میزبان:حدیث سحر اور سم کی حقیقت کیا ہے؟ نبی ﷺکے اوپر جو جادو کیا گیا تھا ۔اس کی حقیقت کیا ہے ؟اوریہودی عورت نے جب نبی ﷺکی دعوت کی اور کھانے میں زہر ملا دیا تھا۔ اس کی حقیقت کیا ہے ؟اور منکرین حدیث کےکیا اعتراضات ، اشکالات ہیں۔ ان کے جوابات کیا ہیں؟
آج اس حوالے سے بات کریں گےکہ ایک طرف تو رسول اللہ ﷺکو قرآن کریم کی آیت کے مطابق لوگوں کے اس طرح کے ہتھکنڈوں سے محفوظ رکھا گیا ہے ۔
"واللہ یعصمک من الناس”(سورہ المائدہ 67)
کیا یہ چیزیں متعارض ہیں رسول اللہ ﷺکے ساتھ، کوئی بھی اگر آپ ﷺکو زہر دے دے یا جادو کر دے ۔کیا ایسا ممکن ہے؟حدیث سحر اور سم سے مراد کیا ہے ؟ اور کیا یہ احادیث درست ہیں؟
مہمان:حدیث سم حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے ۔” حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی ﷺپر بنو زریق کے ایک آدمی نے جادو کیا تھا ۔جسے لبید ابن العاصم کہا جاتا تھا۔ جب اس نے جادو کیا اللہ کے حبیب کی یہ کیفیت تھی کہ نبی ﷺکو یہ خیالات آتے تھے کہ انھوں نے کام کر لیا حالانکہ انھوں نے نہیں کیا ہوتا تھا۔(صحیح البخاری اور مسلم)
تمام محدثین کے ہاں یہ حدیث صحیح ہے اور صحیح ہونے کی وجہ سے ہی محدثین نے اس کو روایت کیا ہے ۔
دوسری حدیث جو حدیث سم ہے جو نبی ﷺکو زہر دینے پر ذکر ہے ۔ اس کے راوی حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ ہیں۔حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ یہودی عورت آپ ﷺکے پاس ایک زہر آلود بکری لے کر آئی اور آپ ﷺنے اس کھانے کو کھا لیا جب اسے پکڑ کر لایا گیا ۔آپ ﷺسے کہا گیا کہ کیا ہم اسے قتل نہ کر دیں۔ تو آپ ﷺنے فرمایا "نہیں”(صحیح البخاری)
صحیح مسلم کے اندر جو روایت ہے اس میں کچھ الفاظ کا اضافہ ہے ۔” نبی ﷺنے اس یہودی عورت سے پوچھا کہ تم نے یہ کیوں کیا۔اس نے کہا کہ میں نے اس لیے ایسا کیا تاکہ آپ ﷺکو قتل کر سکوں ۔ آپ ﷺنے فرمایا کہ اللہ تعالٰی کبھی بھی تمہیں اس کام کی طاقت نہیں دیتا۔اس طرح دیگر احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ کھانے کے اندر سے آواز آئی تھی اور دیگر صحابہ نے کھانا کھا بھی لیا تھااور وہ شہید بھی ہو گئے تھے ۔نبی ﷺکے حوالے سے حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے نبی ﷺکے حلق کے اندر زہر کا نشان میں دیکھا کرتا تھا ۔(صحیح البخاری ومسلم 2190)
یہ دونوں احادیث ہیں کہ جن پر بخآری اور مسلم نے اتفاق کیا ہے اور یہ احادیث محدثین اور آئمہ کی شروط کے مطابق ہیں۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ اگر یہ احادیث صحیح ہیں اور صحیح سند کے ساتھ ثابت ہیں تو اس کو کیوں نہیں مانا جاتا ؟ اس کو ماننے میں حرج کیا ہے۔
میزبان:منکرین احادیث کا اعتراض ہے کہ ایک طرف تو یہ ہے کہ نبی ﷺکو زہر آلود کھانا دیا گیااور دوسری جگہ قرآن کریم میں ارشاد ہے کہ (وَ اللّٰهُ یَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِؕ) اور پھر آپ کو زہر آلود کھانا کھلایا گیا ۔
