Search

سلسلہ دفاع سنت قسط 3″مشکل الحدیث کے اسباب اور تعامل کے قواعد "پارٹ ٹو

"مشکل الحدیث کے اسباب اور تعامل کے قواعد "پارٹ ٹو

میزبان:تعامل کے مزید قواعد کیا کیا ہیں ؟

مہمان: گزشة ٹاپک میں ہم نے تین قواعد ذکر کیے تھے۔ مشکل الحدیث کا چوتھا قاعدہ یہ ہے کہ احادیث میں جو متشابہہ ہیں ۔ ان کو محکم کی طرف لوٹایا جائے گا۔

بالکل اسی طرح جس طرح ہم نے یہ وضاحت کی تھی کہ قرآن کریم کی آیات دو طرح کی ہیں۔ کچھ ایسی آیات ہیں جو محکم ہیں۔

قرآن مجید میں اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے۔

هُوَ الَّذِي أَنْزَلَ عَلَيْكَ الْكِتَابَ مِنْهُ آيَاتٌ مُحْكَمَاتٌ هُنَّ أُمُّ الْكِتَابِ وَأُخَرُ مُتَشَابِهَاتٌ

وہی اللہ تعالیٰ ہے جس نے تجھ پر کتاب اتاری جس میں واضح مضبوط آیتیں ہیں جو اصل کتاب ہیں اوربعض متشابہ آیتیں ہیں۔ (سورة آل عمران 7)

             یہاں اللہ تعالٰی نے دو لوگوں کے رویوں کا ذکر کیا ہے ۔ اہل ایمان اور وہ لوگ جن کے دلوں میں کج روی اور ٹیڑھاپن ہوتاہے۔جب اہل ایمان کے سامنے ایسی آیات آتی ہیں جن کے اندر بظاہر کوئی مشکل نہیں ہوتی یا ایک سے زیادہ معنی پائے جاتے ہیں۔ان کے مقابلے میں ان لوگوں کا ردعمل کیا ہوتا ہے کہ جن کے دلوں میں کج روی اور ٹیڑھاپن ہوتاہے۔ ان کا رویہ کیا ہوتا ہے۔اس کے مقابلے میں اللہ تعالٰی فرماتے ہیں۔۔۔۔۔۔

فَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ

کہ جن کے دلوں میں کج روی اور ٹیڑھاپن ہوتاہے۔ وہ ہمیشہ فتنے کی تلاش میں رہتے ہیں (سورة آل عمران 7)

لوگوں کو فتنے میں مبتلا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ خود اس سے ایسے ایسے معنی اخذ کرتے ہیں کہ جن سے لوگو کو آزمایا جائے۔ان کو دین سے دور کیا جائے حق سے دور کیا جائے ۔لیکن جو اہل ایمان ہیں ان آیات کے بارے میں ان کا رویہ یہ ہوتا ہے کہ جو محکم آیات ہیں متشابہہ کو ان کی طرف لوٹاتے ہیں۔ 

احادیث رسول ﷺ بھی ایسے ہی ہیں جن احادیث میں ہمیں یہ لگے کہ ان میں مشکل ہے یا اس کے اندر متشابہہ الفاظ ہیں تو وہ ان کو محکم کی طرف لوٹاتے ہیں۔متشابہہ سے مراد ہے جن کا معنی واضح نہ ہو رہا ہو اورمزید وضاحت کی ضرورت ہو۔ تو پھر ہم دیگر احادیث کی روشنی میں اس کی تلاش کریں گے۔یہ ایک طریقہ ہے جس کے مطابق وہ عمل کرتے ہیں ۔ یہ تیسرا قاعدہ تھا کہ جو متشابہہ ہیں ان کو محکم کی طرف لوٹایا جائے گا۔ 

