ہےاور اگر یہ بھی نہیں ہو سکتا۔ تو پھر حدیث کی صحت کو دیکھیں گے۔ اس کے ثبوت و شروط کے مطابق اور اس کے ساتھ دلائل کو دیکھا جائے گاکہ دلیل کون سی ہے ۔ منطوق یا مفہوم،دلیل منطوق زیادہ قوی ہے بانسبت دلیل مفہوم کے۔دلیل منطوق واضح معنی رکھتی ہے جبکہ دلیل مفہوم نکالی جاتی ہےیہ وضاحت طلب ہوتی ہے۔
میزبان:حدیث کے اصول و ضوابط کیاہیں ؟ ہم تعارض کو کس طرح حل کر سکتے ہیں؟ان کی مثال کیا ہو گی۔مثلاً اگر آیت ہے وہ حدیث کے ساتھ ٹکرا رہی ہے یا حدیث آیت کے ساتھ اس کی مثال کیا ہو گی۔
مہمان: حدیث کا ظاہری تعارض قرآن کریم کی آیت کے ساتھ اس کا اعتراض کئی لوگ کرتے ہیں کہ کچھ ایسی احادیث ہیں کہ انکا قرآن کی آیت کے ساتھ تعارض ہے۔ ان میں سے کچھ لوگ مثال دیتے ہیں کہ نبی ﷺکی حدیث ہے کہ:
“نبی ﷺنے فرمایا کہ جب تم نماز کی اقامت کی آواز سن لو تو نماز کی طرف چلو اور اس حال میں تم نماز کے لیے آؤ کہ تمھارے اوپر سکینت اور وقار ہو۔اطمینان کے ساتھ سکون کے ساتھ یعنی دوڑتے ہوئے نہیں آنا اس حال میں کہ سانس پھولی ہوئی ہو۔ اور جلدی نہ کرو اور جو تم نماز کا حصہ پا لو وہ پڑھ لو اور جو رہ جائے اسکوبعد میں مکمل کرو جب امام سلام پھیر دے۔” (صحیح البخاری 636)
ایک اور حدیث میں الفاظ اس طرح آتے ہیں کہ:
دوڑتے ہوئے نماز کی طرف نہ آؤ جب اقامت کی آواز سن لو تو (صحیح البخاری 906)
اب یہاں کیا ہے کہ دوڈرتے ہوئے نہیں آنا ۔ اب لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ قرآن کی آیت ہےکہ اللہ تعالٰی فرماتے ہیں کہ آؤ نماز کی طرف دوڑ کر۔قرآن کریم میں اللہ تعالٰی فرماتا ہے کہ:
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا نُوْدِیَ لِلصَّلٰوةِ مِنْ یَّوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا اِلٰى ذِكْرِ اللّٰهِ وَ ذَرُوا الْبَیْعَؕ-ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ(۹(
اے ایمان والو جب جمعہ کے دن تمہیں نماز کے لیے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑ کر آؤ ۔ اور خرید وفروخت چھوڑ دو یہ تمھارے لیے بہتر ہے اگر تم جانتے ہو ۔(سورتہ جمعہ 9)
اعتراض کرنے والے کہتے ہیں کہ اس آیت میں دوڑنے کا ذکر ہے اور حدیث میں کہا جا رہا ہے کہ تم نماز کے لیے آؤ تو سکون اور اطمینان سے آؤ ۔تو یہ تعارض ہے۔عموماً لوگ جب تعارض کرتے ہیں تو اپنی ناقص سوچ کے مطابق حدیث کو سوچ رہے ہوتے ہیں۔جبکہ حدیث کو وسیع دائرے سے سوچنا چاہیے۔اور عربی زبان پر محارت ہونی چاہیے۔یعنی حدیث میں یہ بیان ہوا ہے کہ اپنے کام کاج چھوڑ کر نماز کی طرف آ جاؤ۔تاخیر نہیں کرنی۔
یہاں ترجیحات کو دیکھا جائے گا کہ اپنے کاروبار بند کر کہ نماز کی طرف آؤ ۔یہاں دوڈ کر آنا مراد نہیں کہ تمھاری سانس پھولی ہوئی ہو۔اس طرح نماز بھی صحیح نہیں پڑھی جاتی۔اس میں حکمت ہے ۔یہاں تعارض نہیں ہے حدیث کے اندر بھی یہی کہا گیا ہے کہ تم آؤ نماز کے لیے سکون اور اطمینان کے ساتھ ۔اور قرآن کریم میں بھی یہی کہا گیا ہے کہ اپنے کاموں اور کاروبار کو چھوڑو اور آ جاؤ نماز کی طرف ۔وہاں بھی دوڑنا مراد نہیں۔ اس کی وضاحت قرآن کریم میں دوسری جگہ ہے ۔اللہ تعالٰی فرماتے ہیں کہ:
وَأَن لَّيْسَ لِلْإِنسَـٰنِ إِلَّا مَا سَعَىٰ
نہیں ہے انسان کے لیے مگر وہی جس کی وہ کوشش کرتا ہے ۔(سورتہ النجم 39)
یعنی جن کاموں کے اندر وہ محنت کرے گا اس کا بدلہ اس کو ملے گا جو دنیا میں کام کرے گا۔آخرت میں اس کا پھل ملے گا ۔ لہذا اس آیت کے اندر یہی بتایا گیا ہے کہ جو تم کوشش کرو گے وہی ملے گا ۔ اگر تم نماز کے لیے اللہ کی ملاقات کی طرف جلدی کرو گے تو آخرت میں بھی اللہ تعالٰی تمہیں ملنے کے لیے جلدی کرے گا ۔ترجیح دو گے دنیا میں اللہ کی ملاقات کو تو آخرت میں بھی ملاقات کر سکو گےاور ایک اور حدیث میں آتا ہے کہ مال تجارت کی غرض سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے جمعہ کی نماز کو ترک کر دیا تھا جس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ اللہ کے ذکر کی طرف آؤ ۔
میزبان:جس طرح یہ بیان ہوا کہ حدیث قرآن کے خلاف نہیں ہوتی تو کیا حدیث حدیث کے خلاف ہوتی ہے ۔ اس کو مثال سے واضح کریں؟
مہمان :اس کا بھی وہی جواب ہے کہ جس طرح کہ حدیث قرآن کریم کی کسی آیت کے خلاف نہیں ہوتی ایسے حدیث بھی حدیث کے مخالف نہیں ہوتی۔لیکن بعض اوقات دو حدیثیں ایسی آ جاتی ہیں ۔ جس کا معنیٰ بظاہر لگ رہا ہوتا ہےکہ الگ ہے۔آپس میں ٹکراؤ ہے ۔
اس کی مثال نبی ﷺکی معروف حدیث ہے۔کہ نبی ﷺنے فرمایا:
"لا عدوی ولا طیرہ " اور اسی حدیث کے اگلے حصے میں نبی ﷺنے فرمایا۔ ” و فر من المجزوم کما تفر من الاسد”
کہ کوڑ کی بیماری والے مریض سے ایسے بھاگو جیسے تم شیر کو دیکھ کر بھاگتے ہو ۔
اب حدیث کے شروع والے حصے میں بتایا جا رہا ہے کہ کوئی بھی بیماری معتدی نہیں ہے اور بدفالی اور بد شگونی کی بھی کوئی حقیقت نہیں ہے ۔(صحیح البخاری 5707)
اب ایک طرف بیماری معتدی نہیں اور دوسری طرف یہ کہا جا رہا ہے کہ کوڑی کے مریض سے بھاگو اور ایک دوسری حدیث میں آتا ہے کہ کوئی بھی اپنے بیمار اونٹوں کو اپنے تندرست اونٹوں میں داخل نہ کرے ۔(صحیح البخاری 5771)
اب ظاہری طور پر ان دونوں حدیثوں کا آپس میں تعارض نظر آ رہا ہے ۔مگر حقیقت میں تعارض ہے نہیں ہماری ناقص علم اور عقل کی وجہ سے تعارض محسوس ہوتا ہے۔جبکہ علماء نے اس طرح کی حدیث کا حل بتایا ہے اس کا حل کیا ہے ۔اس بارے میں علماء بتاتے ہیں کہ ذاتی طور پر کوئی بیماری معتدی نہیں ہوتی۔اس کے اسباب ہوتے ہیں کہ احتیاط کرو اور بیماری سے بچو۔ زمانہ جہالت کے لوگو ں کے ردعمل میں یہ بات آئی ہے کہ کوئی بیماری معتدی نہیں ہوتی احتیاط لازم ہے ۔نبیﷺنے احتیاط کے طور پر ہمیں حفاظت کی دعائیں بتائیں ہیں۔