کیا یہ آیت اور حدیث کا آپس میں تعارض نہیں ہے پھر اللہ تعالٰی نے کیسے ان کو محفوظ کیا۔ایک طرف تو اللہ تعالیٰ نے باقاعدہ ارشاد فرمایا اور حدیث کے متعلق وہ کہتے ہیں کہ یہ خبر واحد ہے اور متواتر کے خلاف ہے یعنی اگر خبر واحد متواتر کے خلاف ہو تو اس کو ہم کیسے تسلیم کر سکتے ہیں۔
مہمان: قرآن کریم کی اس آیت کا ان دونوں احادیث کے ساتھ کوئی ٹکراؤ نہیں کہ ہم اس کو لے کر احادیث کو رد کر دیں۔تعارض ہو گا تو پھر اس کا حل بھی دیکھیں گے ۔( واللہ یعصمک من الناس) ( سورة المائدہ 67) یہ سورة المائدہ کی آیت ہےاور یہ سورت قرآن کریم کی نازل ہونے والی آخری سورت ہےاور اس سے پہلے یہ دونوں واقعات پیش آ چکے تھے۔چونکہ نبی ﷺکو زہر دینے کا واقع خیبر کے بعد کا ہے ۔خیبر کی فتح کے بعد بدلہ لینے کے لیے اس یہودی عورت نے نبی ﷺکو زہر دینا چاہا تھا ۔آپ ﷺکو حسد اور بغض کی وجہ سے شہید کرنے کا پروگرام بنایا تھا ۔سورة المائدہ حجتہ الوداع کے قریب نازل ہوئی ہے ۔لہذا تاریخی اعتبار سے بھی ان کا کوئی ٹکراؤ نہیں ہے ۔
اس آیت کےنزول سے پہلے نبی ﷺاپنے گھر کے سامنے پہرے دار کھڑا کرتے تھے اور باقاعدہ صحابہ کرام کی ڈیوٹیاں لگتی تھیں یہ بات صحیح احادیث سے ثابت ہے ۔اس آیت کے نزول کے بعد آپ ﷺنے پہرے دار ہٹا دیے تھےاور یہ آپ ﷺکی اللہ پر توکل کی انتہا تھی۔ جب اللہ تعالٰی نے ارشاد فرمایا کہ ” میں آپ کو ان لوگوں سے بچا لوں گا” تو آپ ﷺنے فرمایا کہ اب مجھے پہرے دار کی ضرورت نہیں ۔
دوسری بات کہ” واللہ یعصمک من الناس” میں کہیں بھی اس بات کا ذکر نہیں ہے کہ آپ ﷺپر جادو نہیں ہو سکتا یا آپ ﷺبیمار نہیں ہو سکتےیا آپ ﷺکو زہر نہیں دی جا سکتی یاپریشانی یا آزمائش نہیں آ سکتی ۔بلکہ آپ ﷺکے دانت مبارک شہید کیے گئے ۔اور آپ ﷺزخمی بھی ہوئے ۔
"آپ ﷺنے فرمایا کہ جتنا اللہ کی راہ میں مجھے ڈرایا گیا کسی اور کو نہیں ڈرایا گیا اور جتنی تکلیفیں دی گئی کسی اور کو نہیں د ی گئی۔ (سنن ترمذی 2472)
دوسری بات یہ کہ "واللہ یعصمک” کے اندر تمام مفسرین کا اتفاق ہے کہ یہاں مرادیہ ہے کہ اللہ آپ ﷺکو قتل ہونے سے بچا لے گا ۔یہاں نبوت اور رسالت کا کام مکمل ہو جائے گا ۔اس سے پہلے آپ ﷺکو کوئی بھی شہید نہیں کر سکتا ۔تمام مفسرین کا اس بات پر اتفاق ہے ۔تفسیر ہماری عقل کے مطابق نہیں ہو گی ۔ بلکہ جو علماء ،آئمہ، مفسرین اور سلف صالحین کے مطابق ہو گی۔
“اللہ تعالٰی کبھی ان کو ان کے کام میں کامیاب نہیں ہونے دے گا ۔” (صحیح مسلم 2190)
آپ ﷺسے پوچھا گیا کہ "کون سے لوگ ہیں کہ جن کو سب سے زیادہ آزمایا جاتا ہے تو آپ ﷺنے فرمایا کہ سب سے زیادہ انبیاء ہیں ۔اس کے بعد پختہ ایمان والا”(سنن الترمذی 2398)
خلاصہ کلام یہ ہے کہ آپ ﷺکو زہر دیا جانا اور آپ ﷺپر جادو کا ہونا یہ قرآن کی آیت” واللہ یعصمک من الناس " کے مخالف نہیں ہے۔وہاں مراد آپ ﷺکو قتل یا شہید ہونے کے بارے میں ہےکہ نبوت کے مکمل ہونے تک آپ ﷺکو شہید نہیں کیا جا سکتا ۔اصل مقصود یہ ہے اسکی ایک مثال یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ” قرآن کریم میں اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے کہ شہد میں شفا ہے لوگوں کے لیے”(سورة النحل 69)