        اس کے بعد ان کے بارے میں صحیح معنی بیان کیا جائے گا۔اس طرح جو مشکل الحدیث میں علماء نے تعامل کے  جو قوائد بیان کیے ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ جو حواس ہیں عقل اور حس وہ غائب کا ادراک نہیں کر سکتے۔احادیث میں وہ چیزیں ہیں جن کا تعلق غائبیات سے ہے۔ان کو ماننا واجب ہے۔واجب اس لیے ہے کہ عقل اور حواس ان کی حقیقت کو معلوم نہیں کر سکتے۔غائبیات سے مراد جنت دوزخ فرشتے وغیرہ حساب قبر کے مسائل اس کی نعمتیں ۔۔۔۔۔۔عملی طور پر ہم دیکھتے ہیں کہ عقل ان کا ادراک نہیں کر سکتی حتیٰ کہ ہم ان چیزوں کو محسوس بھی نہیں کر سکتےاور ہم عقل سے ان چیزوں کا ادراک نہیں کر سکتے پھر اسی طرح ہمیں ان کو ماننا پڑے گا جس طرح وہ وحی کے اندر ہمیں بتائے گئے۔

ہم اس کے اندر تبدیلی اس وقت کر سکتے ہیں  جب کہ عقل ان کا ادراک کر رہی ہو۔ یہ دونوں چیزیں ناممکن ہیں۔ اور اگر ناممکن ہیں تو جس طرح صحیح حدیث کے اندر وہ چیز وارد ہوئی ہے۔ہم اسی طرح اس پر ایمان لائیں گے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ عقل اس کا ادراک نہیں کر سکتی۔ جس طرح عالم ارواح، حساب ،قبر کے مسائل وغیرہ ۔۔۔۔۔۔۔اسی طرح اعمال نامے تولے جائیں گے۔ صحفے تولے جائیں گے ۔ اب عقل اس بات کو نہیں مانتی۔

ایک حدیث میں آتا ہے کہ جو عمل ہیں ان کا بھی وزن ہو گا۔ یہ ساری چیزیں عقل کہتی ہے کہ ممکن نہیں ہے۔اگر خبر دینے والا صادق اور امین ہے صحیح ہونے کی شروط پائی جارہی ہیں تو اس میں ایمان لانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔یہ چوتھا قاعدہ ہے کہ عقل اور حواس ان چیزوں کا ادراک نہیں کر سکتی ہمیں بغیر کسی حجت کے ان چیزوں پر ایمان لانا ہے ۔

میزبان:جیسا کہ ذکر ہوا کہ متشابہہ کو محکم کی طرف لوٹایا جائے گا ۔اس کی کوئی مثال پیش کر دیں ؟

مہمان :

متشابہہ احادیث کو محکم کی طرف لوٹانے کی مثالوں میں واضح اور صحیح مثال ہے۔ وہ نبی ﷺ کی حدیث ہے۔حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالٰی نے آدم علیہ السلام علیہ السلام کو اپنی صورت میں پیدا کیا۔جب اللہ نے آدم علیہ السلام کو پیدا کیا تو ان کا قد 6 ہاتھ تھا۔ (صحیح البخاری 6227)

یہاں پر بہت سے لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ یہ حدیث قرآن کی آیت کے خلاف ہے۔ ایک طرف تو تم یہ کہتے ہو کہ اللہ کی طرح کا کوئی نہیں۔اور دوسری طرف تم کہتے ہو کہ آدم علیہ السلام کو اپنے قد پر پیدا کیا تو یہ تعارض اور ٹکراؤ ہے بظاہر لہذا ہم اس کو مانتے نہیں یہ حجت نہیں ہے۔حالانکہ یہ مشکل الحدیث ہے اور متشابہہ ہے ۔ اس کو  محکم کی طرف لوٹایا جائے گا۔

علماء نے اس کے کئی جوابات دیے ہیں ہم متشابہہ کو محکم کی طرف لوٹائیں گے۔ اور ضروری نہیں کہ کسی چیز کو تشبیہ دینے سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ وہ اس کی طرح تمام اجزا میں تمام چیز میں ہے۔مثلاً حدیث میں ہے نبی ﷺ نے فرمایا کہ سب سے پہلی جماعت جو جنت میں داخل ہو گی وہ چاند کی صورت میں داخل ہو گی۔(صحیح البخاری 3327)