عجوہ کھجور کے کھانے کا کہا گیا ہے کہ اس کے کھانے سے جادو اثر نہیں کرتا ۔ زہریلی چیزوں سے بچ جاتا ہے ۔نبی ﷺنے یہ احتیاطی تدابیر امت کو دی ہیں۔کہ امت اپنی حفاظت کر سکے۔یہاں ایک اور بات ہے کہ نبی ﷺنے منع کیا کہ کوئی بیمار اونٹ کو صحت مند اونٹ میں شامل نہ کرے وہ اس لیے کہ کہیں لڑائی جھگڑا نہ شروع ہو جائے۔ فتنہ نہ پیدا ہو جائے کہ جب کوئی اپنا بیمار اونٹ صحت مند اونٹ کے ساتھ شامل کر دے گا تو دوسرا یہ سمجھے گا کہ اس نے جان بوجھ کر ایسا کیا ہے تو ایسے لڑائی جھگڑا ہو سکتا تھا ۔جب کہ بیماری اللہ کی طرف سے آتی ہے۔یہ سب احتیاط کے طور پر تھا یہ تعارض نہیں ہے ۔یہ زمانہ جہالت کے لوگو ں کا عقیدہ تھا کہ بیماریاں خود متعدی ہو جاتی ہیں۔نبی ﷺنے اس کو رد کیا۔
“ایک شخص آپ ﷺکے پاس آیا اور اس نے کہا کہ ایک اونٹ نے باقی اونٹوں کو بیمار کر دیا۔تو آپ ﷺنے فرمایا کہ پہلے اونٹ کو کس نے بیمار کیا۔” (صحیح البخاری 5717)
میزبان :جو لوگ کہتے ہیں کہ حدیث عقل کے خلاف ہوتی ہیں۔اس کا کیا جواب ہوگا ؟
مہمان :یہ شبہ بہت پرانا ہے یہ شبہ سب سے پہلے اعتراض کرنے والوں کے ذہن میں پیدا ہوا اور اس پر عمل بھی کیا کہ جو حدیث ہماری عقل کے خلاف ہے ہم اس کو نہیں مانتے۔ مثلاً اللہ کے ناموں کے اندر جو صفات ہیں وہ کہتے ہیں کہ وہ ان کو نہیں مانتے اس کی وجہ یہ ہے کہ عقل اس چیز کو نہیں مانتی۔لہذا انھوں نے عقل کو مقدم کیا نقل پر اور شریعت پر ۔ آج جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہ حدیث عقل کے خلاف ہے اور ہم اس کو نہیں مانتے تو ان کے لیے عرض ہے کہ سب سے پہلے یہ بتا دیں کہ آپ کے پاس کوئی معیار ہے ۔ کوئی اصول اور قواعد ہیں۔جس کی بنا پر خود کو عقل مند سمجھتے ہو اور کہتے ہو کہ یہ حدیث صیح ہےاور یہ صیح نہیں ہے اور ایسے اصول ہیں تو لا کر ہمیں دکھائیں تاکہ ہم اس کے مطابق حدیث لا کر دکھا سکیں کہ یہ عقل کے مطابق ہیں اور یہ عقل کے خلاف ہیں اور دوسری بات یہ کہ عقل اور شریعت اللہ کی طرف سے ہوتی ہیں۔
اللہ کی ذات کو ملزم قرار دیتے ہیں اپنی عقل کو درست ثابت کرتے ہیں اپنی عقل کو ناقص نہیں کہتے بلکہ یہ کہتے ہیں کہ یہ حدیث صیح نہیں ہے ۔کیونکہ ہماری عقل اس کو سمجھ نہیں پا رہی۔ ہمارے ہاں تو محدثین نے حدیث کو صحیح اور کمزور ٹھہرانے کے لیے باقاعدہ اصول بنائے ہیں۔جس کی مثال دنیا میں کہیں بھی نہیں ملتی اور دنیا حیران ہے کہ حدیث کی تحقیق کس طرح کی گئی ہے کہ کہیں مشترکین جو کہ اسلام میں نقائص نکالتے ہیں۔ انھوں نے اس بات کی تعریف کی ہے ۔یہ بات کسی اور امت میں نہیں ہے کہ انھوں نے اپنی کتب کو یوں محفوظ کیا ہو لہٰذا اپنی عقل کی اصلاح کریں صیح سنت صیح حدیث کے خلاف نہیں ہو سکتی اور نہ ہی قرآن کی آیت کے خلاف حدیث ہو سکتی ہے ۔
ابن تیمیہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ:
جو رسول اور انبیاء کے لائے ہوئے راستے کی مخالفت کرتا ہے ۔ ان کی لائی ہوئی شریعت کی مخالفت کرتا ہے نہ تو اس کے پاس صحیح عقل ہے اور نہ علم۔