لوگوں کے لیے شفا ہے تو کیا ہر بندہ جو بیمار ہوتا ہے اس کو شفا مل جاتی ہے کتنے لوگ ایسے ہیں جو شہد کھاتے ہیں مگر ان کو شفا نہیں ملتی۔علماء کہتے ہیں کہ” واللہ یعصمک من الناس " کا یہ مطلب بھی ہےکہ اللہ تعالٰی آپ ﷺکو بہت سے لوگوں سے محفوظ کر لے گا ۔اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ کچھ دوسرے آپ ﷺکو نقصان نہیں پہنچا سکتے ۔جادو کا ہونا زہر دینا یہ بھی آزمائش میں سے ہے۔
میزبان:منکرین حدیث یہ اعتراض کرتے ہیں کہ جادو کا ہونا اور زہر کھلایا جانا اس سے آپ ﷺکی نبوت متاثر ہوئی ہےتو کیا نبی ﷺکا جو مقام نبوت ہے اس کے اندر کوئی حرف آیا ہے ؟
مہمان:جادو کا ہونا بیماریوں میں سے ایک بیماری ہے جس پر جادو ہوتا ہے وہ عام بیمار آدمی کی طرح بیمار ہوتا ہے ۔ عقل کے لحاظ سے ایسے لوگ ٹھیک ہوتے ہیں۔عام معمولات زندگی ٹھیک کر رہے ہوتے ہیں۔ نبی ﷺکے بارے میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ یہ دنیاوی معمولات کے اندر تھا۔ ایک دوسری حدیث میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اللہ کے نبی ﷺکو اپنے اہلِ خانہ کے پاس یہ محسوس ہوتا کہ میں آیا ہوں ۔ مگر آپ ﷺآئے نہیں ہوتے تھے۔(صحیح البخاری 5763(
پہلی بات یہ کہ یہ محدود مدت کے لیے تھا یہ مدینہ کی بات ہے ہجرت کے بعد کے واقعات ہیں۔اس سے پہلے نبی ﷺپر جادو کا اثر نہیں تھا۔ دوسری بات یہ ہے کہ یہ دنیاوی معمولات کے اندر تھااور تمام علماء اور مفسرین کا اس پر اتفاق ہے۔ جیسا کہ ایک عالم کایہ بیان ہے کہ تمام امت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ انبیاء جو کہ تبلیغ کرتے ہیں وہ معصوم ہوتے ہیں اس وجہ سے ان کی اطاعت واجب ہے لہذا تبلیغ اور نبوت کے حوالے سے آپ ﷺمعصوم ہیں اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا یہ فرمانا کہ آپ ﷺکو لگتا تھا کہ آپ ﷺنے کام کیا ۔حالانکہ آپ ﷺنے وہ کام نہیں کیا ہوتا تھا تو یہ صرف دنیاوی معمولات کے اندر تھا۔ آپ ﷺنے کبھی ایسا نہیں کہا کہ جبرائیل علیہ السلام آئے میرے پاس حالانکہ وہ نہیں آئے ہوتے تھے اگر ایسا ہوتا تو آپ ﷺکے بہت سے فرامین کا آپس میں ٹکراؤ ہوتالیکن آپ ﷺکی ایسی کوئی حدیث نہیں کہ ایک جگہ آپ ﷺنے منع کیا ہو اور دوسری جگہ آپ ﷺنے وہ کام کیا ہو ۔جو شخص عقل سے متاثر ہو جاتا ہے وہ باتیں بھی بہکی بہکی کرتا ہے ۔نبی ﷺکا ایسا کوئی بھی واقع نہیں ملتاکہ جس میں کوئی ایسی بات ہوئی ہو۔آپ ﷺکی امانت و دیانت کی گواہی خود اللہ تعالٰی نے دی ہے ۔
الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ۚ فَمَنِ اضْطُرَّ فِي مَخْمَصَةٍ غَيْرَ مُتَجَانِفٍ لِإِثْمٍ ۙ فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ
"کہ آج تمہارے لیے تمہارا دین مکمل ہو گیا ہے ۔اور میں نے آپ ﷺپر نعمت کو پورا کر دیا ہے ۔اور تم راضی ہو جاؤ دین اسلام پر” (سورتہ المائدہ 3)