اب یہاں پر یہ پتہ چلتا ہے کہ چاند سے مشابہت سے مراد یہ نہیں کہ ان کی شکلیں چاند جیسی ہوں  گی ۔ بلکہ اس کی روشنی سے تشبیہ دی گئی ہے۔اس طرح اللہ کی ذات موجودات میں سے ہے اور جتنی موجودات ہیں ان کی ایک صورت ہے ۔ اللہ تعالٰی کی بھی صفات ہیں اور یہ بھی ایک صفت ہے  جو اس حدیث کے اندر ہے اور بہت سے علماء متفق ہیں کہ یہاں (صورة)میں جو اسم ضمیر ہے وہ اللہ کی ذات کی طرف لوٹ رہی ہے۔

قرآن کریم میں اللہ تعالٰی نے جہاں خود کو سمیع البصیر کہا ہے ۔ وہاں پر انسان کو بھی سمیع البصیر کہا ہے۔جیسے کہ قرآن کی آیت ہےکہ:

إِنَّا خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ مِنْ نُطْفَةٍ أَمْشَاجٍ نَبْتَلِيهِ فَجَعَلْنَاهُ سَمِيعًا بَصِيرًا

 بیشک ہم نے انسان کو پیدا کیا ہے ملے جلے نطفے سے اور ہم اسے آزماتے ہیں اور ہم نے اس کو سننے والا اور دیکھنے والا بنایا ہے۔ (سورة الانسان: 2)

        اب اللہ کی صفات اللہ کی ذات کو لائق ہیں اور انسان کے اندر نام کا مشترک ہونا مراد سننا اور دیکھنا اب اللہ تعالٰی بھی سننے والا ہےاور انسان کو اللہ نے بنایا اللہ جیسے خود سننے والا اور دیکھنے والا ہے ایسے آدم کو پیدا کیا یہ صفات اس کے اندر بھی ڈالی۔لیکن اللہ کی صفات عالی ہیں  ان میں نقص نہیں ہے  مگر انسان کے اندر نقص موجود ہے ۔ جیسے کہ انسان سنتا ہے مگر دیوار کے آگے نہیں سن سکتا۔اس طرح دیکھتا ہے مگر رکاوٹ کے پار نہیں دیکھ سکتا۔ لیکن اللہ کی صفات کے آگے کوئی حد نہیں وہ لامحدود ہیں ۔ اللہ نے آدم کو پیدا کیا جب پیدا کیا تو وہ دیکھنے والے سننے والے تھے۔ اللہ نے جہاں خود کو سمیع البصیر کہا ہے وہاں انسان کو بھی کہا ہےلیکن ساتھ اللہ نے یہ بھی کہہ دیا کہ:

لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ ۖ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ

اللہ کی مثال کی کوئی شے نہیں اور وہ سننے والا جاننے والا ہے ۔(سورة الشوری 11)

لہذا جب جمع کی صورت نکالیں گے آیت میں اور حدیث میں تو تعارض نہیں رہتا۔ اللہ نے انسان کو سننے والا اور دیکھنے والا بنایا جیسے اللہ کی ذات ہے۔مگر وہ لوگ جن کے اندر کج روی ہے ۔ ہمیشہ وہ اس طرح کی حدیث اور آیات سے فتنہ تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور لوگوں کو حق سے دور رکھنے کے لیے فتنہ پھیلاتے ہیں ۔ لیکن اہل ایمان جیسے اللہ کا ارشاد ہے:

وَالرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ يَقُولُونَ آمَنَّا بِهِ كُلٌّ مِنْ عِنْدِ رَبِّنَا

کہ ہم ایمان لائے اور ہر چیز اللہ کی طرف سے ہے۔(سورة آل عمران 7)

وہ متشابہہ کو محکم کی طرف لوٹاتے ہیں ۔ یہ اس کی مثال ہے۔ ( خلق اللہ آدم علی صورة صحیح البخاری)

اس سے مراد جس طرح اللہ خود دیکھنے والا اور اللہ کی صفات ہیں ایسے ہی آدم علیہ السلام کے اندر بھی صفات ہیں مگر اللہ کی صفات کے اندر کمال ہے اللہ کی صفات اللہ کی ذات کے لائق ہیں اور آدم علیہ السلام کی صفات ایسی ہیں جیسی آدم علیہ السلام کو لائق ہیں۔

میزبان:عقل اور حس غائب کا ادراک نہیں کر سکتیں۔کیوں نہیں کر سکتیں ؟

        اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ عقل کے دائرے سے باہر ہیں۔ عقل اور حواس فطرت اور جتنے علم اور معرفت کے مصادر ہیں۔ان کا دائرہ محدود ہے ۔ حواس اور عقل کو ایک دائرے میں استعمال کر سکتے ہیں مگر غائب کا ادراک کرنا اس کا دائرہ کار نہیں ہے۔ یہاں خبر پر اعتماد ہو گااور خبر بھی وہ ہو جو کہ صادق اور مصدوق  کی طرف سے ہو۔ لہذا عقل اور حس چونکہ اس کا ادراک نہیں کر سکتے اور نہ محسوس کر سکتے ہیں جیسے عذاب قبر ہے اسکو محسوس نہیں کر سکتے ۔اس طرح جنت اور جہنم اور باقی کی تمام چیزیں جو ہماری آنکھوں سے اوجھل ہیں۔اس لیے ہم محسوس نہیں کر سکتے یہ چیزیں عقل تک پہنچ پائیں گی تو محسوس بھی ہوں گی۔اتنی ترقی کے باوجود ابھی تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ انسان کی اپنی روح کی حقیقت کیا ہے۔دیگر غائبیات جو ہم سے دور ہیں ان کی حقیقت کا ادراک کیسے ہو گا۔یہ ناممکن ہے 

میزبان:روح انسان کے اندر ہوتی ہے ۔ تو انسان عذاب قبر کو محسوس کیوں نہیں کر سکتا ؟ 

مہمان:عذاب قبر کو دیکھنا یا محسوس کرنا اس میں اللہ تعالٰی کی حکمت ہے۔ علماء نے اس کی وضاحت کرنے کی کوشش کی ہے۔ 

ان میں سے چند ایک یہ ہیں:

پہلی : اللہ تعالٰی یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ کون ہیں جو ایمان لاتے ہیں اور کون ہیں جو ایمان نہیں لاتے ۔ اور جو ایمان لانے والے ہوتے ہیں وہ اللہ تعالٰی پر ایمان رکھتے ہیں اور یہ مومنوں کی صفات ہیں ۔ جب ایک چیز کو بیان کر دیا جائے اور انسان اللہ پر یقین بھی رکھتا ہےاللہ پر ایمان بھی رکھتا ہے اور اس کے رسولوں کو بھی مانتا ہےپھر انسان اس کی باتوں پر اس لیے یقین نہ کرے کہ میں نے اس کو محسوس نہیں کیا دیکھا نہیں۔

کیا جو یہ کہتا ہے کہ میں دیکھو گا تو یقین کرو گا اور ایمان لاؤ ں گا یہ بہتر ہے یا وہ جو خبر لانے والے کی خبر کی سچائی اور لانے والے صادق اور امین ہےاور اللہ کی طرف سے ہے۔اور سننے کے فوراً بعد ایمان لے آئے برابر ہو سکتا ہے۔

(ماننے والے اور نہ ماننے برابر نہیں ہوتے)

اور اللہ یہ بھی دیکھنا چاہتا ہے کہ کون ہے جو مومن ہے اور کون مومن نہیں ہے ۔ پہلی حکمت یہ ہے۔

کچھ حکمتیں علماء نے بھی بیان کی ہیں اور کچھ حکمتیں نبی ﷺ کی حدیث ملتی ہیں۔جیسا کہ نبی ﷺ کی حدیث ہےکہ:

        نبی ﷺ فرماتے ہیں کہ اگر مجھے اس بات کا ڈر نہ ہوتا کہ تم اپنے مردوں کو دفن کرنے سے باز آ جاؤ گے ۔تو دفن ہی نہ کروگے تو میں اللہ سے اس بات کی دعا کرتا کہ اللہ تعالٰی تمہیں عذاب قبر دیکھا دے اور سنا دے۔جب کسی قبر والے کو عذاب ہوتا ہے تو اس کی چیخیں نکلتی ہیں۔(صحیح مسلم)

        یہ آپ نے اس وقت بیان کیا کہ جب آپ ایک قبر کے پاس سے گزرے تو آپ ﷺ کی سواری وجد میں آ گئی۔تو لوگوں نے پوچھا یہ کیا ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ قبریں کن لوگوں کی ہیں۔ تو لوگوں نے بتایا کہ مشرکوں کی ہیں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ لوگوں کو قبر میں عذاب ہوتا ہے۔ اسی طرح ایک دوسری حدیث میں نبی ﷺ نے فرمایا کہ جو میت ہوتی ہے  کافر یا گنہگار ہے۔اس کو جب عذاب ہوتا ہےتو ایک فرشة اس کو لوہے کے بہت بڑے ہتھوڑے سے مارتا ہےجب اسے مارتا ہے تو اس میت کی چیخیں زور سے نکلتی ہیں۔آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس کے ارد گرد کی تمام چیزیں اس کی چیخ و پکار سنتی ہیں سوائے جن و انس کے۔(صحیح البخاری 1374)

چرواہے سے اگر پوچھیں تو وہ بتائیں گے کہ اگر وہ اپنے ریوڑ کو کسی قبرستان کے پاس چھوڑیں تو اچانک وہ چرتے چرتے ڈر کہ بھاگنا شروع ہو جاتیں ہیں۔کہیں لوگوں نے اس چیز کا مظاہرہ کیاوہ ایسے بھاگتی ہیں کہ جیسے کسی نے ان کو زور سے مارا ہو  اصل میں وہ ڈر کے بھاگتی ہیں۔ اہل قبر کی چیخ و پکار سن کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تو جب جانور سہہ نہیں پاتے تو سوچیں کہ اگر انسان ان کی چیخ و پکار سن لیں تو اس کی کیفیت کیا ہو گی۔اور ہم اس وجہ سے عذاب قبر کا مشاہدہ نہیں کر پاتے ۔ چونکہ ہم چیخ و پکار کو برداشت نہیں کر سکتے۔دوسرا یہ کہ میت کی پردہ پوشی نہیں رہے گی پھر جزا سزا کا جو تصور ہے۔ وہ بھی لوگوں کے ذہنوں سے نکل جائے گا۔ 

اللہ تعالٰی پردہ پوشی کرنے والا ہے ۔ اگر دنیا میں اللہ تعالٰی دیکھا دے تو پردہ پوشی باقی نہیں رہے گی اور اسی طرح اگر کسی کو عذاب قبر دکھا دیا جاتا تو اس کے اہل خانہ کے شرم سے سر جھک جاتے۔لوگ ان کو کہتے کہ دیکھو تمہارا فلاں بڑا نمازی تھا بڑا پرہیز گار تھا اس کو تو عذاب ہو رہا ہے۔ان کے لیے بھی شرم کی بات تھی جیسے کہ کچھ لوگوں کے دنیا میں ہی گناہ ظاہر ہو جاتے ہیں۔اسی طرح خوف سے لوگوں میں بےچینی رہتی۔ 

یہ چند ایک حکمتیں ہیں۔ جو علماء نے بیان کی ہیں۔اور اللہ تعالٰی کی حکمت ہے۔کہ اس نے ہمیں عذاب قبر نہیں دکھایا ہمارے سکون کو برقرار رکھا۔

 

 

اس پوسٹ کو آگے نشر کریں