ایک لاکھ سے زائد لوگ حجتہ الوداع کے موقع پر موجود تھےآپ ﷺنے تین مرتبہ پوچھا کہ کیا میں نے پہنچا دیا ہے۔ ایک لاکھ سے زائد مجمعے نے گواہی دی تھی۔کہ آپ ﷺنے حق ادا کر دیااور پھر آپ ﷺنے اپنی شہادت کی انگلی کو آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے بلند کیا۔"اللھم فشہد” تین مرتبہ دہرایا اس کے علاوہ یہ کہ آپ ﷺکی سیرت ، معجزات ،سچائی،امانتداری یہ اس بات کی دلیل ہے۔لہذاکوئی دلیل نہیں ملتی کہ جس سے پتہ چلتا کہ آپ ﷺپر ہونے والے جادو کی وجہ سے آپ ﷺکی رسالت اور مقام نبوت متاثر ہوا ہو۔بلکہ اللہ تعالٰی نے ارشاد فرمایا کہ:
وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَىٰ
"آپ ﷺاپنی مرضی سے کچھ نہیں بولتے”(سورتہ النجم 3)
شریعت سازی کے اندر آپ ﷺاور تمام انبیاء محفوظ اور معصوم ہیں یہی ہمارا عقیدہ ہے ۔اگر نبی بہکی بہکی باتیں کریں تو پھر ان کی نبوت پر اعتبار نہیں ہو سکتا ۔ نبی ﷺکا جادو سے متاثر ہونا صرف چند جسمانی تکلیفیں تھیں۔ اس سے آپ ﷺکی عقل متاثر نہیں ہوئی تھی اور رہی ان حدیث کی بات تو یہ حدیثیں بھی جنہوں نے ذکر کی ہیں۔ وہ بھی باشعور اور عقل والے لوگ تھےاور آئمہ کرام کو بھی یہ معلوم تھاکہ جادو کی وجہ سے آپ ﷺکی عقل متاثر نہیں ہوئی تھی ۔اس کی عام مثال حضرت موسیٰ علیہ السلام کا واقع ہے ۔جب موسیٰ علیہ السلام کا جادو گروں کے ساتھ فرعون کے دربار میں مقابلہ ہوا تو یہ خیال تھا کہ وہ عام رسیاں تھیں مگر ان کی آنکھ پر جادو ہوا تھا تو وہ سانپ نظر آ رہے تھے ۔حقیقت میں ایسا نہیں تھااللہ تعالٰی نے حضرت موسٰی علیہ السلام سے فرمایا کہ ” اے موسیٰ علیہ السلام ڈرو نہیں” تو کیا اس سے یہ مراد ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی عقل کام کرنا چھوڑ گئی تھی ایسا نہیں ہو سکتا وہ ایک تخیل تھا۔
میزبان:سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ کہتے ہیں کہ جادو سے آپ ﷺکی نبوت اور رسالت بھی متاثر ہوئی ہو گی تو جب آپ ﷺنے شہد کو اپنے اوپر حرام کر لیا تھا ۔تو فوراً اللہ تعالٰی نے آپ ﷺکی رہنمائی کی تھی کہ آپ ﷺحلال چیز کو اپنے اوپر حرام نہ کریں۔
مہمان: بالکل ایسے ہی بات ہےنبی ﷺسے اگر انسان ہونے کے ناطے کوئی غلطی ہوئی بھی ہو تو آسمان سے اللہ تعالٰی وحی نازل فرماتے۔
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَكَ ۖ
“اے نبی ﷺآپ ﷺکیوں ایک چیز کو اپنے اوپر حرام کر رہے ہیں ۔حالانکہ اللہ نے اس کو آپ ﷺکے لیے حلال کر دیا ہے ۔”(سورتہ تحریم 1)
کوئی ایسی بات ہوتی تو فوراً قرآن کریم میں آ جاتی ۔اصل میں منکرین حدیث کا مقصود ہی یہی ہے کہ لوگوں کا اعتماد بخآری و مسلم سے ہٹا دیا جائے ۔ایک طرف ہے کہ"واللہ یعصمک من الناس " اور دوسری طرف زہر اثر کر رہا ہے ۔ ایک یہ ہے کہ نبی معصوم ہوتا ہے اور دوسری طرف یہ ہے کہ آپ ﷺکو محسوس ہوتا تھا کہ میں نے کام کر لیا ہے ۔حالانکہ آپ ﷺنے نہیں کیا ہوتا تھا-اس کا مطلب کہ نبوت و رسالت میں بھی ایسا ہوا ہو گا ۔اصل مقصد کہ قرآن وحدیث سے لوگوں کا اعتبار اٹھ جائے اور لوگ یہ کہیں کہ قرآن ہی کافی ہے حدیث نہیں تو اگر یہ قرآن کریم پر یقین رکھتے ہیں تو پھر اس آیت پر بھی یقین رکھیں کہ :
إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ)سورة الحجر9(
آپ ﷺکی حدیث وحی ہے-اللہ ہی اس کی حفاظت کرنے والا ہے۔